منٹو اپنی کتاب سیاہ حاشیے کے مختصر افسانہ "جوتا" میں رقم طراز ہیں؛
"ہجوم نے رخ بدلا اور سرگنگارام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کیے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کے لیے آگے بڑھا۔ مگر پولیس آگئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہوگیا۔ چنانچہ مرہم پٹی کے لیے اسے سرگنگا رام ہسپتال بھیج دیا گیا"
یہ 1947 کا ایک سچا واقعہ تھا جس کو منٹو نے "جوتا" کے عنوان سے 1948 میں اپنی شائع ہونے والی کتاب میں ایک ڈرامائی شکل دی تھی۔ اس واقعے کے ٹھیک بیالیس سال بعد ایک وحشت زدہ ہجوم اپنے ہاتھوں میں بیلچے، پھاوڑے اور ہتھوڑے لیے "امین پارک" کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس ہجوم کی منزلِ مقصود سرگنگا رام کی سمادھی ہے۔ یہ ہجوم نعرہ تکبیر اللّلہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے سمادھی کے احاطے اور عمارت میں گھس کر ہر شہ کو مسمار کر دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سر گنگا رام کون تھے اور لاہور کے عوام ان سے بار بار ناراض کیوں ہو جاتے ہیں؟
پچھلے ہفتے اپنی کاروباری مصروفیات کے سلسلے میں لاہور جانا ہوا۔ ایک دوپہر لنچ کے بعد ہم پرانے لاہور سے گزر رہے تھے کہ مجھے "امین پارک" کا بورڈ نظر آیا اور اس کے نیچے ایک اور بورڈ آویزاں تھا جس پر "سمادی رائے بہادر سر گنگا رام" لکھا تھا۔ میں نے اپنے میزبان سے کہا کہ ذرا گاڑی روکیے گا، میں اس عظیم انسان کی سمادھی کے درشن کرنا چاہتا ہوں۔ ہم نے اپنی گاڑی مین روڈ پر پارک کر دی اور لاہور کی جھلسا دینے والی گرم دوپہر میں پُرپیچ گلیوں سے ہوتے ہوئے سمادھی کی جانب چل پڑے۔ سمادھی کا صدر دروازہ بند تھا۔ ہم نے ہمت کر کے خود ہی اس کی کنڈی کھول دی۔ جیسے ہی ہم اندر داخل ہوئے تو دو نوجوان سلام کرتے ہوئے ہماری طرف بڑھے۔ ان میں سے ایک نے فوراََ پوچھا سر آپ کیا "محکمہ اوقاف" سے آئے ہیں؟ میں نے اسے جواب دیا کہ نہیں بھئی ہم کسی محکمے سے نہیں آئے بلکہ ہم کراچی سے آئے ہیں۔ احاطے کے اندر دس پندرہ افراد مختلف کاموں میں مصروف تھے۔ کچھ لوگ دیواروں پر رنگ و روغن کر رہے تھے اور کچھ لوگ صفائی ستھرائی میں مگن تھے۔ میں نے اُس نوجوان سے کہا کہ یار یہ ہال تو کھول کر دکھا دو۔ میرے اندازِ گفتگو پر وہ نوجوان مسکرایا اور اُس نے کہا جی ضرور۔ اُس نوجوان نے ہمیں بتایا کہ 1992 میں جب بھارت میں بابری مسجد کو شہید کیا گیا تو اس کے ردعمل میں یہاں اس سمادھی کے مرکزی ہال کو مشتعل ہجوم نے مسمار کر کے ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا تھا۔ اس جگہ پر کچھ سماج دشمن عناصر نے قبضہ کر لیا اور احاطے کے اندر واقع خوبصورت باغ کو پکے فرش میں تبدیل کر کے محلے کے لڑکوں نے نائٹ کرکٹ میچ کا میدان بنا دیا تھا۔ نوازشریف کی پچھلی حکومت میں اس کو بڑی مشکل سے واگزار کروایا گیا، پھر اس نے ہم سے کہا کہ اتفاق سے آپ بڑے اہم دن یہاں پر آئے ہیں کیونکہ کل بروز ہفتہ مورخہ تین جولائی کو وزیرِ اوقاف پنجاب اس کا باقاعدہ افتتاح کرنے آئیں گے۔ مجھے یہ بات سُن کر بیحد خوشی ہوئی کہ آخر کار اہل پنجاب نے کئی دہائیوں کے بعد اپنے ہیرو اور محسن کی لاج رکھ لی۔
