" انسان نے دُنیا کے ان گنت حقائق گویا لفظوں کو کوزوں میں بند کرکے ماضی کو حال اور حال کو مستقبل سے یوں جوڑ دیا ہے کہ تادم قیامت لفظوں سے ان کی تاثیر کوئی چھین نہیں سکتا۔
سارے کا سارا انسانی و الہامی علم انہی لفظوں میں ہی تو محدود و محصور ہے ۔
سچ ہے اس کی نعمتوں کے شمار سے اس بے نیاز کی تمام مخلوق عاجز و ناتواں ہے ۔
مقام افسوس ہے کہ یہ خاک کا پتلا جس کی اپنی حیثیت اس جہان رنگ وبو میں ایک ذر ے اور پانی کے بلبلے سے زیادہ نہیں ،اپنے خالق کی نعمتوں کا انکار کرتا پھرتا ہے ۔
مجھے اپنے کریم رب کا ان گنت شکر ادا کرنا ہے جس نے مجھے لفظوں سے محبت کرنا اور برتنا سیکھایا ۔
شب قدر کو مانگی گئی میری دُعا اُس نے قبول فرمائی اور میری پہلی کہانی کو انعام سے نوازا "
درج بالا اقتباس صفدر علی حیدری کی کتاب ”شہر خواب “کے پیش لفظ سے لیا گیا ہے ۔
یقینا آپ صفدر علی حیدری کو جانتے ہوں گے لیکن میں اسے پہچانتا بھی ہوں ۔
دراز قدکا یہ شخص اپنے اندر لفظوں کا جہان رکھتا ہے جن کا اظہار بھی کرتا رہتا ہے ۔مجھے وہ وقت یاد ہے جب صفدر علی حیدری روزنامہ خبریں میں ہفتہ وار کالم لکھا کرتا تھا ۔
ہماری ہر کالم سے پہلے گھنٹوں باتیں ہوتی تھیں اور پھر اگلے دن کالم اخبار کی زنیت بنا ہوتا تھا ۔
”صفدر علی حیدری “قدرے باتونی شخص ہے لیکن سچا کھرا ہے ۔
زمانہ اسے مات دینا چاہتا ہے لیکن یہ ہمت والا شخص ہمت سے آگے ہی آگے بڑھتا جاتا ہے ۔صفدر علی حیدری نے زمانے کے تھپڑے کھائے ہیں ، اپنوں کے ستم اٹھائے ہیں لیکن رویا نہیں ،چیخا نہیں ،چپ چاپ سہتا رہا ہے اور سہہ بھی رہا ہے ۔
میں آج بھی انہی لمحوں میں کھویا رہتا ہوں جب صفدر علی حیدری سے گھنٹوں باتیں ہوتی تھیں ۔
آپ کا ایک زبردست جملہ آج بھی کانوں میں رس گھولتا رہتا ہے ۔
”جب بھی آپ پریشان ہوں تو لکھنا بیٹھ جایا کرو “
" کیا لکھوں بھائی ۔؟
" میرے بھائی !وہی پریشانی لکھنے بیٹھ جاﺅ "
" پھر کیا ہوگا ۔؟آپ کی پریشانی ختم ہو جائے گی "
میں آج بھی اس جملے پر عمل پیرا ہوں ۔زیست نے کیا کچھ نہیں دِکھایا لیکن اس جملے کی بدولت سبھی دریا عبور کرتا جاتا ہوں اور صفدر علی حیدری کو دُعائیں دیتا ہوں ۔
”شہر خواب “صفدر علی حیدری کے کالموں کا مجموعہ ہے ۔
یہ مجموعہ ایک سانحہ کے بعد ہی منظر عام پر آیا ہے جسے صفدر علی حیدری نے مخفی رکھا ہے ۔
ایک وقت ایسا بھی آیا کہ صفدر علی حیدری منظر سے غائب ہو گیا ۔
رابطے ختم ہو گئے ۔
القصہ کوئی خبر نہ رہی ۔
کم وبیش چار پانچ سال کا عرصہ اسی بے تابی و بے قرار ی میں بسر ہوا ۔
صفدر علی حیدری گم نامی کی دُنیا کا باسی ہو گیا تھا اور میری ساتھ زندگی بھی کھلواڑ کرتی رہی ۔
خیر کیا رونا روﺅں زیست کا ۔
دبستان کے دبستان دِل میں لکھے ہیں ۔
گم نامی کے بعد صفدر علی حیدری پھر رابطے میں آیا لیکن روزنامہ خبریں کا صفحہ بے وفا ہو گیا۔
اب میں اُسی جملے پر صفدر علی حیدری کو راضی کرنے لگا ۔
ان کالموں کو یکجا کرنے کا مشورہ بھی دیا اور صفدر علی حیدری ”شہر ِخواب “ کے صورت منظر عام پر آگیا ہے ۔
