یہ میرا شہر منکیرہ ہے، تونسہ اور دیپالپور والوں کی طرح تحصیل منکیرہ والوں کا بھی یہی دعویٰ ہے کہ ہماری تحصیل رقبہ کے اعتبار سے پنجاب کی سب سے بڑی تحصیل ہے. یہ وہ واحد شہر ہے جہاں کا سوہان حلوہ مشہور نہیں ہے ورنہ تو جس شہر سے بھی گزرو اور پوچھو کہ میاں یہاں کی کیا بلا مشہور ہے تو اگلے جھٹ جواب دیتے ہیں "یہاں کا سوہن حلوہ بڑا مشہور ہے جی"…
ایک دور تھا جب منکیرہ کا خربوزہ پورے ملک میں مشہور ہوا کرتا تھا، یہ وہ دور تھا جب ہم خربوزہ چھری سے کاٹنے کی بجائے منجھی کے پاوے پر رکھ کر اوپر سے مُک مار کر توڑتے تھے، اور پھر یوں ہوا کہ ہائی برڈ کلچر نے ہمارے خربوزے کی منجھی ہی ٹھوک دی.
خربوزوں کے علاوہ یہاں کا قدیمی قَلعہ بھی بہت مشہور ہے، البتہ اب قبضہ مافیا اور اوقاف والوں کی مہربانی سے اس "اجڑے ہوئے نگر سے نہ منوں کے حساب سے کلچر نکلتا ہے اور نہ ہی عبرت کی ایک چھٹانک برآمد ہو پاتی ہے".
یہ قَلعہ پہلے پہل 540 قبل مسیح میں مِل قوم کے راجہ مِل کھیڑہ نے دس ایکڑ رقبے پر تعمیر کرایا (لفظ مل کھیڑہ پھر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے منکیرہ بن گیا) بعد ازاں 1234ء میں ریاست منکیرہ کے آخری فرمانروا نواب سر بلند خان سدوزئی نے 50 ایکڑ رقبہ پر 12 سال کے عرصہ میں یہ قَلعہ تعمیر کروایا، اور تعمیر مکمل ہوتے ہی نواب صاحب راہی ملک عدم ہو گئے.
ریاست منکیرہ ہمیشہ سے ہی بیرونی حکمرانوں کے زیر عتاب رہی "جبکہ آج کل اندرونی حکمرانوں کے زیر عتاب ہے" 712ء میں محمد بن قاسم نے بھی یہاں ریٹ ماری تھی. یہاں سبکتگین بھی آیا منکیرہ کا ٹھنڈا پانی پیا اور پھر یہیں سے ملتان پر قبضے کا پلان بنایا، اور سنتے ہیں کہ سکندر اعظم نے بھی یہاں انت مچائی تھی. یہاں مغل بھی آئے سکھ بھی اور ہندو بھی لیکن کوئی بھی یہاں مستقل نہ ٹِک پایا اور جاتے ہوئے بس یہی کہہ گیا "منکیرہ نہ تیرا نہ میرا"… اس قَلعہ میں اورنگ زیب عالمگیر عرف ٹوپیوں والی سرکار کے چھوٹے بھائی شہزادہ شجاع(بابانورقلندر) کا مزار بھی موجود ہے جسے بڑے بھائی نے آنکھوں میں سلائیاں پھروا کر مروا دیا تھا.
ہمارا بچپن اسی قَلعہ کی دیواروں میں چھپن چھپائی اور چور پولیس کھیلتے ہوئے گزرا ہے، ہمارا سکول اس قَلعہ کے اندر واقع تھا یوں جس دن ہمیں استادوں سے مار پڑنے کا خدشہ لاحق ہوتا تو ہم سکول سے نَس کر اسامہ بن لادن کی طرح تورا بورا کی پہاڑیوں جیسے اس قَلعہ میں روپوش ہو جاتے تھے.
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ اس قَلعہ کے در و دیوار میں سونے کے خزائن دبّے ہوئے ہیں جو سِن سنتالیس کے فسادات میں ہندو بیچارے یہاں چھپا کر ملک بدر ہو گئے تھے.
ہم نے بارہا یہاں سے خزانہ تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن جب بھی کسی غار میں ہاتھ ڈالا آگے سے یا تو شوکتا پھنکارتا سانپ نکل آتا تھا یا پھر ہمارا ہاتھ ڈیمبوؤں کے کسی بدنام چھتے سے جا ٹکراتا اور پھر ہم سُوجا ہوا بوتھا لے کر گھر تشریف لے آتے.
اس قَلعہ میں کئی ایک پانی کے کنوئیں بھی موجود تھے لیکن جب سرکار نے دیکھا کہ ان کنوؤں سے ناکام عاشقوں نے خودکشی کر کے استفادہ حاصل کرنا شروع کر دیا ہے تو یہ کنوئیں مٹی سے بھر دیے گئے. اب مجھ جیسے رِندوں کو خودکشی کے دیگر زرائع بروکار لانے پڑتے ہیں….!
منکیرہ پر اور بھی بہت کچھ ہے لکھنے کو… وقتاً فوقتاً لکھتا رہوں گا.
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“