سلیکون اور آکسیجن سے مل کر بننے ولا سلیکا ریت کا سب سے بڑا جزو ہے اور دنیا میں وافر مقدار میں کوارٹز کی صورت میں موجود ہے۔ یہ ایک کرسٹل کی صورت میں ہوتا ہے۔ برف کو پگھلائیں تو پانی بن جاتی ہے، واپس سرد کریں تو ویسے ہی کرسٹل بنا کر برف۔ لیکن کوارٹز کو پگھلائیں تو مائع بن جاتا ہے، سرد کریں تو واپس کرسٹل کی حالت میں نہیں آتا، ویسا ہی رہ جاتا ہے، بے ترتیب مالیکیول۔ یہ شیشہ ہے۔ اگر یہ اتنا آسان ہے تو اس قدر عام پہلے کیوں نہیں ہوا؟ اس کی ایک وجہ تو ریت کی ٹھیک کوالٹی کی دستیابی ہے اور دوسرا اس کو پگھلانے کے لئے 1200 ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت جو عام آگ سے حاصل نہیں ہوتا۔
اس کو بنانے کا آرٹ رومیوں نے دریافت کیا اور اس کے کئی قسم کے استعمال نکالے۔ گھروں کی کھڑکیوں میں۔ رومیوں سے پہلے گھروں کی کھڑکیاں کھلی ہوتی تھیں۔ (انگریزی لفظ ونڈو کا مطلب ونڈ آئی یا ہوا کی آنکھ ہے)۔ اس کے آگے کوئی پردہ ڈالا گیا ہوتا۔ شیشے نے اس کو ڈھک دیا۔ سرد موسم میں ایسی کھڑکی جو دھوپ کو تو آنے دے لیکن ہوا کو روک دے۔ ایک انتہائی مفید ایجاد تھی۔ شیشہ آرکیٹکچر کا حصہ بن گیا۔
اس شیشے سے آئینے بنے۔ آئینہ سازی کے بعد پہلے بار ایک شخص کو اپنے ہونے کا اور اپنے آپ کو پہچاننے کا ادراک ہوا۔ شیشے کے ٹٰیکنالوجی کی اگلی جست نے اس کو اس قدر مضبوط کر دیا کہ یہ برتنوں میں استعمال ہو سکتا تھا۔ اس کے گلاس پانی اور مشروبات کے لئے استعمال ہونا شروع ہوئے۔ پہلی بار شفاف مشروبات نظر آنا شروع ہوئے۔ گندگی نمایاں ہونا شروع ہوئی۔ مشروبات کی کوالٹی بہتر ہونا شروع ہو گئی۔
شیشے کے نازکی کا ایک نقصان یہ ہوا کہ رومیوں سے باہر کم ہی دنیا نے اس کو اپنایا۔ چین، جو کہ ٹیکنالوجی میں دنیا میں بہت آگے تھا، شیشے کو اپنانے میں پیچھے رہا۔ رومی سلطنت کے زوال کے بعد چین کا ٹیکنالوجی میں مقابلہ نہیں تھا۔ کاغذ، سرامک، لکڑی اور دھاتوں میں ہزار سال تک یورپ اس کے قریب نہیں پھٹک سکا لیکن شیشہ چین میں نظر انداز کر دیا گیا۔ چین اور جاپان میں انیسویں صدی تک عمارتوں میں شیشہ استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔
شیشے سے دوری کا ایک نتیجہ یہ نکلا کہ نہ چین میں عینک بنی، نہ ہی مائیکروسکوپ بنی اور نہ ہی ٹیلی سکوپ۔ ٹیلی سکوپ کے بغیر چینی نہ مشتری کے چاند دیکھ سکے اور نہ ہی پلوٹو اور کائنات کی جدید سمجھ تک نہیں پہنچ سکے۔ مائیکروسکوپ کے بغیر نہ خلیے دیکھ سکے اور نہ ہی جراثیم۔ انجنینرنگ اور میڈیکل سائنس دونوں میں ہی پیچھے رہ گئے۔
اور پھر کیمسٹری کی لیبارٹری۔ پائریکس شیشے کی وجہ قسم ہے جس میں بورون آکسائیڈ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ شیشے کو درجہ حرارت کی وجہ سے پھیلنے اور سکڑنے سے روکتا ہے اور شیشے کے لئے تھرمل شاک برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ کیمسٹری میں پائریکس سے بنی ٹیسٹ ٹیوب اور دوسرا سامان تو سائنس کی ایک علامت سمجھی جاتی ہے۔ (پائریکس کا اصل نام بوروسلیکیٹ گلاس ہے)۔ اگر تیزاب کے ساتھ گرم کرنے میں کہیں دراڑ پڑ جائے تو وہ تجربہ کرنے والے کو معذور کر سکتا ہے یا مار سکتا ہے۔ پائریکس نے کیمسٹری کے تجربے ممکن کئے۔ کتنی ہی سائنسی دریافتیں اور کتنے ہی سائنس میں نوبل انعاموں کی وجہ شیشے کی یہ قسم رہی ہے۔
یورپ کے سائنسی انقلاب کے پیچھے ایک وجہ ریت سے نکلی یہ صورت تھی۔
پھر شیشے کی وہ قسم جس کو مضبوط شیشہ کہا جاتا ہے، گاڑیوں کی ونڈ سکرین میں لگنے کی وجہ سے ان گنت جانیں بچا چکا ہے۔ اور اس کے درمیان اگر پلاسٹک کی تہہ، لیمینیٹ، کا اضافہ کر دیا جائے تو اس قدر مضبوط ہو جاتا ہے کہ گولی بھی اثر نہیں کرتی (بلٹ پروف گاڑیوں میں یہی استعمال ہوتا ہے)۔
جدید شہر کی ایک علامت شیشہ ہے۔ شیشے سے ڈھکی اگتی اونچی عمارتیں۔ بازار میں کھلی دکان کی علامت یہ ہے کہ شیشے میں سامان نظر آ رہا ہے، ہوا، بارش، سردی، چوروں سے محفوظ بھی رکھتا ہے اور گھروں کو روشن بھی۔ ہمیں اپنی شکل بھی دکھاتا ہے۔ (آئینے کے علاوہ کیمرے یا ویڈیو ریکارڈر کی وجہ بھی شیشے کے لینز ہیں)۔
ہم نے اس دنیا کو بڑی حد تک جان لیا ہے لیکن اس نے ہمیں نئی دنیائیں دکھائی ہیں۔ طاقتور خوردبین لیں تو چھوٹے جانداروں کا ایک چڑیا گھر مل جائے گا۔ طاقتور ٹیلی سکوپ امکانات کی ایک پوری کائنات ہمارے سامنے رکھ دے گی۔
اس بے رنگ، شفاف، سرد میٹیرئل نے پس منظر میں رہ کر ہماری تہذیب بنائی ہے۔ اس کے باوجود اسقدر ناقابلِ ذکر رہتا ہے کہ ہم اس کا ہونا محسوس بھی نہیں کرتے۔ صرف اس وقت اس پر نظر پڑتی ہے، جب یہ ٹوٹ جاتا ہے۔ جس چیز نے اس کو ہمارے لئے قیمتی بنایا ہے یعنی اس کی شفافیت اور کسی سے بھی ری ایکٹ نہ کرنے پر، اسی نے اسے کو ہماری نظر سے اوجھل کر دیا ہے۔
ہر اہم چیز نمایاں نہیں ہوتی۔