ابھی رات نہیں ہوئی لیکن شب کا گماں ہونے لگا ہے۔ صدیوں پرانا شہر دریا کے شرقی کنارے پر اپنے تاریخ و تمدن کی داستانیں اپنے سینے میں سموئے وقت کے گھومتے پہیے کو دلچسپی سے دیکھ رہا ہے۔ شہر اور دریا کے بیچ دریا کا میلوں چوڑا دلدلی پاٹ انسان دشمن مخلوقات سے لبریز ہونے کے ناطے شہر اور دریا کے میٹھے پانیوں میں ایک ناقابلِ گزر رکاوٹ کے روپ میں حائل ہے۔ اس کچے کے علاقے میں کُوندر اور کانوں کے علاوہ بے شمار فصلیں، درخت اور پودے مختلف موسموں میں مختلف رنگ بکھیرتے رہتے ہیں۔اس علاقے کی زرخیزی شہر کے ان لوگوں کے لیے کشش کی باعث ہے جو بے گھر بھی ہیں اور دلیر اور محنت کش بھی۔ یہی وجہ ہے کہ اب اِدھر اُدھر جا بجا آپ کو کوٹھے کچیرے نظر آجاتے ہیں۔
شہر کے طرف رُخ کریں تو کچے کے علاقے اور شہر کے بیچ ایک قدیم قبرستان موجود ہے۔ یہ پرانا قبرستان بوسیدہ اور پرانی قبروں کو سنبھالے ان کے بے جان مکینوں کی مزید شکست و ریخت کیے جا رہا ہے۔ قبروں کی دیکھ بھال کوئی کتنی کرے گا، یہی دس سال یا بیس سال۔ پھر اس کی نشانیاں سنبھالنے والے خود قبروں میں اپنی پہچان کھو رہے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آندھیاں اور طوفان آتے ہیں تو کئی نامور ہستیوں کی ناتواں ہڈیاں ٹوٹی ہوئی قبروں کے بیچوں بیچ خزاں رسیدہ پتوں کی مانند بکھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ یہ اس شہرِ خموشاں کی وسعت ہے یاپھر زندوں کا مردوں سے عدم التفات کہ یہ انسانی ہڈیاں بغیر کسی کی توجہ حاصل کیے آہستہ آہستہ زمانے کی خاموش چکی میں پس کر معدوم ہو جاتی ہیں۔
قبرستان کی حدوں سے نکلیں تو سفید لباس میں لپٹی وسیع و عریض عیدگاہ کے پار شہرکا آغاز ہو جاتا ہے۔ ایک بڑی سڑک جو شاید کبھی گلی ہوا کرتی تھی شہر کو درمیان سے کاٹتی ہوئی گزر جاتی ہے۔ دائیں بائیں چھوٹی بڑی گلیاں اور کوچے اس شہر کی تشکیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دائیں طرف والی اسی ایک گلی میں داخل ہوں تو چند موڑ کاٹنے کے بعد ایک پرانا سا خاموش مکان افسردگی اور شکستگی کی مجسم صورت بنا دکھائی دیتا ہے۔ دروازے کے سامنے پرانی بوریوں کو آپس میں گانٹھ کر پردے کی شکل میں لٹکا دیا گیا ہے۔ عام طور پر ایسے پردے اُن گھروں کے سامنے لٹکائے جاتے ہیں جہاں نوخیز الھڑ دوشیزائیں قید ہوتی ہیں۔ پٹ سن کے یہ چند دھاگے اُن کے حسن اور جوانی کی حفاظت کا کام کرتے ہیں۔ یہ ان گھروں کی آمدورفت اور درآمد اور برامد کو مقدور بھر محدود کر دیتے ہیں اور بصری احساسات و جذبات کا تبادلہ ممکن نہیں رہتا۔
