فضل احمد خسرو ۔۔. “اوکاڑا کا خسرو”
۔۔۔۔۔ شہر آشوب کا ایک جری شاعر ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : ڈاکٹر اظہار احمد گلزار
ان گلی کوچوں سے گزرو تو کبھی تم سوچنا
طے کیا خسرو نے کیسے مرحلہ اظہار کا
اوکاڑا سے متعلق ہمارے محترم فضل احمد خسرو ادب میں ترقی پسند روایت کے ممتاز غزل گو شاعر ہیں۔۔
عجز و انکسار اور سراپا اخلاص و مروت محترم فضل احمد خسرو کےامتیازی وصف ہیں ۔ایک گوشہ نشین ادیب کی حیثیت سے وہ ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز اور نہایت انہماک سے پرورش لوح و قلم میں مصروف رہتے ہیں ۔تخلیقِ فن کے لمحات میں ان کی سدا یہ تمنا رہی کہ لہو کے مانند رگِ سنگ میں اُترنے کی کوشش کی جائے ۔۔
اردو و پنجابی ادب میں نمایاں مقام کے حامل فضل احمد خسرو چھ جنوری 1965ء کو بورے والا میں مرزا سلام الدین کے گھر پیدا ہوئے۔ ابھی ساتویں جماعت میں ہی زیر تعلیم تھے کہ والد آرمی سے ریٹائر ہونے کے بعد تمام فیملی سمیت اوکاڑہ آن بسے۔اوکاڑہ میں فضل احمد کو فارسی، اردو اور پنجابی ادب کے عظیم دانشور اقبال صلاح الدین کی رفاقت نصیب ہوئی جنہوں نے ان کا تخلص “فضل” کی بجائے “خُسرو” تجویز کیا۔اقبال صلاح الدین کی شاگردی میں فضل احمد خسرو نے پہلی کتاب “صبحِ صدا” اردو غزلیات میں شائع کی۔ اس شعری مجموعہ نے انہیں ادب میں شاعر کی حیثیت سے متعارف کروایا۔دوسری کتاب “شہرِ بے اذاں” فروری 2006ء میں منظرِ عام پر آئی۔ اس میں آپ نے ترقی پسند فکری جدوجہد کو لفظوں میں بیان کیا اس کے ساتھ ساتھ “لمحہ موجود” بھی اردو شاعری جبکہ “ہجر ہلونے” پنجابی شاعری کے فن و فکر پر مرتب تصانیف ہیں۔تہذیب آرگنائزیشن اوکاڑہ اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی جانب سے فضل احمد خسرو کو ادبی خدمات پر لائف ٹائم ایچومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا ۔”ہجر ہلونے” میں فضل احمد خسرو نے ماہیا کی صنف میں ایک نئی اصطلاح متعارف کروائی جس میں ہر شعر کا پہلا مصرع جو کہ بے معنی اور بے ربط تصور کیا جاتا تھا اسے بامعنی اور مربوط الفاظ میں ڈھالا جسے ناقدین نے بھی بہت پسند کیا اور پذیرائی سے نوازا۔پنجابی افسانوں پر مشتمل ان کی کتاب “وفاواں عشق دیاں” پنجابی ادب اور تقافت میں ایک گراں قدر سرمایہ تصور کی جاتی ہے۔مولانا فیروز الدین کی کتاب گلزارِ یوسفی پر فضل احمد خسرو نے سیر حاصل بحث کی اور اس بحث کو باقاعدہ 72 صفحات پر مرتب کیا جس میں قصہ یوسف میں شعری تخیل سے پیدا کردہ مغالطوں کو علمی سطح پر دور کرنے کی کوشش کی۔”ترجیحات” فضل احمد خسرو کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف کتب پر لکھے گئے دیباچوں، کتابوں اور خلاصہ جات پر مشتمل ہے۔
