دہلی کا 1857 کا محاصرہ برٹش راج کے لئے ہندوستان میں آخری سٹینڈ تھا۔ اگر اس میں ہندوستانی انقلابی کامیاب ہو جاتے تو ہندوستان برٹش کے ہاتھ سے نکل جاتا۔ کالونیل دور کا سب سے بڑا انعام ان کے پاس نہ رہتا۔ یہ دو طاقتوں کے درمیان ہونے والی موت تک لڑائی تھی، جس میں کوئی بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا۔ اس میں دونوں اطراف نے بے پناہ جانی نقصان اٹھایا۔ دونوں طرف لڑنے والے اپنی ذہنی اور جسمانی ہمت کی آخری حدوں پر تھے۔ برطانوی کئی بار بہت کمزور پوزیشن میں رہے تھے۔ لیکن جنگ کے نشیب و فراز سے گزرتے ہوئے 14 ستمبر 1857 کو چار ماہ کے محاصرے کے بعد برٹش فوج نے دہلی پر حملہ کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برطانویوں نے 1757 میں پلاسی کی جنگ جیتی اور 1893 میں ہنزہ اور نگر کو پروٹیکٹریٹ بنایا۔ ان 136 برسوں میں 1857 ان کے لئے بڑا چیلنج تھا۔ برٹش نے ہندوستان میں جو فتوحات کیں، اس میں سب سے مشکل تختِ لاہور کو الٹانے میں ہوئی اور سکھاشاہی کو الٹانا صرف اس لئے ممکن ہوا کہ پنجاب کے طاقتور حکمران رنجیت سنگھ کے بعد ان کے جانشین کمزور تھے۔ برٹش کی خوش قسمتی رہی تھی کہ 1857 سے صرف چند سال قبل ہی وہ پنجاب فتح کر چکے تھے اور اس میں ایک اہم کردار گلاب سنگھ نے ادا کیا تھا۔ گلاب سنگھ کو انگریزوں نے موجودہ افغانستان کے جلال آباد والا حصہ دینے کی پیش کش کی تھی۔ لیکن جموں سے تعلق رکھنے والے گلاب سنگھ نے جموں اور کشمیر کو خریدنے کو ترجیح دی تھی اور اس کی قیمت اس خزانے سے ادا کی تھی جو رنجیت سنگھ کے خاندان سے حاصل کر کے گاڑیاں بھر کر جموں لے جایا گیا تھا۔
لاہور دربار کی شکست اور جموں کشمیر میں دوست حکمران کے ہونے نے 1857 میں برٹش فتح میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ جب ہندوستان میں فوجیوں نے بغاوت کی تو برٹش اکیلے رہ گئے تھے۔ اور اس وقت میں انہیں سپورٹ ہندوستان کے مغربی علاقے سے ملی تھی۔ پنجابی سکھ اور مسلمان، پٹھان اور کشمیری اور ایک بلوچ رجمنٹ کی آنے والی کمک اس جنگ کا ٹرننگ پوائنٹ تھے۔ جس فوج نے آخر میں دہلی پر کامیابی سے دھاوا بولا تھا، وہ انہی پر مشتمل تھی۔ 1857 میں ہندوستان پر اپنی بقا کی سب سے اہم جنگ لڑنے والی برٹش فوج میں برٹش اس کا بیس فیصد تھے۔
دہلی شہر تاراج کر دیا گیا۔ اس کو لوٹ لیا گیا۔ قتلِ عام ہوا۔ کوچہ چیلاں، جو دہلی کے دانشوروں اور فنکاروں کا محلہ تھا۔ صرف اسی میں کئے گئے قتلِ عام میں 1400 لوگوں کو مار دیا گیا۔ ایڈورڈ وبارٹ جو اس وقت انیس سالہ برٹش آفیسر تھے لکھتے ہیں، “ہمیں آرڈر تھے کہ کسی ذی روح کو زندہ نہ چھوڑا جائے۔ یہ قتل تھا۔ میں نے زندگی میں بڑا خون اور ہولناک مناظر دیکھے ہیں لیکن جو کل دیکھا، میری خواہش ہے کہ ایسا پھر کبھی دیکھنے کو نہ ملے۔ عورتوں کو ہم چھوڑ دیتے تھے۔ لیکن جب ان کے سامنے ان کے شوہروں اور بیٹوں کو ذبح کیا جا رہا ہوتا تھا تو ان کی چیخیں سننا تکلیف دہ تھا۔ میں رحمدل نہیں لیکن جب آپ کے سامنے ایک ادھیڑ عمر شخص لایا جاتا ہے اور وہ گر کر زندگی کی بھیک مانگ رہا ہوتا ہے تو اس پر گولی چلا دینا بڑا مشکل کام ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو قتل کئے جانے سے رہ گئے، وہ بھاگ کر دیہاتوں کی طرف چلے گئے۔ دہلی کھنڈر رہ گیا۔ مغل شاہی خاندان نے ہتھیار ڈال دئے۔ بہادر شاہ ظفر کے سولہ بیٹوں میں سے زیادہ تر پکڑے گئے۔ مقدمات چلائے گئے اور پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ تین بیٹوں کو بے دردی سے مارا گیا جب وہ ہتھیار ڈال چکے تھے اور قیدی بنا کر لایا جا رہا تھا۔ شہر پہنچ کر سب کے سامنے انہیں کپڑے اتارنے کا حکم دیا گیا۔ اور پھر ایک ایک کر کے تینوں کے سینے میں دو دو گولیاں اتار دی گئیں۔ یہ کرنے والے کیپٹن ولیم ہوڈسن نے اگلے دن خط میں لکھا، “میں ظالم انسان نہیں۔ لیکن میں تسلیم کرتا ہوں کہ مجھے ان کمینوں کو دوسرے جہان پہنچا کر مزا آیا تھا”۔