ایسا ہی ایک پردہ زینب نامی ایک عمر رسیدہ ریٹائرڈ استانی کے دروازے پر بھی لٹکا ہوا ہے۔ یہاں اس پردے کا کیا کام ہے اس کی وضاحت مشکل ہے۔ دو کمروں پر مشتمل اِس گھر میں نہ تو الھڑ پن کی گنجائش باقی ہے اور نہ ہی کسی کے نین مٹکا کرنے کا خدشہ ہے۔ بوڑھے جسم کی اُبھری ہوئی رگوں میں رُک رُک کر چلتے ہوئے خون میں احساسات و جذبات کی حدت کب کی خاموش ہو چکی معلوم ہوتی ہے۔ آنکھوں کی جگہ دو چھوٹے چھوٹے سیاہ رنگ کے تسبیح کے منکے کبھی کبھی ہلتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ ان آنکھ نما خانوں پہ ہلکے سفیدبالوں سے سجا پلکوں کا شیڈ چہرے کی اُداسی کو اور بڑھا دیتا ہے۔ آنکھوں پر کبھی کبھار گول شیشوں والی چھوٹی سی عینک زینب کی عمر میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ سونے کی نتھلی پر پیتل کا گُماں ہو تا ہے جس کی رنگت زمانے کی شکست وریخت کی وجہ سے سیاہی مائل زرد ہو چکی ہے۔
بازار کی طرف جاتی ہوئی بڑی گلی کے بائیں جانب ایک چھوٹے سے بند کُوچے میں موجود اِ س خاموش گھر کی چوکھٹ عبور کریں تو دائیں طرف ایک ٹھگنے شہتوت کے درخت کے نیچے زنگ آلود نلکا آپ کو خوش آمدید کہتا ہے۔ نلکے کے پیچھے دو چھوٹے چھوٹے کمرے شاید غسل خانے یا سٹور روم کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔نلکے کے پختہ احاطے کے علاوہ باقی سارا صحن پکی اینٹیں باندھ کر بنایا گیا ہے۔ صحن کے بائیں کونے میں ایک بیری کا چھتناوردرخت صحن کو قدرے تاریک کیے ہوئے ہے۔ پست قامت محرابوں والے برآمدے کے پیچھے دو بڑے بڑے کمرے شکستہ مزاروں کی سی پراسرار، خاموش اور قدرے تقدیس کی حامل فضا پیدا کیے ہوئے ہیں ۔
اپریل کا وسط چل رہا ہے ۔ ہوا میں خنکی کئی دنوں سے غائب ہو چکی ہے۔ برقی پنکھوں نے بھی چلنا شروع کر دیا ہے۔ صحن میں موجود چند درختوں کے گھنے سبز رنگ نے بوگن بیلیا کی انتہائی سرخ رنگ کے حامل پھولوں والی بیل کے ساتھ رنگوں کے ایک حسین تال میل کو جنم دیا ہے۔ برآمدے کی دیوار کے ساتھ ایک پرانی لیکن انتہائی مضبوط چارپائی پر زینب کافی دیر سے لیٹی ہوئی ہے۔ اُس کو بیوگی کا داغ لگے دو دہائیاں ہو چکی ہیں۔ شاید اتنے ہی سال اس کو سکول سے ریٹائر ہوئے ہو چکے ہیں۔ محلے والے زینب کو استانی زینب کے نام سے پکارتے ہیں۔ زینب نے مسلم بازار میں موجود لڑکیوں کے مڈل سکول میں34 سال پڑھایا ہے۔ سکول سے فارغ ہوئے اُسے کو بیس سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے لیکن آج بھی بدلتے موسم اُس کو کبھی کبھی سکول کے کمروں، بچوں اور سٹاف یاد دلا دیتے ہیں۔ آخری چھ سال وہ کلاس انچارج بھی رہیں۔ کچی سے پانچویں تک زینب نے اپنے تین دہائیوں کے تجربے کو اُنڈیل دیا تھا۔ سکول میں پانچویں تک لڑکے بھی پڑھا کرتے تھے۔ لڑکوں کا ٹاٹ آگے آگے ٹیچر کی کرسی کے ساتھ ہی ہوا کرتا تھا۔ زینب کو آج بھی اُس ٹاٹ پہ بیٹھے بچے یادہیں جو چھ سال اُس کے زیرِ سایہ پڑھتے رہے۔ان بچوں کے نام بابر، ضیا، اکرام، سرفراز،افضل، عبدالرحمان اور وقار ہیں۔ لڑکوں کی قطار کے پیچھے طالبات کی قطاریں شور مچا رہی ہیں۔
ادھر کلاس نے پانچویں پاس کی اُدھر زینب نے ریٹائرمنٹ لے لی۔اس کی اب ساری توجہ دو بیٹیوں کی پرورش پر تھی۔ اولادِ نرنرینہ کے نہ ہونے سے اس کی زندگی میں ایک غیر محسوس سا خلا رہ گیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ زینب کو اپنے سکول کے بچے خاص کر آخری کلاس کے لڑکے بہت یاد آتے۔ کچھ عرصہ تو کبھی کبھار گلی بازاروں میں یہاں وہاں کسی بچے سے ملاقات ہو جاتی یا درشن ہو جاتے تو زینب کو سکون سا نصیب ہو جاتا لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ بدلتا گیا۔ ریٹائرمنٹ کے چند ماہ بعد زینب کا شوہر فوت ہو گیا۔ وہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ گھر میں اکیلی رہ گئی۔ پھر چند سالوں میں بیٹیوں کے ہاتھ بھی پیلے ہو گئے۔ اب تنہائی، خاموشی اور ویرانی کی حکومت تھی۔ پہلے تو وہ کبھی کبھار محلے کے مرنے پرنے پر چلی بھی جاتی لیکن گزشتہ چند سالوں سے تو اُس کو ایک قسم کی چُپ سی لگ گئی تھی۔ وہی زینب جو سکول میں تقریبات اور محافل کی جان ہوا کرتی اب خاموشی اور زباں بندی کی مجسم تصویر بن گئی تھی۔ اُس کو اپنے سات بیٹے بہت یاد آیا کرتے۔ وہ بیٹے جن کی ظاہری حیثیت تو طالب علموں جیسی تھی لیکن زینب نے کبھی بھی اُن کو شاگردوں کے رُتبے تک محدود نہیں کیا تھا۔کبھی کبھار موسموں کے تغیر وتبدل جب زینب کی طبیعت میں گدگدی کرتے تو وُہ چارپائی پر لیٹے بدستور چھت کے پٹیروں کو گنتے ہوئے گنگنانے لگتی۔ بیر چننے کے لیے آئے بچے جب زینب کو خود کلامیاں کرتے سنتے تو حیرت کے ساتھ برآمدے کی چھت کو تکنے لگتے ۔ وہ سمجھتے کہ زینب چھت میں موجود کسی ہستی کے ساتھ باتیں کر رہی ہے لیکن چھت کی کڑیاں اور ٹَک جو صدیوں سے خاموش تھے بدستور چُپ کا روزہ رکھے گہری نیند سوئے ہوئے معلوم ہوتے۔ کچھ بڑے بچوں نے جب اُس کی خود کلامیوں میں دلچسپی لی تو وہ چند الفاظ سمجھنے میں کامیاب ہو گئے۔ زینب کے خشک ہونٹوں سے ببر،جیدی، کرمو،سرو، فجو،عبدو اور کارُو کے الفاظ نکلتے معلوم ہوئے ۔ بچوں کو نہیں پتہ تھا کہ زیینب کی یادوں میں گنگناتے ہوئے یہ نام کن لوگوں یا بچوں کے ہیں۔ اندر دائیں کمرے میں دو پرانے صندوق ایک طرف اور دوسری طرف چھ آرام کرسیاں اور ایک بڑی سی میز پڑی تھی۔ جب اُس کی طبیعت زیادہ خراب ہو جاتی تو اچانک کمرے کے اندر آجاتی۔ اُس وقت زینب کی پھرتی دیکھنے والی ہوتی۔ یوں لگتا جیسے کسی نے اس کے بوڑھے جسم کے اندر بجلیاں بھر دی ہوں۔ وہ بستر پر بچھی صاف چادر اُٹھا کر کرسیوں کی گرد صاف کرتی اور ایک ایک کرسی کو نہایت احترام اور محبت سے چھوتے ہوئے ببر،جیدی، کرمو، فجو، سرو، فجواور عبدو کی گردان پڑھنا شروع کر دیتی۔ کارو کے لیے کرسی نہ بچتی توچادر کے ساتھ بڑی سی میز کو صاف کرتے ہوئے کارو، کارو پکار کی چیخنا شروع کر دیتی۔ یہ سارا منظر دیکھ کر بچے خوب محظوظ ہوا کرتے۔ یہ سارا عمل زینب کو ناتواں ہونے کی بنا پر تھکا دیا کرتا اور بعد ازاں وہ کئی گھنٹوں تک چپ چاپ لیٹی رہتی۔اب زینب اکثر بیمار رہنا شروع ہو گئی تھی۔ اس لیے ہمسائی خواتین اکثر اس کے پاس موجود رہتیں اور اس کی چھوٹی موٹی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتیں۔ دروازے پر دستک ہوتی تو وہ زور سے کہتی لو وہ میرے بیٹے آ گئے۔ میں نہ کہتی تھی کہ ایک روز میرے بچوں کو ضرور میری یاد آئے گی۔ جاؤ دروازہ کھولو ورنہ وہ واپس چلے جائیں گے۔ میں ذرا کرسیوں اور میز کو صاف کردوں ۔ لیکن ساتھ موجود خواتین اس کے وہم کو نظر انداز کرکے اس کو پرسکون رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے پھر لِٹا دیتیں۔
زینب نے پانچ دنوں سے کچھ نہیں کھایا۔ کمزوری اور بڑھاپے کی ناتوانی اُس پر چھا چکی ہیں۔ اس کی کیفیت سونے اور جاگنے کے بیچ کی سی ہے۔ موت آتے آتے رک جاتی ہے۔ دور بیاہی بیٹیاں بھی آ چکی ہیں۔ ان کے بچے کھیل کھیل کر تھک چکے ہیں۔موت کا انتظار طویل تر ہوا چلا جاتا ہے۔ حالتِ نزع کی بڑھتی ہوئی طوالت بیٹیوں کے لیئے پریشانی کا باعث ہے۔ بیٹیوں اور بچوں کی نظر جب زینب کے جسم پر پڑتی ہے تو ان پر خوف کی فضا طاری ہو جاتی ہے۔ لگتا ہے چمڑے اور ہڈیوں کے درمیان گوشت سوکھ چکا ہو۔
کومے کی سی کیفیت کو ساتواں دن ہے۔جولائی کا وسط ہونے کے ناطے گرمی عروج پر ہے۔ زینب کو برآمدے سے اُٹھا کر دائیں کمرے میں پرانے پلنگ پر لٹا دیا گیا۔ کمرہ پرانا ہونے کی وجہ سے اورموٹے در و دیوار کے باعث قدرے ٹھنڈا ہے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوتی ہے۔ کچھ لوگ زینب سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ایک بیٹی نے جب ان کا تعارف پوچھا ہے تو وہ سن کی حیران رہ گئی ہے کہ یہ سارے دور دراز سے اُس کی ماں کو ملنے کے لیے آئے ہیں۔