ان کی ادبی کاوشوں پر 2004 میں انہیں لائٹ ہاؤس پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ، 2009 میں مسعود کھدر پوش ادبی ایوارڈ، نشانِ سپاس انجمن ترقی پسند مصنفین ایوارڈ، 2009 میں ہی یوتھ ٹیلنٹ ایوارڈ، 2011 میں ادبی ایوارڈ ورلڈ پنجابی فورم گجرات اور 2011 میں فیض امن ایوارڈ سے نوازا گیا۔جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے ادبی شعبہ میں ان کی پنجابی زبان میں لکھی غزلیات کو شامل کیا گیا جو شاہ مکھی اور گورمکھی دونوں رسم الخط میں موجود ہیں۔معتبر نقاد پروفیسر یوسف حسن، خسرو کی ترقی پسندیت کے بارے میں کہتے ہیں۔فضل خسرو کی جدید تمثالیں فطری مظاہر کی بھی ہیں اور تہذیبی مظاہر کی بھی مگر وہ جدید تمثال کاری کے شوق میں فنی حقیقت پسندی سے انحراف نہیں کرتے بلکہ اپنے ترقی پسندانہ رویوں کے ساتھ جدید تماثیلوں کو بھی اظہار کا حصہ بناتے ہیں۔”فضل احمد خسرو کی اُردو شاعری کا فکری و فنی مطالعہ” کے عنوان سے علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد میں ان پر 2010ء میں ایم فل کا مقالہ بھی لکھا جا چکا ہے۔
حال ہی میں “تہذیب اوکاڑہ” اور ڈسٹرکٹ گورنمنٹ اوکاڑہ کی جانب سے اُن کی ادبی خدمات پر اُن کو “لائف ٹائم ایچومنٹ ایوارڈ” سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر محمد علی صدیقی خسرو کی شاعری کو اِن الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔”یوں تو فضل احمد خسرو نے غزل اور نظم گوئی کے ساتھ یکساں طور پر مہارت کا مظاہرہ کیا ہے لیکن اُن کی نظم گوئی کا فنِ تعمیر بطورِ خاص دلکش ہے۔وہ اپنی نظم میں الفاظ کا انتخاب کفایتِ لفظی کے ساتھ کرتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ‘ لمحۂ موجود ‘ کی نظمیں خاص متاثر کرتی ہیں۔”خسرو کے شاعرانہ مزاج و مرتبہ کے بارے میں اُن کے استاد اقبال صلاح الدین کہتے ہیں۔”تحویلِ شعر کے عمل کو فضل احمد خسرو اپنی شخصیت کے مرتب اور متناسب نقوش کے حوالے سے ظاہر کرنے میں رمز آشنا ہیں۔وہ حرف و صورت کے استوار آہنگ کچھ اس انداز سے ترتیب دیتے ہیں کہ اس کی شخصیت کے خدوخال پروقار اور پر اعتماد جبیں لے کر سامنے آتے ہیں۔”ان کا مزید کہنا ہے کہ خسرو کی تخلیق میں ابہام کی گنجائش نہیں ہے۔ وہ اپنے شعری رویے کے حوالے سے اپنے قاری کو دوہرے سے تہرے معیار مہیا کرنے کے ماہر ہیں”۔
