سچ کہہ دوں اے “سخنور” گر تو برا نہ مانے
ایک زمانہ تھا جب کسی استاد کی شاگردی اختیار کئے بغیر شعر کہنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ مبتدی شعراء بڑی منت سماجت کر کے کسی مستند شاعر کی شاگردی کا شرف حاصل کرتے تھے۔ زبان و فن کی باریکیاں سیکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ استاد کو دکھائے بغیر ایک شعر بھی کسی محفل میں پڑھنے کی جرأت نہیں کرتے تھے۔ مگر آج معاملہ برعکس ہے۔ آج کل کسی استاد کی شاگردی اختیار کرنا معیوب سمجھا جانے لگا ہے۔ بیشتر شعراء موزونئ طبیعت کی بنا پر شعر کہتے ہیں۔ کچھ شعراء استاد سے منسلک ہیں بھی تو اس کا برملا اعتراف کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔
اردو میں کچھ بحریں ایسی ہیں جو لَے اور آہنگ کے اعتبار سے ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ موزونئ طبیعت کی بنا پر شعر کہنے والے شعراء ان بحروں میں ہمیشہ غچہ کھاتے ہیں۔ اولیٰ مصرع ایک بحر میں ہوتا ہے تو ثانی مصرع دوسری بحر میں۔ مگر انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ فیس بک اور وہاٹس ایپ گروپس کی رسمی اور منافقانہ داد پا کر خود کو مستند شاعر سمجھنے کی خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی ازراہ خلوص، سقم کی طرف اشارہ کرتا ہے تو اسے دشمن اور حاسد سمجھ لیا جاتا ہے۔
میرا مشاہدہ یہ ہے کہ آج کل کے تقریباً اسّی فیصد شعراء تقطیع نہیں جانتے ہیں۔ مگر موزونئ طبیعت کی بنا پر کی گئی شاعری پر مشتمل ایک سے زیادہ شعری مجموعے شائع کر چکے ہوتے ہیں۔ مگر ایک بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ کسی خیال کو کسی مخصوص وزن پر فٹ کر دینا شاعری نہیں ہوتا۔ اچھی شاعری کے لئے اشعار کا فنی اور لسانی اسقام سے پاک ہونا بھی ضروری ہے۔ میں کچھ ایسے شاعروں کو جانتا ہوں جو تقطیع کی اچھی واقفیت رکھتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں ناموزوں اشعار نہیں ملتے ہیں مگر ایطا، شترگربہ، تعقید جیسی فنی خامیاں اور لسانی کوتاہیاں اکثر نظر آتی ہیں۔
اس لئے ضروری ہے کہ شعراء کسی استاد فن کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کریں اور فن کے رموز و اوقاف سیکھ کر اپنی شاعری میں نکھار پیدا کریں۔
قدیم زمانے میں استادی اور شاگردی کی ایک طویل روایت ملتی ہے۔ کسی استاد کا شاگرد ہونا باعثِ شرم ہرگز نہیں ہے۔ کسی مستند اور معتبر شاعر کی شاگردی اختیار کر کے ڈنکے کی چوٹ پر اعلان کرنا چاہئے کہ میں فلاں کا شاگرد ہوں۔
کسی کی شاگردی اختیار نہ کرنے کی غلط روایت نے فی البدیہہ شاعری کی بدعت کو فروغ دیا ہے۔ کسی موقع کی مناسبت سے کوئی فی البدیہہ شعر کہنا کمالِ فن ہے مگر فی البدیہہ غزلیں کہنا زوالِ فن۔ اچھی شاعری سوچ سمجھ کر، ٹھہر کر، غور و فکر کر کے ایک ایک شعر کہنے کا تقاضہ کرتی ہے۔ فی البدیہہ غزلوں میں اشعار تو ہوتے ہیں شاعری نہیں ہوتی۔
کچھ شعراء فیس بک کے فی البدیہہ مشاعروں میں بڑی پابندی سے حصہ لیتے ہیں۔ دو تین گھنٹوں میں آٹھ دس اشعار کہہ کر یکجا کلام کی صورت میں فوراً پوسٹ کر دیتے ہیں۔ انہیں استاد کو کلام تو دکھانا ہوتا نہیں ہے۔ اپنے لکھے کو حرف آخر سمجھ کر بڑے طمطراق سے اپنی وال پر بھی لگاتے ہیں اور مختلف گروپس میں شیئر بھی کر دیتے ہیں۔ پھر فیس بک پر داد و تحسین کا سلسلہ چل پڑتا ہے۔
یہ سبھی جانتے ہیں کہ فیس بک فرینڈز ”من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو ” کے اصول پر کاربند ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود فیس بک کی داد سے خوش ہو کر شعراء اپنے اشعار پر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں استاد کی ضرورت کون محسوس کرے گا؟
اس لئے اگر آپ سنجیدہ اور بامقصد شاعری کرنا چاہتے ہیں تو کسی استاد سے مشورۂ سخن ضرور کریں کیونکہ بغیر گرو کے مکمل گیان نہیں ملتا۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...