شہر اندر جلاوطن، ڈاکٹر انور سجاد
لاہور کا عشق ایک ایسا عشق ہے جو وقت کے ساتھ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اگر اس شہر کی تاریخ سے آگاہی ہو تو عشقِ لاہور لامتناہی ہوجاتا ہے۔ میرا دوسرا جنم لاہور میں ہوا، اسی لیے میں اپنے لاہوری ہونے پر فخر کرتا ہوں۔ اندرون شہر کی گلیوں میں جنم لینے اور پلنے والے لوگ میری چڑھتی جوانی میں میرے خوابوں کے ہمسفر بنے۔ لاہور جمنی (لاہور میں پیدا ہونے والے) دوستوں ہی نے میری شخصیت کے اندر لاہوری طرزِزندگی کے گہرے آثار چھوڑے۔ اسی لیے میرے آج کے تمام دوست مجھے ’’لاہور جمنی‘‘ سمجھتے ہیں۔ میرا رہن سہن، بولنا، کھانا پینا، سوچنے اور سمجھنے کا انداز، محفلوں میں لاہوری انداز، ان سے میں مکمل لاہوری لگتا ہوں۔ سینیٹر مشاہد حسین کی ہمشیرہ تزئین جو ہمارے ایک دوست ڈاکٹر اکمل حسین کی شریک حیات تھیں اور کینسر کے موذی مرض کے باعث اس دنیا سے جلد ہی رخصت ہوگئیں، اُن کے ہاں ہم چند سیاسی ایکٹوسٹ اکٹھے ہوا کرتے تھے۔ ایک روز وہ حیران ہوگئیں جب انہیں معلوم ہوا کہ میرا جنم لاہور میں نہیں ہوا۔ کہنے لگیں، میں تو یہ یقین رکھتی رہی ہوں کہ آپ کا جنم موچی دروازے کی کسی گلی میں ہوا ہوگا۔ میرا جواب تھا، میرے تمام دوست موچی دروازے، دہلی دروازے، موری دروازے، شاہ عالمی، لوہاری، بھاٹی گیٹ اور فصیل کے اندر رہنے والے ہیں۔ اُن کا اندازِ محبت اس قدر پُر کشش ہے کہ اب میرے اندر لاہور بستا ہے۔ انہی ’’لاہور جمنی‘‘ لاہوریوں میں میرے ایک دوست ڈاکٹر انور سجاد ہیں۔ دوست سے زیادہ یار ہیں، ترکی زبان میں یارم، یعنی جو بہت گہرا یار ہو۔ لاہور کی فصیل کے اندر جنم لینے والا ڈاکٹر انور سجاد۔ ڈاکٹر دلاور علی کا بیٹا۔ ڈاکٹر دلاور، لاہور کے اوّلین ڈاکٹروں میں شمار ہوتے ہیں۔ چونا منڈی سے میرا تعارف ڈاکٹر انور سجاد کے حوالے سے ہوا، جہاں وہ پیدا ہوئے اور وہیں انہوں نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ بحیثیت ڈاکٹر، ادیب، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، مصور، رقاص اور ایک سیاسی لیڈر کی حیثیت سے۔ چونامنڈی کا تعارف اس کے علاوہ دو اور حوالوں سے بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ چونا منڈی میں ہی وہ محلہ ہے جہاں لاہور کا منفرد کلچہ بنتا تھا۔ داس کلچہ، موٹا سا پھولا ہوا، جو چکڑچھولوں کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔ داس کلچہ بنانے والے رشید بٹ پورے اندرون لاہور میں جانے جاتے تھے۔ رشید بٹ کے کلچوں سے میں ہمیشہ مفت لطف اندوز ہوا، اس لیے کہ اُن کا بیٹا سمیع بٹ ہماری جدوجہد کا ساتھی تھا۔ اور ایک روز سمیع بٹ کے والد کے داس کلچوں سے اس قدر لطف اندوز ہوا کہ اس کو اشتراکیت کے زمانے میں بلغاریہ کی سرخ جنت میں مفت تعلیم کے لیے بھیج دیا۔ چونا منڈی سی آئی اے سٹاف کا ٹارچر سیل، قلعہ کے ٹارچر سیل سے کم نہ تھا۔ یہاں جنرل ضیا کے اہلکار وں نے ہماری جدوجہد کے لاتعداد ساتھیوں کی چمڑیوں کو مار مار کر ادھیڑا۔