وہ اپنی شاعری میں پرانی وضع اور وقیانوسی خیالات، رویے، انداز اور طریقے کو رد کر کے نئے اصول ترتیب، قائدے، اسلوب، طرز اور رجحانات کو اختیار اور قبول کرنا ہے۔ کیوں کہ یہی شاعری ثقافت کے نظریہ ارتقا، فہم و ادراک اور معاشرے کے اثرات سے نشوونما پاتی ہے۔
اور یہ انسانی رنگ ڈھنگ، حالات، طور طریقے، دکھ سکھ اور حکمت عملی پر مبنی ہے اور ترقی یافتہ معاشرے کی صحیح ترجمانی کرتی ہے ۔ ایک ترقی پسند شاعر ہونے کی وجہ سے ان کا خیال ہے کہ ترقی پسند شاعری تصوراتی، خیال آرائی، فرضی اور غیر حقیقی نہیں ہوتی، یہ ادب کے ذریعے عوامی خدمت کرتی ہے اور حقائق بیان کرتی ہے، حوصلہ بلند کرتی ہے اور زندگی کا مقصد بیانیہ کیفیات، رودار اور قابل بیان تذکروں سے کرتی ہے۔ یہ مسلسل، لگاتار اور رواں دواں رہتی ہے۔ معاشرے میں تشدد، دنگا فساد، آمرانہ سوچ،جبراً اطاعت، سیاسی قبضے، انسانی برائیوں اور کمزوریوں کے رد عمل کے نتیجے میں لکھی جاتی ہے۔ دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کے جذبے کو ابھارتی ہے اور انسان کے بنیادی حقوق بتاتی ہے۔ اس لیے اس شاعری کو منطقی، شوخ اور زندہ دل کہا گیا، جو انسان دوستی پر انحصار کرتی ہے۔ بنیادی تبدیلیوں اور انقلابی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ خوشامد کو جڑ سے اکھاڑ دیتی ہے، یہ شاعری انسان کی شخصیت پر اس کے ماحول کے اثرات بیان کرتی ہے کیونکہ اس کا اصل موضوع انسان اور اس کا ماحول ہے۔ اسی لیئے نفسیات کو سائنس کہا جاتا ہے۔
ترقی پسند شاعر متحرک رہتا ہے۔ خوبصورتی اور فن سے دل پر اثر کرتا ہے مگر جمالاتی حسن کے بجائے انسانی آفادیت پر زور دیتا ہے، تبدیلی مانگتا ہے، سائنسی حقیقتیں بیان کرتا ہے۔ اپنا نقطہ نظر، تشبیہ اور استعاروں سے کم اور جدید شاعرانہ زبان سے بیان کرتا ہے۔ کئی ترقی پسند شعرا کو آمرانہ حکومتوں کے خلاف لکھنے پر سزائیں بھی ملیں۔۔ ترقی پسند تنظیم کے مصنفین نے اس وقت کے تمام اہم ایشوز پر لکھا، مگر جہالت، تنگ نظری، غربت، نسلی برتری، مذہبی مخالفت اور معاشی تنگ دستی پر زیادہ لکھا گیا، کئی شعرا کرام نے ہندوستان کی آزادی پر بہت لکھا، انہوں نے غوروفکر، جدوجہد اور اصلیت پسندی کو اپنایا۔
انجمن ترقی پسند مصنفین میں بے شمار لکھنے والے تھے جیسے سجاد ظہیر، ملک راج آنند، پریم چند، رانبد ناتھ ٹیگوز، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض، احمد فراز، کرشن چندر، عصمت چغتائی، امریتا پریتم، احمد علی و دیگر ہیں۔ دیکھتے دیکھتے یہ تنظیم دنیا کی چند بڑی تحریکوں میں شمار ہونے لگی۔