ان لوگوں میں ایک وکیل، ایک ڈاکٹر، ایک تاجر، ایک صحافی، ایک بیوروکریٹ، ایک پروفیسر اور ایک رائٹر ہے۔ یہ تمام لوگ ایک پژمردہ بڑھیا کا دیدار کرنے آئے ہیں۔ سرفراز جو ساتھ والے ضلع کا ڈپٹی کمشنر ہے نے بوڑھی کا سر دبانا شروع کر دیا ہے۔ اچانک زینب کا نیم مردہ جسم ہلکی سی جھرجھری سی لیتا ہے۔ اُس کی چھوٹی چھوٹی بے نورآنکھیں جھپکنا شروع کرتی ہیں۔ لیکن کچھ دیکھنے میں ناکام رہتی ہیں۔ نیلی رگوں کے گھنے جال سے پُر بڑھیا کا چھوٹا سا کمزور ہاتھ ڈپٹی کمشنر کے ہاتھ کو مضبوطی سے پکڑ لیتا ہے۔ کئی سالوں کی خاموش زباں اور ایک ہفتے سے گنگ ہونٹ آہستہ آہستہ ہلتے ہیں ۔ الفاظ با آسانی سمجھے جا سکتے ہیں
'' اوئے سرو! کہاں مر گیا تھا؟ بیس سال سے اس بڈھی کا پتہ بھی نہیں کیا۔ میں نے تمھاری ننھی منی انگلیوں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر الف انار، بے بکری تختی پر لکھنا سکھایا تھا۔ ان لفظوں نے تم کو کہاں پہنچا دیا کہ تونے اپنی ماں کی خبر بھی نہ لی۔ یہ تیرے پیچھے کون بیٹھے ہیں؟ اوئے یہ ٹماٹر سی ناک والا فجا بھی آیا ہوا ہے اور اس کے ساتھ عبدو، کرمو، ببر، جیدی اور موٹو کارو بھی آیا ہوا ہے۔ ہٹ ذرا مجھے کرسیاں صاف کرنے دے''۔
چونکہ زینب بستر کی چادر پر خود لیٹی تھی اس لیے چادر سے نہ نکال سکی۔ جانے بجلی جیسی پھرتی بوڑھے جسم میں کہاں سے آ گئی تھی۔ سات مرد پلنگ کے قریب کھڑے بڑھیا کی حرکتوں کو عجیب و غریب نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ بڑھیا نے اچانک سر سے چادر اتار لی اور کسی کے سنبھلنے سے پہلے ہی کرسیوں کو جھاڑنا شروع کر دیا۔ ساروں کو انتہائی محبت سے کرسیوں پر بٹھانے کے بعد وہ میز صاف کرنے لگیں اور ساتویں آدمی کو مخاطب کرتے ہوئے بولیں، '' کارو! تُو تو بہت موٹا ہو گیاہے۔ شکر ہے تیرے لیے کرسی نہیں بچی، وگرنہ تُو تو بیٹھ کر اُس غریب کی لکڑیوں کو ہی توڑ ڈالتا۔ لے تُو اِ س میز پہ بیٹھ جا۔ میں بھی تو کبھی کبھی میز پر بیٹھ کر تم کو سبق دیا کرتی تھی ''۔
پانچ دس منٹ کی مشقت نے زینب کو تھکا دیا۔ اس کی سانس بے ترتیب ہو رہی تھی۔ لیکن یہ بے ترتیبی تھوڑی دیر بعد ختم ہو گئی جب تیسری کرسی پر بیٹھے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے زینب کی موت کی تصدیق کر دی۔ استانی زینب کا چہرا سکون اور اطمینان سے دُھل رہا تھا۔ دریا کی طرف سے اُٹھتی ہوئی گیلی کُوندر اور کانوں کی نم آلود ہوا صدیوں پرانے خاموش قبرستان سے ہو کر شہر کی گلیوں میں گردش کر رہی ہے۔ ابھی رات نہیں ہوئی لیکن شب کا گماں ہونے لگا ہے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...