بہادر شاہ ظفر کو نمائش کے لئے رکھا گیا جیسے “پنجرے میں جانور” (یہ ایک برٹش افسر کے الفاظ ہیں)۔ ٹائمز کے صحافی ولیم رسل کو بتایا گیا تھا کہ “یہ قیدی مغربی کالونیل دور ختم کرنے کا سب سے خطرناک ماسٹرمائینڈ تھا”۔ رسل لکھتے ہیں کہ “کیا یہ شخص واقعی ایک عظیم سلطنت کی بحالی کا منصوبہ ساز تھا؟ کیا دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی انقلابی فورس انہوں نے بنائی تھی؟ ان کے ہونٹوں سے ایک لفظ بھی نہیں نکل رہا تھا۔ آنکھیں زمین پر گڑی تھیں اور حرکت نہ تھی۔ جیسے کچھ معلوم نہ ہو کہ ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔ بوڑھی اور تھکی ہوئی آنکھیں۔ کچھ لوگوں نے انہیں جلی ہوئی لکڑی سے دیوار پر شعر لکھتے دیکھا تھا”۔
اس سے اگلے مہینے عدالت لگائی گئی اور ظفر پر مقدمہ چلایا گیا۔ انہی کے پرانے محل کے کھنڈر پر انہیں جلاوطنی کی سزا سنا دی گئی۔ موت کی اس لئے نہیں کہ گرفتاری کے وقت جان بخشی کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ان پر ایک الزام یہ لگایا گیا تھا کہ وہ فارس اور ترکی کے بادشاہوں کے ساتھ ملکر عظیم سازش میں مصروف تھے اور یہ انقلاب اس سازش کا پہلا باب تھا۔ اس کا مقصد برطانوی ملکہ کو ہٹا کر دنیا بھر میں مسلم راج قائم کرنا تھا۔ اس الزام کے ثابت ہو جانے کے بعد صبح کے چار بجے انہیں بیل گاڑی میں بٹھا کر دہلی سے بے دخل کر دیا گیا۔
ظفر کے جانے کے بعد ہندوستان سے بادشاہت اور دربار کا خاتمہ ہو گیا۔ ساتھ ہی ان روایات اور آداب کا بھی جو اس دربار سے خاص تھے۔ غالب کے الفاظ میں، “یہ سب بس اس وقت تک تھا جب تک شاہ کی حکومت تھی۔" جب 87 سال کے عمر میں 1862 کو بہادر شاہ ظفر کا انتقال ہوا تو دہلی بہت بدل چکا تھا۔ لال قلعہ کا بڑا حصہ گرایا جا چکا تھا۔ دہلی کا بہت سا حصہ مسمار کیا جا چکا تھا۔ یہاں بسنے والے شاعر اور صوفی، خطاط اور درباری، ملا اور بنیے، تاجر اور شہزادے، سکالر اور ساہوکار لٹکائے جا چکے تھے یا کالا پانی کی ناقابلِ رہائش قید میں بھیجے جا چکے تھے۔ جو بچے، وہ بدترین غربت کی زندگی گزار رہے تھے۔ غالب چند بچ جانے والوں میں سے تھے۔ شاہی خاندان کے جو مرد مارے جانے سے بچ گئے تھے، ان کا بعد میں پانچ روپے ماہانہ وظیفہ مقرر ہوا تھا۔ خواتین کے ساتھ زیادہ برا ہوا تھا۔ غالب کے مطابق،
“دہلی اب ایک صحرا ہے۔ نہ قلعہ، نہ شہر، نہ بازار، نہ نہر۔ دہلی کو چار چیزیں زندہ رکھتی تھیں۔ لال قلعہ، جامعہ مسجد پر ہجوم، جمنا کے پل پر سیر اور سالانہ پھولوں کا میلہ۔ کچھ بھی نیہں بچا تو دہلی نے کیسے بچنا تھا۔ ہاں، ہندوستان میں کبھی اس نام کا شہر ہوا کرتا تھا”۔
مورخ جیمز فرگوسن لکھتے ہیں کہ جو دہلی میں ہوا، وہ تباہی تھی۔ اس کے علاوہ ایسا صرف پیکنگ میں ہوا۔ اس کی کوئی وجہ نہ تھی، کوئی جواز نہ تھا۔ ایک وقت میں قسطنطنیہ اور کینٹن کے درمیان اس کے پائے کا کوئی شہر نہ تھا۔ حمام اور باغ، ہزار ستونوں کے ہال اور شاندار مقبرے، صوفی خانقاہیں اور مساجد۔
دہلی شہروں کا شہر تھا۔
نوٹ: ساتھ لگی تصویر دلی شہر کی جو 1850 میں منصور خان نے لاہور گیٹ سے بنائی۔ تصویروں کا یہ پینوراما سر تھامس میٹکاف نے بنوایا تھا۔ دس سال بعد اس والے حصے سے کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا۔