فضل احمد خسرو ترقی پسند شعرا میں ایک نمایاں شاعر کی حیثیت سے ہمیں نظر آتے ہیں ۔۔۔ جن کے مجموعی طور پر چار اردو اور دو پنجابی کے مجموعہ جات اور تالیفات منظر عام پر آ چکی ہیں۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ “صبح صدا” جس میں انہوں نے تغزل کی نئی جہتوں کو دریافت کیا اور معروف فکری اور شہری اب و ہوا سے الگ رہتے ہوئے اپنے عہد کی فکری اب و ہوا کی نہ صرف عکاسی کی بلکہ اس فکری فضا کے اندرونی خلش زار کو بھی بیان کیا ۔۔آج جب دنیا ایک نئے انقلابی ابھار کی دہلیز پر قدم رکھ چکی ہے تو فضل احمد خسرو بھی اس شہر بے اذاں کی صورت میں اپنی مسافت کی اگلی منزل پر کھڑا نظر اتا ہے۔
“شہر بے اذاں” فضل احمد خسرو کا دوسرا شعری مجموعہ ہے۔۔۔۔۔۔فضل احمد خسرو کے ہاں استعارہ ہے ۔۔۔زندگی کی طرف۔۔۔ فلاح کی طرف۔۔۔ تبدیلی کی طرف ۔۔۔ بلائے جانے کا۔۔۔نوحہ ہے ۔ایک ایسی دنیا کا جس میں کوئی بلال حبشی رضی اللہ عنہ اپنے ایسے غلام زادوں کو تمام دنیاوی خداؤں کی نفی کر کے فلاح کی طرف تبدیلی کی طرف۔۔تبدیلی کی طرف ۔۔ بلانے والا بھی نہ رہا ہو ۔۔دوسری طرف اس کے کلام میں اسی شہر بے اذاں کے کھنڈرات سے ابھرتے ہوئے ایک نئے منظر نامے کی بشارت بھی ہے۔۔فضل احمد خسرو رزم گاہ انقلاب میں اپنے حصے کی ذمہ داریاں پہچانتا ہے تبھی تو وہ سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا کردہ بیگانگی کو انسان کے ساتھ اپنی آفاقی محبت کے ذریعے دور کرنے کی سعی کرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ان کے شعری مجموعہ “شہر بے اذاں”کی شاعری سماجی گھٹن، معاشی نامواری اور تہذیبی ٹوٹ پھوٹ کے آلاؤ کی وہ چنگاریاں ہیں جو پھول پھول شعلوں کی صورت اشعار کا روپ دھار گئی ہیں۔یوں لگتا ہے جیسے اس کی شاعری حرفوں کے اوپر بھی سجی ہوئی ہے اور حرفوں کے اندر بھی اور اس کے لہجے میں بھی۔۔۔۔ یہی نہیں بلکہ اس کی محسوسات کی دنیا اتنی حساس ہے کہ “شہر بے اذان” ابھرتی ہوئی طبقاتی فکری آب و ہوا کا آئینہ خانہ بن گیا ہے۔ یوں ان کی یہ شاعری ہماری اس عہد کا صحیفہ ہے اور انقلابی فکر کے ساتھ تہذیبی ورثہ کی جڑت سے رونما ہونے والی قلبی واردات کی کہانی ہے۔ممتاز کالم نگار ناصر زیدی ان ان کے شعری مجموعہ “لمحہء موجود” کے بارے میں رقم طراز ہیں۔
“ایک تو تھے طوطیِ شکر مقال، خسروؒ شیریں زباں، حضرت امیر خسروؒ جن کا ایک مشہور زمانہ شعر یوں ہے:
گوری سووے سیج پر مُکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چَو دیس
امیر خسرو کو خود بھی اپنے شیریں زباں ہونے پر ناز تھا۔اور شکر مقال تو وہ ایرانیوں کے نزدیک بھی تھے کہ فارسی کے ایک بے بدل شاعر تھے:
دانی کہ ہستم درجہاں من خسروِ شیریں زباں
گرنآئی از بہر دِلم، بہرِ زبانِ من بیا!