چونا منڈی کے سپوت ڈاکٹر انور سجاد کس قدر بڑے ادیب ہیں، اس کا اندازہ اپریل 2007ء میں دہلی میں ایک حقیقی عالمی کانفرنس میں ہوا، جس کے وفد کی تشکیل اور قیادت میرے حصے میں آئی۔ اس وفد میں دیگر مہمانوں کے علاوہ عمران خان اور سردار آصف احمد علی بھی تھے۔ دہلی کے انڈیا انٹرنیشنل سینٹر میں قیام کے دوران بھارت کے معروف ادیب جس طرح اردو کے اس ناول نگار سے ملنے آئے ، اُن کی تعداد عالمی شہرت یافتہ کرکٹر عمران خان سے ملاقاتوں سے زیادہ تھی۔ بھارت کے ہندی اور اردو کے ادیب ، ڈاکٹر انور سجاد سے ادب کے دیوتا کے طور پر ملنے چلے آئے۔
ڈاکٹر انور سجادمیری زندگی میں اُن لوگوں میں سے ایک ہیں جن سے میں نے ہر دم خوش رہنا سیکھا۔ لاہور کے اس سپوت کو میں نے کبھی بھی مایوس نہیں دیکھا، ہر دم مسکراتے پایا۔ جنرل ضیا کی آمریت میں ایک روز پولیس کی چار پانچ گاڑیاں اس نہتے اداکار، فنکار، ڈاکٹر اور سیاسی ایکٹوسٹ کو چونا منڈی میں اُن کے کلینک سے گرفتار کرنے آ گئیں۔ پولیس افسر نے کہا، چلیں ڈاکٹر صاحب، آپ کی گرفتاری کا حکم ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب کو ہر دم بنے ٹھنے، کلف والی سفید شلوار قمیص یا کسی اور لباس میں ہروقت تیار پایا۔ وہ اپنے کلینک سے اٹھے، پولیس کو گرفتاری دی اور پولیس وین میں بیٹھ گئے۔ محلے والے اکٹھے ہوگئے۔ گاڑی چلنے لگی۔ سگریٹ کا کش لگاتے ہوئے مارشل لاء کے زندان میں جاتے انقلابی دانشور نے مسکراتے ہوئے تھانیدار سے کہا، ٹھہرو ابھی گاڑی نہ چلائو۔ وہ رک گئے اور پوچھا کہ کیوں؟ ڈاکٹر انور سجاد نے کہا، گاڑیوں کے اوپر لگے ہوٹر بجائو، محلے میں پتا چلے کہ میری بارات پسِ زندان جا رہی ہے۔ میرا ٹہکا ہونا چاہیے کہ آمریت کے خلاف جدوجہد کرتے ہوئے گرفتار ہوا ہوں۔ یوں ان گاڑیوں کے ہوٹر بجنے لگے اور ڈاکٹر انور سجاد شان وشوکت سے چونا منڈی سے جیل چلے گئے۔
جیل گئے تو تخلیق کار ڈاکٹر انور سجاد نے جیل میں نالائق قیدیوں کی طرح آمریت کے سامنے سرنڈر نہیں کردیا۔کسی کا انقلابی ہونا جیل جاکر ہی معلوم ہوتا ہے۔ بڑا لیڈر کرپشن کے مقدمات میں جائے تو جیل میں جیسا جاتا ہے، ویسا ہی باہر آجاتا ہے۔ انقلابی جیل سے خالی ہاتھ واپس نہیں آتا۔ انقلابی جیل سے چھوٹے، اس کے ہاتھ میں فکر سے لبریز کتاب نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔ دسمبر 1977ء کے ٹھٹھرتے موسم میں گرفتار اور پھر کوٹ لکھپت میں قید کیا جانے والا ڈاکٹر انور سجاد، جب جیل سے آزاد ہوا تو اس کے ہاتھ میں ’’نیلی نوٹ بُک‘‘ کا اردو ترجمہ تھا۔ سوویت انقلاب کی ایک عظیم کتاب جسے عمانوئیل کزاکیویچ نے تحریر کیا۔ یہ روسی ادب کا ایک عظیم شہ پارہ تو تھا ہی، ڈاکٹر انور سجاد کے ترجمے نے اسے اردو ادب کی ایک بے مثال کتاب بنا ڈالا۔ اس ترجمے کی کہانی، ڈاکٹر انور سجاد کی زبانی۔
