سیتلا مندر سوھدرہ وزیر آباد
منشی رام پرشاد ماتھر اپنی کتاب " ھندوؤں کے تہوار " میں لکھتا ھے کہ
سیتلا ، پاریتی یا دیوی کی ایک اجمالی شکل ھے۔ چونکہ یہ چیچک کے مریض کو سکون بخشتی ھے ۔ اس کو دیگر معنوں میں ٹھنڈک بھی کہتے ہیں۔ (ھندوؤں کا تہوار 19)
محمود غزنوی کے غلام ایاز نے دریائے چناب کے بائیں طرف ایک اونچے ٹیلے پر ایک شہر بسایا ۔ اس شہر کی فصیل کے سو درے ( در – دروازے ) رکھے۔ اور اس کا نام سودرہ رکھا۔ جو کہ وقت کے دھارے کے ساتھ ساتھ سفر کرتا آج کا سوھدرہ کہلایا۔ اس دوران اس کے دیگر نام بھی مستعمل ھوئے جن میں ابراھیم آباد بھی شامل تھا ۔ آج سوھدرہ دنیا بھر میں کٹلری کے سامان کی وجہ سے جانے جانے والے شہر وزیر آباد کا ایک قصبہ ھے۔ جو کہ وزیر آباد سیالکوٹ روڈ پر 6 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ھے۔ خالصہ راج کے عروج کے عہد میں مہاراجہ رنجیت سِنگھ کی سوھدرہ کے ساتھ خاص عقیدت رھی جس کا سبب یہاں کے ایک مشہور صوفی بزرگ " بابا مستان شاہ تھے۔ ( اس کی تفصیلات جلد ھی انشاء اللہ شیئر کریں گے). سوھدرہ شہرمیں تقسیم ھند سے قبل سکھ اور ہندو بھی آباد تھے۔ ھندوؤں کی ابادی کا تناسب سکھوں کی نسبت زیادہ تھا۔ ھندوؤں کے کچھ مذھبی آثار قدیمہ بھی باقی تھے جو کہ 1992 ء میں بابری مسجد کے سانحے کے ردعمل کے طور پرکچھ متاثر ہوئے۔
باقی رہ جانے والے تاریخی آثار میں ایک سیتلا مندر بھی ھے جو کہ سوھدرہ کے بس سٹینڈ کے عقب میں وزیر آباد سیالکوٹ جانے والی سڑک کے راستے میں ھے۔ یہ مندر مغلیہ دور کی چھوٹی اینٹوں کا بنا ھوا ھے۔ جس کی بعد میں برطانوی راج میں بڑی اینٹوں کے ساتھ تعمیر نو کی گئی۔ مندر کے علاوہ اشنان کے لئے تالاب بھی تھا جوکہ مٹی سے بھر کر کھیت کی صورت اختیار کر چکا ھے۔
ھندوستان کے صوبہ " ھریانہ " کے سابق وزیر اعلی" اوم پرکاش چٹالہ " کے آباؤاجداد کی جنم بھومی سوھدرہ تھا۔ جب وہ وزیر اعلیٰ بنے تو خصوصی طور پر " سوھدرہ " آئے۔ اس غیر آباد مندر میں کچھ دیر عبادت بھی کی اور ساتھ موجود تالاب سے پانی کو مقدس جان کر لے کر گئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