شوقی ؔ اور اقبالؔ
۔۔۔۔۔۔ ایک مطالعہ
مبصر: ڈاکٹر ریاض توحیدی
تصنیف : شوقیؔ اور اقبالؔ
مصنّف : ڈاکٹر محمد سلطان شاہ اصلاحی
ناشر : اقبالؔ انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی کشمیر یونیورسٹی …..
اقبالؔ انسٹی ٹیوٹ آف کلچر اینڈ فلاسفی‘جامعہ کشمیرکا ایک ایسامتحرک ادارہ ہے جوگزشتہ چار دہائیوں سے تحقیق و تدریس‘توسیع خطبات‘ سمیناروں ‘اشاعت کتب وغیرہ بنیادی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے نبھانے کے ساتھ ساتھ دیگر علمی وادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کو فروغ دینے میں پیش پیش رہا ہے۔ادارہ کے اولین ناظم عالمی شہرت یافتہ نقاد ودانشور اور ماہر اقبالیات پروفیسر آلِ احمد سرورکی دس سالہ مدت کے بعد پروفیسر صبیح احمد کمالی‘پروفیسر محمد امین اندرابی‘پروفیسر بشیر احمد نحوی اور پروفیسر تسکینہ فاضل وغیرہ ماہرین اقبالیات نے نظامت کی ذمہ داریاں نبھائیں۔اس وقت ادارے کی باگ ڈور ڈاکٹر مشاق احمد گنائی سنبھالے ہوئے ہیں۔عصر حال تک ادارے نے سو سے زائد ایم ۔فل اور پی ۔ ایچ ۔ڈی اسکالرس کو اسناد تفویض کی ہیں۔ادارے کی مطبوعات پر نظر دوڑائیں تو اس کے ذریعے آج تک قریبا ایک سو بیس کتابیں شائع ہوچکی ہیں ‘علاوہ ازیں ادارے کا آرگن مجلہ ’’اقبالیات‘‘مسلسل شائع ہوتا رہتا ہے۔اب مطبوعاتی سلسلے کی ایک اور کڑی زیر تبصرہ تصنیف’’شوقیؔ اور اقبالؔ ‘‘ہے ‘جو کہ معروف دانشور اور عربی ادب کے ممتاز استاد جناب ڈاکٹر محمد سلطان شاہ اصلاحی (کشمیر)کی فکری کاوش کا ثمرشیریں ہے۔یہ تصنیف درجہ ذیل مشؤلات پر مشتمل ہیں۔
پیش لفظ(مصنّف)۔حرفے چند(پروفیسر تسکینہ فاضل)۔باب اوّل:شوقیؔ اور اقبالؔ (مشاہیر کی نظر میں)۔باب دوم:عالم اسلام استعماریت کی زد میں۔باب سوم:نویدِصبح۔باب چہارم:چند وہبی مماثلتیں۔باب پنجم:شوقیؔ اور اقبال ؔ کا قرآنی شعور۔باب ششم:شوقیؔ اور اقبالؔ کی نعتیہ شاعری۔باب ہفتم:شوقیؔ اور اقبالؔ کا تصوّر خلافت۔باب: ہشتم:شوقیؔ اور اقبالؔ کی اندلُسیات:باب نہم :خلاصۂ بحث۔ کتابیات۔
پیش نظر تصنیف ‘دو نابغۂ عصر شاعروں یعنی امیرالشعراء احمد شوقی ؔ (مصر) اور شاعر مشرق علاّمہ ا قبالؔ (پاکستان)کے اشعار و افکار کی معنوی مماثلت اور ثقافتی موزونیت کا محقیقانہ اور دانشوارانہ مطالعہ ہے۔باب اول میں ان دو عظیم شخصیات کے فکر وفن اور علمی وادبی مرتبیت کا جائزہ مشاہیرِعلم وادب کی توضیحات کے توسُّط سے پیش ہوا ہے۔صاحب تصنیف دونوں عظیم شخصیات کے فکری وثقافتی احساس و روایت کی مماثلت کا اجمالی تجزیہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں جو کہ راقم کی نظر میں ایک طرح سے کتاب کے مباحث کا نچوڑ بھی کہا جاسکتا ہے کہ
