زندگی میں بہت محبتیں ہوتی ہیں، ہم کرتے بھی ہیں، دیکھتے بھی ہیں آئیے آج آپ کو ایک بہت منفرد، بہت خوبصورت لو اسٹوری میں شریک کرتا ہوں۔
یہ میری بیوی شازی کی لو اسٹوری ہے، مگر میرا اس کہانی میں ایک سائیڈ رول ہے ۔۔ اس محبت کی کتھا میں شازی ہیرو ہے اور شازی کی امی ہیروئن ہیں۔۔
ماں بچوں کا تعلق کیا ہوتا ہے، یہ مجھے بتانے کی ضرورت نہیں، بائیس تیئس پہلے جب سے شازی میری زندگی میں ہے، چھوٹی بیٹی ہونے کی وجہ سے اپنی امی کے بہت قریب تو ہے مگر یہ روایتی محبت اس کلاسیکل لو اسٹوری میں تب ڈھلی، جب ان کی والدہ الزائیمر کا شکار ہوئیں، مرض کی تشخیص ہو چکی تھی۔
شازی اس وقت لائلپور میں رہائش پزیر تھی، میں کام کی وجہ سے سفر میں رہتا تھا، رضا کو وہاں اپنا سکول بہت پسند تھا، سو ہمارا پروگرام تھا کہ اس کے میٹرک کے بعد ہی ہم اپنے آبائی شہر منتقل ہوں گے، پھر بھی ہم عیدین پر اور ویسے بھی چھٹیوں میں ملتان آتے رہتے تھے، کیونکہ میری امی بھی تب حیات تھیں۔۔ آنٹی کو الزائیمر ہوا تو جیسے اس مرض میں ہوتا ہے۔۔ چیزیں بھولنا شروع ہو جاتی ہیں، ہم آٹھ نو سال پہلے ایک شادی میں شریک ہونے ملتان آئے اور شازی اپنی والدہ سے ملی تب اس کو حالات کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔۔ اس نے اپنے والد کو مجبور کیا کہ آپ اور والدہ لائلپور چلیں، انکل بالکل راضی نہیں تھے ملتان اپنا گھر چھوڑنے کے لئے لیکن شازیہ کی ضد کے آگے مجبور ہوگئے۔۔ مرض ابتدائی سٹیج میں تھا لیکن پھر بھی آنٹی کی بگڑتی حالت نے بھی ان کو قائل ہونے میں کردار ادا کیا ۔۔ شازی دونوں کو لے کر لائلپور آ گیا اور حالات روز بروز نیا رخ اختیار کرنے لگے، یہ جنوری 2014 کی بات ہے، لائلپور آ کر بظاہر تو ان کی والدہ بہتر ہو گئیں لیکن جن لوگوں کا الزائیمر کے مریضوں سے واسطہ پڑا ہے وہ جانتے ہیں کہ کیسے یہ مرض وقت کے ساتھ ساتھ مریض کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے، کچھ عرصے میں ہی مجھے اور رضا کو محسوس ہو گیا کہ میری بیوی کا اب پہلا رول بیوی ۔۔ یا ماں کا نہیں رہا بلکہ وہ اب فل ٹائم بیٹی ہے پھر کچھ اور ہے، ان کو اپنے ہاتھ سے کھانا پھیلانا، واش روم ساتھ لے جانا اور ان پر ہر وقت نظر رکھنا ان کا معمول تھا, وہ گھومنے پھرنے آوٹنگ کی شوقین گھر تک محدود ہو گئی۔۔ مجھے لگتا تھا کہ شاید وہ کچھ عرصے بعد ایگزاسٹ ہو گی یا تھکے گی مگر یہ تو عشق کی ابتداء تھی، ایک لازوال اور لامحدود عشق کی، میں بہت غیر روایتی ہوتے ہوئے بھی کبھی کبھی تنگ آ جاتا تھا، لیکن جلد احساس ہو گیا کہ ان کی بیمار ماں اور ان کے درمیان آیا تو ان کی زندگی سے حرف غلط کی طرح مٹ جاؤں گا، میرا بیڈ روم میرا نہیں رہا، وہاں انکل آنٹی اور شازی ہوتے تھے، میں لاونج میں منتقل ہوا، آنٹی تب تک چل پھر لیتی تھیں۔۔ باتیں بھی کر لیتی تھیں ۔۔ رینڈم لوگوں کو بھول جاتی تھیں لیکن کوئی پرانا عزیز آتا تو پہچان لیتی تھیں ۔۔ کھانا شازی کھلاتی تھی لیکن لقمہ چبا لیتی تھیں، اب جب شازی ان کو واش روم لے جاتی تھیں تو بھی ان کو اعتراض کرنا بھول گیا ۔۔۔ آہستہ آہستہ شازی ان کو ان کو اپنی تحویل میں لیتی گئیں۔۔ آنٹی بولتی اب بھی تھیں چلتی تھیں لیکن روبوٹ کی طرح ۔۔ اپنی اولاد کو بھی بھولنے لگیں یہاں تک کہ انکل کا انتقال ہوا تو بھی سب سامنے ہونے کے باوجود الزائیمر کی وجہ سے اس دکھ کا احساس بھی نہیں کر سکیں۔
