گزشتہ صدی کے آخری برس سے ہر سال شاعری کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی دن، زیادہ تر، انھی چیزوں کے منائے جاتے ہیں جو خطرے میں ہوں یا جن کی اہمیت سے لوگ اکثر غافل رہتے ہوں۔ کیا شاعری خطرے میں ہے یا اس کی اہمیت کا احساس رفتہ رفتہ کم ہوتا جارہا ہے؟ یونیسکو نے 1999ء میں، پیرس میں منعقد ہونے والے،اپنے تیسویںاجلاس ِ عام میں شاعری کاعالمی دن منانے کا فیصلہ کیا تو اس کے دو اسباب بتائے: شاعری کے ذریعے لسانی تنوع کی حمایت کرنااور خطرے سے دوچار زبانوں کے لیے مواقع بڑھانا کہ انھیں سنا جائے۔شاعری بنیادی طور پر زبانی روایت سے متعلق ہے اور زبانیں وہی باقی رہتی ہیں جو بولی جاتی رہیں۔اس لیے شاعری خطرے سے دوچار زبانوں کو محفوظ بنانے کا کام کرسکتی ہے۔ آج بھی کئی زبانیں جو تعلیم و دفتر کی زبانیں نہیں بن سکیں اور جنھیں گھروں میں بھی کم استعمال کیا جاتا ہے مگر اپنی شاعری اور موسیقی کے سبب خطرے سے باہر ہیں۔ جیسے پنجابی۔شاعری کا عالمی دن مناتے ہوئے ہمیں ان زبانوں کی شاعری کو خاص طور پر ضرور سننا اور پڑھنا چاہیے جو خطرے سے واقعی دوچار ہیں ۔ پاکستانیوں کی اکثریت کے لیے اب تک پاکستان کی زبانوں کا مطلب اردو ، پنجابی، سندھی ،سرائیکی، پشتو، بلوچی، براہوی، ہندکو، کشمیری ہیں۔ وہ پوٹھوہاری،ہزارگی،پہاڑی، توروالی، شینا، بروشسکی، کھوار، دمیلی، بلتی، مانکیالی،کھوار، وخی و دیگر کے ناموں سے بھی واقف نہیں۔ ظاہر ہے پاکستان کی سب چوہتر زبانوں میں شاعری بھی موجود ہے۔حال ہی میں نیاز ندیم نےپاکستان کی مادری زبانوں کا ادب کی سیریز کے تحت پاکستان کی بارہ زبانوں کی شاعری کا انتخاب(اردو تراجم)شایع کیا ہے۔احسان اصغر نے بلوچی شاعر منیر مومن کی شاعری کا ترجمہ "گمشدہ سمندر کی آواز" کے نام سے کیا ہے۔زبیر توروالی نے "اینان " کے عنوان سے تورولی کی ضرب المثل شاعری ،اردو ترجمے کے ساتھ شایع کی ہے۔ شاعری کے ذریعے زبانوں کے تحفظ اور زبانوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی ان کوششوں کو سراہا جانا چاہیے۔ دنیا کی ہر زبان کی شاعری میں آوازوں کا تنوع ہے مگر ایک آواز مشترک ہے: انسانیت کو مخاطب کرنے والی آواز۔
شاعری کےاس عالمی دن کے موقع پر اس سوال پر سوچنے میں حرج نہیں کہ کیا شاعری خطرے میں ہے؟
اردو میں شاعری کی کتابیں مسلسل چھپ رہی ہیں،لیکن کیا وہ پڑھی جارہی ہیں؟ اگر پڑھی جارہی ہیں تو کیا صرف شاعرا ور ادیب اور زیادہ تر صاحب ِ کتاب کے دوست ہی انھیں پڑھ رہے ہیں یا باقی لوگ بھی؟ایک بات بہ ہر حال اصول کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ کہ ادب ہو،آرٹ کی کوئی دوسری صورت ہو، زبان ہو یا کوئی اور چیز اسے باقی رکھنے والے عام لوگ ہوتے ہیں۔خیرسوال یہ ہے کہ کیا شاعری کو عام لوگ پڑھ رہے ہیں؟اس کا جواب تلاش کرنا مشکل نہیں۔ اردو فکشن کو ادیب، ادب کے طلبا اور عام لوگ پڑھتے ہیں مگر شاعری کے قارئین بہت کم ہیں۔ چند کلاسیکی اور چند جدید شعرا کی کتب(جن میں زیادہ تر نصاب کا حصہ ہیں) ادب کے طلبااور عام لوگ خرید لیتے ہیں مگر باقی شعرا کی کتب بہت کم خرید کر پڑھی جاتی ہیں(ایک نیا رجحان یہ ہے کہ ادب کے طلبا شاعری کو بہت کم اپنی تحقیق و تنقید کا موضوع بناتے ہیں)۔