“ یہ مچھر دانی کہاں لئے جارہے ہو” امی نے حیرت پوچھا۔
“ باہر چارپائی پر لگاؤں گا”
“ اتنی اچھی ہوا چل رہی ہے، مچھر کہاں ہیں “
“ اسی لیے تو لے جارہا ہوں۔ ہوا سے ٹھنڈ لگتی ہے”
یہ گرمیوں کے دن تھے۔ رات ہوتے ہی کھلے صحن میں چارپائیاں بچھ جاتیں۔ میں چارپائی اٹھا کر گلی میں لے آتا کہ وہاں دوچار اور دوستوں کی چارپائیاں بھی ہوتیں اور ہم گپ شپ کرتے ہوئے نجانے کس وقت نیند کی آغوش میں چلے جاتے۔کورنگی کی ہوا میں اللہ جانے کیا جادو تھا کہ بجلی نہ ہونے کے باوجود بھی شدید گرمیوں میں باہر صحن میں چارپائیوں پر دری اور چادر بچھا کر اور تکیے پر سر رکھتے ہی ہم نیند کے مارے جھومنے لگتے۔
اب ہم نے نیا تماشہ شروع کیا تھا۔ ہم چارپائیاں گلی سے باہر جو چھوٹا سا میدان تھا ، وہاں لے جاتے۔ اور یہ میدان بھی عجیب سا تھا۔ گلی ختم ہوتے ہی اس میدان میں بائیں جانب کچھ ہٹ کر مسجد تھی اور سامنے کی جانب کوارٹروں کا دوسرا سلسلہ تھا جو بس اسٹاپ تک چلا جارہا تھا۔ لیکن دائیں یعنی مشرقی جانب ایک لامتناہی میدان تھا جو نہ صرف کورنگی بلکہ لانڈھی چھ نمبر تک چلا جارہا تھا۔ بیچ میں پانچ نمبر پر کہیں شیریں سنیما تھا جہاں بس سے جانا پڑتا تھا۔ بہت بعد میں تین نمبر پر گورنمنٹ کمپری ہینسئو ہائی اسکول بن گیا تھا۔
لیکن گلی کے دوسرے کونے پر یہ میدان اور بھی عجیب تھا۔ ہماری گلی کے بعد کوارٹروں کی دو اور لائنیں تھیں اور اس کے بعد رہے نام اللہ کا۔ دوسری لائن ختم ہونے کے بعد ایک سڑک تھی جو پتہ نہیں کہاں سے آتی تھی اور کہاں تک جاتی تھی۔ لیکن یہ سنسان پکی سڑک تھی جس ہپر کبھی کبھار کوئی ٹرک گذر جاتا یا جماعت اسلامی کی میت گاڑی قبرستان جاتی دکھائی دیتی۔ سڑک کے اس پار ایک طویل میدان پھر اس سے بھی طویل پہاڑی سلسلہ جس کے اختتام پر ابراہیم حیدری گوٹھ کے چند ایک مچھلی اور جھینگے خشک کرنے کے کارخانے تھے جو سمندر کے ساتھ بنے تھے۔۔اور پھر سمندر تھا اور اس کا دوسرا کنارا۔ اب خدا ہی جانے وہاں ہندوستان کا کون سا ساحل تھا۔ دوارکا، کچھ مانڈوی، سورت یا بمبئی۔
میں نے بارہا اس میدان اور پہاڑی اور سمندر کا ذکر کیا ہے۔ اور اس ہوا کا بھی ذکر کیا ے جو کورنگی کیا کراچی میں بھی اسی طرح چلا کرتی تھی۔ پھر میں نوکری کے لیے پردیس چلا گیا۔ ہر سال گھر کا چکر لگاتا۔ دوچار سال بعد آیا تو دیکھا کہ گلی کے دائیں کونے کے بعد جو میدان تھا، جو سمندر تک چلا جاتا تھا ، وہاں شکارپور سندھ سے آئے ہوئے ایک سائیں نے جو اے ایس ایف یعنی ائرپورٹ سیکیورٹی فورس میں اے ایس آئی یعنی اسسٹنٹ سب انسپکٹر تھے وہاں بیچ میدان ایک اچھی خاص زمین گھیر کر اپنا آشیانہ تعمیر کرلیا ہے۔ یہ زمین کسی کی نہیں یعنی سرکار کی تھی۔ اس زمانے میں سرکار بھٹو سائیں کی تھی اور ہمارے محلے میں بھٹو سائیں کے بہت سے حامی موجود تھے اور اس اے ایس آئی کے دوست تھے چنانچہ وہ اطمینان سے اپنے گھر میں رہتے تھے۔
اگلے سال ان سے کچھ آگے، جو ہمارے گھر کی اگلی گلی تھی، جس کے آگے کا میدان لانڈھی تک چلا جاتا تھا وہاں ایک اور گھر تعمیر ہوگیا اور گھر کے ساتھ بہت سارے احاطے میں بغیچہ بھی لگ گیا۔ یہ زمین بھی کسی لکھت پڑھت کے بغیر حاصل کی گئی کہ ان کے سامنے جو کونے والا کوارٹر تھا جس میں جو پنجاب سے آئے صاحب رہتے تھے اور نیوی میں کام کرتے تھے اور اپنی جسامت سے پہلوان لگتے تھے اور جن کی اسلم ، بھولو پہلوان وغیرہ سے بھی دوستی تھی اور جن کے ہاں اکثر محلے کا ایک بدمعاش ڈیرا جمائے ہوتا جس نے اپنی پنڈ لی سے ایک بہت بڑا تیز دھار خنجر باندھ رکھا تھا۔ اس تیز دھار خنجرکی نمائش اس نے اس وقت کی تھے جب وہ ہمارے ہاکی میدان کے سامنے سے گذر رہا تھا تو ہمارے کسی ساتھی نے اس پر کوئی جملہ کسا تھا اور اس نے وہاں رک کر اپنی شلوار کا ایک پائنچہ گھٹنوں تک کھینچ کر پنڈ لی پر چمڑے کی نیام نما چیز سے خنجر کھینچ کر نکالا ، باہر نکال کر انگلی پھیر کر اس کی دھار جانچی اور دوبارہ نیام میں رکھ کر ایک نظر ہماری جانب دیکھا اور شلوار نیچے کرکے آگے بڑھ گیا۔ اس کے بعد جب بھی وہ ہمارے سامنے سے گذرتا تو ہم سب اسے سلام کرنے میں پہل کرتے۔