اور ایک ہمارے فضل احمد خسرو ہیں کہ وہ خُسروِ شیریں زباں سے بھی گھائل ہیں اور اپنے اُکاڑا کی پہچان محترم ظفر اقبال کی طرف بھی مائل ہیں۔ان سے متاثر ہو کر”لمحہ ءموجود“ کے شاعر فضل احمد خسرو نے بھی اپنے تازہ مجموعہ کلام میں لفظیات سازی اور الفاظ شکنی کی کاریگری کا خوب خوب مظاہرہ کیا ہے۔انہوں نے اپنی ایک قابل ذکر نظم[قابلِ ذکر یوں کہ اکثر نے اس کا ذکر کیا ہے] ”اے میرے رب سچے“ میں جو لفظیات سازی کی ہے،وہ کچھ یوں ہے:
رکھوالا کی جگہ ”رکھیوا“….”پہنچائے“ کے بجائے ”پُچائے“….تفریق سے جمع تفریقیں…. بھیک سے بھیکیں….دھرتی کی جگہ دھرت اور آسمانوں کو ضرورت شعری کے تحت اسمانوں وغیرہ وغیرہ۔یوں ہمیں شمس الرحمن فاروقی اور افتخار عارف کے ممدوح بلکہ ا ن کی نظر میں عہدِ موجود کے سب سے بڑے شاعر حضرتِ ظفر اقبال فضل احمد خسرو کے حواس پر چھائے نظر آتے ہیں۔کسی کی پیروی کوئی بُری بات نہیں، بس امین حزیں سیالکوٹی نہیں بن جانا چاہیے کہ وہ علامہ اقبال میں ایسے ضم ہوئے۔ اپنی الگ شناخت ہی گنوا بیٹھے،سوائے اس ایک شعر کے:
شوق والوں کی حزیں محفل شب میں اب بھی
آمدِ صبح کی صورت ترا نام آتا ہے
بات سے بات نکلی تو کہاں جا پہنچی۔ذکر مقصود ہے فضل احمد خسرو کا ،وہ زیر نظر مجموعے”لمحہء موجود“ سے پہلے ”صبحِ صدا“ اور”شہرِ بے اذاں“ سے بھی ہمیں نواز چکے ہیں ۔”ہجر ہلو نے [پنجابی شاعری] اور ”وفاواں عشق دیاں“[پنجابی افسانے] اس لئے پنجابی کے بارے میں نہیں کہہ سکتے کہ وہ ظفر اقبال کی ”کُکڑ کھیہہ اُڑائی“سے بھی متاثر ہوئے یا نہیں؟….
یاد آیا کہ مَیں نے اپنے دورِ ادارت میں ایک شاعر ناصر صدیقی کی ایک غزل ماہنامہ” ادب لطیف“ لاہور کے خاص نمبر1966ءمیں شائع کی تھی، اس کا مطلع بہت مشہور ہوا:
رُکے تو چاند چلے تو گھٹاﺅں جیسا ہے!
وہ شخص دھوپ میں دیکھو تو چھاﺅں جیسا ہے
یہ ناصر صدیقی بعد میں محمدناصر ہوگئے اور اس نام سے پاکستان ٹیلیویژن کے لئے بہت عمدہ گیت لکھتے رہے، مگر متذکرہ مطلع ناصر صدیقی کے نام سے ضرب المثل بن چکا ہے۔اسی غزل کی زمین میں ”جیسا ہے“ ردیف کے ساتھ فضل احمد خسرو نے بھی خامہ فرسائی کی ہے، ان کی غزل کا مطلع ہے:
جمال و وصف میں کھلتے گلاب جیسا ہے
وہ بات بات میں دل کی کتاب جیسا ہے
اس غزل کو ”دیارِ دل کے مسافر کی بات“ کا عنوان دے کر گویا نظم کے طور پر چھاپا گیا ہے، مگر ”فارمیٹ“ تمام غزل کا ہے۔اس غزل یا نظم کے تین شعر اور ملاحظہ فرما لیجئے،پھر وہ بات کہہ سکوں گا، جو کہنی ہے:
وہ گفتگو میں معارف کا ایک دریا ہے
کمالِ جُود و سخا میں سحاب جیسا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثال اُس کی نہ کوئی مثیل اُس کا ہے
زمانے بھر میں وہ تنہا جواب جیسا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیارِ دل میں وہ بیٹھا سکون بانٹتا ہے
جہانِ وادی ءجاں میں ثواب جیسا ہے
یہ تین شعرپڑھوا کے بتانا یہ تھا کہ اگر گجرات[لالہ موسیٰ] کے ہومیو پیتھ ڈاکٹر ثاقب آکاش نامی شاعر کی نظر سے یہ گزریں گے تو وہ کہیں گے کہ ان میں ”تقابلِ ردیفین“ ہے۔!