گنگا رام نے شہرِ لاہور سے 72 کلو میٹر کی مسافت پر واقع مانگٹ والا گاؤں میں 13 اپریل 1851 کو جنم لیا۔ یہ گاؤں ننکانہ صاحب کی ایک تحصیل ہے۔ ننکانہ صاحب کو سکھ مذہب کا سب سے مقدس مقام قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک کی جائے پیدائش ہے اور اتفاق سے گنگا رام کا یومِ پیدائش سکھوں کے موسمِ بہار کی آمد پر منائے جانے والے تہوار "بیساکھی" کا بھی ہے۔
آپ کے والد دولت رام انسپکٹر کے عہدے پر فائز تھے۔ ہندوستان کی سرزمین ہجرتوں کی سرزمین ہے۔ انسان اور قبیلے مسلسل ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتے رہتے ہیں۔ یہی کچھ دولت رام کے خاندان کے ساتھ بھی ہوا۔ ان کے آباواجداد سکھوں کے دورِ حکومت میں یو پی کے ضلع مظفرنگر سے ہجرت کر کے پنجاب میں آبسے۔ اس بات کا تو پتہ نہیں چلتا کہ دولت رام کے کوئی بزرگ یا خود دولت رام مانگٹ والا میں آکر آباد ہوا لیکن یہ حقیقت ہے کہ دولت رام کی شادی مانگٹ والا میں ہی ہوئی اور پھر یہیں پر گنگا رام کی پیدائش ہوئی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس وقت کے پنجاب کے حالات آج کے کراچی کے حالات سے کافی مماثلت رکھتے تھے۔ دولت رام نے اپنے منصبی فرائض کی انجام دہی کے دوران کچھ ڈاکوؤں کو گرفتار کیا۔ ڈاکوؤں کا سرغنہ گرفتار نہ ہو سکا اور اُس نے دولت رام کو باقاعدہ خط لکھ کر دھمکی دی کہ اگر میرے ساتھیوں کو فوری طور پر رہا نہ کیا گیا تو تمہارے پورے خاندان کو قتل کر دیا جائے گا۔ چنانچہ دولت رام نے اپنے آباؤاجداد کی طرح سابقہ ہجرتوں کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی ملازمت کی پرواہ کیے بغیر امرتسر کی راہ لی۔ خوش قسمتی سے امرتسر پہنچنے کے فوراً بعد انہیں وہاں پر ملازمت مل گئی اور ساتھ ہی ساتھ گنگا رام کی تعلیم و تربیت کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ گنگا رام نے امرتسر سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ دولت رام چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا گنگا رام مزید تعلیم حاصل کرے لیکن امرتسر میں کوئی ایسا انتظام نہ تھا، یہ گنگا رام کی خوش قسمتی تھی کہ کچھ برس پہلے 1864 میں لاہور میں گورنمنٹ کالج قائم ہو کر شہرت کو بلندیوں کو چھو رہا تھا، چنانچہ گنگا رام کو مزید تعلیم کے لیے 1869 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج بھیج دیا گیا۔ یہاں سے انہوں نے سن 1871 میں امتیازی نمبروں کے ساتھ انٹرمیڈیٹ مکمل کیا اور پھر انہیں سن 1847 سے قائم ہندوستان کے پہلے اور سب سے اعلیٰ انجینئرنگ کالج تھامپسن انجینئرنگ کالج جو کہ یوپی کے شہر رڑکی میں واقع تھا میں معقول وظیفے کے ساتھ داخلہ مل گیا۔ گنگا رام کی غیرمعمولی ذہنی صلاحیتوں نے کالج کے تمام اساتذہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا حتٰی کہ کالج کے پرنسپل بھی اُن کی ذہانت کے قائل ہو گئے اور اسی قابلیت کی بنیاد پر انہوں نے 1873 میں انجینئرنگ کے فائنل امتحان میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔ اسی برس آپ کو لاہور میں اسسٹنٹ انجنیئر کی نوکری کی پیش کش ہوئی جو کہ آپ نے قبول کر لی۔ اس طرح لاہور سے گنگا رام کی کامیابیوں و کامرانیوں کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا۔ اپنی اس ملازمت کے دوران وہ پنجاب کے مختلف شہروں میں بسلسلہ ملازمت قیام پذیر رہے جن میں لاہور کے علاوہ امرتسر، گورداس پور اور ڈیرہ غازی خان کے شہر نمایاں ہیں۔