پھر یہ “ ویرانہ “ آباد ہوتا چلا گیا۔ جب مکانات کی تعمیر مشرقی میدان کی طرف ہونے لگی تو ہمارے کرکٹ، ہاکی اور فٹ بال کے میدان یکے بعد دیگرے غائب ہوتے گئے۔ اور پھر یہ سلسلہ جنوب میں پہاڑی کی طرف بھی شروع ہوگیا۔ کچھ سالوں بعد پہاڑی بھی نظروں سے اوجھل ہوتے ہوتے غائب ہی ہوگئی۔ یہاں ایک کے بعد ایک غیر قانونی کالونی قائم ہوتی گئی۔
کچھ عرصے بعد ہم نے کورنگی کا گھر چھوڑ دیا اور گلشن اقبال آگئے۔ دوتین سال بعد ایک نوجوان پڑوسی کا انتقال ہوا تو میں تعزیت کے لیے کورنگی گیا۔ دو نمبر بس اسٹاپ پر تو یوں اتر گیا کہ کنڈکٹر نے آواز لگا کر بتادیا تھا لیکن جب سڑک اور پلیا پار کرکے اپنے کوارٹروں کی طرف چلا تو بری طرح چکرا گیا۔ گلی کے بائیں جانب جو میدان تھا جہاں ہم چارپائیاں بچھا کر سوتے تھے وہ اب مسجد کے احاطے میں شامل تھے جس کے باہر بہت ساری دکانیں بن گئی تھیں۔ مجھے اپنی وہ گلی جہاں بچپن کھویا تھا ، پہچاننے میں سخت دقّت ہوئی۔ وہ میدان جو لانڈھی تک چلا جاتا تھا اب وہاں کوئی جگہ خالی نہیں تھی۔ نہ ہی پہاڑی والی جگہ پر کوئی جگہ خالی تھی۔ اب یہاں بجلی تھی اور گھروں میں پنکھے بھی تھے لیکن سخت گھٹن محسوس ہوئی۔باہر بھی ہوا کا نام و نشان نہ تھا۔ وہ ہوا جس کی مثال ہم شہر والوں کے سامنے فخر یہ دیا کرتے تھے۔
گلشن اقبال میں ایکسپو کے مقابل ہمارے فلیٹ جو تیسری منزل پر ہے ، اس کی گیلری میں ہمیں ویسی ہی کورنگی جیسی ہوا ملتی کہ یہ مغرب کی جانب کھلتی ہے۔ ہم جب اپنے مہمانوں کو گرمیوں میں کبھی کھانے کے بعد کہتے کہ چلو کچھ دیر بالکونی میں تازہ ہوا کھاتے ہیں تو مہمان کچھ دیر میں غنودگی کے عالم جھومنے لگتا۔ ہمارے سامنے دوسری جانب سوک سینٹر ہے لیکن جب ہم یہاں آئے تو سوک سنٹر، یونیورسٹی روڈ، اسٹیڈیم روڈ وغیرہ کی اس بڑی سی چورنگی میں گھاس اگی ہوئی تھی اور یونیورسٹی روڈ پر آنے جانے والی سڑکوں کے بیچ جسے ٹریفک آئی لینڈ کہتے ہیں، بڑے سارے گھنے درخت تھے جن کے سایہ میں رہ گیر سستاتے، فقیر آرام کرتے، موچی اور حجام وغیرہ اپنی دکانیں لگاتے۔ اور یہ چورنگی کا بغیچہ اور سڑک کے درمیان اور کنارے لگے درخت ہمیں ٹھنڈی ٹھنڈی خمار آلود ہوا کے نشے میں غرق رکھتے۔
پھر پہلے یہ چورنگی ختم ہوئی، وہاں سگنل لگ گیا، پھر سگنل بھی ہٹا دئیے اور بڑا سارا فلائی اوور بن گیا۔ سڑک کے درمیان والا ٹریفک آئی لینڈ اور درخت ختم کردئیے گئے اب وہاں سمنٹ کا فٹپاتھ اور جنگلے بن گئے۔ سبزہ اب کہیں نظر نہیں آتا۔ ہر جانب سیمنٹ ہی سیمنٹ ، جماہوا، سخت سیمنٹ، سیمنٹ کی عمارتیں اور سیمنٹ جیسے ہی جذبات سے عاری لوگ۔
اور اب جب گرمیاں آتی ہیں تو کراچی والے رب کے حضور گڑگڑاتے ہیں کہ خیریت سے گذر جائیں۔ اب سے دوتین سال پہلے کے رمضان کس کو یاد نہیں جب ہزار سے زیادہ جانیں اس گرمی کی بھینٹ چڑھ گئی تھیں۔ کنکریٹ کے اس جنگل میں اگر درجہ حرارت چالیس ہو تو اس کا اثر پچاس درجے کا ہوجاتا ہے کہ ہر جانب سمنٹ اور پتھر تپ کر اس گرمی کو دوگنا کردیتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور یہ میرے شہر کا ساحل سینڈز پٹ ہے ۔ ہمارے کئی رشتہ دار مل کر یہاں پکنک منانے آئے ہیں۔ کوئی پانی میں اٹکھیلیاں کررہا ہے تو کوئی سمندر کنارے گیلی ریت پر دوڑ رہا ہے۔ کوئی گیلی مٹی سے گھروندے بنا رہا ہے۔
“ ارے زمین ہل رہی ہے” یہ اکبر کی آواز ہے۔
اکبر کشمیری ہے اور میری پھوپھی کے گھر کام کرتا ہے۔ اکبر اور دو بچے ریت پر ابھری ایک چھوٹی سی چٹان پر کھڑے تھے۔ اب زمین ہلتی سب کو نظر آرہی ہے۔ کچھ دیر میں وہ چٹان اوپر کی جانب اٹھتی نظر آرہی ہے۔ اکبر اور بچے چیخ مار کر نیچے اتر آتے ہیں۔ اب وہ دور آکر کھڑے ہوگئے ہیں۔
ارے یہ کیا!! سب کی ملی جلی چیخیں سنائی دے رہی ہیں ۔ چٹان کے ایک جانب سے ایک اور چھوٹی سی چٹان ابھر رہی ہےہے جس کی آنکھیں بھی ہیں ۔ ارے، !! اب یہ چٹان سمندر کی جانب چل رہی ہے۔
جی ہاں یہ چٹان ایک بڑا سارا “ سبز کچھوا” ہے۔” گرین ٹرٹل” جو کراچی کے ساحل کی خاص پہچان تھا اور اب یہ معدوم ہوتا جارہا ہے جسے انگریزی میں Endangered especies کہتے ہیں ۔جن کی خصوصی نگہداشت کی جاتی ہے۔ لیکن اب یہ منظر کراچی کے ساحل پر نظر نہیں آتا کہ جہاں یہ کچھوے انڈے دینے آتے تھے وہاں متمول شہریوں اور سرکاری محکموں نے اپنے مہمانوں کو ٹھہرانے کے لیے بنگلے نما ہٹس تعمیر کردئیے ہیں۔
