سہ ماہی
عالمی اردو فکشن فورم
عالمی علامتی افسانہ نشست
افسانہ نمبر : 14
تحریر : امین صدرالدین بھایانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اٹلانٹاامریکا
۔۔۔۔۔شہر کی روشنیاں۔۔۔۔۔
اچانک ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی۔
کمرے میں ملگجی سا اندھیرا پھیلا ہوا تھا۔ شاید وہ کوئی سایہ تھا جو مجھ پر جُھکا ہوا تھا۔ شدید نیند سے بھاری پلکوں کو بمشکل اُٹھا کر میں نے غور سے اُس سائے کو دیکھا۔
’’ارے یہ تو امی ہیں …… ؟‘‘۔
نیند کے خمار میں ڈوبے ہونے کے باوجود میں حیران سا تھا۔ ’’رات کے اِس پہر امی میرے سرہانے کھڑی کیا کررہی ہیں؟‘‘۔
میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی امی بول پڑیں۔’’اٹھو کامران……، کب تک سوتے رہو گے؟۔ روز تو تم خود ہی صبح سویرے اُٹھ کھڑے ہوتے ہو اور ناشتہ بننے سے پہلے ہی دفتر کے لیے تیار ہو کر باورچی خانے میں ناشتہ ناشتہ کی رٹ لگائے میرے سر پر سوار ہوجاتے ہو۔ آج یہ تمھیں کیا ہوا؟، پڑے غفلت کی نیند سو رہے ہو‘‘۔
’’صبح ہو گئی……؟‘‘ بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ میں نے اِدھر اُدھر دیکھا مگر مجھے کمرے میں اندھیرے اور امی کے سیاہ ہیولے کے کچھ اور نظر نہ آیا۔ ’’ہاں بیٹا صبح تو کب کی ہو چکی۔ مگر سورج ابھی نہیں نکلا نا……، بس اِسی لیے اندھیرا ہے‘‘۔
’’سورج نہیں نکلا……! کیا کہہ رہی ہیں امی؟‘‘۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ بتی جلا دیں۔دیکھیں تو سہی کس قدر اندھیرا ہو رہا ہے‘‘۔
’’نہیں خبردار…… ! بتی نہ جلانا……!‘‘۔
’’مگر کیوں……؟‘‘۔
’’رات کو شیخ صاحب سارے محلے کے ہر گھر جا کر تاکید کر گئے تھے کہ چاہے کتنا ہی اندھیرا کیوں نہ ہو، بتی بالکل نہیں جلانی‘‘۔
’’کون شیخ صاحب……؟۔ امی آپ یہ کیا باتیں کررہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ صبح ہونے میں ابھی بہت دیر ہے۔ سونے دیں، بہت نیند آرہی ہے۔ مجھے صبح سویرے دفتر بھی جانا ہے‘‘۔ اتنا کہہ کر میں نے چادر چہرے پر لے کر آنکھیں بند کرلیں۔
’’میرے خدایا……! آج اِس لڑکے کو ہوا کیا ہے؟‘‘۔ امی نے چادر کو زور سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔ ’’کامران…… !، فوراً اُٹھ کھڑے ہو۔ اگر جو شیخ صاحب کا کارواں نکل گیا تو پھر تم دفتر نہ جا سکو گے‘‘۔
’’شیخ صاحب کا کارواں؟……!!!‘‘۔ امی کی بات سُن کر تو جیسے میری نیند ہرن ہوگئی۔ میں پلنگ سے اُٹھ بیٹھا۔’’امی کیسی باتیں کررہی ہیں۔ میں روز دفتر بس میں جاتا ہوں۔ کسی شیخ صاحب کے کارواں سے نہیں‘‘۔
’’ہاں ہاں……! مجھے معلوم ہے۔ مگر آج سے سارے محلے والے شیخ صاحب کے کارواں میں اپنے اپنے کاموں کو جائیں گے۔ رات شیخ صاحب بتا کر تو گئے تھے‘‘۔