’’شوقیؔ اور اقبالؔ دوعظیم شاعر ہیں .دونوں اسلام کی ثقافتی اور فکری روایات سے بخوبی آگاہ تھے اور دل وجان سے اس پر فریفتہ۔
دونوں نے مغربی تہذیب و تمدن کا عینی مشاہدہ کیا تھا‘اس کے علم وادب کی غوّاصی کی تھی ۔اس لحاظ سے وہ اس تہذیب کے حسن
و قُبح کے رمز شناس بھی تھے۔انہوں نے دیکھا کہ اس لادین تہذیب کے پاس اقتدار وغلبہ تو ہے‘اس کے پاس مادی فراوانی بھی
ہے ‘یہ اس وقت تازہ دم اور صلاحیت سے بھرپور ہے اور دنیا میں ہر سُو اسی کا ڈنکا بج رہا ہے ۔مگر اس کے باوجود اس میں قلب ونظر
کا فساد ہے۔۔۔۔
دوسری طرف وہ تہذیب کہ جس پر وہ دل وجان سے فریفتہ تھے‘جس کی اساس کلمۂطیبہ پر مبنی ہے‘جس کی جڑیں زمین میں
گہری جمی ہوئی ہیں اور شاخیں آسماں تک پہنچی ہوئی ہیں‘اس میں قلب و نظر کا علاج ہے .اس کی مدنیت کی روح عفیف ہے۔
اسلئے انہوں نے امت مسلمہ کو مخاطب کرکے حقیقت میں ساری انسانیت کو اسی صحت مند تہذیب اور عفیف مدنیت کی طرف
دعوت دی ہے۔‘‘
(شوقیؔ اور اقبالؔ ۔۔ص۲)
اس باب میں پہلے احمد شوقی ؔ کی عبقری شخصیت پر احمد حسن زیات ‘ڈاکٹر محمد حسین ہیکل ‘حافظ ابراہیم ‘طہ حسین اور ڈاکٹر ماہر حسن فہمی کے خیالات پیش ہوئے ہیں اور پھر علامہ اقبالؔ کی کثیر الجہت شخصیت کے خصائص کو ڈاکٹر خلیفہ عبدالحکیم‘سید ابوالاعلی مودودی ‘پروفیسر رشید احمد صدیقی‘مولانا سیدابوالحسن علی ندوی وغیرہ مشاہیرکی نگارشات کے ذریعے اجاگر کیا گیا ہے۔
کتاب کے دو ابواب بعنوان’’عالمِ اسلام استعماریت کی زد میں ‘‘اور ’’نوید صبح ‘‘بظاہر تصنیف کے بنیادی موضوع سے عدم موافقت کی غمازی کرتے دکھائی دے رہے ہیں‘لیکن قرات کے دوران بین السطور پوشیدہ پیغام مرکزی مباحثے کاایک اہم حصہ نظر آرہا ہے۔ان مضامین میں پہلے عالم اسلام کی تشویشناک صورت حال کی سیاسی ‘سماجی اور تواریخی پس منظر اور وجوہات کامحققانہ جائزہ پیش ہوا ہے اور پھراس تشویشناک صورتحال میں مسلمانوں کو نکالنے اور اپنے تشخص کو زندہ رکھنے کے لئے عالم اسلام کی یکتائے روز گار شخصیات اور اداروں جیسے سید جمال الدّین افغانی‘شیخ محمد عبدہ‘سرسید احمد خان‘مولانا الطاف حسین حالیؔ وغیرہ اوردارالعلوم دیوبند‘تحریک ندوۃ العلماء کے علمی وادبی اورفکری و عملی اقدامات پر دانشورانہ روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے باوجود اگردوسرے مضمون میں چند اور شخصیات مثلاََ سید بدیع الزمان نورسی ‘سید حسن البنا ء شہید‘سید قطب شہید‘مولانا مودودی ‘اخوان المسلمین‘جماعت اسلامی وغیرہ کے علمی ‘اصلاحی اور انقلابی اقدامات پربھی ارتکاز ہوتا تو زیادہ بہتر رہتا۔