کراچی ، جس کا ساحل اس کی پہچان ہے۔ کلفٹن اور منوڑہ کا بیڑا غرق تو میں نے، تم نے مل کر کیا ہے کہ وہاں تفریح کے لیے جاتے ہیں اور اپنا سارا گند بلا وہیں کنارے چھوڑ جاتے ہیں کہ بعض جگہ یہ کوڑے خانے کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہاکس بے، سینڈس پٹ، پیراڈائز پوائنٹ، نیلم پوائنٹ وغیرہ کے پاس بڑی بڑی تعمیراتی کمپنیاں فلک بوس عمارتیں تعمیر کررہی ہیں جہاں ایک طرف آبی حیاتیات Sea Life معدوم ہوتی جارہی دوسری جانب شہر کی سمندری ہوا کا راستہ روک کر شہر کو اس تازہ ، خوشگوار، ٹھنڈی ہوا سے محروم کررہے ہیں جہاں اب لوگ گرمی سے مرنے لگے ہیں۔ ایسی موت جس کا چند عشرے پہلے تصور بھی نہیں تھا۔
اور اس نیک کام میں ہم ہوئے، تم ہوئے کہ میر ہوئے، سب ہی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ دولتمند افراد اور تعمیراتی کمپنیاں ساحل کے ساتھ ساتھ تعمیرات کررہی ہیں تو ہمارے مہربان دفاعی ادارے، ڈی ایچ اے کے نام پر زمین کو سمندر کے اندر بڑھاتے چلے جارہے ہیں۔ نام نہاد ملیر ندی جو ڈیفینس اور قیوم آباد کے درمیان سے گذر کر سمندر میں جاگرتی ہے/تھی۔ اب اس کا پاٹ دن بدن تنگ ہوتا جارہا ہے کہ ڈی ایچ اے وہاں اپنی مرضی سے تعمیرات کررہی ہے اور ظاہر ہے کہ وہ شہری اداروں اور ماہرین ماحولیات کی بھلا کیسے سنیں گے۔ دوسری طرف ٹمبر مافیا ہے جو ساحل کے ساتھ بسے خوبصورت اور گھنے جنگلات Mangroves کی کاٹ چھانٹ میں لگی ہوئی ہے۔ اور اس شہر ناپرساں میں کوئی نہیں ہے جو انہیں روک سکے،۔ ایک کمزور سی عورت کی مضبوط سی آواز تھی جسے گولیوں کا نشانہ بنا کر خاموش کردیا گیا۔ اب جو آواز اٹھانا چاہے اسے پروین رحمان کا انجام یاد آجاتا ہے۔
سمندر کنارے آباد اس شہر سے اس کی ٹھنڈک، اس کی خوبصورتی، اس کے موسم چھین لینے کی ایک طویل داستان ہے۔ ساحل کو کوڑے دان میں تبدیل کرنے والوں نے اس شہر کی ثقافت، تعلیم، صحت، آمدورفت، رواداری، محبت کو کس طرح ایک Endangered Especy بنادیا اس کی کہانی کی یہ ابتدا ہے۔
رونے پہ اگر آؤں تو دریا کو ڈبو دوں
قطرہ کوئی سمجھے نہ مرے دیدۂ نم کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
سمجھ نہیں آتا کہ اس شہر کا ماتم کہاں سے شروع کروں۔ دیوار گریہ تو اک ذرا سی ہوتی ہے۔ اونٹ کے کوہان کے مانند اس بے ہنگم شہر گریہ کی کون سی بات ، کون سا پہلو ایسا ہے جو دکھ نہیں پہہنچاتا۔ موسم کو نا مہربان ہم نے خود بنایا۔ اس کی ثقافت اور تاریخ کے ساتھ ظلم ہم نے کیا۔ وہ شہر جو کبھی پاکستان بھر میں علم و ہنر کے حوالے سے پہچانا جاتا تھا اب اس کی پہچان نہاری ، بریانی اور پراٹھا کباب رہ گئے ہیں۔ بدذوقی اور بدمزاجی اب ساکنان شہر کا شعار بن کر رہ گیے ہیں۔
تاریخ اور ثقافت تو مان لیا کہ بھرے پیٹ والوں کی باتیں ہیں لیکن بنیادی انسانی ضروریات سے تو منہ نہیں موڑ سکتے اور انسانی ضرورت میں سب سے مقدم اس کی صحت وتندرستی ہے۔ جب انسان اس قابل بھی نہ رہے کہ اپنی نجاست اور غلاظت سے خود نجات حاصل کرسکے تو جان لو کہ یہ اس کے آخری دن ہیں۔ کون ہے جو اس بے کسی اور بے بسی سے پناہ نہیں مانگتا۔
دنیا میں کوئی ایسا شہر نہیں دیکھا جو اپنی گندگی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے سے ایسا لاچار اور بے بس ہو۔ یہ اعزاز اس شہر ناپرساں کے حصے میں آیا ہے کہ غلاظت کو ٹھکانے لگانے کے لیے غیروں کی طرف دیکھتے ہیں۔
نکمی اور بدعنوان ترین صوبائی حکومت، بے حمیت اور مفاد پرست شہری حکومت اور سب سے بڑھ کر نااہل اور ڈرامہ باز مرکزی حکومت ، سب ہی ایک بنیادی شہری سہولت فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ صوبائی حکومت کے نزدیک تو یہ شہر اس کا اپنا ہے ہی نہیں کہ یہاں کے لوگ اسے منتخب نہیں کرتے۔ شہری حکومت جو کبھی یہاں کے سیاہ وسفید کی مالک تھی اور جس کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا تھا اب اپنے آپ کو لاچار اور اپاہج تو ظاہر کرتی ہے لیکن بے شرمی اور بے حمیتی سے برسراقتدار قوتوں سے چمٹی رہتی ہے۔ رہی مرکزی حکومت تو یہ شہر اپنی تاریخ کے نااہل ترین نمائندوں کا منتخب کرنے کی سزا بھگت رہا ہے۔ ایک مسخرے سے اور فربہ اندام وفاقی وزیر نے کچھ عرصہ قبل بڑے بڑے دعوے کیے کہ ہم دو ہفتے میں شہر کو صاف کردیں گے۔ اس کے بعد وہ اور ڈرامے کرتے تو نظر آئے لیکن شہر میں کہیں نظر نہیں آئے۔
