بیٹری سے بہت سی جدید ٹیکنالوجی ممکن ہو رہی ہے۔ کیمرہ، موبائل فون، میڈیکل ڈیوائس، طرح طرح کے آلات، برقی گاڑیاں۔ آپ شاید ابھی اس بات سے مایوس ہوتے ہوں کہ موبائل فون کی بیٹری اتنی جلدی ختم کیوں ہو جاتی ہے لیکن مجموعی طور پر بیٹری کی ٹیکنالوجی اس وقت بڑی تیزرفتاری سے آگے بڑھ رہی ہے۔ بیٹری سے اب صرف فون یا کار نہیں، پورے شہر چل رہے ہیں۔ بیٹری پاور پلانٹ بند کر رہی ہے۔
برقی گرڈ میں توانائی سٹور کرنا دہائیوں پرانا خواب ہے۔ بجلی کا گرڈ پچھلے سو سال میں زیادہ تبدیل نہیں ہوا۔ ٹیسلا اور ایڈیسن کے ڈیزائن کے بعد سے یہ ویسا ہی رہا ہے۔ جب آپ کمرے میں بجلی کا سوئچ آن کرتے ہیں، اسی وقت اس گرڈ سے منسلک کسی پاور پلانٹ کو آپ کا بلب روشن کرنے کے لئے زیادہ بجلی تیار کرنا پڑتی ہے۔ اسی وجہ سے بجلی کی سپلائی مستقل رکھنے کے لئے کوئلے یا تیل کے پلانٹس پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان کا آن یا آف کرنا خاصا وقت لیتا ہے۔ توانائی کے کچھ پلانٹ ہر وقت چل رہے ہوتے ہیں۔ جب ڈیمانڈ کم ہو تو ان کی ایفیشنسی اور آوٗٹ پٹ کم ہوتی ہے اور یہ پیسہ گنوا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ پلانٹ جن کو “پِیکر پلانٹ” کہا جاتا ہے، اس وقت آن کئے جاتے ہیں جب ڈیمانڈ خاص حد سے بڑھ جائے، یہ عام طور پر زیادہ آلودگی پھیلانے والے ہوتے ہیں اور ان سے بننے والی بجلی سب سے مہنگی ہوتی ہے۔ اور یہ زیادہ وقت بند رہتے ہیں۔ اگرچہ یہ سب خاصا ضیاع کرنے والا طریقہ ہے لیکن بجلی کی مسلسل فراہمی صرف اسی طرح ممکن ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف شمسی اور ہوائی بجلی سستی، صاف اور بہت سی ہے لیکن صرف اس وقت جب سورج چمک رہا ہو یا ہوا چل رہی ہو۔ اگر کسی دن دھوپ نہیں نکلی یا ہوا بند ہے تو آپ کی استری نہیں چلے گی۔
توانائی کی سٹوریج کی ٹیکنالوجی اس مسئلے کو حل کر سکتی ہے۔ اگر ان کو فوسل فیول کے بڑے پاور پلانٹ کے ساتھ لگایا جا سکے تو کم ڈیمانڈ کے وقت ان سے اچھی ایفیشنسی سے بجلی حاصل کر کے ذخیرہ کی جا سکتی ہے۔ پیکر پلانٹ کی ضرورت ختم ہو سکتی ہے۔ اگر ان کو شمسی یا ہوا سے توانائی کے پلانٹ کے ساتھ لگایا جا سکے تو بادلوں کے وقت یہ اس پلانٹ سے حاصل شدہ توانائی کو مستقل رکھ سکتے ہیں۔ لیکن توانائی کے گنجلک جال میں ذخیرہ کرنے کا ٹکڑا موجود نہیں۔
یہ ذخیرہ کئی طریقے سے کیا جا سکتا ہے۔ ایک بینک کی طرح کہ جب فاضل توانائی ہو تو اس میں ڈال دی جائے، جب ضرورت ہو تو نکال لی جائے۔ اس کی ایک مثال ہوور ڈیم پر تجویز کردہ منصوبہ ہے، جس میں اضافی توانائی کو پانی جھیل میں چڑھا کر ذخیرہ کیا جائے گا (تفصٰل نیچے لنک سے)۔ اس طرح کی پمپڈ سٹوریج بہت سی جگہ پر استعمال کی جا رہی ہے۔ ایک اور طریقہ فلائی وہیل کا ہے۔ توانائی ایک بھاری پہیے کو گھمانے کے لئے استعمال کی جا سکتی ہے اور اس کے انرشیا سے واپس توانائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک اور طریقہ ہوا کو کمپریس کر کے سٹور کرنے کا ہے۔ اضافی توانائی سے ہوا ایک کنستر میں بھر لی جائے اور جب توانائی کی ضرورت ہو تو اس میں سے نکال کر اس کے پریشر سے ٹربائن گھما لی جائے اور جنریٹر چلا لیا جائے۔
اب اس فیلڈ میں ایک نیا کھلاڑی آ رہا ہے۔ گرڈ کے سکیل کی کیمیکل بیٹری۔ پچھلے کچھ برسوں میں ان کی لاگت اور پائیداری میں بہتری ہو رہی ہے۔ یہ ان کو شمسی پاور پلانٹ جیسی جگہوں پر مفید بنا رہا ہے۔ دس سال پہلے اس کا سوچا بھی نہیں جاتا تھا۔ اس وقت بھی پمپڈ سٹوریج کے مقابلے میں اس کا حصہ بہت کم ہے، لیکن تیزی سے ان کا استعمال بڑھ رہا ہے۔
کیمیائی طریقے سے توانائی ذخیرہ کرنے والی بیٹری کے اپنے نقصانات ہیں۔ وقت کے ساتھ سٹوریج میں کمی ہوتی ہے۔ ایک بار ڈسچارج ہو جائیں تو پھر واپس چارج کرنا پڑتا ہے لیکن پمپڈ ہائیڈرو کے مقابلے میں ان کا بڑا فائدہ یہ کہ اس کے لئے کوئی جھیل نہیں بنانی پڑتی اور ہر جگہ اور سکیل پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
بڑی بیٹریاں توانائی کے مختلف ذرائع کو ہموار کر کے سسٹم کی ایفیشنسی بہت بڑھا سکتی ہیں۔ البتہ ری نیو ایبل توانائی کو بڑے پیمانے پر قابلِ عمل بنانے کے لئے ابھی بہت سی بیٹریاں درکار ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑی لیتھیم آئرن بیٹری اس وقت آسٹریلیا میں ہے جو ٹیسلا کمپنی کی ہے اور 129 میگاواٹ ہاور کی توانائی کا پراجیکٹ ہے۔ سب سے بڑی زیرِ تعمیر تنصیب کیلے فورنیا میں 730 میگاواٹ ہاور کا ٹیسلا میگاپیک کا ہے جو اس برس کے آخر تک کام شروع کر دے گی۔ بیٹریوں کا سب سے بڑا گرڈ ابو ظہبی میں ہے جس نے اس سال فروری میں کام شروع کیا ہے۔
آج کی ٹیکنالوجی میں ہونے والی سب سے تیز رفتار دوڑ اس وقت اس شعبے میں جاری ہے۔
ساتھ لگی تصویر ٹیسلا کی بنائی بیٹری کی، جو جنوبی آسٹریلیا کے شہر جیمزٹاوٗن سے نو میل کے فاصلے پر نصب ہے۔
ہوور ڈیم کی بیٹری پر لکھا گیا مضمون