(Last Updated On: )
اردو زبان کی خدمت میں ضلع بلڈانہ کے شہرِ ناندورہ نے پھول نہ پھول کی پنکھڑی کے مصداق اپنی خدمات انجام دی ہیں۔ یہاں چاروں طرف مراٹھی زبان کا غلبہ ہونے کے باوجود ہر دور میں اردو زبان و ادب کی شمع جلانے والے پیدا ہوئے ہیں۔ جس میں زیادہ تر شاعر و ادیبوں کا تعلق متوسط طبقے سے رہا ہے۔
ناندورہ دو جڑواں شہر ہیں۔ ناندورہ (بزرگ) اور ناندورہ (خورد)، حالانکہ ناندورہ (خورد) سرکاری طور پر ناندورہ (بزرگ) کا ہی حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ دونوں شہروں کو گیان گنگا ندی جدا کرتی ہے۔ دراصل شہرِ ناندورہ 5 دیہات سے مل کر تشکیل پاتا ہے۔ جن کے نام احمد پور، محمد پور، خداوند پور، رسول پور اور پیٹھ ہیں۔ یہاں ہنومان کا 105 فٹ لمبا مجسمہ موجود ہے۔
بودھیسٹ ناول ’’مہاگوونڈ سوتنت‘‘ کے مطابق، ناندورہ قدیم زمانے میں قائم ہوا تھا۔ یہ ’اسّاک‘ بادشاہی (قدیم ہندوستان کی 16 سلطنتوں ’مہاجن پد‘ میں سے ایک 2600 B C) کا دارالحکومت تھا۔ اس وقت ناندورہ کو ’پوتن‘ کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ آئینِ اکبری کے مطابق، ناندورہ قرون وسطی کے دور میں گلشنِ بیرار کا لازمی جزو تھا۔اس شہر پر اور یہاں کی عوام کے دلوں پر مہاراشٹر کے متعدد حکمرانوں اور سنتوں نے راج کیا۔ ناندورہ کی تاریخ میں پیشوا سے مختلف روابط پائے جاتے ہیں۔ یہ شہر سنہ 1800ء کے آخر تک دکن کی نظام حکومت کے حکمراں نواب امیر اللہ خان کی ریاست میں شامل تھا۔ جب انگریزوں نے ہندوستان پر حملہ کیا تو نواب کی حکمرانی ختم ہو گئی۔ ناندورہ پہلے ضلع اکولا کے دائرہ اختیار میں تھا۔ اگست 1905 کے بعد یہ ضلع بلڈانہ کا حصہ بن گیا۔
اس شہرِ کو اولیاء کرام نے اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ یہاں حضرت غیبی شاہؒ، حضرت صوفی شاہؒ، حضرت عنایت اللہ صابری چشتی قادریؒ، حضرت سید ساداتؒ، حضرت مردان شاہؒ کے مزار شریف اور حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار کا چلہ شریف موجود ہے۔ مذکورہ تمام مزاروں کو تمام مذاہب کے ماننے والے احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ تمام مزار شہر کے شمال، جنوب مشرقی، مغرب اور وسط میں پھیلے ہوئے ہیں۔
نیشنل ہائی وے نمبر 6 اور ممبئی – کولکاتا ریلوے لائن ناندورہ سے ہو کر گزرتی ہے۔اس وقت (2019 ) شہر کی کل آبادی 45 ہزار ہے، جس میں 12 ہزار مسلم ہیں۔ شہر میں 8 ایسے تعلیمی ادارے ہیں، جہاں بارہویں جماعت تک اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے کی سہولت دستیاب ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ دو سینئر کالج بھی ہیں، جہاں اختیاری مضمون کے طور پر اُردو دستیاب ہے۔
ادبی لحاظ سے ناندورہ ایک غیر معروف شہر ہے۔ لیکن ان دنوں یہاں کی ادبی سرگرمیوں نے عام و خاص کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے۔ ملکی سطح پر ادب سے تعلق رکھنے والے حضرات متاثر ہوئے ہیں۔ شاعری کے لیے شہر کی سرزمین کافی زرخیز رہی ہے۔ گزرے ہوئے زمانے میں یہاں سے میدانِ شعر و سخن میں، بسم اللہ خاں بسملؔ (حضرتِ داغؔ دہلوی کے شاگرد)، عباس خاں عباسؔ، ساحر ادیبیؔ، بسم اللہ خاں نیرنگؔ ناندوروی، ہرجس رائے جگرؔ، قاسم یاسؔ، سرورؔ قریشی، الطاف حسین نشترؔ، ڈاکٹر رشید خاں شادؔ، بڈھن خاں عاصیؔ اور اسدؔ ناندوروی کے نام ملتے ہیں۔ آج بھی شہر میں تقریباً 15 شعرا میدانِ شعروسخن میں طبع آزمائی کر رہے ہیں، جس میں ظفر ثاقبؔ، قدرت ناظمؔ، محمد ثقلین انجمؔ، ایاز الدین اشہرؔ، وسیم زاہدؔ، احمد کاشفؔ، اعجاز پروانہؔ، حسنین ساحلؔ، سید اسمعیل گوہرؔ، راحیل ابن انجمؔ، نفیس احمد نفیسؔ، متین طالبؔ، اظہر عاطفؔ اور وسیم اندازؔ کے نام اہم ہیں۔ بات اگر نثرنگاری کی جائے تو حمید ادیبی ناندوروی، محمد شفیع قریشی، غنی غازی، ایاز الدین اشہر، قمر الزماں قمر، اعجاز پروانہ اور راقم الحروف کے نام لیے جا سکتے ہیں، جو باقاعدگی سے نثر لکھتے رہے ہیں۔
شاعری:
چند شعرا کا مختصر جائزہ :
نیرنگؔ ناندوروی:
اصل نام بسم اللّٰہ خاں اور تخلص نیرنگؔ کرتے تھے۔ 30 نومبر 1910کو جامود (ضلع بلڈانہ) میں پیدا ہوئے۔ مراٹھی زبان میں تعلیم حاصل کی۔ ناندورہ نگر پریشد میں کلرک کے عہدے پر فائز ہوئے۔ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد ناسک منتقل ہو گئے تھے۔ جب وہ ناسک جا رہے تھے تب ناندورہ میں ’’جشنِ نیرنگؔ ناندوروی‘‘ منایا گیا تھا۔ 8 جولائی 1995کو ناسک میں ان کا انتقال ہوا، اور وہی پر سپردِ خاک ہوئے۔ انھوں نے اردو زبان کی باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی اس کے باوجود ان کی شعری صلاحیت اور اردو زبان پر قدرت دیکھ کر لوگ رشک کرتے تھے۔ ان کی شاعری کے موضوعات میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔ ان کے یہاں حسن و عشق کا بے باکانا اظہار، شوخی و ظرافت اور زندگی و موت کا فلسفہ بھی ملتا ہے۔ ان کی شاعری میں منظر کشی نمایاں خصوصیات رکھتی ہے۔ شگفتگی، فصاحت ا ور روانی ان کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔
نمونہ کلام:
سہانا سماں ہے سہانی گھڑی ہے
خوشی کے سبب زندگی جھومتی ہے
یہی ہر طرف سے صدا گونجتی ہے
یہاں ’جشنِ نیرنگؔ ناندوروی‘ ہے
عبدالقادر رازؔ:
عبدالقادر رازؔ کی شاعری عام و خاص طبقے کو متاثر کرتی ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے بہت سے رازوں سے پردے اٹھائے ہیں۔ وہ 1911 میں جلگاؤں جامود (ضلع بلڈانہ) میں پیدا ہوئے، اور 1991کو کئی راز اپنے سینے میں دفن کیے اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ عبد القادر رازؔ پیشے سے نائی تھے۔ اور اسی مناسبت سے لوگ انھیں خلیفہ کہتے تھے۔ وہ نہایت ہی سادگی پسند اور شگفتہ مزاح واقع ہوئے تھے۔ ان کی شاعری فطری، زبان سلیس اور رواں تھی۔ اعجاز پروانہؔ اپنے مضمون ’’رازوں کے رازداں: عبد القادر راز ناندوروی‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’راز صاحب کی شاعری میں عام آدمی کے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ وقت کے دھوپ کی تپش محسوس ہوتی ہے اور زندگی کا جواربھاٹا نظر آتا ہے۔‘‘ (مطبوعہ: روز نامہ اردو ٹائمز ممبئی 14 مارچ 2010)
نمونہ کلام:
خرمن دل میں کوئی آگ لگا دیتا ہے
اور جب آگ بھڑکتی ہے ہوا دیتا ہے
راز اپنوں سے بھی تم راز کی باتیں نہ کرو
یہ زمانہ نئے طوفان اٹھا دیتا ہے
قدرت ناظمؔ:
نام قدرت اللہ خاں، تخلص ناظمؔ اور قلمی نام قدرت ناظم ہے۔ ولادت شہر ناندورہ کے ایک دیہات بدنیرہ میں 15 دسمبر 1950کو ہوئی۔ شاعری کی ابتدا طالب علمی کے زمانے 18 برس سے ہوئی۔ 1968 میں CRPF میں بھرتی ہوئے لیکن جب اس ملازمت کو مزاج کے خلاف پایا تو جلد ہی نوکری سے استعفیٰ دے دیا۔ تلاشِ معاش کے سلسلے میں کچھ برس پونہ بھی رہے۔ پھر جلد ہی ناندورہ آ گئے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ رعب دار شخصیت کے مالک ہیں۔ چھہ فٹ کے اونچے پورے انسان ہیں۔ وہ اپنی شاعری کی طلسماتی دنیا میں قارئین اور سامعین کو جکڑ لینے اور اپنے الفاظ و اسلوب سے کائنات کے پوشیدہ راز کھولنے کا ہنر جانتے ہیں۔ قدرت ناظمؔ کا شمار ودربھ کے معتبر شاعروں میں ہوتا ہے۔ بنیادی طور سے وہ غزل کے شاعر ہیں۔اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے شاعری کی مختلف اصناف آزاد غزل، رباعی، تثلیث، ہائیکو، ماہیے اور دوہے میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ وہ چھوٹی بحروں میں غزل کہتے ہیں جس کی بلندی اور دل کشی بے ساختہ داد دینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔قدرت ناظم کی شاعری روایت و جدیدیت کا امتزاج ہے۔ جذباتیت اور فطری لطافت نے ان کے کلام کو پر اثر بنا دیا ہے۔قدرت ناظم کو زبان پر مہارت حاصل ہے۔زبان و بیان کی باریکیوں کو وہ بخوبی سمجھتے ہیں۔ خدا نے انھیں شاعری کی بھرپور صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ وہ عہد حاضر کے واقعات کو نہایت ہی مہارت سے شعری پیکر عطا کرتے ہیں۔ان کی شاعری میں سماجی مسائل کی عکاسی ہے تو ستم گر زمانے کی شکایتیں بھی۔ زندگی کی مسرتوں کا تذکرہ ہے تو ناہمواریوں کی تصویر کشی بھی۔ غمِ روز گار کی تلخی ہے تو ہجرِ وصال اور حسن عشق کی چاشنی بھی۔ جس کی رواں لہروں کے ساتھ سامعین و قارئین ڈوبتے ابھرتے بہتے چلے جاتے ہیں۔ ان کی شاعری فکر و احساس کی جلوہ گاہ معلوم ہوتی ہے۔