شہر کے نالے جو نکاسی آب کے لیے بنائے گئے تھے کچرے سےاٹے ہوئے ہیں اور سب سے بڑا عذاب پلاسٹک کی تھیلیاں ، خدا جانے ان سے ہم نجات کیوں حاصل نہیں کرتے۔ مجھے یاد ہے میری ماں اور محلے کے دوسرے بزرگ بازار سودا سلف لینے جاتے تھے تو ہاتھوں میں کھجور کی ٹوکری، پلاسٹک کی باسکٹ یا پٹ سن کا تھیلا ہوا کرتا تھا جس میں وہ سبزی گوشت، دالیں وغیرہ لاتے تھے۔ ہماری آج کی نسل کو یہ تھیلے باہر لے جاتے ہوئے شرم آتی ہے۔ غضب خدا کا اب تو سالن، نہاری، حلیم بریانی، دودھ دہی لسی اور کیا کچھ نہیں ہے کہ ان غلیظ پلاسٹک شاپرز میں نہ آتا ہو۔ آج سے کچھ سال پہلے مجھے شدید حیرت ہوئی جب گنے کا رس پلاسٹک شاپر میں پینا پڑا۔
پھر شہری اور صنعتی فضلہ ٹھکانے لگانے کا کوئی نظام موجود نہیں۔ دنیا اب اس کچرے سے بھی کمار ہی ہے۔ ری سائیکلنگ اب ایک باقاعدہ علم بن گیا ہے۔ یہاں عرب امارات میں پبلک مقامات پر ہر طرح کے کچرے کے لیے علیحدہ سے ڈبے ہوتے ہیں۔ پیپسی اور اس طرح کے ٹین کے کین کے لئے الگ، پلاسٹک اور ربڑ کے لئے الگ، کانچ اور شیشوں کے لئے الگ اور عمومی کچرے General Waste کے لئے علیحدہ سے ڈبے ہوتے ہیں ۔ کاغذ اور گتے جمع کرنے کا الگ نظام ہے، جنہیں مختلف مشینوں سے ری سائیکل کرکے مختلف مصنوعات کی شکل میں ڈھا لا جاتا ہے۔
سیوریج کی نکاسی کا کوئی نظام نہیں البتہ اسے سمندر میں پھینک کر آلودہ ضرور کررہے ہیں۔ کیا کراچی اتنا غریب شہر ہے کہ وہ اپنے لیے سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بھی نہیں لگا سکتا کہ گندے پانی کو صاف کرکے، باغوں، درختوں وغیرہ کے لیے قابل استعمال بنایا جاسکے۔ شرم آتی ہے جب سمندر کنارے اس شہر کے باسی پینے کے پانی کے لیے ترستے ہیں اور ٹینکر مافیا، واٹر بورڈ اور نہ جانے کس کس کے ہاتھوں یرغمال بنے رہتے ہیں۔ کراچی کی آبادی اگر دو کروڑ بھی مان لی جائے اور اگر فی کس ایک ایک ہزار بھی جمع کیا جائے تو صرف ایک وقت میں بیس ارب روپے جمع کیے جاسکتے ہیں۔ مجھے علم نہیں کہ سمندر سے کھاری پینے کو میٹھا بنانے والے Water Desalination Plant پر کتنی لاگت آتی ہے لیکن عرب کے تمام تر صحرا میں کہیں بھی پانی کی کمی نہیں اور یہ سارا پانی سمندر سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اللہ جانے کبھی ہم نے اس امکان پر غور بھی کیا ہے یا نہیں اور کیا چیز ہے جو اس پلانٹ کے قیام کے آڑے آتی ہے۔
یہ گندگی اب کراچی کی پہچان بن گئی ہے۔ دل خون کے آنسو روتا ہے جب وہ بھی ہمیں طعنہ دیتے ہیں جنکی زندگیاں رفع حاجت کے لیے کھیتوں اور جنگلوں میں جاتے گذر گئیں۔ جنہوں نے ہم سے تمیز اور تہذیب سیکھی وہ آج ہمارا ہی مذاق اڑاتے ہیں اور کچھ غلط بھی نہیں کرتے کہ ہم نے ہی خود کو اس حال کو پہنچایا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شہر کبھی علم وادب کا مرکز تھا۔ جب بھی کراچی کا ذکر ہوتا تو پڑھے لکھے لوگوں کی بات ہوتی۔ اب بھی یہاں تعلیم میسر ہے مگر کس طرح ؟ ماں باپ کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے بچوں کے لیے تعلیم کے وسائل مہیا کرنے میں ۔ زندگی کے تارو پود کو جوڑے رکھنا ویسے ہی جان جوکھوں کا کام ہے ۔ دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں اس پر بڑی جماعتیں تو ایک طرف، نرسری اور پرائمری کی فیسیں ہزاروں میں ادا کرنی پڑتی ہیں۔ سرکاری اسکول نام کی کوئی چیز کہیں نظر نہیں آتی۔ ایک وقت تھا کہ “ پیلے اسکول” اس شہر کی شان ہوا کرتے تھے۔ یہاں سے بہترین طالبعلم، ہنرمند ، کھلاڑی اور فنکار نکلتے تھے۔ آپ کراچی کے آج سے نصف صدی قبل کے کسی بھی تعلیمیافتہ شخص سے پوچھیں تو وہ بڑے فخر سے بتائے گا کہ وہ گورنمنٹ اسکول ناظم آباد، گورنمنٹ اسکول، کوتوال بلڈنگ، جہانگیر روڈ، کلیٹن روڈ وغیرہ کا پڑھا ہوا ہے۔ میری زندگی کا پہلا اسکول گورنمنٹ اسکول بہار کالونی تھا۔ بہار کالونی جو کراچی کی پسماندہ ترین بستی تھی ، اس کے اسکول میں جہاں ہمیں کوئی فیس بھی نہیں دینا پڑتی تھی، اس اسکول میں ٹیبل ٹینس کی میز، والی بال کورٹ، اسکاؤٹس کے لیے سنگینوں والی بندوقیں اور لائبریری وغیرہ میسر تھیں۔ آج کے سرکاری تو ایک طرف، ہزاروں لاکھوں فیسیں لینے والے “ لٹل بو پیپ” “ لٹل فوکس” قسم کے اسکولوں میں ایسی سہولیات کا نام و نشان بھی نہیں۔
