*شہباز شریف دور میں عجب کرپشن کی غضب کہانی*
نوآبادیاتی دور سے لیکر جدید نوآبادیاتی دور تک، بیوروکریسی نے ہمیشہ ہی مخصوص خفیہ کردار نبھایا ہے، اس کردار کے دائرے میں بیوروکریسی کی ضمیر فروشی، وطن دُشمنی، مفاد پرستی، چاپلوسی یعنی تملق، فراڈ، بدعنوانی سمیت آسائش پرستی شامل ہے۔ یہ بیوروکریٹس نوآبادیاتی دور میں انگریز حکمرانوں کے ساتھ مل کر اور جدید نوآبادیاتی دور میں پاکستان کے سیاستدانوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ساتھ مل کر لوٹ مار کرنے میں ملوث ہیں۔ شہباز شریف نے پنجاب میں دس سال تسلسل کے ساتھ حکومت کی ہے اور اس حکومت میں ووٹ کی کس طرح سے تذلیل کی گئی ہے اور کیسے بیوروکریسی کے ساتھ مل کر لوٹ مار کی گئی ہے، کیس اسٹڈی کے طور پر صرف پنجاب میں تشکیل دی جانے والی کمپنیوں میں تعینات ہونے والے بیوروکریٹس کا تذکرہ کر لیتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ کمپنیوں کے بیوروکریٹس کتنی کتنی تنخواہیں لے رہے ہیں، تفصیل جمع کرائیں۔ گزشتہ روز یہ تفصیل عدالت میں پیش کی گئی۔ اب ذرا شبہاز شریف کی کارستانیاں اور عجب کرپشن کی غضب کہانی ملاحظہ کیجئیے اور پھر خود سے سوال کریں کہ جو ٹیکس آپ دیتے ہیں اس پر سیاستدان اور بیوروکریٹس مل کر کیوں ڈاکہ مارتے ہیں۔ یہ جونیئر بیوروکریٹس پانچ پانچ سالوں سے عوامی ٹیکسوں کے پیسوں پر لوٹ مار کرتے رہے، لیکن شہباز شریف ایمانداری کا سرٹیفکیٹ اُٹھا کر عوامی جلسوں میں دکھاتے رہے اور دس سال تک یہ سرٹیفکیٹ اپنے گلے میں لٹکا کر پھرتے رہے۔ شہباز شریف کے لے پالک بیٹے جونیئربیوروکریٹ احد خان چیمہ سے شروع کرتے ہیں؛
*قائد اعظم تھرمل پاور کمپنی*
احد خان چیمہ؛ پی اے ایس، سکیل 19، تنخواہ 19 لاکھ 74 ہزار 152 روپے ماہانہ
خالد پرویز؛ پی ایم ایس، سکیل 17، تنخواہ 5 لاکھ 52 ہزار 422 روپے ماہانہ
*پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ: پنجاب ہیلتھ فیسلیٹیز مینجمنٹ کمپنٹی*
محمد علی عامر؛ پی ایم ایس سکیل 19، تنخواہ 6 لاکھ روپے ماہانہ
محمد ذوالقرنین؛ پی ایم ایس سکیل 18، تنخواہ 4 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ
ڈاکٹر ندیم سہیل؛ سکیل 20، تنخواہ 3 لاکھ روپے ماہانہ
*پاپولیشن ویلفیئر: پنجاب پاپولیشن انوویشن فنڈ کمپنی*
جواد احمد قریشی؛ سیکرٹیریٹ گروپ، سکیل 19، تنخواہ 7 لاکھ روپے ماہانہ
*پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ: پنجاب سکلز ڈویلپمنٹ فنڈ کمپنی*
علی سرفراز حسین؛ ڈی ایم جی، سکیل 19، تنخواہ 4 لاکھ 29 ہزار 250 روپے ماہانہ
*پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ: اربن سیکٹر پلاننگ اینڈ مینجمنٹ سروسز یونٹ کمپنی*
ایک ہی کمپنی میں 9 جونیئر بیوروکریٹس کی تقرریاں
ڈاکٹر ناصر جاوید؛ پی اے ایس، سکیل 20، تنخواہ 8 لاکھ 80 روپے (2012ء سے تقرری)
رفاقت علی بھنگو؛ آڈٹ آفیسر سکیل 18 تنخواہ 4 لاکھ 10 ہزار 2 روپے (2013ء سے تقرری)
