ولادت : 28 فروری1928ء وفات: 28 اگست2000ء
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری
اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار کلیم عثمانی کی تاریخ ولادت 28 فروری 1928ء ہے۔جناب حضرت کلیم عثمانی صاحب ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے عمر میں دو برس بڑے تھے اور ہم نے ہمیشہ اپنے والد گرامی کو کلیم بھائی کہہ کر مخاطب کرتے ہی دیکھا اور سنا ۔ لاہور میں والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے کی اقامت گاہ پر جو ادبی تنظیم قافلہ کا ماہانہ پڑاٶ ڈالا جاتا تھا اس میں تایا ابا قبلہ کلیم عثمانی صاحب باقائدگی سے شرکت فرمایا کرتے تھے۔ بےشک کلیم عثمانی صاحب سے بلے فیملی کی رشتہ داری بھی تھی اور تعلق داری بھی ۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
قافلہ سالار سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر ہر ماہ کی یکم تاریخ کو شام پانچ بجے ادبی تنظیم قافلہ کا پڑاٶ ڈالا جاتا جو کم و بیش رات دس گیارہ بجے تک جاری رہتا تھا۔ حضرت علامہ طالب جوہری حضرت جون ایلیا ۔ حضرت احمد ندیم قاسمی ۔ حضرت اشفاق احمد ۔ حضرت پروفیسر اقبال عظیم ۔ جناب مسعود اشعر ۔ جناب شبنم رومانی ۔ جناب محسن بھوپالی ۔ جناب علامہ سید غلام شبیر بخاری علیگ۔ جناب برہان الدین فاروقی علیگ ۔ ڈاکٹر فوق کریمی ۔ حضرت آل احمد سرور ۔ جناب ڈاکٹر گوپی چند نارنگ ۔ ڈاکٹر وزیر آغا ۔ حضرت خمار جی بارہ بنکوی ۔ حضرت جگن ناتھ آزاد ۔ پروفیسر عزیز عالم ۔ ڈاکٹر قمر رٸیس ۔ طفیل ہوشیارپوری اور دیگر مشاہیر ادب کے اعزاز میں ڈالے جانے والے پڑاٶ میں دیگر مستقل شرکاٸے قافلہ پڑاٶ یعنی ڈاکٹر اجمل نیازی ۔ ڈاکٹر اصغر ندیم سید ۔ ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا۔ سرفراز سید ۔ بیدار سرمدی ۔ اسرار زیدی ۔ ساٸرہ ہاشمی ۔ ظفر علی راجا۔ شاہد واسطی۔ ۔ خالد احمد۔ نجیب احمد ۔ صدیقہ بیگم ۔ اداکار جناب منور سعید صاحب اور بیگم شہناز منور سعید صاحبہ کے ساتھ ساتھ محترم کلیم عثمانی صاحب بھی شامل ہیں۔
دنیا بھر میں آواز کے دوش پر پاکستان کا تعارف فرمانے والے عظیم محب وطن اور دیش بھگت سید مصطفی علی ھمدانی کو پاکستان اور ریذیو پاکستان کی پہچان مانا جاتا ہے ۔ قیام پاکستان کے ساتھ ہی ریڈیو پاکستان سے اعلان نشر ہوا کہ یہ ریڈیو پاکستان ہے ۔ یہ اعلان انتہاٸی قابل تعظیم و تکریم ہستی کہ جنہیں آواز و بیان کے حوالے سے ایک اتھارٹی اور ادارہ تسلیم کیا گیا جناب سید مصطفی علی ھمدانی صاحب نے فرمایا تھا۔ کلیم عثمانی صاحب کا بھی جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب سے برسوں کا تعلق رہا اور ہم نے ہمیشہ انہیں مصطفی ھمدانی صاحب کا ذکر انتہاٸی احترام سے کرتے سنا۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے مصطفی علی ھمدانی صاحب کو کبھی کسی حوالے سے بالخصوص معیار کے حوالے سے سمجھوتہ کرتے نہیں دیکھا۔ مہینے بھر میں بارہ پندرہ ملاقاتیں تو طے شدہ تھیں کیونکہ ریڈیو پاکستان بھی ہمارا مسکن ہوا کرتا تھا۔ حضرت وقار انبالوی کا بھی کہیں نہ کہیں تذکرہ فرماتے تھے لیکن موضوع گفتگو جناب مصطفی علی ھمدانی صاحب ہی رہا کرتے تھے کہ جن کے ساتھ ان ہوں نے ایک طویل عہد گزارا تھا