نصاب کے علاوہ جن شعرا کی کتب پڑھی جاتی ہیں،یہ وہ شعرا ہیں جنھیں آج سے تین چار دہائیاں پہلے مقبولیت ملی تھی۔ کم از کم اکیسویں صدی میں ممتا ز حیثیت کے حامل سمجھے جانےو الے اکثر شعرا اپنی کتاب خود ہی چھاپتے اور تقسیم کرتے ہیں۔زیادہ پرانی بات نہیں کہ کچھ اردوشاعر مقبول ہوئے تھے ۔ ان کی کتابیں لاکھوں کی تعداد میں بکنے لگی تھیں اوران شعراکے آٹو گراف کے لیے نوجوانوںکی لمبی قطاریں ہو اکرتی تھیں مگر اب یہ کسی اور دنیا اور زمانے کا قصہ لگتا ہے۔
شاعر ی کے مقابلے میںناول کہیں زیادہ پڑھا جاتا ہے اور زیربحث بھی رہتا ہے۔آپ دی نیویارکر ، گارڈین سے دی پیر س ریویو تک ، ڈان ، دی نیوز سے سوشل میڈیا تک دیکھیے کہ سب سے زیادہ تبصرے یا تو فکشن کی کتابوں پر ملیں گے یا نان فکشن کی کتب پر۔ شاعری پر تبصرہ ایک واقعہ ہوگا۔
ایک اہم تبدیلی یہ ہے کہ ہمارے زمانے میں کئی شاعروں نے فکشن لکھنا شروع کیا ہے۔ یہ کس تبدیلی کی طرف اشارہ ہے؟ اس سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ راشد، میرا جی ، مجید امجد، فیض ، اختر الایمان سے وزیر آغا ، منیر نیازی ،اختر حسین جعفری، جیلانی کامران ،کشور ناہید، افتخار عارف، امجد اسلام امجد اور پھرافضال احمد سید، تنویر انجم سے علی محمد فرشی ، نصیر احمد ناصر، ابرار احمد، یاسمین حمید تک کسی نے فکشن نہیں لکھا(ـالبتہ ان میں سے اکثر فکشن کے قاری ضرور رہے ہیں)۔، لیکن کیا تبدیلی آئی کہ فہمیدہ ریاض ، عذرا عباس،شمس الرحمٰن فاروقی سے لے کراختر رضا سلیمی ، کاشف رضا، شاہین عباس تک نے فکشن لکھنا شروع کیا۔(کچھ ایسے شعرا بھی ہیں جو ابتدا ہی سے شاعری کے ساتھ فکشن بھی لکھتے رہے ہیں، جیسے غافر شہزاد، علی اکبر ناطق )۔ خالد جاوید بھی ابتدا میں شاعری لکھتے رہے ہیں۔ سرائیکی کے ممتاز شاعر رفعت عباس نے بھی اپنا پہلا ناول "لون دا جیون گھر " لکھا ہے۔ان سب کے فکشن کو قارئین کی ایک بڑی تعداد میسر آئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ تبدیلی حسیت کی سطح پر ہے یا ادب کی دنیا میںممتاز مقام حاصل کرنے کی اس خواہش کے سبب ہے جو ہر لکھنے والے کے یہاں اس وقت سے موجود ہوتی ہے جب وہ پہلا لفظ لکھتا ہے؟ کیا وہ بہ طور تخلیق کار اپنےا ندر ایک ایسا دبائو محسوس کرنے لگے جو شاعری میں ظاہر نہیں ہوسکتاتھا یا انھوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اگر انھیں ادب میں مقام بنانا ہے تو وہ شاعری کے ذریعے ممکن نہیں؟یا پھر اس کے اسباب ثقافتی ہیں؟خیر وجہ کوئی بھی ہو، سامنے کی حقیقت یہ ہے کہ شاعری کم پڑھی جارہی ہے اور فکشن زیادہ۔فکشن کی مقبولیت نے سب اصناف کو پچھاڑ دیا ہے ۔ مشاعروں میں پیش ہونے والی اور مقبولیت کے جھنڈے گاڑنے والا منظوم کلام، ایک الگ چیز ہے ،جسے ایک سماجی سرگرمی کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔سماج اپنی بدلتی ساختوں کا اظہار مقبول سرگرمیوں کے ذریعے کرتا ہے،جنھیں ادب و آرٹ اکثر تہ وبالا کرتے ہیں۔مشاعرے شاعری کو باقی رکھنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔ بالکل بجا۔ مگر کس معیار اورکس نوع کی شاعری کو؟