’’جیل مینوئل کے (غالباً) اصول کے مطابق قیدیوں کو پانچ پانچ کی ٹکڑیوں پر لگایا جانا چاہیے۔ مگر جیل کا حاکم، جسے عر فِ عام میں جیل سپرنٹنڈنٹ کہتے ہیں، بہت کرشمہ ساز ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے، اپنی حسن کرشمہ سازی کے بل بوتے پر کر سکتا ہے۔ یعنی جب چاہے جیل مینوئل کو ابوجیل مینوئل بھی بنا سکتا ہے۔ لہٰذا جب ایک قیدی مشقت کر رہا ہے تو بھی وہ پنجا ہوگا اور اگر سو قیدی ایک وقت میں ایک جگہ مشقت پر لگے ہیں تو وہ بھی پنجے، پر لگے ہوں گے۔(ہو سکتا ہے،یہ پنجا، وہ نہ ہو جو میںپانچ کے حوالے سے سمجھا ہوں، بلکہ وہ پنجہ ہو، خونیں پنجہ وغیرہ والا)۔بہرحال، اس پنجے کو اس کام سے موسوم کرتے ہیں جو قیدی کی مشقت ہوتی ہے۔ یعنی اگر کسی قیدی کی مشقت گھاس کاٹنے کی ہے تو وہ بوٹی پنجا کر رہا ہوگا۔پہلوان مارکہ قیدیوں کی مشقت اگر کوڑے لگانے کی ریہرسل کرنا ہے تو وہ ہنسڑ پنجا کر رہے ہوں گے وغیرہ، میں چوںکہ ’’بلیو نوٹ بْک ‘‘ اپنے ساتھ لے گیا تھا اور وافر وقت کے باعث اس کے ترجمے میں لگا رہتا تھا( کہ خدا نے زاہد ڈار کی سن لی تھی اور مجھے اب فرصت ہی فرصت تھی)، اس لیے جہانگیر بدر کو جب یہ پتا چلا کہ میں لینن کے بارے میں ایک ناول کا ترجمہ کررہا ہوں اور اس کا پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا تو اس نے میری اس رضا کارانہ مشقت کو لینن پنجے کا نام دیا۔ دوسرے تمام ساتھی اپنے اپنے مشاغل میں مصروف رہتے اور بعض اوقات ناراض بھی ہوتے کہ میں تھوڑی سی چہل قدمی اور طعام کے علاوہ ’’ بلیو نوٹ بُک‘‘ سے کیوں چمٹا رہتا ہوں۔ ایک یہاں احسان الحق (لاہور والے) ہی تھے جو اس سلسلے میں میرے لیے کافی، چائے، سگریٹوں اور بسکٹوں کی سپلائی لائن ٹوٹنے نہیں دیتے تھے۔ دوسرے خان عبدالرئوف خان جو اپنی ذیابیطس کے باعث کم زوری کے باوجود کھلنڈرے دوستوں کو مجھ سے دور رکھنے کی کوشش کرتے اور تیسرے ڈاکٹر ایس ایم یعقوب جو اپنی کمر کی ہڈی کی شدید تکلیف کی وجہ سے تخت کے بستر پر لیٹے لیٹے ہر نماز کے بعد (کہ خان رئوف کے علاوہ یہ بھی الحاج ہیں)، میری صحت کے لیے دعا کرتے کہ قریباً انیس بیس گھنٹے روزانہ ’’بلیو نوٹ بُک‘‘ کی رفاقت میںکہیں میں ہی نیلا نہ پڑ جائوں۔ البتہ سردار مظہر علی خان وقتاً فوقتا بے صبری کا مظاہر ہ کرتے رہتے کہ ترجمہ جلدی ختم کرو۔ (جیسے ابھی چھاپ دیں گے)۔‘‘
ڈاکٹر انور سجاد نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے جو ڈرامے لکھے، اگر انہیں فرانسیسی یا روسی زبان میں ڈب کر دیا جائے تو یقینا وہ عالمی ایوارڈ حاصل کرلیں اور اسی طرح اُن کی بقیہ تحریریں اور افسانے بھی۔۔۔ مگر ایسا ممکن نہیں۔ ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں، اس میں وہ لوگ عظیم جانے جاتے ہیں جن کے مالی اثاثے اربوں میں ہوں۔ یہاں بھلا تخلیقی اثاثوں کی کیا حیثیت۔
ڈاکٹر انور سجاد اور منو بھائی، یہ دونوں ہی ہمارے مشیر تھے، جن کے حتمی مشورے کے بعد ،میں نے ایک لبنانی خاتون کے ساتھ آئندہ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس لیے کہ ہمارے معاشرے میں شادی لڑکیوں ہی نہیں بلکہ انقلابیوں کا بھی مسئلہ رہا ہے۔ لڑکی والے اپنی بیٹی کو کسی انقلابی کے ساتھ زندگی گزارنے کو بھلا کہاں برداشت کرتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بڑی گاڑی ا ور بڑے گھروالا آئے اور وہ اُن کی بیٹی کو نکاح ہوتے ساتھ ہی ملکہ یا رانی بنا ڈالے۔ انہی تلخ تجربات نے مجھے بحیرۂ روم کنارے اپنی ایک عاشق (محبوب) کو شریک حیات بنانے پر مجبور کیا۔ منو بھائی اور ڈاکٹر انور سجاد نے کہا کہ جائو ریما کو لے آئو۔