برادر محترم آنس معین کی رحلت پر کلیم عثمانی صاحب بطور خاص تعزیت کےلیے لاہور سے ملتان آٸے تھے۔ لاہور میں والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب کی اقامت گاہ پر ادبی تنظیم قافلہ کے ایک پڑاٶ میں احمد ندیم قاسمی صاحب اور ڈاکٹر محمد اجمل نیازی صاحب سے بطور خاص مخاطب ہوٸے فرمایا فروری انیس سو چھیاسی میں آنِس معین کی المناک موت کی خبر سن کر ہم ہمت کرکے ملتان چلے تو گٸے لیکن کیا پالا پڑ رہا تھا کیا بتاٸیں کلیم عثمانی صاحب برادر محترم اجمل نیازی صاحب سے کچھ اس انداز میں مخاطب ہوٸے کہ اجمل نیازی صاحب اللہ آپ کو خوش رکھے آپ کا بھلا ہو آپ کا ساتھ نہ ہوتا تو سفر بہت دشوار ہوجاتا اور ممکن ہے کہ ہو ہی نہ پاتا۔ بس ہمارے پہنچتے ہی ظفرمعین نے ہمارے لیے فورا“ سے پہلے پر تکلف چاٸے کا اہتمام کروایا تو سفر اور وہ بھی جاڑے کے سفر کے بعد اس چاٸے نے تو جیسے پھر سے زندہ کردیا۔ قاسمی صاحب ہم نے وہاں دو روز قیام کیا اور بَلّے میاں کو حوصلہ دینے کی کوشش کرتے رہے لیکن جوان موت پر تو ہم خود حواس باختہ تھے۔
کیا قیامت ٹوٹی ہر آنے والا شخص اور گھر کا ہر فرد اشکبار تھا ۔ جیسے اندر تک سے ٹوٹ چکا ہو ۔ بس قیامت کا ہی منظر تھا ہم بیان بھی نہیں کرسکتے
ہمیں تو خود کچھ سمجھ نہ آرہا تھا۔ اتنا پیارا بچہ اور حد درجہ توانا اور باکمال شاعر کہ جس کا ایک اک شعر کمال فن کی گواہی دیتا ہے۔ اور یکسر جداگانہ انداز شعر گوٸی کہ جو آپ کو کہیں نظر نہ آٸے۔ جہاں یہ محفل سجی ہوٸی تھی اسی ہال میں آنس معین کا ایک پورٹریٹ دیوار پر آویزاں تھا ۔ احمد ندیم قاسمی صاحب نے اس تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوٸے آنس معین ہی کا یہ شعر بیان فرمایا
حیرت دے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا ۔
ڈاکٹر اجمل نیازی نے کہا کہ یہ بھی تو آنس معین ہی کا شعر ہے کہ
میری قامت سے ڈر نہ جاٸیں لوگ
میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا
اس دوران احمد ندیم قاسمی صاحب اور کلیم عثمانی صاحب اور اجمل نیازی بھاٸی کی افسردگی دیدنی تھی
کلیم عثمانی کا اصل نام احتشام الٰہی تھا۔ جبکہ کلیم تخلص تھا۔ ان کے خاندان کا تعلق مولانا شبیر احمد عثمانی سے جا ملتا ہے۔ کلیم عثمانی کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ والد فضل الٰہی بیگل بھی اپنے زمانے کے اچھے شاعر تھے۔ شروع میں والد سے شاعری میں اصلاح لی۔1947ء میں ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ گیا۔ کلیم عثمانی نے یہاں احسان دانش کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی آواز میں ترنم تھا اس لیے مشاعروں میں انہیں خوب داد ملتی تھی۔ ابتدا میں انہوں نے صحافت بھی کی یہی وجہ تھی کہ انہیں مشاعروں میں خوب داد ملتی تھی۔ پھر انہوں نے فلمی شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔ سب سے پہلے انہوں نے 1955میں فلم ’’انتخاب‘‘ کے گیت تحریر کئے اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی۔ فلم ناکام ہو گئی لیکن کلیم عثمانی ناکام نہیں ہوئے۔1957ء میں انہوں نے فلم ’’بڑا آدمی‘‘ کے گیت تحریر کئے ۔ مبارک بیگم اور احمد رشدی کی آواز میں یہ دوگانا ’’کاہے جلانا دل کو چھوڑو جی غم کے خیال کو‘‘ بہت مقبول ہوا پھر1959ئ میں ان کے لکھے ہوئے فلم’’راز‘‘ کے گیتوں نے بھی بہت مقبولیت حاصل کی۔ اس فلم کی موسیقی بھی فیروز نظامی کی تھی۔ زبیدہ خانم کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت’’میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا‘‘ اس کے بعد وہ ایک مسلمہ نغمہ نگار بن گئے۔ یہاں اس امر کا تذکرہ ضروری ہے کہ مذکورہ بالا تمام فلموں کے ہدایت کار ہمایوں مرزا تھے ۔ 1966ء میں کلیم عثمانی نے ’’ہم دونوں‘‘ اور ’’جلوہ‘‘ کے گیت تخلیق کئے جس سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔’’جلوہ‘‘ کے یہ دو گیت انتہائی اعلیٰ درجے کے تھے۔ 1۔ کوئی جا کے ان سے کہہ دے ہمیں یوں نہ آزمائیں(مجیب عالم) 2۔ لاگی رے لاگی لگن یہی دل میں(مہدی حسن) ’’ہم دونوں‘‘ میں ان کی گائی ہوئی اس غزل نے رونا لیلیٰ کو بے مثال شہرت سے نوازا۔ اس غزل کے مطلع کا پہلا مصرع کچھ یوں تھا’’ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا‘‘ اس کے بعد کلیم عثمانی نے ’’عصمت، جوش انتقام اور ایک مسافر ایک حسینہ‘‘ کے گیت لکھے جو بہت ہٹ ہوئے 1969ء میں انہوں نے ’’نازنین‘‘ اور ’’عندلیب‘‘ کے جو نغمات تحریر کئے انہیں بہت شہرت ملی۔یہاں ان فلموں کے صرف دو گیتوں کا تذکرہ کیا جا رہا ہے: 1۔ مستی میں جھومے فضا۔نازنین 2۔ پیار کر کے ہم بہت پچھتائے۔ عندلیب 1971ء میں فلم ’’دوستی‘‘ میں انہوں نے قتیل شفائی اور تنویر نقوی کے ہمراہ گیت لکھے اور ان کے گیت بھی بہت پسند کئے گئے۔ ایک گانا تو بہت پسند کیا گیا۔ ’’روٹھے سیاں کو میں تو اپنے خود ہی منانے چلی آئی‘‘ پھر فلم ’’بندگی‘‘ میں ان کا لکھا ہوا یہ گیت تو دل کے تاروں کو چھو لیتا ہے۔’’خاموش ہیں نظارے، اک بار مسکرا دو‘‘ 1973ء میں ایک فلم ریلیز ہوئی جس کا نام تھا ’’گھرانہ‘‘ کے خورشید کی یہ فلم بھارتی فلم ’’دو راستے ‘‘ کا چربہ تھی۔ بہرحال ’’گھرانہ‘‘ بہت کامیاب رہی۔ اس فلم میں نیرہ نور نے پہلی بار فلمی نغمہ گایا۔ جس نے نیرہ نور کو شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا۔ اس گانے کے بول تھے ’’تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں بچھا دوں‘‘ اس بے مثل گیت کو کلیم عثمانی نے تحریر کیا تھا۔