ڈیرہ غازی خان کے قیام کے دوران ان کی زندگی میں ایک اور اہم موڑ آیا۔ یہاں ان کی ملاقات سر رابرٹ سینڈمین سے ہوئی جو اُس وقت وہاں ڈپٹی کمشنر کے عہدے پر تعینات تھے۔ یاد رہے کہ یہ وہی سر رابرٹ سینڈمین ہیں جنہوں نے 1867 میں بلوچستان کے علاقے ژوب میں ایک گیریژن قائم کیا جس میں ایک قلعہ بھی تعمیر کیا گیا تھا، جو فورٹ سینڈمین کے نام سے مشہور ہے۔ یہ قلعہ اس وقت محکمہ آثارِ قدیمہ کی تحویل میں ہے۔ سر رابرٹ سینڈمین نے گنگا رام کی قابلیت سے متاثر ہو کر انہیں انجنیئرنگ کے علاوہ دوسرے شعبوں میں بھی کام کرنے کے لیے مشورہ دیا اور گنگا رام کو واٹر ورکس اور ڈرینج کے شعبے میں اعلیٰ تربیت حاصل کرنے کے لیے انگلستان بھیجنے کی پیشکش کر دی۔ جو انہوں نے بصدخوشی قبول کر لی اور عازمِ انگلستان ہوئے۔
انگلستان سے واپسی پر حکومتِ ہند نے گنگا رام کو پشاور میں پانی کی فراہمی و نکاسی کے اہم منصوبوں کی ذمہ داری سونپی اور پھر انہیں گوجرانوالہ، انبالہ اور کرنال میں بھی ایسے ہی منصوبوں کی ذمہ داریاں دی گئیں۔ اُس وقت کی حکومتی سرپرستی کی وجہ سے سر گنگا رام نے لاہور کو جدید نوآبادیاتی فنِ تعمیر سے متعارف کروایا۔ آپ بارہ سال تک لاہور کے ایگزیکٹو انجینئر بھی رہے۔ اس دوران کئی شاہکار عمارتوں کے ڈیزائن آپ کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچے، جن میں لاہور میوزیم، لاہور ہائیکورٹ، کیتھڈرل اسکول، ایچی سن کالج، گورنمنٹ کالج لاہور، میکلیگن ہائی اسکول، میو اسکول آف آرٹس موجودہ این سی اے کالج، مال روڈ پر واقع جنرل پوسٹ آفس لاہور کی عمارت، گورنمنٹ کالج کی کیمیکل لیبارٹری اور البرٹ وکٹر ونگ لاہور کا میو ہسپتال بھی شامل ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مال روڈ کو درختوں کی ٹھنڈک سے آشنا کیا۔ آج بھی پرانے لاہوری مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کے نام سے پکارتے ہیں۔ ان عمارتوں کی ڈیزائننگ کے علاوہ آپ نے پنجاب بھر میں سیرابی کے بہت سے منصوبے تیار کیے جن کی بدولت ہزاروں ایکڑ پر پھیلی ہوئی خشک زمین سرسبز و شاداب ہو گئی۔ انہوں نے نہر کے پانی کو بلندی تک لے جانے کے لیے پہلی مرتبہ بجلی سے چلنے والی موٹریں بھی استعمال کیں جس کی وجہ سے تقریباً 90 ہزار ایکڑ بنجر زمین آباد ہو گئی۔ ایک اندازے کے مطابق یہ اُس وقت برطانوی ہند کی سب سے بڑی زرعی اراضی تھی۔ برطانوی ہند نے آپ کی خدمات کو سراہتے ہوئے "رائے بہادر" کے خطاب سے بھی نوازا۔
1903 میں آپ نے سرکاری نوکری سے علیحدگی اختیار کر کے کچھ سال حکومتِ پٹیالہ کی ملازمت میں وقت گزارا۔ اس ملازمت کے دوران آپ کی زیرِ نگرانی کئی فلاحی منصوبے بھی پایہ تکمیل کو پہنچے۔ عوامی فلاح کے کاموں میں آپ کی لگن اتنی بڑھ چکی تھی کہ آپ نے حکومتِ پٹیالہ کی ملازمت سے سبکدوشی اختیار کر کے اپنے آپ کو مکمل طور پر فلاحی کاموں کے لیے وقف کر دیا۔ پٹیالہ سے واپس لاہور آکر آپ نے عوامی فلاح کے کئی آزادانہ منصوبوں پر کام کیا۔ ان فلاحی منصوبوں میں آپ کا بیٹا سیوک رام بھی آپ کے شانہ بشانہ رہا۔
