اِنسان کم و بیش نو ہزار سال سے شہد اِستعمال کرتا آرہا ہے اور ہزاروں سال سے شہد کی صنعت بھی مُختلف اشکال میں اپنا وجود برقرار رکھے ہُوئے ہے ۔ قدیم زمانوں میں جب اِنسان کی آبادی بُہت زیادہ نہیں تھی تب شہد میں مِلاوٹ کا تصور بھی ناپید تھا لیکن جُوں جُوں زمانہ ترقی کرتا گیا ، آبادی بڑھتی گئی اور شہد کی طلب میں بھی اِضافہ ہوتا گیا لیکن شہد کی رسد کو ایک خاص حد سے زیادہ بڑھانا ایک مُشکل کام تھا ۔ چُونکہ شہد میں مُنافع بھی کُچھ کم نہیں تو اِس صُورتحال میں شہد کی مِلاوٹ یا Honey Adulteration کا آئیڈیا جعلسازوں اور دھوکہ بازوں کے لئے ایک ایسا سُنہرا موقع تھا جِس کو اِستعمال کرتے ہُوئے معمولی فُوڈ پروڈکٹ کو شہد کے نام پر بیچا جانے لگا اور کسٹمرز سے اصلی شہد کے پیسے وصول کئے جانے لگے ۔ یہ دھوکہ محض پاکستان ، اِنڈیا تک محدود نہیں بلکہ ہر دِل عزیز چِین سے لے کر انڈونیشیا ، ملائیشیا وغیرہ جیسے ممالک نے بھی مغربی ممالک اور بالخصوص امریکا کو شہد کے نام پر وُہ چُونا لگایا ہے کہ اُنھوں نے ہاتھ جوڑ کر اِن ممالک سے درخواست کی کہ ہم آپ کے شہد سے باز آئے بلکہ اِن ممالک سے شہد درآمد کرنے پر کئی بار پابندیاں بھی لگائی گئیں ۔
تجارتی پیمانے پر شہد کی فارمنگ کرنے کے لئے جو دُرست طریقہ ہے وُہ یہ ہے کہ ایک کُھلی زمین ہو جہاں پر مختلف اقسام کے پُھول ہوں ، درخت ہوں تا کہ شہد کی مکھیاں اُن پُھولوں سے نیکٹر حاصِل کر سکیں اور شہد پیدا ہوسکے ۔ بہار کا موسم اور گرمیوں کے ابتدائی دِن اِس کے لئے زیادہ موزوں ہوتے ہیں لیکن بہار کا موسم زیادہ عرصہ نہیں رہتا ، پُھول جلدی مُرجھا جاتے ہیں ، زیادہ گرمی یا زیادہ سردی شہد کی مکھیوں کے کام کرنے کی صلاحیت کو شدید متاثر کرتی ہے تو اِن تمام مسائل کو سامنے رکھتے ہُوئے شہد کی فارمنگ کرنے والے نیکٹرز کو محفوظ کرتے ہیں اور شہد کی مکھیوں کے لئے سارا سال شہد بنانا ممکن بناتے ہیں کیونکہ شہد کی مکھیاں شہد بنائیں گی تو ہی اُن کا کاروبار چلے گا ۔
شہد کی مکھی نیکٹر کو اپنی سٹرا جیسی زبان سے چُوستی ہے اور اپنے پیٹ میں موجود specially designed honey gut میں محفوظ کرتی ہے جہاں سے قُدرتی طور پر پیدا ہونے والے اینزائیمز enzymes اُس نیکٹر میں شامل ہوتے ہیں ۔ ایک شہد کی مکھی تقریباً اپنے وزن کے برابر نیکٹر چُوس لیتی ہے ۔ شہد کی مکھی یہ نیکٹر دُوسری شہد کی مکھی کے مُنہ میں مُنتقل کرتی ہے جو اُس میں تھوڑا اور اینزائیم ایڈ کرتی ہے پھر وُہ مکھی اگلی مکھی کے مُنہ میں مُنتقل ( تھوک دیتی ہے ) کرتی ہے ؛ یہ مرحلہ کم از کم تین بار کِیا جاتا ہے ۔ اِس کے بعد اِس شہد کو شہد کے چھتے میں ایک سیل ( خانے ) میں محفوظ کِیا جاتا ہے اور شہد کی مکھیاں ایسے ہزاروں خانوں میں جمع شہد کو اپنے پروں سے ہوا دیتی ہیں ؛ شہد کی مکھیاں اپنے پروں کو ایک مِنٹ میں بارہ ہزار سے زائد مرتبہ حرکت دیتی ہیں اور اِس طرح اُس نیکٹر کو قدرے خُشک یا ڈی ہائیڈریٹ کرکے گاڑھا کِیا جاتا ہے اور اِس طرح سُنہرے رنگ کا شہد تیار ہوتا ہے جب یہ مرحلہ مکمل ہوتا ہے تو شہد کی مکھیاں اِن خانوں ( سیلز ) کو ایک موم ( ویکس ) سے بند یعنی سِیل کردیتی ہیں ۔ ایک شہد کی کارکن مکھی یا ورکر بِِی چالیس دِن کے قریب زِندہ رہتی ہے اور اِس دوران چائے کے چھوٹے چمچ سے تھوڑا کم شہد پیدا کرتی ہے ۔ شہد کی مکھیاں یہ شہد اپنے لئے بطور خوراک جمع کرتی ہیں جو ہم اِنسان اُن سے چِھین لیتے ہیں اور فارمنگ کے عِلاوہ جو شہد چھتوں سے اُتارا جاتا ہے اُس کی مکھیاں بُھوکی مرتی ہیں یا اُن کے مرنے کے چانسز زیادہ ہوتے ہیں جبکہ فارمنگ والے شہد کی مکھیوں کے لئے کُچھ شہد باقی چھوڑ دیتے ہیں ۔ جب موسم سازگار ہوتا ہے تو ایک کالونی کی مکھیاں جو پچاس ہزار تک ہوسکتی ہیں وُہ ایک ہفتے میں 30 پاؤنڈز یعنی ساڑھے 13 کِلوگرام تک شہد پیدا کرسکتی ہیں ۔
یہ تو ہوگیا مختصر ترین الفاظ میں شہد کی تیاری کا مرحلہ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہئیے کہ پچھلے کئی سالوں سے شہد کی مکھیاں پُوری دُنیا میں بُہت ہی زیادہ تعداد میں مر رہی ہیں اِسی لئے شہد کی فارمنگ کرنے والوں کے نزدیک اپنی شہد کی مکھیوں کی افزائشِ نسل اور اُن کو بچانا ایک مذہبی فریضے سے کم ہرگِز نہیں ہے ۔ شہد کی مکھیاں 2006 میں سب سے زیادہ مری تھیں ۔ شہد کی مکھیوں کی معدوم ہونے کی وجوہات میں کئی طرح کے سٹریس شامل ہیں جو پیراسائیٹ اور دیگر جراثیم کش ادویات جو فصلوں پر یا پُھولوں پر اِستعمال کی جاتی ہیں وُہ اِن مکھیوں کے لئے مُہلک ثابت ہوتی ہیں ۔ صِرف امریکہ میں ایک سال میں فارمنگ کے کاروبار سے منسلک افراد اپنی پچاس فیصد شہد کی مکھیاں کھو بیٹھتے ہیں ۔
اِن تمام حقائق کا سیدھا سیدھا مطلب یہ ہے کہ ہر سال شہد کی اصل پیداوار کم ہورہی ہے جبکہ پچھلے بیس سال میں شہد کی طلب اور کھپت میں مُسلسل اِضافہ ہورہا ہے ۔ ہر سال دُنیا میں 40 ملین پاؤنڈز یا ایک کروڑ اکیاسی لاکھ تینتالیس ہزار سے زائد کلوگرام شہد کھایا جا رہا ہے ؛ صِرف امریکہ میں اِس شہد کا پچاس فیصد کھپ رہا ہے ؛ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اِتنا شہد آ کہاں سے رہا ہے ؟
یہ حقیقت ہے کہ ہمارا جِسم شہد کو کِسی بھی دُوسرے میٹھے کی طرح ہی ٹریٹ کرتا ہے لیکن صدیوں سے رائج اِس تصور کو توڑنا بُہت مُشکل ہے کہ شہد کا اِستعمال بھی عام چِینی سے قدرے کم سہی لیکن بہرحال بُہت زیادہ فائدہ مند نہیں ہے لیکن ہمارا موضوع قطعاً شہد کے فوائد یا نُقصانات پر بحث کرنا نہیں ہے بلکہ موضوع ہے شہد کی مِلاوٹ اور جعلی شہد کا کاروبار کرنے والے افراد جو محض زیادہ پیسہ کمانے والے فراڈی اور جعلساز ہیں اُن سے عام خریداروں کو ہوشیار کرنا ۔ طلب اور رسد کو ذہن میں رکھتے ہُوئے غیر جانبداری سے اِس پر لکھنے کی سعی کر رہا ہُوں ، آپ بھی غیر جانبداری سے اِس پر سوچیئے گا ضرور ۔
شہد کی مِلاوٹ کے درجنوں طریقے ہیں جِن کو تفصیل سے لِکھنے کے لئے کئی مضامین بھی کم ہوں گے لیکن چند عام طریقوں میں چینی ، گُڑ یا شُکر کے شِیرے میں شہد کی مصنوعی خُوشبو کا استعمال کرنا بُہت عام ہے ۔ آپ جب ایسا شہد خریدیں جِس پر شک ہو تو اُس کو چند ہفتے بند رکھیں اُس میں فرمینٹیشن کا عمل شُروع ہوجائے گا جِس کے دوران الکحول پیدا ہوگی اور شہد کی بوتل کھولنے پر سوڈے کی بوتل کا ری ایکشن متوقع ہے ۔ اِسی طرح کی مِلاوٹ کو پکڑنے کے لئے پچیس تیس سال قبل امریکہ میں ایک ٹیسٹ تیار کِیا گیا تھا لیکن چِین نے چاولوں سے یہ میٹھا سِیرپ تیار کر کے شہد میں مِکس کرنا شروع کردیا کیونکہ چاولوں سے تیار کردہ سِیرپ اُس ٹیسٹ میں پکڑا نہیں جا رہا تھا ۔ ایسے ہی کئی اور ٹیسٹ تیار کئے گئے لیکن چِین اُن کو بِیٹ کرتا رہا رہا ۔ امریکہ میں شہد کی جانچ کی سب سے بڑی لیبورٹری QSI ہے جہاں آج کلnuclear magnetic resonance or NMR کا طریقہ اِستعمال کِیا جا رہا ہے ، جو شہد کے مالیکیولز کو انفرادی سطح پر ہر ایک ایٹم کو ٹیسٹ کرتا ہے اور اِن مالیکیولر کے فنگر پرنٹ بنائے جاتے ہیں اور اُن کو دُنیا بھر کے ممالک سے آئے شہد اور اُس کے سیمپلز کی پہلے سے دستیاب معلومات سے کمپیوٹر پر کراس ویریفائی کِیا جاتا ہے ۔ ابھی تک چِین اِس کا توڑ نہیں نِکال سکا لیکن کیا معلوم کب ایسا ممکن ہو جائے ! امریکہ نے کئی بار چِین سے شہد منگوانے یعنی درآمد پر پابندی بھی لگائی لیکن چِین تھائی لینڈ ، انڈونیشیا اور ملائیشیا جیسے ممالک میں شہد بھیج کر وہاں سے امریکہ بھیجتا رہا ۔
سوچیں کہ شہد کی مِلاوٹ جب پُوری دُنیا میں ہے تو اپنے پاکستانی بھائی جو ہر شے میں مِلاوٹ کے عادی ہیں وُہ بھلا کیوں پیچھے رہیں گے ؟ سستی ترین مِلاوٹ جو چینی ، شکر یا گُڑ کے شیرے سے کی جاتی ہے اُس میں بھی بعض افراد اصلی شہد میں اِس کو ملاتے ہیں تو بعض سِرے سے آپ کو شِیرا بیچ دیتے ہیں ۔ کئی شہد فارمرز نے مکھیوں کے لئے شِیرے کی دستیابی ممکن بنائی ہوتی ہے جہاں سے مکھیاں اُس شیرے کو بطور نیکٹر چُوستی ہیں اور پھر اُس کو شہد کے طور پر سٹور کرتی ہیں ؛ مالکان بھی حلف اُٹھانے کے قابل ہوجاتی ہیں کہ “ اللہ دی قسم اے ؛ سو فیصدی مکھیوں کا شہد ہے “ جبکہ درحقیقت وُہ شِیرہ ہی ہوتا ہے ۔
پاکستان میں تو اِسلامی شہد کا چُورن بھی خُوب بِکتا ہے ؛ کوئی سوچے کہ کیا مکھیاں بھی مُسلمان یا کافر ہوتی ہیں ؟ اینی وے آپ جب بھی مارکیٹ سے شہد خریدیں اور کسی ایسے بندے سے خریدیں جو بڑے پِیمانے پر شہد بیچ رہا ہو تو اِس بات کو ذہن میں ضرور رکھئیے گا کہ شہد کی پیداوار اُس کی طلب کے مُقابلے میں نہایت کم ہے تو اِتنا شہد آ کہاں سے رہا ہے ؟ شہد کو ممکن ہو تو کِسی اچھی لیبورٹری سے ٹیسٹ کروائیں اگر شہد جعلی نِکلے تو اُس بیچنے والے پرجعلی سازی اور دھوکہ بازی کا فوجداری مقدمہ کروائیں ۔ کبھی بھی اُس سے اپنے پیسے واپس لینے کی آفر قبول نہ کریں کیونکہ وُہ آپ کو تو پیسے واپس کر دے گا لیکن دُوسروں کو چُونا لگاتا رہے گا ۔ آپ کے اِردگِرد جو کوئی بھی شہد بیچ رہا ہے اُس کی گواہیاں بھلے درجنوں افراد دیں اور وُہ کِتنا ہی نیک نام کیوں نہ ہو لیکن اُس کے دیے گئے یا بیچے گئے شہد کا لازمی ٹیسٹ کروائیں کیونکہ بعض اوقات یہ اصلی شہد بھی بطور ٹوکن آپ کو دیتے ہیں اور بعد میں اپنا ڈنڈی مارنے والا کام جاری رکھتے ہیں ۔
نوٹ : پوسٹ ایک عُمومی موضوع پر لِکھی گئی ہے اور کِسی ایک خاص شخص ، اشخاص یا گروہ کو ٹارگٹ کرنا ہرگِز مقصد نہیں ہے ۔ اس پوسٹ میں موجود حقائق کو لِکھنے میں چند ویڈیوز اور مضامین کا سہارا بھی لِیا گیا ہے ۔
اگر ممکن ہو تو اِس پیغام کو مفادِ عام میں دُوسروں تک پُہنچائیں ۔