1974ئمیں فلم ’’شرافت‘‘ ریلیزہوئی اس میں کلیم عثمانی کے لکھے ہوئے ایک گیت کو وہ شہرت نصیب ہوئی جس کی مثال ملنا مشکل ہے، اس گیت کی موسیقی بے بدل موسیقار روبن گھوش نے ترتیب دی تھی۔اس گیت کے بول تھے:
’’تیرے بھیگے بدن کی خوشبو سے لہریں بھی ہوئیں مستانی سی‘‘
متحدہ ہندوستان اور پھر منقسم ہندوستان گویا کہ پاکستان اور ہندوستان میں فلمی دنیا کو اپنے وقت کے عظیم ترین اور ممتاز ترین شعراٸے کرام کی خدمات حاصل رہی ہیں۔ بے شک بے شمار فلمی گیت نگاروں کو محض فلمی گیتوں کے باعث مقبولیت اور شہرت حاصل نہیں ہوٸی بلکہ ان شخصیات اور ان شعراٸے کرام کی گیت نگاری کے باعث فلمی صنعت کو استحکام حاصل ہوا ۔ اور ان میں سے اکثر کی گیت نگاری فلموں کی کامیابی کی ضمانت ہوا کرتی تھی ۔مثال کے طور پر حضرت جوش ملیح آبادی ۔ احمد ندیم قاسمی ۔مجروح سلطان پوری۔ محسن نقوی۔ جانثار اختر۔ طفیل ہوشیار پوری شکیل بدایونی ۔ کیفی اعظمی ۔ سیف الدین سیف ۔ تنویر نقوی ۔ قتیل شفاٸی۔ ساحر لدھیانوی اور کلیم عثمانی و دیگر شعراٸے کرام ۔
چنتا رہوں میں حرفوں کی دیوار کب تلک
اے کرب ذات سامنے آ کر دکھا مجھے
میں نے سمجھا تھا ملے گی مجھ کو ہمدردی کی بھیک
لوگ تو میرے غموں سے دل کو بہلانے لگے
رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح
روز مصلوب ہوئے اپنی انا کے ہاتھوں
1ہم نے دنیا میں بہت کم ہی قلندر دیکھے
کیا شخص تھا کیا اس کے خدوخال بتائیں
کلیاں بھی اسے دیکھ کے ملتی رہیں آنکھیں
جب سے وہ شخص میری نگاہوں میں بس گیا
اپنی طرف بھی دیکھنے کو میں ترس گیا
دور ہوں میں منافقت سے کلیم
جیسا اندر ہے ویسا باہر ہے
تم حوصلہ نہ ہارو کٹ جائیں گے اندھیرے
بکھیریں گے پھر اُجالے نکھریں گے پھر سویرے
چنتا رہوں میں حرفوں کی دیوار کب تلک
اے کرب ذات سامنے آ کر دکھا مجھے
میں نے سمجھا تھا ملے گی مجھ کو ہمدردی کی بھیک
لوگ تو میرے غموں سے دل کو بہلانے لگے
رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح
روز مصلوب ہوئے اپنی انا کے ہاتھوں
ہم نے دنیا میں بہت کم ہی قلندر دیکھے
کیا شخص تھا کیا اس کے خدوخال بتائیں
کلیاں بھی اسے دیکھ کے ملتی رہیں آنکھیں
جب سے وہ شخص میری نگاہوں میں بس گیا
اپنی طرف بھی دیکھنے کو میں ترس گیا
دور ہوں میں منافقت سے کلیم
جیسا اندر ہے ویسا باہر ہے
حضرت احمد ندیم قاسمی ، مرتضی برلاس انکل ، تایا ابا کلیم عثمانی ، جاوید احمد قریشی ، پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل ، صدیقہ بیگم ، ساٸرہ ہاشمی ، محترمہ الطاف فاطمہ ، ڈاکٹر اجمل نیازی ، ظفر علی راجا ، ابصار عبدالعلی ، بشری رحمن ، منور سعید صاحبہ اور ان کی اہلیہ اور بیدار سرمدی صاحب ، سعید بدر اور دیگر بہت سے احباب قافلے کے پڑاٶ میں شریک تھے ابھی پڑاٶ کے آغاز کو زیادہ وقت نہیں گزرا تھا لیکن سرفراز سید خلاف معمول تاحال نہیں پہنچ پاٸے تھے بشری رحمن صاحبہ نے اپنا افسانہ پڑھنا شروع کردیا تھا کہ اچانک سے سرفراز سید صاحب آ دھمکے اور آتے ہی مطالبہ کیا کہ بشری رحمن صاحبہ آپ سے گزراش ہے کہ افسانہ از سر نو پڑھیے ۔ بشری رحمن صاحبہ نے فرمایا سید صاحب ڈیڑھ صفحہ پڑھ چکی ہوں آپ تو مجھے سزا دینا چاہ رہے ہیں ان کا یہ جواب سن کر سرفراز سید صاحب نے بشری رحمن صاحبہ کو مخاطب کرکے فرمایا کہ میں قافلہ کے ہر پڑاٶ کی رپورٹ مفصل رپورٹ لکھتا ہوں مجھ پر کرم فرماٸیں یہ سن کر بشری رحمن صاحبہ نے اپنا افسانہ ازسر نو پڑھا ۔ دیگر احباب ابھی اپنا کلام سنا ہی رہے تھے اور اجمل نیازی صاحب نے تو ابھی اپنا کلام سنانا شروع ہی کیا تھا کہ قتیل شفاٸی صاحب اور استاد مہدی حسن خاں صاحب تشریف لے۔ ان کے آتے ہی ماحول یکسر تبدیل یوگیا قتیل صاحب نے اجمل نیازی صاحب سے کہا بھی کہ آپ کلام سنانا جاری رکھیے لیکن اجمل نیازی صاحب نے فرمایا سروں کے بادشاہ کے سامنے بےسری آواز کیا مزا دے گی۔ البتہ کیا حسن اتفاق ہے کہ یہ وطن تمہارا ہے ، تم ہو پاسباں اس کے کے خالق جناب کلیم عثمانی صاحب سے یہ ملی نغمہ سنا جاٸے اور پھر استاد جناب مہدی حسن خاں صاحب سے گزارش کی جاٸے کہ اس کے ایک دو شعر گنگنادیں۔ ڈاکٹر اجمل خاں نیازی صاحب سے ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب نے استفسار فرمایا کہ اجمل نیازی صاحب آپ اس قافلہ پڑاٶ میں مہمان کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں یا میزبان کی حیثیت سے ۔ اجمل نیازی صاحب نے فرمایا بلے بھاٸی ہم نے اس گھر میں خود کو کبھی مہمان نہیں سمجھا ۔ یہ سن کر فخرالدین بلے شاہ صاحب نے فرمایا کہ اب آپ کلیم بھاٸی سے میزبان کی حیثیت سے بنفسِ نفیس گزارش فرماٸیے کہ وہ ہماری ، ہم سب کی اور آپ کی پسند کا یہ نغمہ شرکاٸے قافلہ پڑاٶ کو عطا فرمادیں۔ قصہ مختصر جناب کلیم عثمانی صاحب نے یہ مشہور اور مقبول ترین ملی نغمہ اپنی بیاض میں سے پڑھ کرسنایا ۔
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے,
یہ چمن تمھارا ہے،تم ہو نغمہ خواں اسکے
اس چمن کے پھولوں پر رنگ و آب تم سے ہے
اس زمیں کا ہر زرہ آفتاب تم سے ہے
یہ فضا تمھاری ہے بحروبر تمھارے ہیں
کہکشاں کے یہ اجالے راہگزر تمھارے ہیں.
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے…
اس زمین کی مٹی میں خون ہے شہیدوں کا،
ارض پاک مرکز ہے قوم کی امیدوں کا
نظم و ضبط کو اپنا میر کارواں مانو
وقت کے اندھیروں میں اپنا آپ پہچانو.
یہ وطن تمھارا ہے تم ہو پاسباں اسکے….
یہ زمیں مقدس پے ماں کے پیار کی صورت
اس چمن میں تم سب ہو برگ و بار کی صورت
دیکھنا گنوانا مت دولت یقیں لوگو
یہ وطن امانت ہے اور تم امیں لوگو…..
یہ وطن تمھارا ہے،تم ہو پاسباں اسکے…..
میر کارواں ہم تھے روح کارواں تم ہو
ہم تو صرف عنواں تھے اصل داستاں تم ہو
نفرتوں کے دروازے خود پہ بند ہی رکھنا
اس وطن کے پرچم کو سر بلند ہی رکھنا
یہ وطن تمھارا ہے ،تم ہو پاسباں اسکے !!