اس کتاب کے پیش لفظ میں اپنی مختصر آپ بیتی بیان کی گئی ہے لیکن بہت کچھ مخفی رکھ گیا کہ پھر سے تماشہ تو نہیں بن سکتا۔حیدری آج بھی تلخ زندگی جی رہا ہے ۔
مجھے افسوس ہے اس کے لیے میں کچھ بھی نہیں کر سکا ۔
میں کیا کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا ۔
جب پہلو میں بیٹھنے والے دوست ہی سانپ بن جائیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے ۔
زیست کو چھوڑیے ”شہر ِخواب “ کی باتیں کرتے ہیں ۔
”شہر ِخواب“ کالموں کا مجموعہ ہے جو 208 صفحات پر مشتمل ہے ۔
فروری 2020ءالکتاب گرافکس ملتان نے خاص اہتمام کے ساتھ شائع کیا ہے ۔
اس کی قیمت 350 روپے ہے ۔
انتساب” نانا ابا اور نانی اماں کے نام جن کی محبت میرا سرمایہ اور جن کی یادیں میرا اثاثہ ہیں ۔
یوں یہ انتساب بھی کمال کا ہے اس سے پہلے ایسی کوئی کتاب نظر نہیں آئی جس میں انتساب نانا ابا اور نانی اماں کے نام کیا ہو۔
”شہر خواب “ پرفضل عباس ظفر ،حسیب اعجاز عاشر ،کائنات اقبال ، ریاض حسین شاہد، عامر شہزاد صدیقی ، ڈاکٹر شگفتہ نقوی ، سجاد جہانیہ اور ڈاکٹر اظہر وحید صاحب نے اظہار رائے دی ہے ۔
کتاب کے ص 93سے 100صفحے تک مختصر کہانیاں بھی ہیں ۔
”شہر ِخواب“کے کالم سماجیات،تصوف اور دین ِبرحق تک کے تمام موضوعات لیے ہوئے ہے ۔سجاد جہانیہ لکھتے ہیں ”صفدر علی حیدری لکھتے وقت ملی ،سماجی ،اخلاقی ،قومی اور دینی ذمہ داریوں کا بھر پور احساس اور پاس رکھتا ہے ۔ان کی تحریریں اُن کی شخصیت کا آئینہ ہیں ۔ایک محب وطن اور دردِدل رکھنے والے مسلمان ہیں ۔میں صفدر علی حیدری کا مستقبل روشن دیکھ رہا ہوں ۔“
”شہر ِخواب “کے باسی نے اپنے اندر کے شاعر کو موت کی نیند سُلا دیا ہے ۔خود کالم نگار بن بیٹھا ہے اور کالموں میں شاعرانہ انداز لیے ہوئے ہے ۔ہر جملے کے پیچھے ایک شاعرچھپا بیٹھا نظر آتا ہے ۔اپنے کالموں کے درمیان میں نہیں تو آخر میں ضرور ایک شعر کا انتخاب کرتا ہے ۔”شہر ِخواب“43کالموں کا مجموعہ ہے ۔یہ صرف کالم ہی نہیں ہمارے معاشرے کا نوحہ بھی ہیں ۔ناانصافیوں کے خلاف چیخ وپکار کرتے ہیں ۔معاشرے کے ناسوروں کے خلاف آواز ِحق بلند کرتے ہیں ۔میرے پاس وہ الفاظ نہیں جو ان کالموں پر لکھ سکوں ۔آپ ان کا مطالعہ کرکے اندازہ کر سکتے ہیں ۔
”صفدر علی حیدری “کالم نگار ہی نہیں بہترین افسانہ نگار بھی ہے ۔کسی زمانے میں بچوں کے لیے لکھا کرتے تھے لیکن اب اس کے افسانے مختلف رسائل وجرائد میں شائع ہو کر پسندیدگی کی سند اور انعام پا چکے ہیں ۔”شہر ِخواب “صفدر علی حیدری کی پہلی کاوش ہے اور بہت جلد افسانوں پر مشتمل کتاب بھی منظر عام پر آنے والی ہے ۔میں صفدر علی حیدری کا پورے دل سے شکرگزار ہوں کے انہوں نے 12مارچ 2020ءکو ”شہر ِخواب“ارسال کرکے ناقدانہ تبصرے کا حکم بھی جاری کیا ۔میری نااہلی سمجھ لیجئے کے زندگی کے گرداب میں ایسے پھنسا کے تبصرہ لیٹ ہو تا چلا گیا ۔پھر ایک بیماری یہ بھی لاحق ہے کے کتاب لفظ بہ لفظ نہ پڑھ لوںتو قلم جائز ہ پیش نہیں کر تا۔سو معذرت کے ساتھ فرض ادا ہوا ،گر قبول ہو ۔اللہ تعالیٰ صفدر علی حیدری کو زندگی اور ادبی سفر میں کامیابیوں اور کامرانیوں سے سر فراز فرمائے آمین !۔