بہرحال! ”لمحہ ءموجود“ میں شامل نظموں،غزلوں کو سراہنے والے طویل دیباچہ نگاروں میں ڈاکٹر سعادت سعید ،ڈاکٹر روش ندیم، ڈاکٹر جمال نقوی ، ڈاکٹر محمد علی صدیقی اور ناصر زیدی شامل ہیں۔
سکوتِ مرگ ہے لمحے کھڑے ہیں
زمانے یاد رکھنا ہم لڑے ہیں
اس غزل میں قوافی گھڑے، بڑے، اڑے، تڑے، جڑے، پڑے، گڑے سب زبر کے ساتھ ہیں ، مگر ایک شعر ” چِڑ چِڑے“ زیر کے ساتھ باندھا گیا ہے، وہ شعر ہے:
رعایا دے رہی ہے در پہ دستک
مزاجِ بادشاہاں چِڑچِڑے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔ فضل احمد خسرو کی اصل شناخت غزل گوئی ہے
۔۔۔غزل کی شعری روایت ایک ایسا تغزل قرار پایا جو محبوب کے ہجر و وصال جور و ستم ،حسن و جمال اور عشوہ و غمزہ و ادا کے سیاق و سباق میں پیدا ہونے والی واردات قلبی کا اظہار کرتا ہے اور اس میں اظہار کے لیے مخصوص اشارے کنائے اور رمزیات تخلیق کرتا ہے غزل اور تغزل کی یہ محدود شناخت پچھلے سو سال سے زائد عرصہ میں کئی تبدیلیوں کے زد میں ائی ہے ۔تبدیلیوں کا یہ عمل ترقی پسند ادب کی تحریک کے پھیلنے سے بھی وسیع تر ہوا ہے ۔ترقی پسند ادب کی تحریک دراصل سماج کو شعوری طور پر بدلنے کی بڑی تحریک ہی کا حصہ تھی۔اس نظریے کی بنیاد 18ویں 19 ویں صدی کے ان تہذیبی سماجی اور شعوری انقلابات نے رکھی جو مغرب میں صنعتی عہد کے اغاز کے ساتھ پیدا ہوئے اور جو جمہوریت اور آزادی کے تصورات سے ہوتے ہوئے سماجی افراط و تفریط اور طبقاتی بالادستی کے خاتمے اور اشتراکیت کے تصورات تک پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔اور یہ سفر ہنوز جاری ہے ۔ چنانچہ ترقی پسند تحریک نے یہاں انسانی سماج کو استحصال سے پاک معاشرے میں تبدیل کرنے کا بیڑا اٹھایا تو وہیں علم و دانش اور فن و ادب کو بھی اس بڑی تحریک کے حوالے سے سمجھنے، از سر نو مرتب کرنے اور درحقیقت اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا کام کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ادب و فن کا رشتہ زندگی سے کسی نہ کسی طور تو ہمیشہ سے ہی رہا ہے تاہم اس رشتے کا شعوری ادراک اور پھر اس اگہی کو سماجی شعور کی نئی جہتوں سے ہم اہنگ کرنے کا کام ترقی پسند تحریک ہی نے کیا ہے۔چنانچہ شیر و ادب میں ان کیفیاتی تبدیلیوں کا گہرا اثر یہاں موضوعات ادب پر پڑا وہیں زبان و بیان پیرائے اظہار اور اصناف سخن بھی اس تبدیلی کے عمل سے دو چار ہوئے ۔۔غم جانا سے غم دوراں اور اشوب ذات سے اشوب زمانہ کا سفر صرف موضوعا تی نہیں تھا اس کا دوسرا پہلو اسلوب ، ہئیت اور فن میں نئے راستے دریافت کرنا بھی تھا ۔۔۔۔۔۔صنف غزل اور غزل کاروائیتی تصور اس سارے عمل سے ماورا نہیں تھا ۔۔چنانچہ یہاں روایتی غزل کہنے والی بھی موجود رہے وہیں غزل کے مروجہ اسلوب میں نئے مضامین باندھنے والے بھی میدان میں اترے اور پھر ایسے شاعر بھی منظر عام پر ائے جنہوں نے اپنے عہد کے عاشوب کے شعور کو ایک نئی sensitivity میں ڈھالا اور غزل کے تکنیکی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئے اسلوب نئے پیرائے اظہار اور نئی زبان دریافت کی …..