نمونہ کلام:
غزل کے اشعار
جنھیں آداب محفل تک نہیں معلوم ہیں ناظمؔ
کریں گے وہ ہماری ترجمانی کون کہتا ہے
ہم کہاں ساز پہ گانے کو غزل کہتے ہیں
اپنے دکھ درد بھلانے کو غزل کہتے ہیں
پھر بھی روز سنورتی ہے قدرت ناظمؔ
کہنے کو وہ پریوں کی شہزادی ہے
میرا قد تو ناپ رہے ہیں
بونے تھر تھر کانپ رہے ہیں
رباعی
دن رات کی آغوش میں پل سکتا ہے
جب چاند اندھیرے سے نکل سکتا ہے
تم کوششِ پیہم کا ارادہ تو کرو
ہر خواب حقیقت میں بدل سکتا ہے
تثلیث
اپنی اوقات میں رہیں جاہل
حد فاضل بہت ضروری ہے
چاند پر تھوکنے سے کیا حاصل
ماہیے
جب یاد تیری آئے
گھر میں مرے اکثر
خوشبو سی بکھر جائے
دیوانہ بنائے گی
یاد تری مجھ کو
جس وقت بھی آئے گی
دوہے
کوئی کسی کا بھگت نہ،کوئی کسی کا داس
مانو بھوکا بھیڑیا، دنیا مردہ ماس
بہتی گنگا دیکھ کے، کر لیں گے اشنان
ملا پنڈت شیخ جی، سارے ایک سمان
حمیدؔ ادیبی ناندوروی:
حمید ادیبی ناندوروی کے دو شعری مجموعے ’’تاثرات‘‘ 2017 اور ’’خون کے آنسو‘‘ 2019 شائع ہوئے۔ انھوں نے غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی شاعری میں سادگی و پرکاری بدرجہ اتم موجود ہے، اور بہت سے اشعار تو گہرا فلسفہ لیے ہوئے ہیں جو غور و فکر کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شکوہ و شکایت، ہجر کا رونا، وصل کی آرزو، جوشِ جذبات، نالہ و فریاد اور سوز و گداز ان کے کلام کی خصوصیات ہیں۔
نمونہ کلام:
لاکھ غم اپنا چھپاتا ہوں زمانے سے حمیدؔ
پھر بھی آ جاتا ہے شعروں میں اتر کے سامنے
خوب قسمت سے مسیحا بھی ملا ہے مجھ کو
زہر دیتا ہے ستم گر نہ دوا دیتا ہے
دل کے داغوں سے مرے گھر میں اجالا ہے بہت
مطمئن ہوں کہ منّور ہے شبِ تار مری
ظفر ثاقبؔ:
ظفر ثاقبؔ 1936 میں ناندورہ میں پیدا ہوئے۔ انھیں شروع سے ہی ادب میں دلچسپی رہی۔ ادبی محفلوں میں شرکت کرنے لگے۔ جب شاعری کا ذوق پروان چڑھا تو نیرنگؔ ناندوروی سے اصلاح لینے لگے۔ دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کی اس کے بعد کاشت کاری کے پیشے سے منسلک ہو گئے۔ طبعیت سے بڑے ہی سنجیدہ مزاج واقع ہوئے ہیں۔ خوش اخلاقی ان کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ غزل ان کا خاص میدان ہے۔ عشق مزاجی اور عشق حقیقی دونوں موضوعات ان کے کلام میں ملتے ہیں۔ کلام میں سادگی، سلاست اور روانی پائی جاتی ہے۔
نمونہ کلام:
مجھے دیکھ دنیا کا سرتاج ہوں میں
جو کل تھا جہاں میں وہی آج ہوں میں
چمن والوں سے سمجھوتا ہی ایسا کر لیا میں نے
گلوں کو چھوڑ کر کانٹوں سے دامن بھر لیا میں نے
ساحرؔ ادیبی:
اصل نام قاضی سعید الدین اور تخلص ساحرؔ کرتے تھے۔ ادیبؔ مالیگانوی کے شاگرد تھے اس مناسبت سے ساحرؔ ادیبی قلمی نام اختیار کیا۔ 16 جون 1934کو ناندورہ (ضلع بلڈانہ) میں ولادت ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ناندورہ میں ہی حاصل کی۔ ڈی ایڈ (ڈپلومہ اِن ایجوکیشن) پونہ سے کیا۔ اور 1954 میں جلگاؤں (خاندیش) میں مدرسی پیشے سے وابستہ ہو گئے، اور وہی کے ہو کر رہ گئے۔ 9 اپریل 1992کو اس دارفانی سے رخصت ہوئے۔ آپ کا شعری مجموعہ ’’فسون سخن‘‘ پس مرگ 1993میں ’’بزمِ یاراں جلگاؤں‘‘ کے توسط سے شائع ہوا۔ساحرؔ ادیبی کے کلام میں سادگی و پرکاری اور معنی آفرینی خوب تھی۔ سادگی سے گہری بات کہنا ان کے کلام کا خاصہ تھا۔ جہاں انھوں نے اپنے جذبات کو شعری پیکر عطا کیے وہیں معاشرے کی اصلاح کا کام بھی کیا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے سیاست کی کج روی کو بھی طنز کا نشانہ بنایا ہے۔
نمونہ کلام:
مسکراہٹ اداس چہروں کی
عظمتِ زندگی بڑھاتی ہے
دل میں ساحرؔ جو غم سماتے ہیں
شعر بن بن کے لب پہ آتے ہیں
نئے چہرے نئے شعرا:
وسیم زاہدؔ سادہ مزاج طبعیت کے مالک ہیں، اور یہی رنگ ان کی شاعری میں بھی جھلکتا ہے۔ قلبی واردات اور سوز و گداز احمد کاشفؔ کے کلام کی خصوصیت ہے۔حکومت اور زمانے کی کج روی اور اس کج روی کی شکایتیں اعجاز پروانہؔ کے کلام میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ حسنین ساحلؔ نے اپنی شاعری میں انقلابی موضوعات کے ساتھ ساتھ اصلاحی پہلوؤں کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ سید اسمعیل گوہرؔ سنجیدہ طبعیت کے مالک ہیں۔ ان کے یہاں اصلاحی و مذہبی پہلو نمایاں نظر آتے ہیں۔ اعجاز طارقؔ نے مفلسی، غربت اور بے بسی کو خاص موضوع بنایا ہے۔ راحیل انجمؔ کی شاعری ہر عام و خاص کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ان کا ایک خاص انداز ہے، جو انھیں دوسروں سے الگ کرتا ہے۔ وہ ہمیشہ اچھوتے موضوعات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ نفیس احمد نفیسؔ کے اشعار جہاں غم دوراں و غم ہجراں کی روداد بن جاتے ہیں وہیں حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف بغاوت کا اعلان بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ متین طالبؔ تیزی سے ابھرتے ہوئے جواں سال شاعر ہیں۔ وہ غزل اور نظم دونوں اصناف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ ان کے پاس منفرد لب و لہجہ ہے اور ان کے وہاں موضوعات میں کافی تنوع پایا جاتا ہے۔اظہر عاطفؔ شاعری کے میدان میں نوآموز ہیں۔ ان کے اشعار میں تغزل کا رنگ پایا جاتا ہے۔ وسیم اندازؔ نو مشق شاعر ہیں۔ نئے مضامین کو شعری پیکر عطا کرنے میں وہ کامیاب نظر آتے ہیں۔
نئے شعرا کے کلام کا نمونے:
وسیم زاہدؔ
دل یہ میرا جو اضطراب میں ہے
ان کا چہرا بھی تو حجاب میں ہے۔
تم ہٹا دو جو راہ سے پتھر
یہ بھی شامل میاں ثواب میں ہے
احمد کاشفؔ
جب میں نے خواہشات کی پوشاک اوڑھ لی
تن سے مرے لباسِ قلندر اتر گیا
کس قدر ٹوٹ کے ملتا ہے غموں کا موسم
اک زمانے سے مرے ساتھ رہا ہو جیسے
اعجاز پر وانہؔ
گر جہاں میں مُنصِف ’انصاف‘ ہے، دو آزادی
قید نہ رکھو پھر قانون کی کتابوں میں
کس کی نظر لگ گئی واللہ! دیش کو اپنے!!
ہفتہ ہوا پر کہیں پر بلوہ نہیں ہوتا!!!
حسنین ساحلؔ
تاج دیتا ہے تخت دیتا ہے
ظالموں کو بھی وقت دیتا ہے
لاش فرعون کی یہ کہتی ہے
وہ سزائیں بھی سخت دیتا ہے
سید اسمعیل گوہرؔ
کب تک میں مسیحائی کروں شہر میں تنہا
تو بھی تو میرا ہاتھ بٹانے کے لیے آ
جس دل میں بھی محفوظ ہوں قرآن مکمل
آباد ہی رہتا ہے وہ کھنڈر نہیں ہوتا
راحیل انجمؔ
ملے ان کو بھی اپنا گھر خدایا
جو ننگے پاؤں چلتے جارہے ہیں
جس کو اڑنا ہو وہ لے کر اڑ جائے
ہم رشتوں کے دھاگے ڈھیلے رکھتے ہیں
نفیس احمد نفیسؔ
رُباعی
نیرنگ طبیعت سے ہمیں کیا لینا
سائنسی جہالت سے ہمیں کیا لینا
ہے آدم و حوّا سے ہماری نسبت
لنگور کی نِسبت سے ہمیں کیا لینا
متین طالبؔ
میرے قدموں میں گر گئی آ کر
میں نے دنیا سے جب کہا چل ہٹ
کس کے ہاتھوں میں تھے پتھر یہ پتہ پہلے کرو
چوٹ کتنی گہری آئی یہ کہانی پھر سہی
وسیم اندازؔ
یہ جو دکھتے ہیں بھولے بھالے لوگ
کالے دل کے سیاہ کالے لوگ
اس سے بہتر تھا سانپ پالتے ہم
عقل ماری گئی تھی پالے لوگ
اظہر عاطفؔ:
لوگ مجھ سے نگاہیں چرانے لگے
جب سے میرا قلم آئینہ ہو گیا
جن کے کردار سے آتی ہے گلوں کی خوشبو
پھر انھیں عطر لگانے کی ضرورت کیا ہے
دیگراہم شعرا:
حوالدار سلیم الدین عامرؔ، تنویر غازیؔ اور عاجزؔ ناندوروی یہ تینوں ایسے شاعر ہیں جن کا تعلق ناندورہ سے ہی رہا ہے۔ انھوں نے روزگار کے سلسلے میں شہر کو الوداع کہا لیکن ناندورہ سے کبھی رشتہ ختم نہیں کیا۔ تینوں شاعروں کا بچپن اور جوانی ناندورہ میں ہی گزری اور وہی پر ان کا ادبی ذوق بھی پروان چڑھا۔
(۱) سلیم الدین عامر، شہرِ شیگاؤں میں انجمن اردو ہائی اسکول میں تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ’’نورِ افکار‘‘ سنہ 2019 میں منظر عام پر آیا۔ ان کی شاعری علامہ اقبال سے کافی متاثر نظر آتی ہے۔ سلیم الدین عامر کی شاعری، اصلاحی شاعری ہے۔ وہ سماجی برائیوں کو بڑی بے باکی سے بے نقاب کرتے ہیں۔
نمونہ کلام:
تعبیر میں کرتا ہوں اس کو بھی مجاہد سے
نفسانی تقاضوں کو جو شخص کچلتا ہے
کیا وعدہ خلافی میں ہے مشّاق زمانہ
انکار ہی انکار ہے اقرار کے پیچھے