پھر رضا کا میٹرک ہو گیا تو ہم ملتان شفٹ ہو گئے۔۔ ان کی حالت یہ تھی کہ اب صرف شازی اور رضا کو پہچانتی تھیں ۔۔ باقی ان کو کچھ یاد نہیں رہا ۔۔ پھر وہ بولنا بھول گئیں ۔۔ پانی پینا لقمہ چبانا انھیں یاد نہیں رہا ۔۔ کوئی ڈھائی سال پہلے ڈاکٹرز نے معدے میں feedline ڈال دی، لیکوئیڈ ڈائٹ پر آ گئیں ۔۔۔ ڈائیبیٹک بھی ہیں ۔۔ شازی کا دن صبح پانچ بجے شروع ہوتا ہے جب وہ ان کی شوگر چیک کر کے ان کو ڈائیٹ دیتی ہے اور دن کا اختتام رات ساڑھے بارہ بجے ہوتا ہے جب وہ میڈیسن پیس کر انھیں دیتی ہیں۔۔ پھر آرام کرتی ہے, مسلسل ڈھائی تین گھنٹے سے زیادہ سو نہیں پاتی، وہ بھی اس اس صورت میں اگر ان کو انفیکشن وغیرہ کی وجہ سے بخار نہ ہو, اکثر کوئی نہ کوئی کمپلیکیشن ہو جاتی ہے تو یہ آرام بھی محال ہے، آٹھ سالوں میں وہ محض سات دن اپنی والدہ سے دور رہی کیونکہ میری فیملی میں میری بہنوں کے بچوں کی شادیاں تھیں جو وہ بطور بڑی بہو چھوڑ نہیں سکتی تھیں، اور ان دنوں میں بھی اس ڈیوٹی کے لئے جو وہ اکیلی آٹھ سال سے کر رہی ہے ان کی بہن جو لیڈی ڈاکٹر ہیں اور شازی کی دو بھانجیاں آتی ہیں ۔۔ دن میں ہر آدھا گھنٹہ بعد فون پر رابطہ کرتی ہے اور اتنی بے چین ہوتی ہے کہ بیان سے باہر ہے۔۔ کوئی سوشل لائف نہیں, میرے بہت اصرار پر باہر نکلتی بھی ہے تو دو ایک گھنٹوں سے زیادہ نہیں ۔۔ اس وقت بھی لائیو وڈیو کال پر ان کو دیکھتی رہتی ہے ۔۔۔ آنٹی کے احساسات اب تقریباً ختم ہو چکے ہیں۔۔ بس ان کی آنکھوں میں وہ چمک باقی رہ گئی ہے جو شازی کو پاس دیکھ کر ان کی آنکھوں میں آتی ہے اور یہی چمک شازی کے عشق کا حاصل ہے، یہ فرض نہیں ہے یہ ثواب کے معاملے سے بھی آگے کی بات ہے۔۔ یہ ایک عشق کا معاملہ ہے ۔۔ ایسے کوئی اپنے آپ کو نہیں مٹاتا جیسے شازی نے خود کو اپنی والدہ کے لئے مٹایا ہے، ہمارے عزیز رشتے دار خاص طور پر شازی کے جب مجھے بھی اس معاملے میں کچھ کریڈٹ دینے کی کوشش کرتے ہیں تو میں شرمندہ سا ہو جاتا ہوں۔۔ کیونکہ مجھے اس بات کا ادراک ہے کہ میں ان کے اس عشق کے درمیان آتا تو وہ آرام سے سوچے بغیر مجھے چھوڑ جاتی، آج کل آنٹی کی صحت ٹھیک نہیں رہتی ۔۔ مختلف کمپلیکیشنز ہیں جو اب ڈاکٹرز کے بس سے بھی باہر ہو رہے ہیں ۔۔ شازی کی بے کلی بے چینی عروج پر ہے, میں اس کو دیکھ دیکھ گھبراتا رہتا ہوں، زندگی موت کا کچھ پتہ نہیں لیکن مجھے واضح طور پر آگے ایک ٹراما نظر آ رہا ہے کہ وہ وجود جو شاید اب خود پر بھی ایک بوجھ اور تکلیف ہے نہ رہا تو شازی کی کیا حالت ہو گی ۔۔
اس کے لئے بہت دعا کیجیئے گا..
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...