سب سے پہلا قتل جنگ میں سچ کا ہوتا ہے، جامعہ نعیمیہ میں تو جنگ بھی نہیں تھی لیکن افسوس! پھر بھی وہاں سچ کا قتل ہوا اور شہبازشریف کو اس سب کچھ کی وضاحت کرنا پڑی جو انہوں نے کہا ہی نہیں تھا یا کم از کم جو ان کا مطلب نہیں تھا!
اس کالم نگار کی تحریریں گواہ ہیں کہ اسے شہباز شریف سے کوئی حسنِ ظن نہیں ہے۔ وہ پورے پنجاب کے حاکمِ اعلیٰ ہونے کے باوجود ذہنی طور پر لاہور سے باہر نہیںنکل سکتے اس حقیقت کو کون جھٹلا سکتا ہے کہ لاہور پنجاب کا دل ہے لیکن کیا کبھی کوئی جسم صرف دل ہی پر مشتمل ہوا؟ دل کا تو بھرم ہی اس وقت تک قائم ہے جب تک پورا جسم اور جسم کا ایک ایک حصہ اور ایک ایک رگ اور ایک ایک شریان اور ایک ایک مسام دل کا ساتھ دے رہا ہے! پنجاب کے ایک غریب دورافتادہ بستی کے رہنے والوں کی فریاد خادمِ اعلیٰ تک پہنچائی گئی تھی جو زمین پنجاب حکومت کے نام پر کرنے کے باوجود پانچ سالوں سے ڈسپنسری کا انتظار کر رہے ہیں اور اب تو ڈی سی او نے اس کیلئے وزیراعلیٰ سے دو ملین روپے مانگ بھی لئے ہیں۔
ہاں! اس کالم نگار کو خادمِ اعلیٰ سے کوئی حسنِ ظن نہیں ہے لیکن سچ سچ ہوتا ہے اور جب سچ قتل ہو رہا ہو تو نہ بولنا اپنے آپ پر ظلم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ شہبازشریف نے جامعہ نعیمیہ میں جو کچھ کہا اس پر واویلا مچانے کا کوئی جواز نہیں تھا! ایک مشہور صحافی نے وہاں تقریر کی اور اپنی گزشتہ تقریر کا حوالہ دیا جس میں اس نے پیش گوئی کی تھی کہ لاہور کو نشانہ بنایا جائے گا۔ شہبازشریف نے جو کچھ کہا وہ اسی سیاق و سباق میں تھا اور اگر شہبازشریف نے طالبان سے کہا بھی ہے کہ وہ پنجاب پر حملے نہ کریں تو اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ وہ پنجاب کے علاوہ ملک کے باقی حصوں پر حملے کرتے رہیں۔
لیکن معاملے کا ایک پہلو اور بھی ہے اور ستم ظریفی یہ ہے کہ اس پر توجہ ہی نہیں دی جا رہی! وہ پہلو یہ ہے کہ طالبان میں لاکھ برائیاں ہو سکتی ہیں لیکن وہ کبھی امریکہ کے ہاتھ میں نہیں کھیل سکتے۔ وہ کبھی امریکہ کے مہرے نہیں بن سکتے اور کبھی بلیک واٹر کے ایجنٹ نہیں بن سکتے۔ طالبان جھوٹ بھی نہیں بولتے اور وہ جو کام بھی کریں اس کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن پاکستان میں انکے کچھ نام نہاد خیر خواہ ایسے ہیں جو انہیں امریکیوں کے گماشتے قرار دیتے ہیں اور ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ دھماکے امریکہ کرا رہا ہے اور دھماکے کرانیوالے امریکیوں کے اور یہود وہنود کے ایجنٹ ہیں اسکی ایک مثال یہ ہے کہ ماضی قریب میں راولپنڈی کی پریڈ لین کی جامع مسجد پر حملہ ہوا اور عین جمعہ کی نماز کے وقت کئی نمازی شہید ہو گئے جن میں بچے اور لڑکے بھی شامل تھے۔ طالبان کے ترجمان جناب ولی الرحمن نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن اسکے باوجود ایک معروف مذہبی جماعت کے سابقہ رہنما نے پریڈ لین پر کئے گئے حملے کو امریکہ کے کھاتے میں ڈال دیا۔ تو کیا ولی الرحمن اور انکے ساتھی امریکہ کے فرنٹ مین ہیں؟ ظاہر ہے کہ ایسا نہیں ہو سکتا کچھ حضرات دور کی یہ کوڑی بھی لاتے ہیں کہ طالبان کے ترجمان سے جو بیان منسوب ہوتا ہے وہ دراصل ان کا نہیں ہوتا اوریہ بھی سازش کا حصہ ہے لیکن ایسے سادہ (یا پُرکار!) حضرات یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر کوئی بیان طالبان سے جھوٹا منسوب ہو جائے تو طالبان فوراً اس کی تردید کر سکتے ہیں!
