میں کشمیر گورنمنٹ آرٹس ایمپوریم کے اشوکا ہوٹل نئی دہلی برانچ میں ١٩٧٢ میں بحیثیت منیجر تعینات تھا۔ بالی ووڈ کی کئی شخصیات ہوٹل میں آتی تھیں اور کچھ دن قیام کرتی تھیں۔ چند ایک کا اتفاقاً سامنا ہوا، میں نے آداب عرض کی مگر انھوں نے جواب دینا مناسب نہیں سمجھا، یہاں تک کہ اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ اس لیے میں نے فیصلہ کیا کہ آگے کسی کو سلام نہیں کروں گا۔
انھیں دنوں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کرکٹ میچ منعقد ہوا۔ چنانچہ اس وقت ٹی وی سیٹ بہت عام نہیں ہوئے تھے، اس لیے اشوک ہوٹل کے انتظامیہ نے ایک ٹی وی سیٹ پہلی منزل کی گیلری میں لگایا تاکہ ہوٹل میں رہنے والے، جنھیں کرکٹ سے دلچسپی تھی، کرکٹ میچ دیکھ سکیں ۔ گیلری سے گراؤنڈ فلور خاص کر ریسیپشن اور صدر دروازے پر براہ راست نظر پڑتی تھی۔ چونکہ میں گیلری کی دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا اس لئے آنے جانے والے مجھے دیکھ سکتے تھے۔ کرکٹ میچ کا شور و غل بھی ریسیپشن سے سنائی دے رہا تھا۔
دریں اثنا دلیپ کمار، جو کروڑوں دلوں پر راج کرتے تھے، ہوٹل میں داخل ہوئے، چیک ان کیا، ریسیپشن سے کمرے کی چابیاں لیں اور آگے بڑھ گئے ۔ آگے بڑھ کر ان کی نظر مجھ پر پڑی، اس لیے قدرے اونچی آواز میں کہنے لگے، "بھائی، اسکور کیا ہوا؟"
میں نے جواب دیا، "مہربانی کرکے آپ اوپر آئیے اور خود دیکھیے، میں آپ کا نوکر نہیں ہُوں۔"
انھیں اچنبھا تو ہوا مگر انھوں نے اس کا اظہار نہیں کیا۔ اس کے برعکس انھوں نے بڑی انکساری سے جواب دیا ۔" بھائی میں نے تو ساری زندگی آپ لوگوں کو محظوظ کرنے کے لیے وقف کرلی۔ کیا میرا اتنا بھی حق نہیں بنتا کہ آپ کو تھوڑی سی تکلیف دوں ۔"
اب تو میرے شرمسار ہونے کی باری تھی اور مجھے کوئی جواب سوجھ نہیں رہا تھا۔ اس دوران وہ وہاں سے چل دئیے اور میری نظر سے اوجھل ہو گئے۔ تب سے میرے دل میں ایک چبھن اور پچھتاوا گھر کر گیا ہے ۔ ان کے طور طریق اور بولنے کے انداز نے مجھے بہت ہی قائل کر دیا ۔ وہ حادثہ میرے دل و دماغ پر نقش ہو چکا ہے اور جتنا میں اس کے بارے میں سوچتا ہوں اتنا ہی دلیپ کمار کی شخصیت مجھ پر حاوی ہو جاتی ہے۔
میری دعا ہے کہ خدا ان کی روح کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
“