عون عباس بخاری؛ پی ایم ایس، سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 80 ہزار روپے ماہانہ
عبد الرزاق؛ سکیل 17، تنخواہ 4 لاکھ 95 ہزار روپے ماہانہ
فیصل فرید؛ پی سی ایس، سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 76 ہزار 250 روپے
ڈاکٹر طاہر علی اکبر، سکیل 17، تنخواہ 5 لاکھ 20 ہزار 300 روپے
توصیف دلشاد کھٹانہ؛ سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 32 ہزار 750 روپے
محمد بابر چوہان؛ ایف بی آر، سکیلی 18، تنخواہ 3 لاکھ 85 ہزار روپے
سلیم احمد خان رانا؛ سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ روپے ماہانہ
*پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ: پنجاب سوشل پروٹیکشن اتھارٹی*
ڈاکٹر سہیل انور چوہدری؛ پی ایم ایس، سکیل 19، تنخواہ 6 لاکھ 43 ہزار 500 روپے ماہانہ
سید طاہر رانا ہمدانی؛ پی ایم ایس، سکیل 19، تنخواہ 3 لاکھ 95 ہزار روپے ماہانہ
وقاص عظیم؛ پی ایم ایس، سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 93 ہزارر 250 روپے ماہانہ
شاہدہ فرخ نوید، پی ایم ایس، سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 2 ہزار 500 روپے ماہانہ
نور الرحمان، تنخواہ 3 لاکھ 25 ہزار روپے ماہانہ
سہیل احمد ٹیپو، پی اے ایس، سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 35 ہزار روپے ماہانہ
مرزا نصیر عنائیت؛ پی ایم ایس، سکیل 19، تنخواہ 3 لاکھ 35 ہزار روپے ماہانہ
نوید اکبر؛ سکیل 19، تنخواہ 3 لاکھ 25 ہزار روپے ماہانہ
*ہائیر ایجوکیشن: لاہور نالج پارک کمپنی*
شاہد زمان محمود؛ سکیل 19، تنخواہ 8 لاکھ روپے ماہانہ
عبد الرزاق؛ پی ایم ایس، سکیل 17، تنخواہ 8 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ
*ہوم ڈیپارٹمنٹ: پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی*
ملک علی عامر؛ ایڈیشنل آئی جی، سکیل 21، تنخواہ 7 لاکھ 95 ہزار 160 روپے ماہانہ
اکبر ناصر خان؛ ایس ایس پی، سکیل 19، تنخواہ 7 لاکھ 43 ہزار 853 روپے ماہانہ
محمد کامران خان؛ ڈی آئی جی، سکیل 20، تنخواہ 4 لاکھ 96 ہزار روپے ماہانہ
نثار احمد چیمہ؛ سکیل 20، تنخواہ 4 لاکھ 91 ہزار 30 روپے ماہانہ
*پنجاب صاف پانی کمپنی*
کیپٹن ریٹائرڈ محمد عثمان،( سابق ڈی سی او لاہور) پی اے ایس، سکیل 20، تنخواہ 14 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ
فراست اقبال؛ پی اے ایس، سکیل 20، تنخواہ 5 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ
وسیم احمد چوہدری، پی اے ایس، سکیل 20، تنخواہ 10 لاکھ 39 ہزار 500 روپے ماہانہ
سیدہ شبنم نجف، پی ایم ایس، سکیل 17، تنخواہ 4 لاکھ 84 ہزار روپے ماہانہ
خالد مجید، پی ایم ایس، سکیل 17، تنخواہ 4 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ
نبیل جاوید؛ پی اے ایس، سکیل 20، تنخواہ 14 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ
شکیل احمد بھٹی؛ پی ایم ایس، سکیل 17، تنخواہ 3 لاکھ 89 ہزار روپے ماہانہ
*پنجاب انڈسٹریل اسٹیٹس ڈویلپمنٹ اینڈ مینجمنٹ کمپنی*
چوہدری جمیل احمد (پنجاب یونیورسٹی کا سابق چیف انجینئر)، تنخواہ 4 لاکھ 23 ہزار 333 روپے ماہانہ
ایاز علی خان؛ تنخواہ 3 لاکھ 79 ہزار روپے ماہانہ
*لائیوسٹاک: پنجاب ایگریکلچر اینڈ میٹ کمپنی*
محمد الیاس غوری؛ کامرس اینڈ ٹریڈ، سکیل 20، تنخواہ 5 لاکھ 78 ہزار 110 روپے ماہانہ
*انرجی: پنجاب تھرمل پاور کمپنی*
اسلم شاہد، پی ایم ایس، سکیل 17، تنخواہ 3 لاکھ 46 ہزار 620 روپے ماہانہ
*قائد اعظم سولر پاور کمپنی*
نجم احمد شاہ؛ پی اے ایس، سکیل 19، تنخواہ 9 لاکھ 20 ہزار روپے ماہانہ
ڈاکٹر رانا عبد الجبار خان؛ سکیل 19، تنخواہ 6 لاکھ 75 ہزار روپے ماہانہ
*لوکل گورنمنٹ: ڈبلیو ایم سی لاہور*
وسیم اجمل؛ سکیل 19، تنخواہ 6 لاکھ 250 روپے ماہانہ
نصرت طفیل گل؛ سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 65 ہزار روپے ماہانہ
خالد مجید؛ سکیل 17، تنخواہ 5 لاکھ 27 ہزار 50 روپے ماہانہ
*انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ اتھارٹی پنجاب*
مجاہد شیر دل؛ سکیل 19، تنخواہ 11 لاکھ روپے ماہانہ
فضہ احمد؛ سیل 18، تنخواہ 5 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ
عامر حسین غازی؛ سکیل 17، تنخواہ 5 لاکھ 40 ہزار روپے ماہانہ
شاہد لطیف، سکیل 17، تنخواہ 3 لاکھ 25 ہزار روپے ماہانہ
عمر فاروق؛ سکیل 17، تنخواہ 3 لاکھ 25 ہزارروپے ماہانہ
*پنجاب ریونیو اتھارٹی*
ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی؛ پی اے ایس، سکیل 21، تنخواہ 3 لاکھ 77 ہزار 720 روپے ماہانہ
جاوید احمد؛ آئی آر ایس، سکیل 20، تنخواہ 3 لاکھ 15 ہزار 884 روپے
*پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی*
ظفر اقبال؛ پی اے ایس، سکیل 19 تنخواہ 7 لاکھ روپے ماہانہ
عائشہ حمید؛ پی اے ایس، سکیل 19، تنخواہ 5 لاکھ روپے ماہانہ
بابر رحمان؛ پی ایم ایس، سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ
ذیشان جاوید، پی اے ایس، سکیل 18، تنخواہ 3 لاکھ 50 ہزار روپے ماہانہ
*پنجاب ہیلتھ انیشیٹو مینجمنٹ کمپنی*
ظہیر عباس ملک، پی اے ایس، سکیل 18، تنخواہ 7 لاکھ 58 ہزار 333 روپے ماہانہ
*پنجاب ایگریکلچر اینڈ میٹ کمپنی*
محمد الیاس غوری؛ سی ٹی ڈی، سکیل 20 ، تنخواہ 5 لاکھ 78 ہزار 110 روپے ماہانہ
*مطالبہ*: ان تمام بیوروکریٹس کی تصاویر میڈیا پر شائع کی جانی چاہیے، عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس لی جانی چاہیے، ان بیوروکریٹس کی پانچ پانچ سال تک کیلئے ترقیوں پر پابندی عائد کی جائے، سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی ساری جائیدادیں ضبط کر کے ان کے خلاف سپیشل کورٹ میں ٹرائل کیا جانا چاہیے کہ آخر قومی خزانے کی بے دردی سے لوٹ مار کرنے کے بعد بھی ان کے نفس کو کیوں چین نہیں آرہا؟
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