انسان بھی دلچسپ جانور ہے دینے پہ آئے تو غنیم کو ائیر پورٹ، ملیں فیکٹریاں روڈ بندرگاہ بلکہ اپنا سب کچھ حوالے کر دیتا ہے اور اڑ جائے تو سببِ حیات پانی کو ویرانوں سے بھی گزرے کا رستہ نہیں دیتا۔
فاضل پور کو بچایا جا سکتا تھا بلکہ بہت کچھ کیا جا سکتا تھا بہت سوں کو بچایا جا سکتا تھا …
لیکن جب بچانے والے کا اپنا کوئی نقصان نہیں ہو رہا تو کیوں بچائے…۔۔
طاقتور اس وقت خنام کرتا ہے جب مزاحمت سامنے نہیں آتی۔
جہاں تعلیمی ادارے سوال اٹھانے کا نصاب جلا دیں،
جہاں صرف لکھا ہوا یاد رکھنا ذہانت کا معیار ٹھہرے وہیں سوال کیسے اٹھے جب سوال نہ اٹھے تو پھر گھر کیسے نہ ڈوبے۔
دوسرا پلیٹ فارم جہاں مزاحمت کا سامان تیار کیا جاتا ہے اسے سیاسی جماعت کہتے ہیں
جسے اب گالی کا جوہڑ بنا دیا گیا ہے ۔
مزودر کسان تنظیمیں انکار سکھاتی ہیں…
جب ڈبونے والے کا اپنا کوئی نقصان نہیں ہو رہا
جب سامنے کوئی مزاحمت نہیں تو پھر حاکم کو آہیں فریادیں لنگر خیراتیں تسکین پہنچاتی ہیں۔
شہر ایم پی اے ڈبوتا ہے نہ سردار وڈیرہ اس کا ذمہ دار ہوتا ہے ہماری کمزوری، ہماری غلامی اور خود کو کچھ نہ سمجھنے والی سوچ ہمارے شہروں ہمارے گھروں کو ڈبوتی ہے
ہمارے دیش کے بہت بڑے دماغ مشتاق گاڈی نے انتہائی مختصر لکھ کر پوری بات کہہ دی ہے کہ کروڑوں سالوں سے پانی کے فطری بہاؤ کے سامنے بند باندھ کر روک دیں گے تو پہاڑوں کو چیر کر رکھ دینے کی صلاحیت والا پانی منشاؤں اور شریفوں اور کمینوں کے سیمنٹوں اور سریوں سے رکے گا کیا؟
اب ڈیرہ غازی خان اور خاص طور پر راجن پور کے علاقوں کی طرف آتے ہیں اور پہاڑی پانی کی رکاوٹوں کا جائزہ لیتے ہیں
پہلی رکاوٹ
بلوچوں کی دھرتی کو آباد کرنے کی بجائے برباد کرنے والی سینکڑوں کلومیٹر کی کھچی کینال، کوہ سلیمان کے سامنے بنا دی گئی۔
دوسری رکاوٹ
داجل کینال
تیسری رکاوٹ
ریلوے لائن۔
چوتھی رکاوٹ
انڈس ہائے وے
چھوٹی بڑی درجنوں نہریں اس کے علاوہ ہیں…
کوہ سلیمان کے دروں سے آنے والا پانی مغرب سے مشرق کی طرف بہتا ہے جبکہ سبھی رکاوٹیں نہریں/سڑکیں شمالاً جنوباً ہیں…
ستر کے اوائل میں ڈیرہ غازی خان سے سندھ کی طرف بنائی جانے ریلوے لائن سیلابی پانی کو سامنے رکھ کر بنائی گئی تھی اس لئے اس میں پانی کے گزرنے کے لئے پلیں موجود ہیں…۔ مزکورہ بالا اور کسی بھی نہر یا سڑک میں دو چار ہزار کیوسک پانی گزرنے لئے چند سائفن رکھے گئے ہیں جو کہ لاکھوں کیوسک سیلابی ریلے کے سامنے بے بس ہیں۔
سرکاری نصاب کے حافظوں اور حرص کے مارے دماغوں نے مغرب کی طرف سے آنے والے تیز ترین پانی کو فاضل پور سے دو کلومیٹر پہلے روک کر اور پچاس کلومیٹر جنوب کی طرف لے کر پھر دریا میں گرانے کا انجام ہر سال دیکھ رہے ہیں اور نوحے پڑھ رہے ہیں
اب آتے فاضل پور کی طرف
2010 کے سیلاب میں ریلوے ٹریک جہاں سے ٹوٹا تھا اس دفعہ بھی وہیں سے پانی نے رستہ بنایا ہے اسے مضبوط کر دیا جاتا
پھر قطب نہر کا مغربی کنارہ سنبھالا جاتا اور پانچ کلومیٹر جنوب میں پتی جمعہ ارائیں کے سائفن کے شمال میں نہر کو کٹ لگا کر پانی اپنی پرانی گزر گاہ سے گزار کر پارکو کے جنوبی طرف مین انڈس روڈ کو کاٹا جاتا پھر قادرہ کینال کو کٹ کر کے دریا کی جانے دیا جاتا…… لیکن…۔