ڈاکٹر انور سجادہر صبح میرے گھر میری صبح کی چائے کے آخری کپ میں شمولیت اختیار کرتے، سیاست، جدوجہد اور سماج کے لاتعداد موضوعات ہمارے لیے سرفہرست ہوتے۔ یہ سلسلہ تب ٹوٹا جب وہ رزق کی تلاش میں اپنی جنم بھومی کو چھوڑ کر کراچی چلے گئے۔ وہ کراچی میں ایسے گم ہوئے کہ لاہور کی فضا قہقہوں سے محروم ہوگئی۔ میرا یارم کراچی میں۔ میں کبھی کبھی انہیں ملنے کراچی چلا جاتا۔ ’’لاہور جمنی‘‘ ڈاکٹر انور سجاد کی کراچی ہجرت نے مجھ سے یارم چھین لیا۔ جب تین سال قبل وہ واپس لاہور آئے تو کسی کو یاد ہی نہیں رہا کہ ڈاکٹر انور سجاد یہاں ہیںکہ۔۔۔۔۔۔ میں انہیں ملنے گیا تو ان کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ بستر پر اپنے آدھے وجود کے ساتھ انور سجاد لیٹا تھا۔ مجھے دیکھ کر اٹھ بیٹھے اور اپنے خدمت گار اکبر سے کہا، مسٹر فرخ سہیل گوئندی آیا ہے۔ ہم میز کے دونوں جانب بیٹھیں گے، ون آن ون ملاقات ہوگی۔ میرے لیے سگریٹ سلگائو۔ اپنی مخصوص شان دار اور بلند آواز میں کہا، تو بتائو جدوجہد جاری ہے؟ میرا جواب تھا، بہت زیادہ، آخری فتح تک۔ گھنٹوں محفل کی، تصاویر اتاریں۔ مگر سوشل میڈیا پر اس نقطۂ نظر سے شائع نہیں کیں کہ ہمارے سماج میں اب ہر چیز فروخت کرنا عروج پر ہے۔ چند ماہ بعد دوبارہ ملنے گیا۔ اپنی شریک حیات رتی کے ہمراہ اپنے وزن سے آدھے وزن میں ڈاکٹر انور سجادنے مجھے دیکھ کر لاہوری انداز میں کہا، مسٹر گوئندی آیا ہے۔ بس محفل بھی تھی اور شامِ غریباں بھی۔ اُن کے چہرے کی مسکراہٹ کے ساتھ مسکراہٹ ملا رہا تھا۔ اندر سے میں بس۔۔۔۔۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کا ذکر آیا تو اُن کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ پھر یکایک شعر سنانے شروع کردئیے۔
اپنے دشمن کے مقابل جو اتر آئی ہے
وہ نئے چین کی فوجیں تو نہیں رک سکتیں
سکّوں کی دیوار کھڑی کرنے سے
ساحلِ جُمہور کی موجیں تو نہیں رک سکتیں
گھنٹوں بیٹھا رہا میں۔ اس روز میں بڑا خوش تھا۔ جینا کوئی ڈاکٹر انور سجاد سے سیکھے۔ گزشتہ اتوار ریما کو ساتھ لے کر لاہور کی نئی نئی بستیوں سے بھی دور زیرآباد مزید نئی بستیوں میں ڈاکٹر انور سجاد سے ملنے گیا۔ تو بس پھر کیا تھا۔ اُن کی زندگی سے لبریز باتیں اور زندگی سے بھرپور انداز، میرے باعث خوشی بھی تھا اور ۔۔۔۔ شہر اندر جلاوطن ڈاکٹر انور سجاد۔ ریما بھاگ کر دیوار کی اوٹ میں ہوگئیں۔ آنسوئوں کا دریا تھا جو امڈ آیا۔ رتی مسکرا مسکرا کر ریما کو سنبھالتی رہیں۔ اور میں، جی چاہتا تھا کہ وقت رک جائے۔ میں اٹھنا بھی چاہتا تھا اور رکنا بھی چاہتا تھا۔ڈاکٹر انور سجاد نے یکایک اپنی خوب صورت آواز میں کہا، گوئندی روز آیا کرو۔ ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔
لاہور ابھی زندہ ہے۔ اگر دیکھنا ہے تو ڈاکٹر انور سجاد کو دیکھ کر یقین کرلو، ابھی زندہ ہے۔کروڑ سے زائد لاہوریو، تمہیں معلوم ہے ڈاکٹر انور سجاد کون ہے۔۔۔
“