’’یہ بار بار آپ کس شیخ صاحب کا ذکر کررہی ہیں؟ اور خدارا کمرے کی بتی تو جلادیں۔ دیکھیں کتنا اندھیرا ہو رہا ہے ۔ میں آپ کا چہرہ تک نہیں دیکھ پا رہا‘‘۔
’’بتایا تو ہے کہ شیخ صاحب سختی سے منع کرگئے ہیں‘‘۔
’’پھر وہی شیخ صاحب……؟‘‘ مگر اِس سے پہلے میں کچھ کہتا امی بول پڑیں۔ ’’بھئی ایک ہی تو شیخ صاحب ہیں جن کے دل میں سارے محلے کا درد ہے……! چلو شاباش بیٹا جلدی تیار ہو کر باورچی خانے میں آ جاؤ، میں تمھارے لیے ناشتہ تیار کیے دیتی ہوں‘‘۔ میں نے کچھ کہنا چاہا مگر امی تو کسی چھلاوے کی مانند کمرے سے نکل گئیں۔
چاہتے ہوئے بھی میں کمرے کی بتی روشن نہ کرسکا۔ نہ جانے امی کی باتوں کا اثر تھا یا کوئی اور بات۔ ویسے بھی اب میری آنکھیں کسی قدر اندھیرے میں دیکھنے کے قابل ہوچکی تھیں۔ میں ٹٹولتا ٹٹولتا غسل خانے تک گیا اور پھر کچھ ہی دیر بعد روزانہ کی طرح دفتر کے لیے تیار ہو کر ناشتہ کرنے کے لیے باورچی خانے پہنچ گیا۔
سارا گھر ایک عجب سے ملگجے اندھیرے میں لپٹا ہوا تھا۔ باورچی خانے میں جلتے گیس کے چولہے میں نیلے نیلے شعلوں کی مدھم سی روشنی نے ماحول کو اور زیادہ پُراسرار بنا دیا تھا۔ امی نے مجھے دیکھتے ہی چائے کی پیالی اور ایک پلیٹ آگے بڑھا دی۔ پلیٹ میں رات کی روٹی سے بنایا گیا ایک پراٹھا رکھا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ جیسے امی کچھ بے چین سی ہیں۔ چہرے پر پھیلے تردد سے صاف پتہ چل رہا تھا کہ اُنہیں کسی بات کی شدید فکر لاحق ہے۔ مگر روز تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ ابھی میں اِنہی سوچوں میں غلطاں و پیچاں تھا کہ گھر کے دروازے کی گھنٹی بج اُٹھی۔
’’لگتا ہے شیخ صاحب آ گئے ۔ اپنی آستین اُونچی کرنا زرا۔ میں یہ امام ضامن باندھ دوں‘‘۔امی کے ہاتھ میں لٹکتے امام ضامن کو دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ میں نے پراٹھے کا آخری نوالہ جلدی سے منہ میں ٹھونس کر پیالی میں بچی ہوئی چائے اُوپر انڈیلی۔ امی نے کچھ کہنے کا موقعے دیئے بغیر ہی امام ضامن میرے بازو پر باندھ دیا اور ہاتھ میرے سر پر رکھ کر رقت بھری آواز میں میری سلامتی اور خیر و عافیت سے گھر واپسی کی دعائیں مانگنا شروع کردیں۔ اچانک ایک بار پھر گھنٹی بجی جسے سُن کر امی یکدم چونکیں اور میرا ہاتھ پکڑ کی تیز قدم چلتیں دروازے کی طرف لپکیں۔ دروازہ کھلا تو سامنے ایک آدمی جس نے خود کو سیاہ چارد میں یوں لپیٹ رکھا تھا کہ اُس کا منہ تک اُس چارد کے اندر دکھائی نہ دیتا تھا۔ ویسے بھی گلی میں اس قدر اندھیرا تھا کہ اگر جو اُس نے چادر نہ بھی اُوڑھ رکھی ہوتی تب بھی اُس کے چہرے کے خدوخال نہ دیکھے جا سکتے۔ امی نے میرا مضبوطی کے ساتھ تھاما ہوا ہاتھ اُس کے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ ’’شیخ صاحب……! میں نے اپنا بچہ آپ کے حوالے کیا۔ اُوپر اللہ……! اور نیچے آپ…… !!!‘‘۔ یہ کہتے ہوئے امی کا لہجہ گلوگیر ہوگیا۔