جس طرح ایک دل جلا ملازم کہنے لگا یار ساری زندگی عزت بچاتے بچاتے بے عزت ہوتے رہے ہیں اسی طرح ہمارے اہلکاروں نے شہروں، بستیوں کو بچاتے بچاتے ڈبویا ہے…۔
بھائی پانی کو رستہ دینا ہوتا ہے روکنا نہیں…۔
جو بھی بڑی بستی جو بڑا گاؤں یا شہر ڈوبا ہے اسے بچانے کے چکر میں سیلاب کو روکا گیا اور پھر پانی نے کہا ابے دو ٹکے کے منشی تُو جب معمولی جانور کا رستہ روکتا ہے تو وہ بڑھ کر تیرا منہ نوچ لیتا ہے۔ میں تو پہاڑوں کو چیر کے رکھ دیتا ہوں تُو میرے ہزاروں سال سے بنے رستے کے آگے آتا ہے میں تو تیرے سارے نگر غرقاب کرنے کی طاقت رکھتا ہوں۔
اب سیلاب کی بائی پراڈکٹ پر نظر ڈالتے ہیں
سیلاب کے بعد این جی اوز کا دھندہ چمکے گا
بیماریوں کا سیلاب تو ابھی سے آنا شروع ہو گیا ہے۔
نشیبی علاقوں میں پانی رک جائے گا اور نشیب میں کمزور ہی بستے ہیں۔
کسی در کسی دیوار میں کچھ دن تحفظ دینے کی سکت باقی ہے، کھڑے پانی کی وجہ وہ بھی جواب دے جائے گی۔
جنہیں ہم بعد میں دہشت گرد پکارنے لگتے ہیں ان کی چاندی سونے میں بدلنے کے ایام ہیں۔
سیلاب کے ماروں کا گر کچھ بچ گیا ہے اسے اب ڈکیٹیاں چوریاں کر کے چھینا جا رہا ہے… ارے او واعظ تُو ہمیں نارِ جہنم سے ڈراتا ہے ہمارے لئے تو پانی آگ بن چکا ہے۔
گرتے گھروں ڈوبتے مکانوں کی تعمیر کے لئے اور عمارتی سامان کی فروخت لوہا، گاڈر، رنگ، روغن کے بازار لگیں گے۔
سیمنٹ گارڈر سریا فیکٹریاں، امریکہ اسلحہ فیکٹریوں کی طرح دن رات چلیں گی اور جنگ میں مرنے والوں کی طرح سیلاب میں ڈوبنے والوں میں کوئی بھی کسی سمینٹ فیکٹری کسی اتفاق فاؤنڈری کا مالک نہیں ہوتا …
دیکھا! سیلاب کتنا نفع بخش کاروبار ہے۔
دُہائی ہے بلدیاتی ممبر سے لیکر صوبائی اور قومی اسمبلی کے ممبران کے خلاف… بھائی ان کی تو عید ہو گئی ہے اب ایک تھیلہ راشن اور ایک خیمے پر ہم ان کے ممنون ہوں گے…
بحرانوں سے بغاوتیں پھوٹنے کے دن ہوا ہوئے کیا؟
سیدھی سی بات ہے یارو ریاست بحرانوں سے مقابلے کا نام ہے اور جو ریاست طوفان اور بحران کا مقابلہ نہیں کر سکتی اسے وقت کا تحصیلدار نئے بندوبست میں کہیں دور پھینک دیتا ہے۔
ہم خیرات دے کر کیوں خوش ہوتے ہیں۔ ہم پھیلے ہاتھوں میں ایک وقت کا کھانا رکھ کر کیوں مسرور ہو جاتے ہیں
خیرات کی نوبت نہ آئے ہاتھ پھیلانے کا لمحہ نہ آئے اس کے لئے چونکہ بغاوت کرنی پڑتی ہے شیر کے منہ میں ہاتھ ڈالنا پڑتا ہے وہ تو پھر سر پھروں کا کام ہے۔
ہم ایدھی صاحب کو رول ماڈل بناتے ہیں کہ لاوارثوں کو پالتا تھا بے سہاروں کو گھر لے آتا تھا…۔۔ ارے بھائی جب ریاست ناکام ہوتی ہے تب این جی اوز ابھرتی ہیں تب ایدھی پیدا ہوتے ہیں عوام ریاست کو ٹیکس اسی بات کا دیتی ہے کہ کسی کو گرنے نہ دے کسی کو بھوک سے مرنے نہ دے لیکن…۔ آج کی ریاستیں تو سرمایہ داروں کی فیکٹریاں ہیں اور عوام اس کے مزدور…۔۔
ورنہ سیلاب ہوں یا زلزلے انہی سے لڑنے انہی سے بچنے کی ساری صلاحیتوں سے مالا مال ہے آج کا انسان
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...