(۲) تنویر غازی کی شاعری کا آغاز 13 برس کی عمر میں ہوا۔ فی الحال وہ ممبئی میں ہیں اور فلموں کے لیے گیت لکھ رہے ہیں، اور اب تک کئی بڑی فلموں میں گیت دے چکے ہیں۔ جن میں پنک، اکتوبر، ہیٹ اسٹوری ٹو، رننگ شادی ڈاٹ کام وغیرہ فلمیں شامل ہیں۔ انھیں کئی انعامات و اعزازات سے بھی نوازا جا چکا ہے۔ ادبی پروگرامز، مشاعرے اور مختلف شوز کے سلسلے میں انھوں نے اب تک تقریباً 10 ملکوں کا سفر کیا۔ جن میں امریکہ، ساؤتھ افریقہ اور آسٹریلیا دوبئی اور ابو دھابی وغیرہ شامل ہیں۔ تنویر غازی کے تین شعری مجموعے ’’سمندر‘‘ (اردو رسم الخط میں)، ’’احساس‘‘ اور ’’عشق مسافر‘‘ (دیوناگری رسم الخط میں) شائع ہو چکے ہیں۔ شعر پڑھنے کا ان کا ایک منفرد انداز ہے جو بے ساختہ داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے۔ عشق و محبت کے معاملات کے علاوہ تنویر غازی سماجی برائیوں اور سیاسی کج روی پر بھی گہرا طنز کرتے ہیں۔
نمونہ کلام:
اس کی آنکھوں میں محبت کی چمک آج بھی ہے
اس کو حالاں کہ میرے پیار پر شک آج بھی ہے
ناؤ میں بیٹھ کے دھوئے تھے کبھی ہاتھ اس نے
سارے تالاب میں مہندی کی مہک آج بھی ہے
(۳) عاجز ناندوروی اپنے کاروبار کے سلسلے میں جلگاؤں (خاندیش) میں قیام پذیر ہے۔ ان کے نعتیہ کلام کا مجموعہ ’’جانِ ایمانؐ‘‘ شائع ہونے کو ہے۔ عاجز ناندوروی کم عمری سے ہی شاعری کا ذوق رکھتے ہیں۔ ان کی زبان سادہ سلیس اور عام فہم ہے۔
نمونہ کلام:
جس سمت نظر ڈالو نفرت کے سوا کیا ہے
اس دور کے انساں کو یہ روگ لگا کیا ہے
خدایا میں پہچانوں انﷺ کو لحد میں
لگے زیست سے بھی قضا خوبصورت
نثر نگاری:
نئے قلم کاروں کے تناظر میں اگرجائزہ لیا جائے تو 2017 سے پہلے شہر کے کچھ شاعر و ادیب صرف ڈائریوںکی حد تک محدود تھے۔ اپنا کلام ڈائری میں لکھ کر رکھ دیتے تھے،جو اچھے تخلیق کار ہونے باوجود گمنامی کی زندگی جی رہے تھے۔ کچھ شاعر و ادیب ایسے بھی تھے، جو ممبئی سے نکلنے والے روزناموں میں اپنی تخلیقات برائے اشاعت بھیجتے تھے۔ اور یہ تخلیقات ان ہی اخبارات کو بھیجی جاتی تھیں، جو شہرِ ناندورہ میں آتے تھے۔ ایسے تخلیق کار شہر میں ایک نمایاں مقام تو حاصل کر ہی لیتے تھے، ساتھ ہی ساتھ ریاستی سطح پر بھی پہچانے جاتے تھے، مگر قومی سطح پر وہ گمنام ہی رہتے تھے۔ لیکن الحمدللہ! آج ماحول مختلف ہے۔ یہاں کے زیادہ تر تخلیق کار ریاستی اخبارات کے علاوہ دوسری ریاستوں کے اخبارات و رسائل میں تواتر سے شائع ہو رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ رسائل کی خریدار بھی قبول کر رہے ہیں۔
31 دسمبر 2017 کو شہرِ ناندورہ میں ایک نثری تنظیم بنام ’’فکشن ایسوسی ایشن ناندورہ‘‘ (FAN) کا قیام عمل میں آیا۔ اس تنظیم کے زیرِ اہتمام چند افسانوی نشستیں منعقد کی گئیں، کچھ اعزازی پروگرام ہوئے، جس میں ڈاکٹر ایم اے حق، معین الدین عثمانی، رشید قاسمی، عزیز خاں عزیز، شبیر احمد شاد، نعیم شیخ، سلیم الدین عامر اور ڈاکٹر عابد الرحمن کے اعزاز میں ہوئے ادبی پروگرامز قابلِ ذکر ہیں۔ دھیرے دھیرے سرگرمیاں بڑھتی گئیں۔ لکھنا لکھانا شروع ہوا اور چھپنا چھپانا بھی اپنی رفتار سے چلتا رہا۔ نشر و اشاعت سے قلم کاروں کے حوصلوں کو نئی اڑان ملی اور دیکھتے ہی دیکھتے نئے نثرنگار میدان میں آ گئے۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ لوگ جو اب تک شاعری کر رہے تھے، وہ بھی نثر لکھنے لگے۔
ادبِ اسلامی کی ناندورہ شاخ کے زیرِ اہتمام بھی کئی افسانوی و شعری نشستیںاور اعزازی پروگرام منعقد ہوئے اور ہوتے رہتے ہیں۔
یکم جنوری 2018 کو ’’بزمِ اربابِ سخن‘‘ کی بنیاد ڈالی گئی۔ اس تنظیم نے شہر میں شاعری کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا۔ اس تنظیم کے زیرِ اہتمام کئی شعری نشستوں اور مشاعروں کا انعقاد کیا گیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہر کی سب سے پرانی ادبی انجمن ’’بزم تحریک شعروادب‘‘ پھر سے فعال ہوگئی، اور ’’گلشن اردو ادب‘‘ کا قیام بھی عمل میں آیا۔ سرگرمیاں بڑھتی گئیں۔ قلم کاروں میں رسہ کشی اور مقابلہ آرائی شروع ہوئی، لیکن فائدہ تو ادب کو ہی ہوا۔ 2019 میں یہاں سے سہ ماہی برقی مجّلہ ’آئینہء ادب‘ جاری ہوا۔ اس طرح 2017 کے بعد کا دور ناندورہ کے ادبی منظر نامے کا اہم اور انقلابی دور مانا جائے گا۔
چند نثر نگاروں کا مختصر جائزہ :
حمید ادیبی ناندوروی:
بیک وقت ناول نگار، افسانہ نگار، مضمون نگار اور شاعر بھی ہیں۔ 3 جولائی 1938 کو ناندورہ میں پیدا ہوئے۔ اب تک ان کی سات کتابیں منظرِ عام آ چکی ہیں۔ جن میں پھول کھل گئے (ناول،1986)، جہاں چاہ وہاں راہ (افسانے،2000)، ہمیں انصاف چاہیے (تنقیدی مضامین، 2004)،میں، شاعری اور مشاعرہ (مزاحیہ مضامین، 2008)، کامیابی کا راز (مضامین، 2016) اور دو شعری مجموعے شامل ہیں۔ ان کا تعلق شہرِ ناندورہ سے ہے۔ لیکن روزگار کے سلسلے میں 1958 میں ممبئی چلے گئے تھے اور وہیں کے ہو کر رہ گئے۔ لیکن ان کا دل ناندورہ میں ہی بستا ہے۔ وطن سے دوری نے ان کے ہاتھوں میں قلم تھما دیا، اس پر ممبئی کے علمی و ادبی ماحول نے سوئے ہوئے قلم کار کو جگانے کا کام کیا۔ عمر کی بیاسی بہاریں دیکھ چکے ہیں اور آج بھی اُن کا قلم جواں اور رواں دواں ہے۔ وہ پیشے سے اسٹینو گرافر ہیں۔ اردو، انگریزی، ہندی اور مراٹھی زبانیں اچھی طرح جانتے ہیں۔ بڑے ہی سیدھے سادے اور سچے دل کے انسان ہیں۔ تصنیف و تالیف ان کا شوق ہے۔ اونچے پورے، لمبے لچکے، دبلے پتلے، سانولی رنگت والے حمید ادیبیؔ ممبئی کی گلیوں میں اتنی تیز رفتار سے تڑنگ تڑنگ پیدل چلتے ہیں کہ نوجوانوں کی سانسیں اکھڑ جائیں۔ جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ 1986 میں ان کی پہلی تصنیف ’’پھول کھل گئے‘‘ ناول کی شکل میں منظرِ عام پر آئی۔ یہ ایک یتیم لڑکی شمیم کی کہانی ہے،جو شرم و حیا کا پیکر ہے۔ لیکن اپنے سینے میں ایک دھڑکتا دل بھی رکھتی ہے۔ یہ دل اس وقت مزید دھڑکنے لگتا ہے جب اس کی نگاہِ انتخاب خالد پرجا ٹکتی ہے۔ اور خالد بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔ خالد اس کے محسن کا لڑکا ہے،جہاں شمیم پلی بڑھی ہے۔ شمیم چونکہ بے سہارا ہے،یتیم ہے اور زیرِ احسان بھی، اس لیے وہ اظہارِ محبت نہیں کرپاتی۔ کیونکہ اسے اپنے محسن کی رسوائی کا ڈر ہے۔ خالد اس سے بے پناہ محبت کرنے لگتا ہے اوراس کا اظہاربھی کر دیتا ہے۔ لیکن وہ ہر بار انکار ہی کرتی ہے۔ اور اس طرح ان کی محبت ایک عجیب کشمکش میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ حمید ادیبیؔ نے محبت کی اس کشمکش کا اس ہنر مندی سے نقشہ کھینچا ہے کہ قاری بھی کشمکش میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ ناول عشقیہ ہے لیکن کہیں بھی جنسیات کا بے باکانابیان نہیں۔ ناول کے بعد ان کی دوسری تصنیف ’’جہاں چاہ وہاں راہ‘‘ جو 2000 میں منظرِ عام آئی، صنفِ افسانہ سے تعلق رکھتی ہے۔ انھوں نے اپنے افسانوں کے موضوعات آس پاس کے ماحول سے ہی منتخب کیے ہیں۔ اور زندگی کی چھوٹی موٹی باتوں کو بنیاد بنا کر کہانیاں لکھی ہیں۔ غریب و امیر طبقے،حتّٰی کہ اپنے گھر کے حالات کو بھی انھوں نے موضوع بنایا ہے۔ اس مجموعے میں کل 22 افسانے شامل ہیں۔ ان کی کہانیوں کے کردار ہمارے سماج کے جیتے جاگتے، چلتے پھرتے حقیقی کردار معلوم ہوتے ہیں۔ سادہ بیانیہ اسلوب میں لکھی گئی ان کہانیوں میں زبان نہایت ہی صاف ستھری ہے۔ تحریر میں روانی اس قدر ہے کہ قاری یوں محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی اونچے ٹیلے پر سے بڑی تیزی سے نیچے کی جانب پھسل رہا ہے۔ مضمون نگاری میں بھی ان کا فن عروج پر نظر آتا ہے۔ وہ اپنے مضامین میں بات کو سمجھانے کے لیے مثالیں پیش کرتے ہیں، حوالے دیتے ہیں اور کہانیاں سناتے ہیں۔ ان کی زنبیل میں طرح طرح کا مال موجود ہیں، جس میں مقامی اور بیرونی، محاورے، کہاوتیں اور کہانیاں شامل ہیں۔ جنھوں نے ان کی تحریر کو دلچسپ بنا دیا ہے۔ ان کے مضامین کا مجموعہ ’’کامیابی کا راز‘‘ نہایت ہی مفید کتاب ہے۔ 202 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں کل 35 مضامین شامل ہیں۔ سبھی مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ کتاب بیش قیمت پھولوں کے ایک حسین گلدستے کی مانند ہے۔ خاص کر نوجوانوں کو اس کتاب کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے۔ اسکول اور کالج کی تعلیم میں محض معلومات حاصل کرنے پر زور دیا جاتا ہے۔ جس میں اصل تعلیم کہیں کھو کر رہ جاتی ہے۔ تعلیمی اقدار کیا ہے؟ تعلیم کا اصل مقصد کیا ہے؟ یہ ہمیں معلوم ہی نہیں پڑتا۔ اس کتاب کے متعلق میں یوں کہوں گا کہ دودھ میں سے مکھن نکال کر ہمارے ہاتھ پر رکھ دیا گیا ہے۔