1880 میں گنگا رام نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے کارنامے کا آغاز کیا۔ انہوں نے جڑانوالہ کے نواحی علاقے میں اپنی زرعی جاگیر کو آباد کرنا شروع کیا اور اس کا نام "گنگا پور" رکھا۔ یہاں پر آج بھی ایک "گھوڑا ٹرین" تاریخی ورثے کے طور پر موجود ہے۔ یہ گھوڑا ٹرین 115 سال قبل گنگاپور سے بچیانہ کی جانب چلتی تھی۔ گھوڑا ٹرین سرگنگا رام کا حیران کن اور انتہائی منفرد کارنامہ تھا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ سن 1898ء میں انہوں نے محسوس کیا کہ گنگا پور میں پانی کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اُس زمانے کی جدید مشینری کا سہارا لینا پڑے گا چنانچہ انہوں نے انگلستان سے ایک جدید موٹر منگوائی جو بہت وزنی تھی۔ اسے مقامی ریلوے اسٹیشن سے گنگا پور تک لے کر جانا بہت مشکل تھا۔ یہ موٹر انہوں نے گنگا پور سے تین میل کے فاصلے پر واقع بچیانہ ریلوے سٹیشن تک مال گاڑی کے ذریعے منگوائی اور پھر اسے گنگا پور تک پہنچانے کے لیے خصوصی طور پر تین میل کا اضافی ریلوے ٹریک بنوایا۔ اس ٹریک پر ریل کے پہیوں والی ایک لکڑی کی ٹرالی بھی بنوائی گئی جسے "گھوڑا" کھینچتا تھا۔ موٹر کو گنگا پور تک لے جانے کے بعد وہ گھوڑا ٹرین گنگاپور کے باشندوں کوبچیانہ ریلوے اسٹیشن تک لانے اور لے جانے کے لیے استعمال ہونے لگی۔ مقامی باشندوں کے لیے یہ سواری انتہائی کارآمد ثابت ہوئی تھی۔ گھوڑے کے ذریعے لوہے کی پٹڑی پر چلنے والی اپنے وقت کی اس انوکھی ٹرین کو مقامی لوگ بچیانہ منڈی سے تقریباً دو کلو میٹر سفر طے کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ 1898 میں گنگاپور آنے والی پانی کی وہ موٹر اور گھوڑا ٹرین سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہوا۔ موٹر گاؤں پہنچ گئی اور پٹڑی پہ گھوڑا ٹرین سے کمرشل بنیادوں پر لوگ اپنے گاؤں سے اسٹیشن تک آتے جاتے رہے۔ لگ بھگ ایک صدی تک تواتر سے چلنے والی یہ اچھوتی تخلیق زوال کا شکار ہو کر اب بند ہو چُکی ہے۔ اس وقت گنگاپور گاؤں کی آبادی بیس ہزار سے زائد ہے۔
سرگنگا رام کا ایک اور عظیم کارنامہ برصغیر میں ہائڈرو پاور سے چلنے والا بجلی کا پہلا پلانٹ بھی تعمیر کرنا تھا۔ یہ پاور پلانٹ رینالہ خورد صوبہ پنجاب کے شمال مشرق میں ضلع اوکاڑہ کی ایک تحصیل میں تعمیر کیا گیا۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے، جہاں پر ریلوے لائن کے ساتھ ساتھ ان دنوں Mitchels کے باغات بھی ہیں۔ یہیں پر ایک Hydro Power Station بھی ہے جو رینالہ کے ہی نام سے مشہور ہے۔ یہ نہر لوئر باری دوآب پر واقع ہے۔ اس کی گنجائش ایک میگا واٹ ہے۔ اس تاریخی کام کو سرانجام دینے کا سہرا بھی سرگنگا رام کو جاتا ہے۔ انہوں نے رینالہ ہائیڈرل پاور اسٹیشن کا آغاز سن 1920 میں کیا اور پھر ریکارڈ مدت میں پورے پانچ سال کے بعد 1925ء میں اس پلانٹ نے بجلی کی پیداوار شروع کر دی اور اس پاور اسٹیشن کے جمع شدہ پانی کی وجہ سے ارد گرد کی زمینیں سیراب ہونے لگیں اور ملحقہ آبادی کو استعمال کے لیے میٹھا پانی بھی وافر مقدار میں دستیاب ہو گیا۔