فضل احمد خسرو کی شاعری غزل کی اس نئی جہت ہی سے تعلق رکھتی ہے ۔
برسا ساون سچا تو پھر شعر کہے
حشر ہوا جو برپا تو پھر شعر کہے
کب ہم نے کی بات کسی کی شعروں میں
دل سے بوجھ نہ اٹھا تو پھر شعر کہے
لفظوں سے کی بات نہ بات بنانے کی جب کوئی لمحہ اترا تو پھر شعر کہے
فضل احمد خسرو نے بڑی خوبصورتی سے اپنے تخلیقی تجربے کا اظہار اس پوری غزل میں کیا ہے جس کے یہ اشعار ہیں ۔ یہ تخلیقی تجربہ اپنے سماجی سیاق و سباق سے جڑا ہوا ہے ۔
اندھی کالی رات کے سونے منظر میں دیکھا جگنو تنہا تو پھر شعر کہے
اندھی کالی رات ہمارے عہد کے اس سماجی اور تہذیبی آشوب کا استعارہ ہے جو جوں تو کم و بیش ساری تیسری دنیا پر مسلط ہے پر ہمارے اپنے وطن میں ازادی کی منزل پر پہنچنے کے بعد بھی ہمارا مقدر بنی ہوئی ہے ۔۔ازادی سے پہلے اس اندھی کالی رات کا حوالہ غیر ملکی سامراجی تسلط تھا ۔۔سامراج ۔۔۔۔۔۔جس کا مقصد ہی اپنی نو ابادیات کو پسماندہ اور محکوم رکھنا تھا تاکہ یہاں کے وسائل کا استحصال کیا جائے اور یہاں کی افرادی قوت کو اپنی سلطنت کو دوام بخشنے کے لیے استعمال کیا جا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ جدوجہد ازادی کا حقیقی مقصد سیاسی ازادی کے ذریعے نو ابادیاتی عہد کے معاشی اور سماجی نظام کو ختم کر کے خود مختار جمہوری اور ترقی یافتہ معاشرے کی تعمیر تھا ۔۔تاہم یہ خواب پورا نہیں ہوا اور یہ “اندھی کالی رات” نئے اور پرانے حوالوں کے اشتراک سے پھیلتی ہی رہی۔ایک طرف دقیا نوسی جاگیرداری نظام اور قرون وسطی کا قبائلی طرز زندگی کروڑوں انسانوں کو غلامانہ اور انسانیت سے گری ہوئی زندگی سے دوچار کیے ہوئے ہے اور دوسری طرف جدید صنعتی احد کی ترقیات ترقیات کے بغیر سرمایہ دارانہ استحصار اور مصنوعی کنزیومر سوسائٹی کا دور دورہ ہے اور یہ تمام گلوبل کارپوریٹ لوٹ کا کھلا میدان ہے ۔چنانچہ غربت پسماندگی جہالت ازادی کے 58 سالوں کے بعد بھی ہمارا مقدر بنے ہوئے ہیں ۔
خواب ممتا تتلیاں اور پھول جلتے ہیں یہاں
زندگی ہر روپ میں لگتی ہے شہر بے اذاں
فضل احمد خسرو کے اس شہر بے عزام خوف بے بسی اور انسان کی بے وقتی نے جس آشوب کو جنم دیا ہے فضل احمد خسرو کی تخلیقی احساس اسی پر قائم ہے اور اس کا اظہار وہ بار بار کرتا ہے۔
رگوں کو توڑ دے جو خوف کا ایسا اندھیرا ہے
دیا ،جگنو ،ستارہ کچھ نہیں آتا نظر اب کے
محبت کا کوئی لہجہ نہ کوئی پیار کی بولی
بڑا خاموش اور سنسان ہے سارا نگر اب کے
اور پھر یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
یہاں چاروں طرف سہما ہوا ویرانہ رہتا ہے
زمین زندگی پر موت کا افسانہ رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹا ہے خوف سے ماحول سارا