حضرت کیلم عثمانی صاحب نے اپنے نہایت مخصوص انداز میں مکمل نغمہ سنایا تو شرکاٸے قافلہ پڑاٶ نے جی بھر کر داد دی اور خوب سراہا تو اللہ جانے ڈاکٹر اجمل نیازی صاحب کو کیا ہوا انہوں نے داد کے طور پر یہ مصرعہ پڑھا
آنچ ہم آنے کبھی دیں گے نہ پاکستان پر
مہندی حسن خاں صاحب نے اس مصرعے پر بےساختہ داد دی اور فرمایا بہت خوب مکمل شعر پڑھیے اجمل نیازی صاحب
اجمل نیازی صاحب نے فرمایا کہ بلے بھاٸی صاحب کی نظم چھ ستمبر کا مصرعہ ہے ۔ پوری نظم تو بلے صاحب سے ہی فرماٸش کرکے سنی جاسکتی ہے۔ اس کے جواب میں کلیم عثمانی صاحب نے فرمایا کہ اجمل نیازی صاحب میں نے اور میرے ساتھ بیٹھے ہوٸے یہ جناب طفیل ہوشیارپوری صاحب نے متعد بار بَلّے میاں سے بارہا اس خواہش کا اظہار کیا کہ فلمی گیت نگاری کی طرف آٸیے اور ملی نغمے لکھیے ۔ کلیم عثمانی صاحب کی یہ بات سن کر جناب استاد مہدی حسن خاں صاحب نے فرمایا کہ ابھی چند ماہ قبل بھی جب میں آیا تھا تو آپ میں سے اکثر احباب بھی موجود تھے اور میں نے جناب سید فخرالدین بلے شاہ صاحب سے گزارش کی تھی کہ اپنا لام عطا فرماٸیے تاکہ مجھے بھی یہ اعزا حاصل ہو کہ میں نے آپ کا کلام گایا ہے لیکن بلے صاحب نے توجہ نہیں فرماٸی۔ کلیم عثمانی صاحب نے استاد مہدی حسن خاں صاحب کی بات غور سے سن کر فرمایا کہ ابھی پچھلے برس کی بات ہے اسی جگہ ہم سب کی موجودگی میں بلے میاں کہ زمانہ طالب علمی کے دوست ڈاکٹر فوق کریمی صاحب علیگڑھ ۔ بھارت سے تشریف لاٸے ہوٸے تھے انہوں نے اپنی اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی حسین یادوں کے حوالے سے ایک نہایت خوبصورت مضمون پڑھا تھا اور ان حسین یادوں میں ڈاکٹر فوق کریمی صاحب نے اس بات بھی ذکر کیاتھا کہ
شکیل بدایونی جب بھی علی گڑھ آتے ،بلے سمیت ہم دوستوں سے بھی ملتے تھے اور بلے کی ادبی اٹھان دیکھ کر انہوں نے کئی باراسے گیت نگاری کی طرف آنے کی ترغیب بھی دی لیکن بلے نے اس پیشکش کی طرف کبھی رغبت کااظہار نہیں کیا۔اس کاکہناتھامیں کسی کے جذبوں کی ترجمانی نہیں کرسکتا،صرف اپنی فکر کوشعر کاملبوس دے سکتاہوں ۔ کوئی اور نوجوان ہوتاتو سوچتااب میرے گیت لتا ،آشا اور محمد رفیع کی زبان پر ہوں گے۔غیر معمولی شہرت میرے قدم چومے گی لیکن بلے اس طرح نہیں سوچتاتھا ۔نہ اس نے کبھی سوچا۔…………………………… جناب کلیم عثمانی صاحب کی بات کو توجہ سے سن کر اجمل نیازی صاحب نے فخریہ انداز میں ایک قافلہ پڑاٶ کا حال ان الفاظ میں سنایا کہ
طارق عزیز صاحب نے احمد ندیم قاسمی صاحب سے مخاطب ہوکر کہا آپ کی سفارش بھی کام نہ آٸی میں نے بارہا جناب سید فخرالدین بلے صاحب سے گزارش کی کہ وہ میرے شو میں مہمان شاعر و محقق کے طور پر شرکت فرماٸیں اور وہ ہمیشہ یہ کہہ کر ٹلا دیتے ہیں کہ نہ تو آپ کہیں جا رہے ہیں اور نہ ہی میں ۔ قاسمی صاحب آپ ہی فرماٸیے کہ میں کیا کروں اور بلے صاحب سے احتجاج بھی کروں تو کیسے پسندیدہ شعرا میں سے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی صاحب مسکراٸے اور ان کی مسکراہٹ دیکھ کر طارق عزیز صاحب نے پوچھا قاسمی صاحب میری بات کے جواب میں آپ کی مسکراہٹ ، میں سمجھ نہیں پارہا ۔ اس سوال کے جواب میں احمد ندیم قاسمی صاحب نے فرمایا کہ سید فخرالدین بلے صاحب سے صہبا لکھنوی صاحب کو ہم نے افکار کےلیے ۔ محمد طفیل صاحب کو نقوش کےلیے اور محترمہ صدیقہ بیگم کو (کہ جو خود سید فخرالدین بلے صاحب کے افراد خانہ میں شمار کی جاتی ہیں) ادب لطیف کےلیے اظہر جاوید صاحب کو تخلیق کےلیے اور مسعود اشعر صاحب کو دھنک کےلیے اور طفیل ہوشیارپوری صاحب کو محفل کےلیے بارہا کلام کی فرماٸش کرتے سنا اور دیکھا ہے اور جبکہ میں خود فنون کےلیے متعدد بار ان سے ان کا کلام طلب کرچکا ہوں لیکن وہ ہمیشہ ہی نہایت خوبصورتی سے ٹال جاتے ہیں۔ اور تو اور حسن رضوی اور اجمل نیازی کافی عرصہ کوشش کرتے رہے کہ فخرالدین بلے صاحب انہیں جنگ اور پاکستان کےلیے انٹرویو دے دیں حسن رضوی کو تو کامیابی حاصل نہیں ہوسکی البتہ اجمل نیازی سے پوچھنا ہوگا کہ کرنا ہوگا کہ انہوں نے کیا حربہ استعمال کیا تھا کس طرح فخرالدین بلے صاحب نے انہیں انٹرویو دے دیا ۔
آٸیے اس تحریر کے اختتام پر محترم کلیم عثمانی صاحب کے شاندار اور جاندار اور مقبول ترین کلام پر ایک نظر ڈالتے ہیں
رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح
چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح
خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں
شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح
پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی
پھر برسنے لگی آنکھیں مری ، بادل کی طرح
بے وفاؤں سے وفا کرکے ، گذاری ہے حیات
میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرادو
کہتی ہیں یہ بہاریں ہنسنا ہمیں سیکھا دو
سُونی پڑی رہیں گی یہ پربتوں کی راہیں
یونہی کُھلی رہیں گی ان وادیوں کی بانہیں
جب تک جُھکی یہ نظریں ہنس کہ نہ تم اُٹھا دو
خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرادو
قدموں کو چُھو رہی ہیں یہ جھومتی گھٹائیں
کرتی ہیں التجائیں یہ شام کی ہوائیں
چہرے سے گیسوؤں کا آنچل ذراہٹادو
خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرادو
تم حوصلہ نہ ہارو کٹ جائیں گے اندھیرے
بکھیریں پھراُجالے نکھریں گے پھرسویرے
اُمید کی کرن سے اب دل کو جگمادو
خاموش ہیں نظارے اک بار مسکرادو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس پرچم کے سائے تلے ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک چمن کے پھول ہیں سارے ، ایک گگن کے تارے
ایک گگن کے تارے
ایک سمندر میں گرتے ہیں سب دریاؤں کے دھارے
سب دریاؤں کے دھارے
جدا جدا ہیں لہریں ، سرگم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
ایک ہی کشتی کے ہیں مسافر اک منزل کے راہی
اک منزل کے راہی
اپنی آن پہ مٹنے والے ہم جانباز سپاہی
ہم جانباز سپاہی
بند مٹھی کی صورت قوم ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
پاک وطن کی عزت ہم کو اپنی جان سے پیاری
اپنی جان سے پیاری
اپنی شان ہے اس کے دم سے ، یہ ہے آن ہماری
یہ ہے آن ہماری
اپنے وطن میں پھول اور شبنم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
سانجھی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ، ہم ایک ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعرِ پاکستان کلیم عثمانی اور سیدفخرالدین بلے = داستانِ رفاقت
ولادت : 28 فروری1928ء وفات: 28 اگست2000ء
داستان گو : ظفر معین بلے جعفری