سوچنے کی بات یہ ہے کہ فکشن جسےمغرب میں انیسویں صدی کے اواخر(بے سنٹ اور ہنری جیمس کا تنازع یاد کیجیےاورشمس الرحمٰن فاروقی کی "افسانے کی حمایت" کا بنیادی تھیسس ) تک فن ماننے ہی میں نقادوں کو تامل تھا ،وہ کیسے اپنے زمانے کے بہترین تخلیقی اذہان کو متوجہ کرنے میں کامیاب ہوا؟کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس وقت عالمی سطح کے ممتاز ادبا کی فہرست میں شعرا کم اور فکشن نگار زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس ادب کا نوبیل انعام امریکی شاعرہ لوئزے گلک کو ملا ۔ اسے کتنا پڑھا گیا ؟ لیکن چند سال پہلے جب ایشیگرو، اورحان پاموک ، یوسا، مویان ، ایلس منرو کو یہی انعام ملا تھا تو انھیں دنیا بھر میں کس قدر شوق سے پڑھا گیا تھا۔ کیا ناول نے شاعری کے مقابلے میں اپنے زمانے کی حسیت کو بہتر انداز میں سمجھا اور خود کو اس کے مطابق ڈھالا؟شاعری انسانوں کے نازک احساسات کو ان کی اپنی غنائیت کے ساتھ پیش کرتی ہے ۔ کیا ہم اپنے ہی احساسات کے ضمن میں حساسیت سے محروم ہوگئے ہیں ؟ یا خود ہمارے وجود کی قلب ماہیت ہوئی ہے اور احساسات پر تعقل نے فیصلہ کن غلبہ حاصل کر لیا ہے ؟یا فکشن نے انھی احساسات کو انسان کے وجودی مسائل بنا کر پیش کرناشروع کردیا ہے؟
ان سوالات پر غورکرتے ہوئے ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ شاعری کے لیے سکڑتی جگہ کو کیسے وسیع کیا جاسکتا ہے۔ فکشن کی اپنی دنیا ہے، وہ شاعری کا متبادل ہے نہ کسی اور صنف کا۔ اگر یہ ثقافتی تبدیلی بھی ہے توہمیں مزید چوکنا ہونے کی ضرورت ہے۔ ثقافتی تبدیلیاں فطری نہیں ہوتیں، انھیں اپنے زمانے کی مقتدرہ برپا کرتی ہے مگر انھیں پیش اس طور کیا جاتا ہے کہ جیسے یہ فطری ہیں۔شاعری ہماری روحوں کے اضطراب ، اندیشوں ، خوشیوں، آدرشوں اور شکست وریخت کوزبان کے جس غیر معمولی تخلیقی استعمال اور جس غنائیت کے ساتھ پیش کرتی ہے، کوئی اور صنف نہیں کرسکتی۔۔ شاعری انسانی حسیات کا جشن بھی ہے اور ہماری اندر کی اس وحشت تک رسائی رکھتی ہے ، جو نہ تو کسی قانون قاعدے سے رام ہوسکتی ہے اور نہ منطق کی زبان میں ظاہر ہوسکتی ہے۔
جاوید انورکی نظم "ہم کہ ہیرو نہیں " کا ایک حصہ دیکھیے کہ کیسے شاعری ہمارے انفرادی اور اجتماعی زخموں پر پھاہا رکھ سکتی ہے۔ تاریکی کو پیش کرنے والی شاعری میں بھی ایک نوع کی مسرت ہوتی ہے!
ہم کو فٹ پاتھ پر حیات ملی
ہم پتنگوں پہ لیٹ کر روئے
——
برف بستر بنی ہمارے لیے
اور دوزخ کے سرخ ریشم سے
ہم نے اپنے لیے لحاف بنے
زرد شریان کو دھوئیں سے بھرا
پھیپھڑوں پر سیاہ راکھ ملی
ناگا ساکی میں پھول کاشت کیے
نظم بیروت میں مکمل کی
لورکا کو کلائی پر باندھا
ہوچی منہ کو نیام میں رکھا
ساڑھے لینن بجے اسکول گئے
صبح عیسیٰ کو شام میں رکھا
ارمغان حجاز میں سوئے
ہولی وڈ کی اذان پر جاگے
ڈائری میں سدھار تھا لکھا
درد کو فلسفے کی لوری دی
زخم پر شاعری کا پھاہا رکھا
تن مشینوں کی تھاپ پر تھرکے
دل کتابوں کی تال پر ناچا
ہم نے فرعون کا قصیدہ لکھا
ہم نے کوفے میں مرثیے بیچے
ہم نے بوسوں کا کاروبار کیا
ہم نے آنکھوں کے آئنے بیچے
زندگی کی لگن نہیں ہم کو
زندگی کی ہمیں تھکن بھی نہیں
ہم کہ ہیرو نہیں ولن بھی نہیں