اس پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے اب شہباز شریف کے جامعہ نعیمیہ والے بکھیڑے کی طرف واپس آئیے۔ شہبازشریف نے طالبان سے کہا کہ طالبان بھی امریکہ کی پالیسیوں کے مخالف ہیں اور پنجاب حکومت بھی مخالف ہے تو پھر وہ پنجاب پر حملے کیوں کر رہے ہیں۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ غور کیجئے اسکے ردِ عمل میں طالبان نے یہ نہیں کہا کہ پنجاب پر حملے کرنیوالے ہم نہیں ہیں۔ انہوں نے جواب میں مثبت رویہ اختیار کرتے ہوئے اپنی شرط پیش کی ہے۔ پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینلوں کی دی ہوئی خبروں کیمطابق مہمند ایجنسی کے لیڈر جناب عبدالولی نے وعدہ کیا کہ اگرپنجاب کی حکومت طالبان کیخلاف کوئی اقدام نہ کرے تو تحریک طالبان پاکستان بھی پنجاب پر حملہ نہیں کریگی۔ یہ عبدالولی وہی ہیں جنہیں تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کا نائب بھی سمجھا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہاجا سکتا ہے کہ شہبازشریف نے اپنے اس بیان کی مدد سے تحریک طالبان پاکستان سے حملوں کا اعتراف کروا لیا ہے اور اب اس بات میں کوئی شک یا شائبہ نہیں کہ لاہور پر حالیہ حملے طالبان نے کئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے جو پیشکش حکومت پنجاب کو کی ہے اس سے ان خوش گمانوں اوردن میں سپنے دیکھنے والوں کو ہوش میں آ جانا چاہیے جو کہتے ہیں کہ کوئی مسلمان عورتوں اور بچوں پر یا مسجدوں پر حملے نہیں کر سکتا۔
ظاہر ہے طالبان کا اپنا نکتہ نظر ہے وہ ان حملوں کی توجیہہ پیش کرتے ہیں انکا موقف یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت امریکہ کی ہم نوائی کر رہی ہے اس لئے حکومت کے اداروں اور امریکہ کی مدد کرنے والوں پر حملے کرنا جائز ہے۔ طالبان عورتوں اور بچوں کو بچانے کیلئے اپنی سی کوشش بھی کر دیکھتے ہیں۔ لاہور کے خودکش حملوں کے بعد طالبان نے لاہور کے عوام کیلئے تفصیلی ہدایات جاری کیں اور انہیں سمجھایا کہ وہ پولیس، فوج اور خفیہ اداروں سے دور رہیں اور غیر ملکی کمپنیوں سے سروکار نہ رکھیں۔ انہوں نے عوام کو تمام ایسی جگہوں پر جانے سے منع کیا جہاں امریکیوں کا آنا جانا ہے!رہا وہ واویلا جو شہبازشریف کے بیان پر میڈیا کے کچھ حصوں نے اور اہل سیاست نے مچایا تو شہبازشریف کو ظفر اقبال کا یہ شعر کام میں لانا چاہیے تھا؎
دیکھ ! رہ جائے نہ حسرت کوئی دل میں تیرے
شور کر اور بہت، خاک اڑا اور بہت
اگر صوبے کا حاکم یہ کہہ سکتا ہے کہ میرا صوبہ ترقی کرے اور میرا صوبہ تجارت کرے تو وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے صوبے پر حملہ نہ کیا جائے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ پر صوبائی تعصب کا الزام عائد کرنیوالے یہ بھول جاتے ہیں کہ جس پنجاب کے اپنے گاؤں کو ڈسپنسری قائم کرنے کیلئے دو ملین روپے نہیں رہے اسی پنجاب کے وزیراعلیٰ نے آخر سوات اور بلوچستان پر لاکھوں روپے خرچ کئے ہیں اور صوبہ سرحد کے لاکھوں افراد پنجاب میں مزدوری سے لیکر بڑے کاروبار تک سب کچھ کر رہے ہیں‘ اس لئے کہ پنجاب پاکستان کا حصہ ہے۔ پنجاب تمام پاکستانیوں کا ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ پنجاب پر حملے نہ کئے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملک کے کسی حصے پر حملے نہ کئے جائیں
!
کسی بھی مسئلے کو مختلف ٹکڑوں میں نہیں بانٹا جا سکتا۔ طالبان کے نکتہ نظر پر بھی غور کرنا ہو گا۔ امریکہ افغانستان کو غصب کئے بیٹھاہے لاکھوں مسلمان مارے جا رہے ہیں۔ ڈرون حملوں میں بھی بچے اور عورتیں اسی طرح شہید ہوتی ہیں جس طرح لاہور اور راولپنڈی میں ہوتی ہیں۔ امریکہ اور اس کے حواریوں سے طالبان کو بھی نفرت ہے اور پاکستان کے عوام کو بھی نفرت ہے طالبان اور پاکستان کے عوام کو مشترکہ دشمن کا سامنا ہے لیکن افسوس! وہ دشمن کو نقصان پہنچانے کے بجائے ایک دوسرے کے درپے ہیں اور یہ ایسی ڈور ہے جس کا سرا نہیں مل رہا ۔ مجید امجد نے قسمتوں کے ایسے ہی پھیر کے بارے میں کہا تھا…؎
جو تم ہو برقِ نشمین تو میں نشمینِ برق
الجھ گئے ہیں ہمارے نصیب! کیا کہنا
http://columns.izharulhaq.net/2010_03_01_archive.html
“