شہر پناہ لاہور
===========
مغل بادشاہوں میں اکبر پہلا حکمران تھا جس کی حس جمالیات اور ذوق تعمیرات نے مغلیہ سلطنت کی شاہانہ عظمت اور استحکام کا سکہ رعایا کے دلوں پر بٹھایا۔ اس نے اپنے عہد کے دسویں سال میں آگرہ کا قلعہ اور محلات کی تعمیر کا آغاز کیا۔ قاسم جان اکبر کے مزاج اور ذوق کو خوب سمجھتا تھا۔ آگرہ کا قلعہ اور محلات کے ڈیزائن اور تعمیر میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ آگرہ شہر کے گرد جو فصیل بنائی گئی اس پر پہلی مرتبہ اتنے وسیع پیمانے پر پتھروں کو تراش خراش کرکے لگایا گیا۔اکبر کا اولین دارالخلافہ آگرہ ہی تھا۔ یہیں اکبر کے ذہن میں ایک نئے دارالخلافے کی تعمیر کے خیال نے جنم لیا اور گیارہ سال (1569-80)کے قلیل عرصے میں اس نے آگرہ شہر کے شمال مغربی جانب فتح پور سیکری کے نام سے ایک بڑا شہر بسایا۔ فتح پور سیکری کے تین اطراف فصیل بنائی گئی جبکہ چوتھی سمت وسیع جھیل تھی۔ شہر میں داخل ہونے کے لیے چار بڑے دروازے تعمیر کیے گئے۔
لاہور کے گرد شہر پناہ کی تعمیر کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ اکبر بادشاہ نے جب لاہور کو اپنا دارالخلافہ بنایا تو جس شہر میں داخل ہونا بھی پسند نہ کیا تھا، دیکھتے ہی دیکھتے اس شہر نے ایک عظیم الشان تاریخی شہر کا روپ دھار لیا۔
آئین اکبری کے مطابق اکبر نے لاہور میں حفاظتی مقصد کے لیے قلعے اور شہر کے گرد دوہری فصیل تعمیر کی۔ اس سے قبل بھی شہر کے گرد فصیل کے شواہد موجود ہیں مگر تب شہر کا احاطہ کم تھا اور فصیل بھی گارے کی بنی ہوئی تھی۔ اکبر نے نہ صرف ایک بڑا رقبہ شہر کے اندر شامل کیا بلکہ شہر پناہ کی تعمیر نو بھی کی اور پختہ اینٹوں سے ایک چوڑی، مضبوط اور تیس فٹ سے بلند فصیل تعمیر کی۔ اس کی چوڑائی بھی تیس فٹ کے قریب ہی تھی، جہاں توپ کا استعمال باآسانی ہو سکتا تھا۔
17599ء میں جب گجر سنگھ اور لہنا سنگھ امرتسر کے دیگر سکھ جتھوں کے ساتھ مل کر لاہور پر حملہ آور ہوئے، اس دوران درانیوں کا مقرر کردہ گورنر کریم داد خان تھا، تب یہ اونچی فصیل ہی تھی جس نے حملہ آوروں کو فصیل کے باہر ہی بے بس کر دیا اور یوں شہر اور لوگ تباہی و بربادی سے محفوظ رہے۔
رنجیت سنگھ نے جب 17699ء کو لاہور شہر پر قبضہ کیا تو حملے سے قبل اسے یقین تھا کہ وہ شہر کی پختہ دیواروں کے مقابلے میں زیادہ دیر نہ ٹھہر سکے گا لہٰذا اس نے لوہاری دروازے کے داروغہ مہر محکم دین سے ساز باز کر لی او ریوں محکم دین نے لوہاری دروازہ کھول دیا اور رنجیت سنگھ اپنی سپاہ کے ساتھ شہر میں داخل ہو گیا اور اس نے شہر پر قبضہ کر لیا۔
رنجیب سنگھ کے عہد سے قبل ہی دہلی، لوہاری اور روشنائی گیٹ کے علاوہ دیگر تمام دروازے اینٹوں سے چنوا دئیے گئے تھے۔ رنجیت سنگھ کے عہد میں ان تین دروازوں پر سخت حفاظتی پہرا بٹھا دیا گیا۔ شہر سے باہر بھی رنجیت سنگھ کی فوجیں حملے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتیں۔ رنجیت سنگھ کے دل پر حفاظتی دیوار کی دھاک پوری طرح بیٹھی ہوئی تھی لہٰذا اس نے شہر کا نظم و نسق سنبھالتے ہی فصیل کو مضبوط تر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس نے دوہری فصیل بنائی، بیچ میں گہری خندق کھدوائی، جہاں راوی کا پانی بھر دیا گیا، دروازوں پر پل تعمیر کئے۔ اس تمام کام میں ایک لاکھ روپے کی ؒخطیر رقم صرف ہوئی۔