شہر کے تعلیمی اداروں میں غیر نصابی سرگرمیاں سارا سال جاری رہتیں۔ انٹر اسکول، انٹر کالج کرکٹ، فٹبال اور ہاکی کے مقابلے، مباحثے، کوئز پروگرام، مقابلہ حسن قرات ونعت خوانی، موسیقی اور ڈرامے اور ان جیسی سرگرمیاں تھیں جن سے ظہیر عباس، محسن خان، صلاح الدین، اصلاح الدین، صفدر عباس، ظہورالحسن بھوپالی، دوست محمد فیضی، ندیم، اخلاق احمد، مجیب عالم، پروین شاکر، خوش بخت عالیہ ،طلعت حسین، جمشید انصاری، وحید ظفر قاسمی جیسے لوگ سامنے آئے۔
شہر میں جگہ جگہ معیاری لائبریریاں جویان علم کی توجہ کا مرکز ہوتیں۔ برٹش کونسل لائبریری، امریکن سینٹر، لیاقت نیشنل لائبریری، رباط العلوم ، غالب لائبریری وغیرہ اس شہر کی علمی اور ثقافتی سرگرمیوں کی آبیاری کرتیں۔ اب اس شہر میں آپ کسی سے پوچھیں کہ فلاں لائبریری کہاں ہے تو شاید ہی کوئی پتہ بتا سکے البتہ اگر آپ جاوید یا زاہد کی نہاری، وحید کے کباب، گھسیٹے خان کی حلیم اور دہلی ربڑی ہاؤس کا پتہ پوچھیں تو بچہ بچہ آسانی سے سمجھادے گا۔ اب شہر کے سنجیدہ لوگ بھی ابن صفی، نسیم حجازی، اے آر خاتون ، رضیہ بٹ، کرشن چندر، منٹو اور عصمت چغتائی وغیرہ کے بجائے میرٹھ کباب اور بٹ کڑاہی پر اظہار خیال کرتے دکھائی دینگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی ترقی یافتہ شہر کی سب سے بڑی پہچان اس کاٹریفک کا نظام ہوتا ہے۔ اس معاملے میں اگر تنزلی کی بدترین مثال دیکھنی ہو تو میرے شہر سے بڑھ کر کوئی نہیں ہوگی۔ دنیا کا ایسا کونسا ذریعہ آمد ورفت ہے جو اس شہر کو میسر نہیں تھا۔ پورے شہر کا احاطہ کرتی سرکلر ریلوے، اندرون شہر چلنے والی ٹرام سروس، شہر کے ہر کونے سے سے چلنے والی اور پورے شہر کو مربوط رکھنے والی بسیں، میٹر کے مطابق چلنے والی ٹیکسیاں اور رکشے، چھوٹے فاصلوں کے لیے تانگے، کلفٹن، فرئیر ہال وغیرہ کی ہوا خوری کے لیے وکٹوریہ جیسی شاہی سواری اور تو اور منوڑہ جانے کے لیے لانچ سروس۔ بس کمی تھی تو شہر کے درمیان ہیلی کوپٹر اور ہوائی سروس کی۔ وہ بھی ناممکن نہیں تھی کہ ماری پور، ڈرگ روڈ، کورنگی کریک میں بھی ہوائی اڈے تھے۔ ( قیام پاکستان سے پہلے کراچی میں چودہ ہوائی اڈے تھے جو زیادہ تر جنگ عظیم دوم کے دوران امریکیوں نے قائم کیے تھے۔بحوالہ سرگزشت از زیڈ اے بخاری)۔
اور آج کیا حال ہے۔ سرکلر ریلوے اور ٹراموے سروس زمانہ ہوا متروک ہوگئیں۔ ویگنوں والی مافیا نے شہر کی موثر ترین بس سروس کا خاتمہ کردیا۔ رکشاؤں اور ٹیکسیوں سے میٹر غائب ہوگئے۔ اب اس شہر کے بے ہنگم ٹریفک میں صرف رکشہ، موٹر سائیکلیں، پرائیوٹ گاڑیاں ایک طوفان بدتمیزی مچائے ہوئے ہوتی ہیں۔ جہاں ایک بس ساٹھ سے ستر لوگوں کو جگہ دیتی تھی وہاں اب ساٹھ موٹر سائیکلیں اور کاریں سڑک پر نظر آتی ہیں ۔ نتیجہ یہ کہ منٹوں کے فاصلے گھنٹوں میں طے ہوتے ہیں۔ فضائی اور صوتی آلودگی الگ شہریوں کی ذہنی اور جسمانی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ ملتان جیسے گور وگورستان والے شہر میں بھی میٹرو چل رہی ہے اور آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے شہروں میں سے ایک، ہمارے شہر میں میٹرو کی تعمیر بھی رینگ رینگ کر نہ جانے کب سے ہورہی ہے اور اللہ جانے یہ کبھی مکمل بھی ہوگی یا نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
شہر کی بربادی کے ذمہ دار وہ نہیں جنہوں نے اس شہر کو لوٹا یا وہ جن کی نالائقی اور نااہلی کے سبب شہر اس حال کو پہنچا۔ سانپ کا تو کام ہی ڈسنا ہے اور لٹیروں کا کام ہی لوٹنا ہے۔ اور نالائق اور نااہلوں سے کوئی امید لگانا خود کو دھوکا دینا ہے۔ اس کے ذمہ دار وہ ہیں جو اس لوٹ مار کو ، اس تباہی بربادی کو دیکھتے رہے اور خاموش تماشائی بنے رہے یا اس بربادی کا حصہ بنتے رہے۔ وہ میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا
یہ وہ شہر تھا جس کے پاس بے پایاں زمین تھی۔ ہر آبادی اور محلے میں کھلے میدان اور کھلے بازار اور گلیاں تھیں۔ ناظم آباد ہو، حیدری ہو، پی ای سی ایچ ایس ہو، ملیر، ڈرگ روڈ، لانڈھی ہو یا کورنگی، ہر علاقے میں شام کے وقت کہیں لڑکے کرکٹ کی پریکٹس کرتے نظر آتے تو کہیں فٹبال یا ہاکی کا میچ ہورہا ہوتا۔ نہ صرف نوجوان صحتمند تفریح میں مشغول نظر آتے بلکہ محلے کے بڑے بوڑھے بھی بطور تماشائی محظوظ ہوتے۔
پھر کہیں کسی میدان کے کسی حصے میں کوئی خان صاحب لکڑیوں کا ڈھیر جما کر “ ٹال” کھول لیتے۔ ان کی دیکھا دیکھی کوئی چوہدری جی سیمنٹ کے بلاک کا بھٹہ شروع کردیتے۔ انہیں روکتا تو کون، کوئی رانا صاحب ایک بڑے سے احاطہ پر قبضہ کرکے بھینسوں کا باڑہ قائم کردیتے تو محلے ہی سے کوئی حضرت یہ نیا “ کمرشیل سینٹر دیکھ کر وہاں گولہ گنڈے یا آلو چھولے کا ٹھیلا لگالیتے اور پھر چل سو چل۔ میدان آہستہ آہستہ غائب ہوتا جاتا۔ علاقے والے انہیں روکتے تو کیا الٹا خوش ہوتے کہ اتوار بازار اب قریب ہی لگا کرے گا۔ کسی محلے والے میں اتنی حمیت، غیرت اور ہمت نہیں ہوتی کہ ٹال والے، اینٹوں والے، باڑے والے سے پوچھتا کہ بھئی تم کس کی اجازت سے یہاں آئے۔ نہ کوئی متعلقہ محکمے کو خبر کرتا۔ اور رہے محکمے تو انہیں ایسے مواقع اللہ دے اور بندہ لے۔ ان کے لئے مستقل آمدنی کا انتظام ہوجاتا اور باقاعدگی سے بھتہ اور حصہ پہنچتا رہتا تو انہیں کیا غرض کہ ان تجاوزات کو ہٹائیں۔
اب سے کچھ عرصہ قبل عدالت عظمی کے حکم پر تجاوزات کے خلاف کاروائی کی گئی۔ لوگوں کی ہمدردی بجا طور پر ان کے ساتھ تھی جن کے چھوٹے موٹے کاروبار ختم کردئیے گئے لیکن نہ تو عدالت نے، نہ عوام نے ان سے کوئی سوال کیا جو ان تجاوزات کو روکنے کے ذمہ دار تھے۔
میں نے کھیل کے ان قدرتی میدانوں کا ذکر کیا جو شہر میں جا بجا موجود تھے ۔ لیکن ان کے علاوہ بھی کئی میدان اور اسٹیڈیم تھے جن کا اب نام و نشان نہیں۔ مجھے پورے شہر کی تو خبر نہیں نہ میں نے آج تک پورا شہر دیکھا ہے لیکن جب تک میں کراچی میں رہا یعنی ۱۹۷۵ تک ، اور جب میں بھی کرکٹ اور ہاکی کے میچز کھیلنے ان میدانوں میں جایا کرتا تھا آج وہ کہیں نظر نہیں آتے۔ مجھے نہیں علم کہ بوہرہ جیمخانہ کا میدان کس حال میں ہے۔ پولوگراؤنڈ کے پاس وائی ایم سی اے گراؤنڈ ہوا کرتا تھا، اس کی کیا خبر ہے۔ ناظم بڑا میدان جہاں رمضان کر کٹ میں ٹسٹ میچ جیسا ہجوم ہوتا تھا وہ ہے بھی یا نہیں۔ کوچنگ سنٹر، بختیاری یوتھ سینٹر، گارڈن پر واقع پولیس گراؤنڈ، جی پی او کے بغل میں واقع ریلوے گراؤنڈ، کے جی اے گراؤنڈ، ہندو جیمخانہ، آغا خان جیمخانہ، مسلم جیمخانہ، کے پی آئی وغیرہ کس حال میں ہیں۔ کورنگی پانچ سے کے ایریا تک اور ناظم آباد بڑا میدان سے میٹرک بورڈ اور شہید ملت روڈ کے درمیان میں جو میدان تھے اور ڈرگ کالونی کے وہ میدان جو شارع فیصل سے نظر آتے تھے، وہ کب اور کس طرح غائب ہوئے۔ کیا کہیں اہل محلہ نے کوئی احتجاج کیا، یا کسی متبادل جگہ کا مطالبہ کیا ؟ آج سب روتے ہیں کہ ان کے بچوں کو صحتمند تفریح میسر نہیں ۔ ان کے بچے یا تو دہشت گرد تنظیموں کے آلہ کار بن گئے یا پان کی دکانوں کے آس پاس گٹکا اور مین پوری چباتے نظر آتے ہیں یا تنگ گلیوں کے بیچ سڑک گھیر کر ٹیپ ٹینس کرکٹ کھیلتے نظر آتے ہیں۔ کراچی جہاں سے پاکستان کو ظہیر عباس، جاوید میانداد، محسن خان ، یونس خان، شاہد آفریدی جیسے کھلاڑی ملے اور جو سب سے زیادہ بار قائداعظم ٹرافی جیتنے کا اعزاز رکھتا ہے، آج حال یہ ہے کہ پچھلے دنوں زمبابوے کی ٹیم پاکستان آئی تو اس میں پہلی بار کراچی کا کوئی کھلاڑی شامل نہیں تھا۔ گلی میں اینٹیں رکھ کر کھیلنے والے اور گٹکے کھانے والے بھلا بین الاقوامی معیار تک پہنچ بھی کیسے سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہر کے لوگ اکثر دفتر سے گھر جاتے ہوئے شام کے انگریزی اخبار ضرور لیتے جو وہ بسوں میں پڑھتے ہوئے جاتے۔ ڈیلی نیوز، ایوننگ اسٹار وغیرہ میں گئے دن کی تقریبات کی تصاویر ہوتیں یا نائٹ کلبوں کے اشتہار۔ ان میں نمایاں تصویریں کسی سرکاری یا غیر سرکاری عشائیے،کسی غیر ملکی سفارتخانے یا کمپنی کی دعوت، آرٹ گیلری میں تصویروں یا سنگتراشی کی نمائش، پھولوں کی نمائش ، کلاسیکی موسیقی اور رقص کے پروگرام مشاعرے یا کسی ادبی محفل کی تصویر یں وغیرہ ہوتیں۔