میرا جی چاہ رہا تھا کہ چلا کر کہوں۔ ’’امی……! یہ شیخ صاحب کون ہیں؟ اور آپ ایسی باتیں کیوں کررہی ہیں؟……!!!‘‘۔ مگر نہ جانے کیوں، چِیخ تو درکنار ایک آہ تک میرے لبوں سے نہ نکل سکی۔ اُس نے امی کی بات کا کوئی جواب دیئے بناء میرا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ باہر نکل کر میں نے دیکھا کہ وہاں انگنت لوگوں کا ایک جمِ غفیرموجود ہے۔ اُس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور وہاں مجمع میں کھڑے ایک آدمی کو اشارہ کیا۔ اُس آدمی نے اپنے ہاتھ میں ایک چھوٹی سی لاٹین تھام رکھی تھی۔ اشارہ پاتے ہی وہ تیزی سے قریب آیا اور لاٹین اُسے پکڑا دی۔ میں نے اپنی آنکھیں بھینچ کر بغور دیکھا تو وہ سارے کے سارے لوگ میرے محلے داراور نہایت ہی عزت دار و معتبرین میں سے تھے ۔ کوئی تاجر تو کوئی افسر۔ کوئی استاد تو کوئی طالبِ علم۔ کوئی مفکر تو کوئی متقی۔ میں حیران ہوا کہ یہ سب یہاں کیوں جمع ہیں؟۔
اچانک شیخ صاحب نے لاٹین کو اپنے سر سے اُونچا کر کے باآواز بلند مجمع کو اپنی جانب متوجہ کیا۔
’’حضرات……! کارواں کے کوچ کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ سارے راستے آپ سب نے میرے پیچھے پیچھے چلنا ہے۔ راستے میں نہ تو آپس میں اور نہ ہی کسی راہگیر سے کسی قسم کی کوئی گفتگو کرنی ہے۔ نہ ہی کسی بات کو کوئی جواب دینا ہے ۔ سر جھکا کر بس خاموشی کے ساتھ چلتے رہنا ہے‘‘۔
اتنا کہہ کر اُس نے چلنا شروع کردیا۔ سب نے میکانیکی انداز میں اپنا سر جھکا لیا اور اُس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔ میں بھی سب کے ساتھ چل پڑا۔ ہم چلتے ہوئے محلے کی گلی سے باہر نکل کر ایک کشادہ سی سٹرک پرآ گئے۔ وہاں ایک عجب ہی منظر تھا۔ ساری سٹرک اندھیرے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کمبھوں پر لگا کوئی بھی قمقمہ، تیز روشنیوں والے اشتہاراتی بورڈ حتیٰ کہ سڑک کے دونوں اطراف قائم عمارتوں کے کسی بھی کمرے میں کوئی بتی روشن نہ تھی۔ البتہ فٹ پاتھ پر جا بجا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لوگوں کی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں ہاتھوں میں لاٹین تھامے موجود تھیں۔
وہ سارے ہمارے محلے ہی کے رہنے والے لوگ تھے جو اچھی نگاہوں سے نہ دیکھے جاتے۔ ایک ٹکڑی اُن سزایافتہ افراد کی تھی جو حال ہی میں جیل سے چھوٹ کر آئے تھے۔ ایک ٹکڑی اُن کی تھی جو سیاسی و مذہبی تنظیموں کا نام لے کر چندہ وصول کرتے۔ ایک ٹکڑی اُن کی تھی جو محلے کی دکانوں سے بھتہ وصول کرتے۔ ایک ٹکری میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کے وہ کارکنان جمع تھے جو کسی بھی واقعے پر محلے کی دکانیں بروز طاقت بند کرواتے۔ ایک ٹکڑی میں وہ سب لوگ شامل تھے جنھوں نے محلے میں ہونے والے غیر اخلاقی کاموں کو بند کروانے کا بیٹرا اُٹھا رکھا تھا۔ ایک ٹکڑی وہ تھی جو کہ غیر شرعی اور خلاف مذہب کاموں کے خاتمے کا عزم لے کر اُٹھے تھے۔ ایک ٹکڑی داڑھی والوں کی تو دوسری عین مقابل صاف و تازہ شیو شدہ چہرے والوں کی تھی۔ ایک ٹکڑی میں وہ لوگ شامل تھے جو ماسوائے اپنے دیگر تمام کو جنہم کا ایندھن قرار دیتے تھے۔ وہ چلا چلا کر ایک دوسرے کو بُرا بھلا اور راہ سے بھٹکا ہوا قرار دے رہے تھے۔
جیسے ہی ہمارا مجمع کسی ٹکڑی کے قریب سے گزرتا، اُس میں شامل لوگوں پر ایک جوش کی سی کیفیت طاری ہوجاتی۔ وہ سب مل کر مجمع میں شامل لوگوں کا نام پُکار پُکار کر اُنہیں بُرا بھلا کہہ رہے تھے۔ ہرملامت کرنے والا اپنی مخصوص ٹکڑی کے رججانات اور اعتقاد کے حوالے سے اُن پر ناراضی اور اپنی شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ابھی پل کے پل میں وہ مجمعے پر ٹوٹ پڑیں گے اور سب کی تکا بوٹی کر دیں گے۔
سب سے زیادہ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ اُن تمام ٹکڑیوں میں موجود افراد مجمعے میں شامل لوگوں کا عشیرِ عشیر بھی نہ تھے۔ اُس کے باوجود مجمعے میں شامل ہر فرد تھر تھر کانپتا سر جھائے تیز قدم چلتا شیخ صاحب کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ میرا جی چاہا کہ میں اُن سب سے چیخ چیخ کر کہوں کہ اے لوگوں……! ہم سب کردار، تعلیم، شعور، سوجھ بوجھ اور سب سے بڑھ کر تعداد میں اِن مٹھی بھر افراد سے کہیں زیادہ ہیں۔ تو بجائے ہم اِن سے ڈریں، ڈرنا تو اِن کو ہم سے چاہیے۔ مگر چاہتے ہوئے بھی میں اپنی زبان سے ایک لفظ بھی ادا نہ کرسکا۔ شیخ صاحب نے مڑ کی سارے مجمے کو یونہی سر جھکائے تیز تیز چلتے رہنے کا اشارہ کیا۔
ہمیں چلے کافی دیر ہوچکی تھی۔
چہار سو یونہی گھُپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ مجھے حیرت ہورہی تھی کہ بھلا یہ آج سورج کو کیا ہوا ہے جو نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ یکایک مجھے امی کی کہی بات یاد آئی۔’’ہاں بیٹا صبح تو کب کی ہو چکی۔ مگر سورج ابھی نکلا نہیں نا، بس اِسی لیے اندھیرا ہے‘‘۔
سٹرک پر موجود ٹکڑیوں سے بچتے بچاتے ہم لوگ اگلے موڑ پہنچے تو مجھے وہاں بھی ویسی ہی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیاں نظر آئیں۔ ہمارا مجمع جب ایک ٹکڑی کے قریب سے گزرا تو اُس میں موجود لوگ تیزی سے آگے بڑھے ۔ اُن سب کے ہاتھ کاغذوں کے پلندوں سے بھرے ہوئے تھے جن میں کچھ لکھا ہوا تھا۔ حیرت انگیز طور پر اُن کے ہاتھ بوجھ سے یوں جھکے جارہے تھے جیسے انہوں نے کاغذ نہیں بلکہ بے حد بھاری پتھر اُٹھا رکھے ہوں۔ انہوں نے ہماری طرف دیکھ کر زور سے صدا بلند کی۔
آ…… ! تجھ سے میں حُسن و محبت کی حکایات کہوں……!!!