بی پی ایل بیدی کی تحریر کردہ کتاب
Harvest from the desert: The Life and work of Sir Ganga Ram"
کو سن 1940 میں سرگنگا رام ٹرسٹ سوسائٹی لاہور نے شائع کیا تھا۔ یہ کتاب انگریزی زبان میں تھی جس کا اردو ترجمہ پاکستان کے ایک مشہور اشاعتی ادارے "فکشن ہاؤس، لاہور" نے 2015 میں "صحرا کی فصل۔۔۔ سرگنگا رام" کے عنوان سے کیا۔ اس کتاب میں سرگنگا رام کی زندگی اور دکھی انسانیت کے لیے اُن کی بےلوث خدمات کو نہایت ہی تفصیل کے ساتھ رقم کیا گیا ہے۔ بنیادی طور پر یہ کتاب سرگنگا رام کی شخصیت کو جاننے کے لیے ایک اہم ماخذ ہے۔ اس کتاب کے مطابق؛
"کامیاب تاجر کی حیثیت سے گنگا رام نے محسوس کیا کہ وہ بہت کچھ کما رہے ہیں، انہیں دوسروں کی بھلائی کے لیے کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ انہوں نے 1923 میں اپنے نام سے ایک ٹرسٹ قائم کیا جس کا پورا نام سر گنگا رام ٹرسٹ رکھا گیا۔ جسے چلانے اور، کنٹرول کرنے کے لیے انہوں نے بڑی رقوم عطیہ کیں۔ انہوں نے اپنی زندگی میں متعدد عالی شان عمارتیں اور دیگر جائیداد ٹرسٹ کے حوالے کیں اور تیس لاکھ روپے کے سرمائے سے سوا لاکھ روپے آمدنی ہوتی رہی۔ ان کی موت کے بعد ٹرسٹیز سالانہ بنیادوں پر چیئرمین اور اعزازی سیکرٹری کا انتخاب کرتے رہے"
سرگنگا رام نے صحت کی سہولیات کو غریب عوام تک پہنچانے کے لیے بھی شاندار کارنامے سرانجام دیے۔ انہوں نے 1921 میں سرگنگا رام چیئریٹی ڈسپنسری کی عمارت تعمیر کروائی۔ یہ ڈسپنسری ضرورت مند افراد کو بلاامتیاز طبّی امداد فراہم کرنے میں ہمہ وقت کوشاں رہتی تھی۔ جلد ہی اس ڈسپنسری کو ہسپتال کا درجہ دے دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ اُس زمانے میں یہ پنجاب کا سب سے بڑا خیراتی ہسپتال تھا جس میں جدید آلات سے لیس کلینکل لیبارٹری، ایکس ریز، ڈینٹل اور الگ سے خواتین کا شعبہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ موجودہ دور میں بھی اس ہسپتال کی خدمات کو کسی صورت نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان دنوں یہ "میو ہسپتال لاہور" کے بعد شہر کا دوسرا بڑا ہسپتال ہے۔
سرگنگا رام نے ہندو و سکھ خواتین کو ہنرمند بنانے کے لیے ٹیکنیکل اسکول بھی قائم کیا تھا اس کے علاوہ نوجوانوں کے لیے بزنس بیورو اور لائبریری کے قیام کا منصوبہ بھی ان کے سبب پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔
سن 1925 میں گنگا رام "امپیریل بینک آف انڈیا" کے گورنر کے عہدے پر فائز کیے گئے۔ گورنر کے عہدے پر فائز ہونے کی وجہ سے انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ آنے والا زمانہ کامرس اور بینکنگ کا ہو گا۔ اسی لیے انہوں نے "ہیلے کالج آف کامرس" کا پلان تشکیل دیا۔ اُس زمانے میں لاہور میں کامرس کی تعلیم کے فروغ کے لیے یہ ایک اہم منصوبہ تھا جسے حکومت کی بھی حمایت حاصل تھی۔ خوش قسمتی سے حکومت کو آپ کا منصوبہ پسند تو آیا، مگر کالج کی عمارت کے لیے جگہ درکار تھی جو شہر میں موجود نہیں تھی۔ سر گنگا رام نے اپنی سترہ کنال کی کوٹھی اس عظیم مقصد کے لیے حکومت کو عطیہ کر دی۔ آج بھی "ہیلے کالج آف کامرس" سر گنگا رام کی اُس تاریخی کوٹھی میں ہی قائم ہے جو انہوں نے حکومتِ وقت کو عطیہ کی تھی۔ سر گنگا رام کی کوٹھی کی وہ خواب گاہ اب پرنسپل کے دفتر کا روپ دھار چکی ہے اور کوٹھی کے وسیع و عریض کمرے کالج کے کلاس رومز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ اس کوٹھی میں گھوڑوں کے لیے بنائے جانے والے اصطبل آج بھی موجود ہیں۔ تقسیم سے قبل "ہیلے کالج" کے ہاسٹل کے ایک کمرے میں بھارت کے وزیر اعظم آئی کے گجرال بھی رہ چکے ہیں۔ وہ جب پاکستان کے دورے پر آئے تھے تو خصوصی طور پر انہوں نے اس ہاسٹل کا دورہ کیا اور اُن سہانے دنوں کو بہت ہی جذباتی انداز میں یاد کیا جب وہ یہاں پر ایک طالبعلم کی حیثیت سے رہتے تھے۔
"ہیلے کالج آف کامرس" کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لاہور کے اہم کالجز میں شمار کیا جاتا ہے۔ گنگا رام کے اس کالج سے اب تک لاکھوں طالبعلم فیض یاب ہو چکے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
سرگنگا رام تعلیم یافتہ بیروزگار افراد کے لیے فکرمند تو تھے ہی لیکن اس کے ساتھ ہی یہ اُن لوگوں کے لیے بھی اپنے دل میں ہمدردی کا جذبہ رکھتے تھے جو معاشی طور پر تنگ دست تھے۔ اسی لیے انہوں نے دل کھول کر تعلیمی اداروں کی امداد کی اور نئے نئے تعلیمی ادارے بنانے میں دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ نوجوانوں کو ہنرمند اور تعلیم یافتہ بنانے کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ بات بہت دکھی کرتی تھی کہ یہاں پر بہت سے افراد تعلیم حاصل کرنے کے باوجود محض مواقعے نہ ہونے کے سبب بےروزگار ہیں۔ پنڈت ملاویہ کے مطابق؛
"ہندوستان میں بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جن کا دل تعلیم یافتہ بےروزگار نوجوانوں کے غم میں خون کے آنسو روتا ہو گا۔ گنگا رام انہی میں سے ایک ہیں"
اپریل 1927 میں گنگا رام نے معذور افراد کی فلاح و بہبود کے لیے "ہندو اپاہج آشرم" کے نام سے ایک آشرم بھی قائم کیا تھا۔ یہاں پر آنے والے افراد کو آشرم کی طرف سے مفت رہائش، خوارک اور کپڑے بھی فراہم کیے جاتے تھے۔ اس آشرم میں "گنگا رام ہسپتال" کے ڈاکٹر خصوصی طور پر بیمار افراد کے علاج معالجے کے لیے باقاعدہ دورہ کیا کرتے تھے۔ تقسیم ہند کے فوراً بعد یہ آشرم 1947 میں بند کر دیا گیا اور پھر اس کی عمارت ہندوستان سے ہجرت کرنے والے ایک خاندان کو الاٹ کر دی گئی۔ یہاں پر اب "دربارِ وارث" قائم ہے۔
ایک اندازے کے مطابق انہوں نے تین ملین روپے سے زائد کی رقم عوامی فلاح و بہبود کے کاموں پر خرچ کی۔
1925 میں ماڈل ٹاؤن لاہور کی رہائشی اسکیم کے سلسلے میں انہوں نے دیوان کھیم چند کی معاونت بھی کی تھی۔ ماڈل ٹاؤن کو اس وقت بھی لاہور کی بہترین رہائشی کالونیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
شہرِ لاہور کی سرکاری عمارات کے علاوہ بھی بیشتر فلاحی عمارات سرگنگا رام کی مرہونِ منت ہیں۔ جن میں دیال سنگھ مینشن، گنگا رام ٹرسٹ بلڈنگ، لیڈی مینارڈ سکول آف انڈسٹریل ٹریننگ، راوی روڈ کا ودیا آشرم اورچند دیگر عمارتیں بھی شامل ہیں۔