یہ سب پروگرام اور تقریبات زیادہ تر فلیٹ کلب ۔ فیضی رحمین آرٹ گیلری، آرٹس کونسل، امریکن کلچرل سینیٹر، کیٹرک ہال، ڈینسو ہال، خالق دنا ہال، تھیوسوفیکل سوسائیٹی، غالب لائبریری وغیرہ میں ہوتے۔ شہر کا ثقافتی کیلینڈر ان سرگرمیوں سے جگمگا رہا ہوتا۔ اب فلیٹ کلب، ٹھیوسوفیکل کلب،کیٹرک ہال وغیرہ کو تو شاید کراچی میں کوئی جانتا بھی نہ ہو۔ اب لے دے کے ایسے کلب رہ گئے ہیں جن میں صرف متمول طبقے کے لوگ ہی جاسکتے ہیں اور جن کی ممبرشپ فیس کئی لاکھوں میں ہوتی ہے۔ کراچی جیمخانہ، کراچی کلب، سندھ کلب، ڈیفینس سوسائٹی میں بنے بے شمار کلب جن کی سالانہ فیس پندرہ پندرہ بیس بیس لاکھ ہوتی ہے وہاں بھلا عام سے لوگ، فنکار وغیرہ جھانکنے کی ہمت بھی کیسے کرسکتےہیں۔ نہ ہی ان میں اس طرح کی تقریبات ہوتی ہیں نہ اس طرح کے باذوق لوگ۔ بس نودولتیوں کا ازدحام ، جن کی توجہ کھانے، پینے پلانے اور ناچ گانوں پر ہوتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس شہر کی اصل خوبصورتی انگریزی دور کی گو تھک، راجھستانی اور مغل طرز تعمیر کی وہ عمارتیں تھیں جن سے پرانا شہر آباد تھا۔ یہ پرانا شہر جمشید روڈ ، عامل کالونی، پارسی کالونی، سولجر بازار، صدر، بندر روڈ، کوئنز روڈ، کلفٹن، میریویدر ٹاور، کیماڑی تک پھیلا ہوا تھا اور ایک سے ایک خوبصورت عمارت یہاں ہوا کرتی تھی۔ لیکن آہستہ آہستہ ہماری پیسے کی ہوس انہیں کھاتی گئی۔ جو عمارت پرانی ہوتی گئی اس کی مرمت اور تزئین نو کے بجائے اسے ڈھاکر بے ہنگم، بھدے اور بے ڈھنگے پلازے اور شاپنگ سینٹر بنا دئیے گئے۔ اگر شہری حکومت، یا شہر کے باسیوں میں جمالیاتی ذوق ہوتا تو یہ عمارتیں خوبصورت آرٹ گیلریوں، میوزیم ، کلچرل سینٹر، اور سماجی اور ثقافتی تقریبات کے مراکز میں تبدیل کی جاسکتی تھیں۔ جب یہ عمارتیں تقریباً تمام کی تمام منہدم کردی گئیں تو شاید متعلقہ اداروں کو ہوش آیا اور چند ایک کو قومی ورثہ قرار دے کر محفوظ کرںے کی بے تکی سی کوششیں کی گئیں، وہ اس طرح کی پوری عمارت ڈھا دی گئی صرف سامنے کا حصہ جو لب سڑک ہے وہ محفوظ رکھا ہے جو شہریوں کی جان کے لیے مستقل خطرہ ہے اور معمولی سے جھٹکےسے کسی وقت بھی نیچے گر سکتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ شہر تھا جہاں عیاش طبع اور رنگین مزاجوں کے لیے روما شبانہ، ایکسلسئیر، تاج۔ لیڈو، میٹروپول، گرانڈ، بیچ لگژری، کولمبس، پیلس ہوٹل اور نائٹ کلب وغیرہ تھے تو دین داروں اور صاحبان علم کے لیے حکیم سعید کی شام ہمدرد، الفلاح ہال میں غلام احمد پرویز یا ڈاکٹر اسرار احمد کے دروس ہوتے۔ جہاں عشرہ محرم میں علامہ رشید ترابی ایک ہی دن میں نشتر پارک، حسینیہ سجادیہ اور بڑا امام باڑہ کھارادر میں مجالس عزاء سے خطاب کرتے اور ایسے عزا دار بھی تھے جو پیدل چل کر ان تمام جگہوں پر مجالس میں شرکت کرتے اور ان میں ہر مکتب فکر اور ہر مسلک کے لوگ شامل ہوتے۔ یہیں جیکب لائن کی جامع مسجد میں جب شب قدر کو مولانا احتشام الحق تھانوی رقت آنگیز دعا مانگتے تو ان آہوں اور سسکیوں میں بریلوی، دیوبندی، سہل حدیث، وہابی اور اثنا عشری کی کوئی تفریق نہ ہوتی۔
یہ تھا وہ شہر دل فِگار اں، شہر یاراں کراچی جہاں زندگی ہردم جواں پیہم رواں رہتی تھی۔ آج اس شہر کا حال بے حال ہے۔ شہریوں کو یہی علم نہیں کہ شہر میں حکومت کس کی ہے۔ گھان کچرے کی طرح ادارے ہیں لیکن شہر کا کچرا اٹھانے کا کوئی ذمہ دار نہیں، مرکز میں جو حکمراں رہے ان کا تعلق اس شہر سے صرف اتنا ہے کہ یہاں کاروبار چلتا رہے تاکہ ملک کی آمدنی کا جو غالب حصہ یہاں سے ملتا ہے اس میں رکاوٹ نہ آئے اور اس آمدن سے وہ اپنے اپنے شہروں کو ترقی دیتے رہیں۔ نئی نئی سڑکوں جا ل بچھائیں، میٹرو بسیں اور جدید ٹرینین چلائیں۔ ان کی بلا سے اس شہر کے لوگ برباد ہوتے ہیں تو ہوتے رہیں، سکون کے لیے ترستے ہیں تو ترستے رہیں۔ ان کی ڈرامہ بازی اس شہر کے ساتھ البتہ جاری رہتی ہے کہ انہیں یہاں سے ووٹ بھی لینے ہوتے ہیں،۔ ابھی پچھلی بارشوں میں شہر میں شدید تباہی ہوئی جس کے ڈیڑھ ہفتے بعد محترم وزیراعظم چند گھنٹوں کے لیے کراچی تشریف لائے اور کراچی کے لیے گیارہ سو ارب روپے کے “ پیکیج “ کا اعلان کیا۔ لوگوں نے اس سخاوت پر تالیاں بجائیں۔ وزیراعظم محترم تو واپس تشریف لے گئے۔ ان کے ترجمان نے اگلے دن بتایا کہ اس میں سے تین سو ارب وفاقی حکومت دے گی ( ہم نے تالیاں گیارہ سو ارب کے لیے بجائی تھیں اور وزیراعظم زندہ باد کے نعرے لگائے تھے) تین سو صوبائی حکومت دے گی، دوسو ارب نجی اداروں سے لیے جائینگے اور باقی تین سو ارب کے بارے میں ، سوچیں ، گے کہ کس طرح حاصل کئے جائیں گے۔ چلیں اس طرح بھی ہوتا توغنیمت تھا، آج تین ماہ سے اوپر ہوگئے ، گیارہ سو ارب ایک طرف، مرکزی اور صوبائی حکومت کے تین تین سو ارب ایک طرف، ایک سو ارب ، بلکہ ایک ارب کیا ایک روپیہ بھی اب تک کہیں نظر نہ آیا نہ کوئی اقدام ہوتا کسی نے دیکھا۔ نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے کہ کیا ہوا تیرا وعدہ، وہ قسم وہ ارادہ۔
یہ یہ تماشہ گری ، یہ ڈرامے بازی، جھوٹ، مکر فریب موجودہ حکومت نے ہی نہیں کیا۔ پچھلی حکومتیں چاہے وہ نواز شریف کی ہو، بے نظیر کی ہو یا زرداری کی سب کا طرز عمل کراچی کے بارے میں یکساں ہے۔ اور ان سے کیا شکایت کریں کہ ان کا تو کام ہی یہ ہے۔ اس شہر کے شہری جو خود کو بہت باشعور کہتے ہیں وہ جب تک ٹھنڈے پیٹوں ان کو برداشت کرتے رہینگے ان کے ساتھ یہی ہوگا۔
اس شہر میں ایک بلدیہ ہے، ایک کے ڈی اے ہے یعنی ادارہ ترقیات کراچی ۔ کراچی صرف ان میں ہی نہیں بٹا ہوا۔ واٹر بورڈ الگ ہے اور بجلی کا محکمہ ایک لٹیرے نجی ادارے کی ملکیت ہے۔ ائیرپورٹ کے آس پاس کا انتظام وانصرام ایک اور ادارے کے ہاس ہے جس میں بلدیہ کراچی کا کوئی داخل نہیں۔ پھر ہمارے بادشاہ لوگوں کی ڈیفینس ہاؤسنگ اتھاریٹی ہے جہاں قدم رکھتے ہوئے فرشتوں کے پربھی جلتے ہیں، دنیا کے کسی شہر میں اس قسم کا تماشہ نہیں ، لیکن ہمارے شہر میں یہ بھی ہے اور ڈنکے کی چوٹ پر ہے۔ پھر انہی کے بھائی بندوں کی ، کنٹونمنٹ اتھاریٹیز ہیں ، جہاں بلدیہ کراچی اور دوسرے ادارے قدم نہیں رکھ سکتے، ملیر کینٹ، ڈرگ کینٹ، کلفٹن اور کورنگی کریک ان سب کے بادشاہ الگ ہیں۔ ان پندرہ بیس اداروں کے بیچ یہ شہر ناپرساں چوں چوں کا مربہ بنا ہوا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئیے کہ اتنے ادارے مل جل کر اس شہر کی تعمیر کرتے، اسے خوبصورت بناتے لیکن یہ سب مل جل کر اس شہر کی بربادی میں اپنا اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
کراچی اہل پاکستان کا مائی باپ ہے۔ یہ سب کو پناہ دیتا ہے اور ملک کے ہر حصے کے لوگ یہاں اپنے خوابوں کی تعبیر پاتے ہیں۔ محنت مزدوری کرتے ہیں ۔ اپنی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرتے ہیں، بوڑھے ماں باپ کے لئے چھت مہیا کرتے ہیں ، بچوں کو اچھی تعلیم دلواتے ہیں ۔ یہ شہر ان سب کو مرغی کی طرح اپنی پناہ میں لیتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ان میں سے اکثریت یہاں کی مستقل رہائش رکھتے ہوئے بھی اسے اپنا گھر نہیں مانتے اور جب مردم شماری ہوتی ہے تو اپنا شمار اپنے آبائی علاقوں میں کرواتے ہیں، ملکی وسائل میں ان کا حصہ وہاں پہنچا دیا جاتا ہے اور جہاں یہ اصلا رہتے ہیں وہ شہر اس سے محروم رہتا ہے۔ یہ شہر سب کا ہے اور سب کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے لیکن کوئی بھی اسے اپنا نہیں سمجھتا۔ کوئی بھی اسے اپناتا نہیں۔
بہت سی باتیں شاید اس طرح نہ ہوں ۔ بہت کچھ شاید بہتر بھی ہوگیا ہو ۔ آجکل آپ کراچی جائیں تو شاید میری باتیں آپ کو جھوٹ لگیں۔ لیکن کبھی کراچی میں آدھا گھنٹہ مستقل بارش ہو تو آپ کراچی دیکھئے گا۔ اس دوران اگر شہر اور شہری سہولتیں آپ کو کہیں نظر آئیں تو مجھے بھی بتائیے گا۔
پس چہ باید کرد ای ساکنان کراچی
ان تمام مسائل کا حل کیا ہے؟ ان کا حل میرے پاس نہیں نہ آپ کے پاس ہے۔ ان کا حل ، ہمارے ، پاس ہے اور وہ یہ ہے ، ہم ، سب اپنے احساس کو بیدار کریں۔ برائی کو گر ہاتھ سے روکنے کے طاقت نہیں، زبان بھی معذور ہے تو کم ازکم دل سے ضرور برا سمجھیں۔ لیکن یہ بے حسی ہمیں کہیں کا نہ چھوڑے گی۔
موت کی پہلی علامت صاحب
یہی احساس کا مر جانا ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...