ریل کے انتظار میں۔۔۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں کم بیش دس برس کا تھا۔اس وقت صبح کے دس بجنے کو تھے۔۔۔۔
ریلوے اسٹیشن جہاں مسافروں سےکھچا کھچ بھرا تھا۔وہاں کٸی آوارہ مزاج لوگ بھی ذوق آوارگی میں اِدھر سے اُدھر ٹہلتے دکھاٸی دیتے تھے۔کچھ زنانہ انتظار گاہ کے آس پاس منڈلاتے رہتے۔اسٹیشن کے دوسرے سرے پر پھیری والا لاٸی بیچ رہا تھا۔ساتھ ہی چاۓ کا ڈھابا بھی تھا۔لوگ کھڑے کھڑے چاۓ پیتے اور چلتے جاتے تھے۔
مجھے یاد پڑتا ہے۔تب دور کہیں سنگنل کے اس پار سے آتی ریل گاڑی کی کوک سناٸی دی تھی۔بچے دہشت کے مارے اپنی اپنی ماٶں کی اور دوڑ پڑے تھے۔پلیٹ فارم پر ہل چل مچ چکی تھی۔اماں نے جھٹ سے سامان داٸیں ہاتھ میں تھاما تھا اور باٸیں ہاتھ سے مجھے کھینچ کر اپنے قریب کر لیا تھا۔ریل گاڑی کے انتظار میں بیٹھا ہجوم دفعتاً ریلوے ٹریک کے پاس امڈ آیا تھا۔
ریل جوں جوں قریب آتی جاتی تھی، دل کی دھڑکنیں تیزی سے برہم ہونے لگی تھیں۔انجن کے پہیوں سے اٹھتی گرجدار آواز اور ڈبوں کے بیچ سے آتی غڑنگ غڑنگ کی سی مدھر گونج جادوٸی جھنکار پیدا کرنے لگی تھی۔اس کی کوک میں کتنا دلفریب لطف تھا۔ریل کسی شوخ محبوبہ کی طرح تیزی سے آگے بڑھتی اور شور مچاتی ہوٸی کچھ دور جا رکی تھی۔
آخری بار۔۔۔۔ ہاں مجھے یاد ہے۔آخری بار ڈر کے مارے میں نے ماں کی کلاٸی پر اپنا ہاتھ مضبوطی سے کس لیا تھا، اور ہم عین سامنے والے ڈبے میں کافی زور بار کے بعد سوار ہو گۓ تھے۔
مگر پھر یوں ہوا کہ بچپن سے جوانی تک زندگی کا سفر طۓ کر لیا، شہر ہے کہ ترقی کے بجاٸے تیزی سے تنزلی کی سمت گامزن ہے۔ریل جو سفر کا سستہ ذریعہ ہوتی تھی،برسوں بیتے بند ہوٸی۔
کل صبح نہ جانے کیوں یہ خیال آیا۔میں مٹر گشت کرتا ہوا،ویران پڑے ریلوے اسٹیشن پر جا نکلا تھا۔سچ پوچھو تو گم سم ٹھہرے گھنٹوں بیت گۓ۔گو منظر بدلا بدلا تھا،پر یادیں پہلے جیسی تھیں۔یوں کہ جیسے سگنل کے اس پار سے کوٸی کوک سناٸی دی ہو۔جیسے ٹرین کی آمد آمد ہو۔لیکن ایسا کچھ بھی نہ تھا۔
ریل نہیں آٸی تھی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...