باب پنجم بعنوان’’شوقیؔ اور اقبالؔ کا قرانی شعور‘‘میں دونوں شاعروں کا قرآن سے ذہنی و قلبی تعلق اور ان کے کلام میں قرآنی فکر وپیام کے اثرات و توضیح کا عالمانہ جائزہ پیش ہوا ہے۔امیر شعراء احمد شوقی ؔ کا قرآن سے قلبی لگاو اور فکری طور پر ان کے کلام میں قرآنی اثرات کا احاطہ کرتے ہوئے صاحب کتاب لکھتے ہیں:
’’قرآن کریم کے ساتھ اس لگاؤ اور ذوق و شوق سے امیرالشعراء کی شاعری پر اس کا اثر جابجا نظر آتا ہے۔اس نے قرآن کریم
کی آیات پر تضمینیں لکھی ہیں اور قرآنی قصص سے گہرا تاثر لیا ہے۔پھر اس کی شعری لغت پر قرآن چھایا ہوا ہے۔‘‘
(شوقی ؔ اور اقبالؔ ۔۔ص۸۱)
اسی طرح علاّمہ اقبالؔ کی قرآن سے قلبی وابستگی اور ان کے اشعار میں قرآنی پیام کا بھی اجمالی جائزہ نظر آتا ہے‘علاوہ ازیں دونوں شاعروں کے حسب موضوع اشعار بھی دوران تحریر پیش ہوئے ہیں۔
باب ہشتم’’شوقیؔ اور اقبالؔ کی نعتیہ شاعری‘‘کے لئے مختص ہے۔اس باب میں پہلے لفظ نعت کی لسانی و اصطلاحی اور دینی توضیح کے ساتھ ساتھ دور اصحاب کی نعت گوئی پر تواریخی نقطہ نگاہ سے روشنی ڈالی گئی ہے.اس کے بعد دونوں شاعروں کے نعتیہ کلام کو موضوع گفتگو بنایا گیا ہے۔
باب ہفتم میں’’شوقیؔ ؔ اور اقبالؔ کا تصّور خلافت‘‘موضوع بحث بناہوا ہے ۔اس باب میں پہلے قرآن و حدیث کے تناظر میں اسلام کے نظریہ حاکمیت ‘دور خلافت کے منصفانہ ثمرات ‘سلاطین مسلم کے دبدبے کے خاتمے اور مسلمانوں میں قومیت اوروطنیت کے جراثیم پھیلا کر یورپی سامراج کا ظہور وغیرحقائق و مسائل پر جستہ جستہ روشنی ڈالی گئی ہے۔اس کے بعد مذکورہ حقائق کے پس منظر میں احمد شوقی ؔ اور علاؔ مہ اقبالؔ کے تصور خلافت کامجموعی مطالعہ پیش ہوا ہے۔شوقی ؔ کے تصور خلافت کا احاطہ کرتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں:
’’شوقیؔ کا ایمان ہے کہ اسلام اللہ کا دین اور مکمّل ضابطۂ حیات ہے۔اس میں دین وسیاست کی کوئی تفریق نہیں‘بلکہ اسلام‘
دین وسیاست‘ تہذیب ومعاشرت اور تمدن وثقافت کا مکمل دستورالعمل ہے۔اجتماعی زندگی میں اس دستور اور آئین کا نفاذ
اسلامی حکومت ہی کرے گی جس کا سربراہ خلیفہ کہلاتا ہے۔۔۔‘‘
(شوقیؔ اور اقبالؔ ۔۔ص۱۲۶)
اسی طرح علاّمہ اقبالؔ کے تصور خلافت پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا گیا ہے کہ’’ علاّمہ محمد اقبالؔ کے نذدیک خلافت کا سرچشمہ قرآن کریم ہے۔‘‘اور ’’اقبالؔ نے اس موضوع پر شوقیؔ سے زیادہ وضاحت سے لکھاہے۔‘‘اس مضمون میں رد اشتراکیت کے تعلق سے علاّمہ اقبالؔ کے یہ تصورات (جو کہ ان کے اشعار کا ترجمہ ہے)پیش ہوئے ہیں:
’’۔۔۔کارل مارکس کے اس نظام باطل میں کسی قدر حق کی آمیزش ہے۔مگر اس حق ناشناس فلسفی نے اپنے فلسفہ کی بنیاد
مساواتِ شکم پر رکھی ہے جبکہ مساوات‘ اخوّت پر مبنی ہے اور اخوّت کا مقام دل ہے نہ کہ شکم۔‘‘
(شوقیؔ اور اقبال ؔ ۔۔ص۱۳۴)
کتاب کا باب ہشتُم ’’شوقیؔ اور اقبالؔ کی اَندلُسیات‘‘پر رقم ہوا ہے۔اس باب میں اندلس کا تواریخی پس منظر‘فاتحین اندلس یعنی طارق بن زیاد اور موسی بن نصیرکی پیش قدمی اور مسلمانوں کے آٹھ سو سالہ دور اقتدار کے خاتمہ کے وجوہات پر تواریخی دلائل کے تناظر میں بات ہوئی ہے۔اس کے بعد تاریخ اندلس کے آئینے میں شوقیؔ اور اقبالؔ کے افکار واشعار کا مطالعہ کرتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس موضوع پر ان دونوں شعراء کے احساسات و جذبات میں یکساں دردو کسک موجود ہیں۔
اے گلستانِ اندلُس وہ دن ہیں یاد تجھ کو
تھا تیری ڈالیوں میں جب آشیاں ہمارا
(اقبالؔ )
درجہ بالا خیالات کے پیش نظراگرچہ یہ کتاب دوعظیم شعراء کا تقابلی مطالعہ پیش کررہی ہے لیکن مجموعی طور پر کتاب کے مشأولات اور مباحث میں عالمانہ‘ محققانہ اورمفکرانہ نقطہ نگاہ سے مسلمانوں کے عروج وزوال کا اجمالی جائزہ بھی پیش ہوا ہے جو کہ صاحب کتاب جناب ڈاکٹر محمد سلطان شاہ اصلاحی کی عالمانہ شخصیت کاقابل تحسین پہلو ہے۔چونکہ موصوف نے احمد شوقی ؔ کی شاعری پر ہی پی۔ایچ ۔ڈی کیا ہے اور پیش نظرمقالہ انہیں شعبۂ اقبالیات کی طرف سے ہی تفویض ہوا تھا‘اس لئے یہ مقالہ قاری کو بصیرت افروز معلومات فراہم کررہا ہے بقول پروفیسر تسکین فاضل صاحبہ:
’’شوقیؔ اوراقبالؔ ‘ کی مماثلتوں پر ان کا یہ مقالہ نہایت وقیع اور پُرمغز ہونے کے علاوہ علمی اور ادبی معلومات کا ایک انمول خزانہ
بھی ہے۔‘‘
(شوقیؔ اور اقبالؔ ۔۔صx)
کتاب کا گٹ اپ جاذب نظر ہے‘ بائنڈنگ بھی بہتر ہے اورکمپوزنگ بھی ٹھیک ہے ۔البتہ کتاب کی قیمت پانچ سو روپے ہیں جوکہ تھوڑا زیادہ دکھ رہاہے۔اس مقالے کی ایک اہم خوبی یہ ہے کہ اس میں تحقیقی قواعد و ضوابط کا سائنٹفک اپروچ اپنایا گیا ہے‘ابواب میں مناسب حوالے اور آخرپر کتابیات میں عربی ‘اردواور انگریزی مصادر و کتب کی موزوں فہرست شامل ہے۔ تاہم ایک دو ابواب یعنی شوقی اور اقبالؔ کا قرآنی شعور اور شوقیؔ اور اقبالؔ کا تصورِ خلافت کے مباحث میں مزید اضافے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے۔ خیر کتاب کی اہمیت کے بارے میں اتنا ہی کہونگا کہ یہ نہ صرف عربی بلکہ انگریزی میں بھی ترجمہ ہونی چاہئے تاکہ اردو قارئین کے علاوہ عربی اور انگریزی کے شائقین ادب بھی مستفیض ہوسکیں.
…………………………………………………………………………
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