آ…… ! میں تجھے گیت سُناتا رہوں، ہلکے شیریں……!!!
میں یہ سُن کر حیرت زدہ رہ گیا۔ سوچا یہ کون بے فکرے لوگ ہیں جو اِس اعصاب شکن صورتحال میں بھی سر سے پاوں تک خوف میں نہائے ان تھر تھر کانپتے وحشت زدہ لوگوں کو شیریں گیت اور حُسن و محبت کی حکایات سُننے کی دعوت دے رہے ہیں۔ سب نے اپنے قدموں کی رفتار کو ہر ممکنہ حد تک تیز کردیا۔ ہمیں یوں تیز تیز خود سے دور جاتے دیکھ ان لوگوں کے چہروں پر ایک طنزیہ مسکراہٹ آ گئی جیسے کہہ رہے ہوں کہ شعر و سخن اور حکایاتِ حُسن و عشق سے دوری نے ہی تو تمھیں اِس بیجا خوف میں مبتلا کر رکھا ہے۔
ہم سب اِسی طرح مسلسل چلتے آخر شہر کے وسط میں جا پہنچے ۔ وہاں پہنچتے ہی قافلے میں شامل بیشتر افراد نے شیخ صاحب کا ہاتھ چوم کر رخصت کی اجازت طلب کی۔ اُس نے ہاتھ میں تھامی ہوئی لاٹین کو اپنے سر سے اونچا کر کے لوگوں کو مخاطب کیا۔ اب کی بار میں نے لائیٹن کی روشنی میں دیکھا کہ اس کے سر کے اردگر لپٹی ہوئی چادر کے اندر تاریک سیاہی چھائی ہوئی تھی اور کسی قسم کی کوئی شباہت دکھائی نہ دیتی تھی۔ ’’شام کو سب اسی جگہ جمع ہوجائیں…… ! کارواں کی واپسی کا سفر یہیں سے شروع ہوگا……!!!‘‘۔اتنا کہہ کر وہ ایک طرف چل پڑا۔ قافلے میں شامل لوگ بھی شہر کے اِس وسطی علاقے میں قائم بازاروں اور عمارتوں کی طرف سر جھکائے بڑھنے لگے ۔ میرا دفتر بھی قریبی عمارت میں واقع ہے۔ شہر کا مرکز ہونے کے سبب یہ علاقہ ہمہ وقت روشنیوں سے جگمگاتا رہتا۔ مگر خلافِ معمول یہاں پر بھی ہر طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ مجھے یہ سب کچھ بے حد عجیب اور پریشان کن محسوس ہو رہا تھا۔ میں تیز قدم اُٹھاتے ہوئے اپنے دفتر والی عمارت میں داخل ہو گیا۔
دفتر کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ وہاں بھی تمام تر بیتاں گُل تھیں۔ سارا عملہ اپنی میزوں پر چھوٹی چھوٹی لاٹینوں کی روشنی میں سر جکائے کام میں مشغول تھا۔ میرے اندر داخل ہونے پر کسی نے کوئی توجہ نہ دی۔ ہم سب صبح جب دفتر آتے تو بڑی ہی گرم جوشی سے ایک دوسرے کا خیر مقدم کیا کرتے۔ مگر آج کسی نے بھی میری طرف خیر مقدمی مسکراہٹ کے ساتھ نہ دیکھا اور سر جھکائے کام میں مشغول رہے۔ میں نے یہ سوچ کرکہ شاید اُنہیں میری آمد کا اندازہ نہ ہوسکا ہوگا خود اُنہیں سلام کرنا چاہا۔ میرے ہونٹ ہلے مگر متعدد بار کی کوشش کے باوجود حلق سے کسی بھی قسم کی کوئی آواز برآمد نہ ہوسکی۔ میں حیرت زدہ سا ہو کر اپنی میز پر جا کر کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔
میں نے کرسی کی پُشت پر اپنا سر ٹکا دیا۔ آنکھیں بند کر کے انگلیاں پیشانی پر رگڑنے لگا۔ میں شدید اُلجھن کا شکار تھا۔ صبح سے تواتر کے ساتھ وقوع پزیر ہونے والے اِن غیر معمولی واقعات نے مجھے چکرا کر رکھ دیا تھا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ آخر آج ہو کیا رہا ہے؟۔ یہ شیخ صاحب کون ہیں؟ گھر، گلیوں، سٹرکوں حتیٰ کہ دفتر میں بھی ساری روشنیاں کیوں گُل ہیں؟ اور تو اور سارے دفتر نے چُپ سادھ لی ہوئی تھی۔ کوئی کسی سے بات تک نہیں کر رہا تھا۔
کچھ دیر میں یونہی خالی الذہن کرسی پر بیٹھا رہا۔ پھر یہ سوچ کر اُٹھا کہ کسی ساتھی سے معلوم تو کروں کہ یہ ماجرا کیا ہے؟ ساری دنیا اس قدر بدل کیسے گئی؟ قریبی میز پر بیٹھے شخص کو آواز دینا چاہی۔ میرے ہونٹ ہل رہے تھے مگر جتنا بھی زور کیوں نہ لگا لوں، حلق سے ایک آواز تک نہ نکلتی۔ تھک ہار کر واپس کرسی پر ڈھیر ہو گیا۔ میں نے خُود کو پہلے کبھی اس قدر بے بس محسوس نہ کیا تھا۔ جی چاہتا تھا کہ زور سے چلا کر کہوں۔ ’’بول کہ لب آزاد ہیں تیرے……!!!‘‘۔
مگر یاحیرت……! لب تو میرے آزاد تھے مگر اُن آزاد لبوں سے کوئی ہلکی سی بھی آواز تک برآمد نہ ہوتی تھی۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اِن سب کو جھنجوڑ جھنجوڑ کر سوال کروں کہ آخر ہمارے شہر، ہماری زندگیوں کے اجالوں کو کس نے اندھیروں میں بدل دیا؟ شہر کی سڑکوں پر دندناتے چند مٹھی بھر لوگوں نے کب اور کیسے ہمیں خوفزدہ بھیڑوں کا ریوڑ بنا دیا؟۔ میرے اندر لاوا سا اُبل رہا تھا۔ مگر میں کچھ کر نہیں پا رہا تھا۔
اچانک مجھے خیال آیا کہ اگر میں بول نہیں سکتا تو کیا ہوا، لکھ تو سکتا ہوں۔ اِس خیال کے آتے ہی میں نے میز پر رکھے کاغذ کو اُٹھا کر سامنے رکھا اور قلم پکڑ کر لکھنا شروع کردیا۔ لیکن جیسے ہی میں کچھ لکھتا، اگلے ہی لمحے وہ لفظ کاغذ سے یوں مٹ جاتا جیسے کبھی لکھا ہی نہ گیا ہو۔ میں دیر تک کوشش کرتا رہا مگر بے سود۔ میری بے بسی اور پریشانی اپنے عروج پر تھی۔ نہ میں بول سکتا اور نہ ہی کچھ لکھ سکتا تھا۔ اُس لمحے مجھے شدت سے یہ احساس ہوا کہ جب میں بول سکتا تھا تو میں نے کبھی وہ بات نہ کہی جو درحقیقت میں کہنا چاہتا تھا۔ آج جب میں وہ سب کچھ کہہ دینا چاہتا ہوں تو میں نہ بول سکتا ہوں اور نہ ہی لکھ سکتا ہوں……!!!۔