محمد شفیع قریشی:
30 جولائی 1950 میں ناندورہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے افسانہ نگاری اور مضمون نگاری کے میدان میں خامہ فرسائی کی۔ وہ ادبی، سیاسی، تعلیمی، سماجی اور اصلاحی نوعیت کے مضامین قلم بند کرتے تھے۔ محمد شفیع قریشی، نگر پریشد ناندورہ کے دو دفعہ رکن اور ایک بار نائب صدر بھی رہے۔ ان کی بہت سی کہانیاں اور مضامین اُردو ٹائمز اور انقلاب ممبئی میں شائع ہوئے۔ وہ بزمِ تحریکِ شعر و ادب ناندورہ کی نشستوں میں برابر شریک ہوتے تھے۔ بزمِ ہذا نے ان کی صدارت میں نشستیں بھی منعقد کی تھیں۔ ان کا افسانہ’’ایک اکیلی لڑکی‘‘ خوب پسند کیا گیا تھا۔ انھوں نے سماج کے ساتھ ساتھ ادب کی بھی خدمت کی۔ اور 10 اگست 2006 کو مالکِ حقیقی سے جا ملے۔ آج بھی، ان کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تخلیقات اُن کے فرزندِ ارجمند ریاض احمد قریشی، جو ایک ادب دوست شخصیت ہیں، نے بڑے قرینے سے سنبھال رکھی ہیں۔
غنی غازی:
کہانی کار، افسانچہ نگار، مترجم اور بچوں کے ادیب کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ 27 مئی 1959 میں ناندورہ میں پیدا ہوئے۔ 1980 میں روزگار کے سلسلے میں ممبئی چلے گئے تھے۔ وہاں روزنامہ اُردو ٹائمز میں نامہ نگار کے عہدے سے ترقی کرتے ہوئے نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دیے۔ روزنامہ’’قومی آواز‘‘ اور ہفت روزہ ’’اخبار عالم‘‘ میں کالم نگار رہے۔ ماہنامہ ’’نقش کوکن‘‘ اور ماہنامہ’’صبح امید‘‘، ممبئی میں سب ایڈیٹر کی ذمہ داری سنبھالی۔ روز نامہ’’قومی آواز‘‘ اور’’قومی راج‘‘ ممبئی میں بطورِ مترجم کام کیا۔ 1985 میں ان کی پہلی تصنیف ’’ریت کے گھروندے‘‘ کو مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی نے ایوارڈ سے سرفراز کیا۔1991 میں مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی نے صحافت ایوارڈ سے بھی نوازا۔ انھوں نے روزنامہ’’اردو ٹائمز‘‘میں 20 سال تک خدمات انجام دیں۔ ممبئی میں ان کا قیام 1980 سے 2004 تک رہا۔ اب تک ان کی سات کتابیں، بعنوان ریت کے گھروندے (1984)، مٹی کے گھروندے(1986)، شبنم کے موتی (1987)، شعری کہکشاں (2015)، پھول پتے(2015)، مردہ گھر(2016)، اور سات رنگ (2016) منظرِ عام آ چکی ہیں۔ 1989 میں ممبئی کے جوگیشوری میں عبداللہ قریشی پرائمری و ہائی اسکول قائم کی۔ 1992 میں لاکھن واڑہ (کھام گاؤں) میں لشکریہ اردو پرائمری، ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کی بنیاد رکھی۔ فی الحال وہ 2004 سے لاکھن واڑہ (تعلقہ: کھام گاؤں) میں مقیم ہیں۔ اور اپنے تعلیمی ادارے میں چیئرمین کی ذمہ داری بحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔ غنی غازی تحریر کے ساتھ ساتھ فن خطابت میں بھی مہارت رکھتے ہیں۔ وہ ایک بہترین مقرر اور مبصر بھی ہیں۔
محمد علیم اسماعیل:
یہاں راقم الحروف اپنا تعارف کرا دینا چاہتا ہے۔ 2013 سے لکھنے کی شروعات ہوئی۔ 2016 سے باقاعدہ افسانہ نگاری کی جانب راغب ہوا۔ افسانے و افسانچے اور اسی صنف پر مضامین، پسندیدہ اصناف میں شامل ہیں۔ افسانوں کے دو مجموعے، ’الجھن‘(2018)اور ’رنجش‘(2020)شائع ہوچکے ہیں۔ مزید پانچ کتابیںمتوقع ہیں، جن میں افسانچے کا فن(ترتیب و مقدمہ)، خاموش دھماکوں کی گونج (افسانچے) ، دیوار پر بنی ہوئی تصویریں(افسانے) ، اردو افسانہ اکیسوی صدی کی دہلیز پر (ٖمضامین) اور بچوں کی کہانیوں کا ایک مجموعہ شامل ہیں۔ گوگل پر’’محمد علیم اسماعیل‘‘ لکھ کر اگر سرچ کیا جائے تو ناچیز کی بہت سی تخلیقات مل جائیں گی۔
سید قمرالزماں قمر:
ایک مضمون نگار کی حیثیت سے اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ 8 نومبر 1959 میں جلگاؤں جامود میں پیدا ہوئے۔ 1968 سے ناندورہ میں مقیم ہیں۔ وہ ایک بے باک قلمکار ہیں۔ ’’بیباک قلم سے‘‘ ان کے مضامین کا پہلا مجموعہ ہے۔ جو 2019 میں منظر عام آ چکا ہے۔ کتاب میں شامل سبھی مضامین معاشرتی اور سیاسی تجزیاتی نوعیت کے حامل ہیں۔ وہ عنایتیہ ہائی اسکول ناندورہ سے سبکدوش ہو چکے ہیں۔ اور ان دنوں فرصت کے لمحات کو لکھنے پڑھنے میں استعمال کر رہے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا جب وہ خوب شائع ہوتے تھے۔ لیکن آج دورِ جدید میں نشر و اشاعت کے طریقے بدل گئے ہیں۔ اور وہ انٹر نیٹ کے اس دور سے قدم ملا نہیں پا رہے ہیں۔