گنگا رام نے معاشرے کو ترقی یافتہ بنانے کے لیے انتھک جدوجہد کی۔ اگر ہم ان کے کام کا جائزہ لیں تو ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان کے نزدیک ترقی کا مفہوم محض شاندار اور وسیع و عریض عمارتوں کی تعمیر نہ تھا بلکہ عمارتوں کے ساتھ ساتھ آپ انسانوں کی ترقی کے بھی علمبردار تھے۔ اپنے اردگرد بسنے والے لاکھوں انسانوں کو آپ نے فکری و معاشی طور پر مستحکم کر کے اُن فرسودہ روایات کا خاتمہ کیا جو صدیوں سے مذہب اور رسم و رواج کے نام پر غیرانسانی اور غیراخلاقی تھیں۔ ان رسموں کی وجہ سے ہندوستان کی عورتوں کو اپنے شوہروں کی موت کے بعد ایسی زندگی گزارنا پڑتی تھی جو بیحد تکلیف دہ تھی۔ انہیں بیوہ ہو جانے کے بعد معاشرے سے کٹ کر رہنے پر مجبور کیا جاتا تھا، بیواؤں کے لیے دوسری شادی کی ممانعت تھی۔ غرض شوہر کی موت کے بعد ان کے لیے خوشیوں کے دروازے بند کر دیے جاتے تھے۔ سرگنگا رام نے ان رسومات کی مخالفت کر کے بیواؤں کی زندگیوں میں خوشیوں کی رمق پیدا کی اور عملی اقدامات کے ذریعے بیواؤں کو معاشرے سے جوڑنے کے لیے ان کی دوسری شادی کے انتظامات کیے۔ مثال کے طور پر بیواؤں کی دوسری شادی اور جو بیوائیں زیادہ عمر ہو جانے کی وجہ سے یا پھر راسخ العقیدہ مذہبی تعلیمات کی بنا پر شادی نہیں کر سکتی تھیں تو ان کے لیے روزگار کے مواقعے بھی گنگا رام نے فراہم کیے تھے۔ معاشرے کی ان بےسہارا اور مجبور خواتین کے لیے سر گنگا رام نے امیدوں کے دیپ روشن کیے۔ خواتین کے لیے گنگا رام کی خدمات کے حوالے سے خواجہ حسن نظامی انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"کیا یہ ممکن ہے کہ ایک آدمی اپنی زندگی کسی دوسرے کو دے دے۔ اگر ایسا ہوتا تو میں پہلا شخص ہوتا جو اپنی زندگی کے قیمتی سال سرگنگا رام کو دیتا تا کہ وہ طویل عمر تک زندہ رہتے اور بھارت کی مجبور خواتین کی فلاح کے لیے خدمات انجام دیتے رہتے۔ ہر شخص کو ایک نہ ایک دن جان دینی ہے۔ اگر چہ ایک انسان کی زندگی ختم ہو جاتی ہے لیکن اس کے کام زندہ رہتے ہیں"
گنگارام کی شخصیت کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ وہ اپنے ملازموں کے ساتھ نہایت ہی شفقت سے پیش آتے تھے۔ ان کی تین مربع ذاتی اراضی آمدنی خصوصی طور پر گھر کے ملازمین میں تقسیم کی جاتی تھی۔ آپ اپنی کمائی کو "ماں کا دودھ" کہتے تھے۔ ضرورت مندوں کی مالی لحاظ سے مدد کر کے آپ کو دلی سکون ملتا تھا۔
بی پی ایل بیدی لکھتے ہیں کہ؛
"ان کی خاموش خدمت کی کوئی انتہا نہیں تھی۔ جو کوئی بھی ان کے دروازے پر جاتا، کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹتا۔ مہنگائی اور اشیائے ضروریہ کی قلت اور خصوصاً گندم کی مہنگی قیمتوں کے دنوں میں انہوں نے ریلیف شاپس کھولیں۔ اپنی خدمات کے اوائل میں انہوں نے غریبوں میں گرم کپڑے اور کمبل تقسیم کیے"
زندگی بھر دکھی انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ آپ نے سرکاری محکموں کے لیے بھی جانفشانی سے کام کیا، اسی لیے آپ کو سرکار کی طرف سے "سر" کے خطاب سے بھی نوازا گیا۔ امپیریل بینک آف انڈیا کے گورنر کی حیثیت سے گنگا رام کے کام کا ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں، اس کے علاوہ آپ کو بطور "زرعی سائنس دان" رائل ایگریکلچرل کمیشن کی رکنیت کا سب سے بڑا اعزاز بھی تفویض کیا گیا۔