میرا دم گھٹنے لگا تھا۔ میں اُٹھا اوردفتر کی واحد بڑی سی کھڑکی تک آیا۔ چلمن کھینچ کر اُوپر اُٹھا دی۔ کھڑکی اُسی چوک پر کھلتی ہے جہاں شیخ صاحب نے ہمیں چھوڑا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ ساری ٹکڑیاں جو سفر کے دوران ملی تھیں اب اُس چوک تک پہنچ چکیں ہیں اور اُسی طرح سے چھوٹی چھوٹی لاٹینیں اُٹھائے ہوئی ہیں۔ چوک پر سے جو کوئی گزرتا اُس پر روز روز سے قہقے لگا کر آوازے کستے۔ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ شیخ اُن تمام ٹکڑیوں کے ادرگرد یوں منڈلاتا پھر رہا ہے جیسے اُس کے پاوں میں پہیے نصب ہوں۔ وہ ہر ٹکڑی کے پاس جا کر وہاں موجود لوگوں کی کمر تھپتھپاتا۔ یہ منظر دیکھ کر خوف کی ایک لہر میرے سر سے پاوں تک دوڑ گئی۔ یہ پہلا موقعہ تھا کہ خُود میں بھی تھر تھر کانپنے لگا۔ نہ جانے کتنی دیر تک میں اُسی طرح خوف سے کانپتا وہ منظر دیکھتا رہا۔ وقت گزرنے کا احساس مجھے اُس وقت ہوا جب وہ چلتا ہوا چوک کے اُسی مقام پر پہنچا جہاں اُس نے ہمیں چھوڑا تھا اور پھر دھیرے دھیرے وہاں محلے کے لوگوں جمع ہونا شروع ہوگئے ۔
مجھے احساس ہوا کہ شام ہوگئی اور گھر جانے کا وقت ہوچکا ہے۔ مگر اب میں اُس کی معیت میں گھر جانا نہ چاہتا تھا۔ میں نے کھڑکی کا شیشہ اُٹھایا اور اپنا سر کھڑکی سے باہر نکال کر وہاں کھڑے لوگوں کو خبردار کرنا چاہا۔ مگر میرے حلق سے کوئی آواز نہ نکل سکی۔ مجھے سمجھ نہ آرہا تھا کہ میں لوگوں کو کیسے آگاہ کروں کہ یہ شیخ تو ٹکڑیوں سے ملا ہوا ہے۔
میں نے پورے جسم کا زور لگا چیخ مارنے کی کوشش کی۔ ناکام ہونے کے باوجود میں نے زور زور سے سانس لے کر جس قدر ممکن تھا ہوا پھیپھڑوں میں بھر کر زور سے آواز لگانے کی کوشش کی۔ کئی بار کی کوشش کے بعد اچانک ایک بہت تیز صدا میرے منہ سے بلند ہوئی۔
’’خبردار……!!!‘‘۔
وہ صدا نیچے کھڑے لوگوں تک تو شاید نہ پہنچ سکی مگر دفتر کے تمام اراکین یوں بڑبڑا کر اپنی اپنی نشستوں سے اُٹھ کھڑے ہوئے جیسے کسی نے اُن پر صُور پھونک دیا ہو۔ وہ سب دوڑتے ہوئے کھڑکی پر آئے اور مجھ سے پوچھنے لگے کہ معاملہ کیا ہے۔ میں نے مختصراً اُنہیں سارا ماجرا کہہ سُنایا۔ یہ سُننا تھا کہ وہ سب کھڑکی سے باہر جھانکتے ہوئے اپنی پوری قوت کے ساتھ خبردار، خبردار کا ورد کرنے لگے۔
میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ نہ صرف میں بول سکتا تھا۔ میری آواز دفتر کا سارا عملہ بھی سُن سکتا تھا۔ بلکہ سارے دفتر والے میرے ہم خیال تھے۔ اب میں وہاں مزید ٹہرنا نہیں چاہتا تھا۔ میں دفتر کی عمارت سے باہر نکلا۔ میرے پیچھے پیچھے دفتر کا سارا عملہ بھی عمارت سے باہر نکل آیا۔ باہر تو سارا منظر ہی بدل چکا تھا۔ گو کہ سورج تو نہ جانے کب کا ڈوب چکا تھا البتہ اُفق پر ہلکی سی سُنہری شفق میں رات کی سیاہی مدغم ہوتی نظرآئی۔ شہر میں ہر طرف جگ مگ جگ مگ کرتی روشنیوں کا راج تھا۔ ہر سو اس قدر روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں کہ ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے رات میں سورج نکل آیا ہو۔ میرا دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔ بے اختیار میرے لبوں سے ایک بلند صدا نکلی۔ ’’شکرالحمداللہ……!، میرے شہر کی روشنیاں پھر سے بحال ہوئیں…… !!!‘‘۔
میں دوڑ کر چوک تک پہنچا۔ مگر وہاں مجھے شیخ کہیں نظر نہ آیا۔ البتہ قافلے میں شامل کئی لوگ ضرور نظر آئے جو خراماں خراماں اپنے گھروں کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے بھی تیز تیز قدموں کے ساتھ گھر کا رُخ کیا۔ سارے راستے مجھے کوئی ٹکڑی یا اُس میں شامل کوئی بھی شخص کہیں نظر نہ آیا۔ فٹ پاتھ پر انواع و اقسام کی اشیاء خوردونوش کے تھیلے نظر آئے جن پر لوگ باگ مزے سے کھاتے پیتے محظوظ ہوتے دکھائی دیے۔ یہ دل خُوش کن منظر دیکھ میرے پورے جسم میں ایک نئی توانائی سی بھر گئی۔ میں دوڑتا ہوا گھر پہنچا۔
دستک دی تو دروازہ کھلنے پر امی کا پُرنور چہرہ دکھائی دیا۔ اُن کا چہرہ دیکھ کر میرے دل کے اندر موجود سارے وسوسوں اور اندیشوں نے دم توڑ دیا۔ مجھے دیکھ کر اُمی کا چہرہ بھی کھل اُٹھا۔ ’’ارے واہ……! ماشائاللہ، آج تو میرا لال بہت جلدی گھر آ گیا‘‘۔ میں نے امی کی بات کا جواب دیے بغیر اِدھر اُدھر دیکھا۔ سارا گھر بقعۂ نور بنا ہوا تھا۔ میں نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’امی وہ شیخ کون تھا؟‘‘۔
’’شیخ…… ! کون شیخ؟……!!!‘‘۔ امی کے لہجے میں شدید حیرت تھی۔ ’’ارے امی، صبح آپ نے مجھے جس کے حوالے کیا تھا۔ جس کے کارواں کے ساتھ میں آج دفتر گیا تھا‘‘۔
امی کے چہرے پر شدید حیرانگی کے تاثرات ثبت تھے۔ ’’بیٹا لگتا ہے کہ تمھیں کوئی وہم ہوا ہے۔ نہ میں کسی شیخ کو جانتی ہوں اور نہ ہی میں نے تمھیں کسی شیخ کے ہمراہ کارواں میں روانہ کیا تھا۔‘‘۔
امی کی بات سُن کر میں کچھ دیر چُپ رہا اور سوچتا رہا۔ پھر ایک گہری سانس لے کر دھیرے سے بولا۔
’’جی امی…… ! آپ بالکل درست کہہ رہی ہیں۔ دراصل مجھے وہم ہی ہوا تھا……!!!‘‘۔
٭……٭……٭……٭……٭
مطبوعہ: سہ ماہی ’’ثالث‘‘، مونگیر ہندوستان۔ فکشن نمبر ۔ نومبر، 20166ء۔