جسے دیکھو وہی سہما ہوا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھروں میں، محفلوں میں ،جنگلوں میں
اداسی دائرہ در دائرہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“عید ” کے عنوان پر اپنی اس نظم میں وہ ہمارے سامنے وہی سوال رکھتے ہیں بظاہر خوشی کا دن جو توقعات وابستہ ہوتی ہیں وہ ہم حاصل نہیں کر پاتے ۔۔۔یہاں ان کا یہ سوال ہے کہ ہم ایک نہ ایک دن زندگی سے ضرور پوچھیں گے کہ کیا یہ عید ہے ؟ہاں دوسروں کا استحصال کیا جاتا ہے دوسروں کی کوششوں کا گلا گھونٹا جاتا ہے ۔۔اور ہر طرح سے دوسروں کو ایک شعر دھکیل کر اگے بڑھا جاتا ہے ۔۔ہم ایک دن زندگی سے یہ سوال کریں گے ۔
=====* عید *=========
زندگی تو برسی تھی
ہم چٹان تھے شاید
بُوند تک نہیں ٹھہری
پھر بھی اپنے اشکوں سے
فصل ِ خواب بوئی ہے
اور خواب زاروں میں
زندگی اُتاری ہے
آگہی کے پیڑوں پر
جب بھی بُور آئے گا
زندگی سے پوچھیں گے!
عید کِس کو کہتے ہیں؟
(فضل احمدخسرو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
اجنبی سا اِک نگر ہے اور میں
سہما سہما ہر بشر ہے اور میں
جاگتے رہتے ہیں دونوں رات بھر
چشمِ اُمیدِ سحر ہے اور میں
چل رہا ہے آنسوؤں کا قافلہ
بھیگی بھیگی راہگزر ہے اور میں
آج پھر جھوٹی تسلی کے لیے
اِک دعاۓ بےاثر ہے اور میں
سامنے ہے زندگی کا راستہ
بے سروساماں سفر ہے اور میں
کاش مل جاۓ سکوں کا ایک پل
آرزوۓ مختصر ہے اور میں
غم کا استقبال کرنے کے لیے
دیدہء نامعتبر ہے اور میں
پا سکیں شاید اُجالوں کا سراغ
شب کا آنگن ہے، نظر ہے اور میں
تُند ہے کتنا بگولوں کا مزاج
خسروِ بے بال و پر ہے اور میں
(فضل احمدخسرو)
صبحِ صدا ١٩٨٤ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فضل احمد خسرو اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان و ادب سے بھی والہانہ محبت کرتے ہیں ۔۔پنجابی افسانوں پر مشتمل ان کا افسانوی مجموعہ چھپ چکا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ پنجابی میں بھی وہ تسلسل کے ساتھ شاعری کر رہے ہیں ۔۔ان کی اس پنجابی نظم کے ساتھ میں اپنی بات کو سمیٹتا ہوں ۔
**ماں دی بولی توں میں واری **
جگ نوں اپنی ہوند وکھائیے
ڈھولے ماہئیے ٹپّے گائیے
ڈھول وجے تے کِھڑن دھمالاں
کِکلی گِدّا جُھمبر پائیے
دھرتی تے اسمان نوں دسیئے
اسیں تُہاڈا ہان
دیس پنجاب سَوَرگ دا سُپھنا
پنجابی جند جان
شِملہ عرش نشانی اس دی
رَشماں ونڈدی بانی اس دی
دَہ پھاگن دی پھوٹ دیہاڑا
کوڈی کوڈی آج اکھاڑا
رل مِل سارے دُھماں پائیے
ماں بولی دے سوہلے گائیے
آج دا دن ہے ماں نُوں دسیئے
ماں! تُوں ساڈا مان
(فضل احمدخسرو)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(Dr.Izhar Ahmad Gulzar)