سرگنگا رام نے اپنی زندگی کی آخری سانس تک محنت سے کام کیا۔ دن رات کام کرتے رہنے کی وجہ سے آپ کی صحت برابر متاثر ہو رہی تھی۔ اپنے انتقال سے قبل آپ لندن میں رائل کمیشن کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ اس دوران آپ نے مطالعے کی عادت کو بھی ترک نہیں کیا اور رائل کمیشن کے طویل اجلاسوں میں بھی شرکت کرتے رہے۔ آخرکار 10 جولائی 1927 کو آپ لندن میں اپنی رہائش گاہ پر انتقال کر گئے۔ لاہور میں ان کی موت کی خبر بذریعہ "تار" پہنچی اور ٹھیک دو دن بعد مورخہ 12 جولائی کو گنگا نواس لاہور میں آپ کی "کریا" کی رسم ادا کی گئی۔
بی پی ایل بیدی کے مطابق؛
"رسمِ کریا کے موقع پر ان کے دوسرے بیٹے لالہ بلک رام نے غرباء میں سات ہزار روپے کے کپڑے اور نقدی خیرات کی۔ رائے بہادر لالہ سیوک رام باپ کی راکھ لے کر سیدھے ہردوار گئے جہاں ان کی راکھ کو مقدس دریائے گنگا میں بہانے کی رسومات ادا کی گئیں۔ جس میں دس ہزار افراد نے شرکت کی۔ تقریب میں بیواؤں، طلبا اور غریب شہریوں کی بڑی تعداد دھان ویر کی جے، غریبوں کے ولی کی جے، ودھواؤں کے سہارے کی جے اور پنجابی حاتم تاجی کی جے کے نعرے لگاتے رہے۔ اُن کی آنکھیں آنسو برسا رہی تھیں"
سرگنگا رام کی وصیت کے مطابق ان کی راکھ کا کچھ حصہ لاہور میں اپاہج آشرم کے قریب واقع مقبرہ/سمادھی میں رکھ دیا گیا۔ اس دن گنگا پور گاؤں کے رہائشی راکھ کے آخری درشن کرنے کے لیے خصوصی طور پر لاہور آئے تھے۔ ٹاؤن ہال گارڈن جہاں پر یہ تقریب ہو رہی تھی لوگوں سے بھر گیا تھا۔ "ڈولا کا جلوس" ہزاروں افراد پر مشتمل تھا جس کی نگہبانی کے لیے گھڑ سوار دستے بھی موجود تھے۔ عقیدت مندوں کا یہ جلوس جب انار کلی سے ہوتا ہوا لاہوری دروازے سے گزرا تو گلیاں لوگوں کی بھیڑ سے بھر چکی تھیں۔ دکانداروں نے اپنے کاروبار بند کر دیے اور جلوس کے شرکاء میں مفت دودھ تقسیم کیا گیا۔ گھروں کی بالکونیوں میں کھڑی ہوئی خواتین "ڈولے/جنازے" پر پھول برساتی رہیں۔ دوپہر کے وقت ڈولے/جنازے کا وہ جلوس راوی روڈ پر موجود گنگا رام کی سمادھی کے لیے مختص کی گئی جگہ پر پہنچا اور اسی مقام پر آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد "راکھ" کو ماربل کے مقبرے/سمادھی میں دفن کر دیا گیا۔ پاکستان بننے سے قبل تک گنگا رام کی سمادھی پر اُن کے جنم دن کے موقع پر باقاعدگی سے ہر سال میلہ لگا کرتا تھا لیکن پھر تقسیمِ ہند کے بعد ہونے والے خونی فسادات کی وجہ سے یہ روایت ختم ہو گئی۔ ہم نے لاہور کے محسن کو کئی دہائیوں تک بھلائے رکھا، حتیٰ کے ان کی سمادھی بھی مسمار کر دی گئی۔ یہ عجیب اتفاق ہے کہ سرگنگا رام کو ہندو ہونے کی بنا پر ہم نے ہندوستان کے کھاتے میں ڈال دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ موجودہ بھارت میں بھی وہ ایک غیرمعروف شخصیت ہیں کیونکہ ان کے تمام کارہائے نمایاں سے مغربی پنجاب ہی فیض یاب ہوا جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ افسوس کہ پاکستان والے انہیں مانتے نہیں اور بھارت والے انہیں جانتے نہیں!!
“