ایاز الدین اشہر: شہر کے ادبی حلقے میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ وہ ایک شاعر اور مضمون نگار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ ’’بزم تحریک شعر و ادب‘‘ اور ’’بزم ارباب سخن‘‘ کے سرپرست بھی ہیں۔ جوان بیٹے کی موت کے غم نے ان کے قلم کو خاموش کر دیا ہے۔ میں دعا گو ہوں کہ وہ جلد ہی اس صدمے سے ابھر آئیں۔
اعجاز پروانہ:
اعجاز پروانہ ناندوروی شہر کے جانے مانے قلم کار ہیں۔ 27 جولائی 1972 میں اکولہ (ننیہال) میں پیدا ہوئے۔ 1977 سے ناندورہ میں مقیم ہیں۔ ابتدا میں اپنے والد کے ڈر سے ایم۔اے۔پروانہ کے فرضی نام سے لکھتے تھے۔ انھوں نے شاعری اور نثر نگاری دونوں میدانوں میں اپنے قلم کا جادو جگایا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا جب اردو ٹائمز ممبئی میں وہ مسلسل شائع ہوتے تھے۔ اس وقت تخلیقات برائے اشاعت ارسال کرنے کے طریقے پرانے تھے۔ کاغذ پر لکھ کر تخلیقات پوسٹ کی جاتی تھیں۔ ابھی تک ان کا ایک بھی مجموعہ شائع نہ ہونے کے باوجود شہر کے نثر نگاروں کی فہرست ان کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ شعراو ادبا کی حیات و خدمات پر ان کے تحریر کردہ تحقیقی مضامین خوب پسندکئے گئے تھے۔ انھوں نے ناندورہ کے پرانے شاعروں پر بھی سلسلہ وار مضامین قلمبند کیے ہیں۔ ان کے علاوہ افسانے اور افسانچے بھی لکھے ہیں۔ 1988 سے ادب کی خدمت کر رہے ہیں، لیکن آجکل ان کا قلم کچھ خاموش نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود انہوں نے اتنا کچھ لکھ لیا ہے کہ دو شعری، ایک ناول، ایک افسانہ اور دو مضامین کے مجموعے شائع ہوسکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ وہ جلد ہی اس جانب توجہ فرمائیں گے۔
سید اسمعیل گوہر:
سید اسمعیل گوہر شہر کے ادبی منظر نامے پر بڑی تیزی سے ابھرنے والے ادیب ہیں۔ 8 فروری 1971 کو ناندورہ میں پیدا ہوئے۔وہ افسانہ نگار، افسانچہ نگار، ناول نگار، مضمون نگار اور شاعر بھی ہیں۔ 1992 میں مضمون ’’اقبال ایک قومی شاعر‘‘ سے لکھنے کی شروعات کی۔ اس کے بعد مسلسل شاعر ی میں طبع آزمائی کرتے رہے۔ لیکن ان دنوں باقاعدگی سے نثر نگاری کر رہے ہیں۔ ان کا افسانہ ’’شکوہ‘‘ روزگار کے سلسلے میں کی گئی ہجرت اور ماضی کی یادوں کو بیان کرتا ہوا یک اچھا افسانہ ہے۔ ان کے افسانچے بھی سماجی برائیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ اِن دنوں وہ ایک ناول بھی لکھ رہے ہیں اور حالاتِ حاضرہ پر لکھے ان کے تجزیاتی مضامین بھی شائع ہو رہے ہیں۔ حالانکہ افسانہ اور افسانچہ نگاری میں انھوں نے ابھی ابھی قدم رکھا ہے۔ لیکن ان کے عزم و حوصلے کو دیکھتے ہوئے، اس میدان میں ان سے کافی امیدیں وابستہ ہیں۔ موصوف بڑے ہی خوش اخلاق و سلیقہ مند شخصیت کے مالک ہیں اور ہر کام بڑے ہی منصوبہ بند طریقے سے کرتے ہیں۔
اشفاق حمید انصاری:
اشفاق حمید انصاری 2017 کے بعد ابھرنے والے قلم کار تھے۔ انھوں نے افسانے اور افسانچے قلمبند کیے تھے۔ جو اودھ نامہ لکھنؤ اور دیگر اخبارات میں شائع ہوئے تھے۔ وہ نثری تنظیم ’’فین‘‘ کے فعال رکن تھے اور ہر پروگرام میں پیش پیش رہتے تھے۔ لیکن زندگی ان کے ساتھ وفا نہ کرسکی۔ 19 اکتوبر 2019 میں سڑک حادثے میں وہ اس دارفانی سے رخصت ہو گئے۔
راحیل ابن انجم:
راحیل ابن انجم نئے قلم کاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ بچپن سے ہی لکھنے پڑھنے کا شوق رکھتے ہیں۔ 2007 سے شاعری کر رہے ہیں۔ کئی مشاعروں میں شرکت کر چکے ہیں۔ ادبی ماحول وراثت میں ملاہے۔ ان کے والد محمد ثقلین انجم اور بڑے بھائی حسنین ساحل بھی شاعر ہیں۔ ان دنوں باقاعدگی سے افسانہ، افسانچہ اور مضمون نگاری کی جانب راغب ہوئے ہیں۔ ابن صفی کو انھوں نے خوب پڑھا ہے اور اسی کا اثر ان کی تحریروں میں نظر آتا ہے۔
٭٭٭