18411ء میں رانی چند کنور اور شیر سنگھ کے درمیان جنگ کے دوران قلعہ کے گرد دیوار کئی جگہوں سے تباہ ہوئی۔ اس طرح جب 1844ء میں دھیان سنگھ کے بیٹے ہیرا سنگھ نے بغاوت کا علم بلند کیا تو قلعہ کی بیرونی دیوار کے کئی حصے توپوں کے گولوں کی زد میں آ کر تباہ و برباد ہو گئے۔ گویا بیرونی حملہ آوروں کے سامنے یہ شہر پناہ کئی صدیوں تک پوری استقامت سے کھڑی رہی۔ رنجیت سنگھ انگریزی سرکار کے ساتھ دوستی کا دم بھرتا رہا مگر اس کے بعد آنے والے اس حکمت عملی سے کام نہ لے سکے۔ رعایا اور سکھ حکمرانوں کے مابین چپقلش بڑھتی گئی۔
1849ء میں جب انگریزی سرکار لاہور پر قائم ہوئی تو انہوں نے 1859-644ء کے دوران میں شہر لاہور کی بیرونی فصیل اور دروازے مکمل طور پر مسمار کر دئیے۔ اندرونی فصیل کی اونچائی کو بھی نصف کر دیا۔ شہر کے گرد رنجیت سنگھ نے جو چھیالیس فٹ گہری خندق کھودی تھی اور جہاں راوی کا پانی بھرا رہتا، اسے مٹی سے بھر دیا گیا اور اس کی جگہ باغات لگا دئیے گئے۔ ان باغات کو کئی حصوں میں تقیسم کر دیا گیا اور ہر حصے کی سرسبزی و شادابی کو قائم رکھنے کے لیے شہر کے مختلف صاحب ثروت معززین کے حوالے کر دیا گیا اور یوں جہاں سے تیر و تفنگ اور توپوں کے گولے پھینکے جاتے تھے، اب وہاں تازہ ہوا اور سرسبز پیڑوں نے جڑ پکڑ لی تھی۔ چونکہ تمام علاقہ انگریزی سرکار کے تسلط میں پوری طرح آ چکا تھا، لہٰذا اب کسی بیرونی حملہ آور کا خطرہ نہیں تھا۔
18844ء میں اندرونی فصیل کے بقیہ حصے بھی مسمار کر دئیے گئے اور اس جگہ پر ایک پست قامت دیوار تعمیر کر دی گئی۔ وہ دروازے جو مغلیہ عہد میں حملہ آوروں سے تحفظ کی خاطر بند کر دئیے جاتے تھے اور جنہیں سکھوں کے عہد میں دیوار کی چنائی کر کے بند کر دیا گیا، انہیں مسمار کر کے راستے کھلے بنا دئیے گئے۔ ان دروازوں میں سے پانچ کی تعمیر نو ہوئی۔ لوہاری دروازے کو کم و بیش اپنے پرانے انداز میں ہی دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ انگریزی فوج شہر کے نواح میں لوہاری دروازے کی جانب ہی قیام پذیر تھی، لہٰذا سب سے پہلے لوہاری دروازہ کی تعمیر نو ہوئی۔ انارکلی بازار کو صدر بازار کا نام دیا گیا۔
بھاٹی، دہلی اور کشمیری دروازے کے علاوہ شیرانوالہ دروازہ بھی انگریزی عہد میں دوبارہ تعمیر ہوا۔ ان کو قدرے کشادہ کر دیا گیا اور ان کی عمارات کو سادہ انداز م یں تعمیر کیا گیا۔ برطانوی فوج 1927ء میں قلعہ لاہور سے رخصت ہو کر میاں میر چھائونی چلی گئی اور قلعہ لاہور کی جنوبی دیوار 1929ء میں مسمار کر دی گئی۔
آج اتنی صدیاں گزرنے کے بعد شہر پناہ اپنی اصل جگہ پر تو ضرور ہے مگر اصل حالت میں نہیں ہے۔ اس کے قدیمی آثار جو قلعہ لاہور کے شمال اور شمال مشرقی جانب ہیں جسے آج سرکلر گارڈن بھی کہا جاتا ہے، عہد سکھ کی یادگار ہیں۔ شہر پناہ کی تعمیر و مرمت انگریزی دور میں بھی ہوتی رہی۔
ایک زمانہ تھا جب راوی کی سرکش لہریں قلعہ کی دیواروں سے سر ٹکراتی تھیں تب تین دروازے دریا کے رخ پر کھلتے تھے اور بقیہ دس دروازے شہر کی نواحی بستیوں کی جانب۔ آج ان میں سے صرف چھ دروازوں کی نو تعمیر عمارات قدرے خستہ حالت میں موجود ہیں۔ پہلا روشنائی دروازہ ہے جو سکھ عہد میں تعمیر ہوا جبکہ بقیہ پانچ دروازے لوہاری، دہلی، شیرانوالہ، کشمیری اور بھاٹی دروازہ کی انگریزی دور میں تعمیر نو ہوئی۔ شاہ عالمی دروازہ 1947ء کے فسادات میں تباہ ہو گیا، مستی گیٹ جس کی انگریزی عہد میں تعمیر نو ہونا تھی، آج اس کا کہیں نشان باقی نہیں ہے۔ شہر پناہ کا وہ حصہ جو قلعہ لاہور اور حضوری باغ کے گرد ہے، آج اس کے آثار قائم ہیں، یہ سکھ دور کی یادگار ہے اور یہاں آج بھی مشرق اور شمال کی جانب دوہری فصیل ایستادہ ہے۔
(غافر شہزاد کی کتاب ’’لاہور… گھر گلیاں دروازے‘‘ سے اقتباس)
Shehar e Panah – Walled City – Lahore City
https://www.facebook.com/groups/urdubagh/permalink/1246473068721512/