:::" شوکت صدیقی، جانگلوس، پنجاب کی الف لیلی اورپاکستان کا وسطی پنجاب کے معاشرتی اور سیاسی استبداد کی کہانی" :::
شوکت صدیقی {آمد: ۲۰ مارچ ۱۹۲۳، لکھنئو ۔۔۔۔ رخصت : ۱۶ دسمبر ۲۰۰۶ ۔ کراچی} خدا کی بستی " کے بعد ناول " جانگلوس" کو سب سے زیادہ شہرت ملی۔ ستر /۷۰ کی دہائی کے آواخر میں راقم الحروف نے شوکت صاحب کو یہ ناول لکھتے دیکھا ھے۔ مجھے احساس ہوا کی ناول لکھنا کتنا محنت طلب ، جگر سوزی ھے ۔ جس کے لیے عمیق مطالعہ کی ضرورت ھوتی ھے۔ جانگلوس قسط وار شکیل ذادہ کے ڈائجسٹ " سب رنگ "، کراچی میں چھپی تھی۔ اس ناول کا زمانہ تخلیق ۱۹۷۷ء تا ۱۹۹۴ء تک ہے۔ اس وقت بھی جتنا اسے پڑھا ایک سحر سا طاری رہا۔ لیکن سنجیدگی سے پڑھنے کا موقع تین سال پہلے ملا۔ شوکت صریقی صاحب چونکہ بائیں بازو سے تعلق رکھتے تھے اس لیے ان کی تحریروں میں یہ ربگ کافی نمایاں رہتا ہے۔ بہرحال کردار نگاری اچھی کی گئی ہے اور ہمارے سماج،کا مکروہ چہرہ بہت کھل کے دکھایا گیا ہے۔ لیکن پہلی جلد کے بعد یہ تاثر پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے کہ اسے غیر ضروری طور پر کھینچا گیا ہے
" جانگلوس" پاکستان کے وسطی پنجاب کے پس منظر میں لکھا گیا ناول ھے۔ اس ناول کا لینڈاسکیپ صوبہ پنجاب ہی ہے۔جس میں معاشرتی رموزیات کو لا رموز کیا گیا ہے۔ جو اس علاقے کی جغرافیائی اور نفسیاتی کی بہتریں حقیقت پسندانی تصویر کشی ہے۔ یہ واحد ناول ہے جس میں پورے ملک کی تہذیبی، ثقافتی، معاشرتی، معاشی، اقتصادی صورتِ حال کو مجموعی طور پر منعکس کرنے کی بجائے ہر علاقے کے انفرادی رحجانات کو عیاں کیا گیا ہےجس کے لیے شوکت صاحب نے نے وہاں کی ثقافت، بود وباش، رسم رواج، اخلاقی معیارات،جرائم معاشرتی، سیاسی اور معاشی مزاج کے پس منظر کا گہرائی سے مطالعہ اور تحقیق کی۔ " جانگلوس" کا افسانوی بیانیہ یساریت پسندی کی جدلیات کے خمیر سے تشکیل پاتا ھے۔ جس میں پاکستانی وسطی پنجاب میں روان ناانصافیوں کی اذیت ناک ، ظالمانہ اور اسٹبلشمنٹ کی کہانیاں پوشیدہ ہیں۔ اس ناول کو " پنجاب کی " الف لیلی" بھی کہا جاتا ھے۔ " جانگلوس" سسنکرت زبان کا لفظ ھے جس کے معنی ، جنگلی، وحشی، غیر مہذب ، اجڈ اور گنوار کے ھوتے ہیں۔ یہ ناول جیل سے فرار ھونے والے دو قیدیوں لالی اور رحیم دار کی کہانی ھے۔ جو پولیس سے بچنے کے لیے قریہ قریہ بھاگتے اور چھپتے پھرتے ہیں اور جرائم کی دنیا کے لوگوں سے ان کا سابقہ پڑتا ھے۔ لکھنئوی تہذیب میں رچے بسے شوکت صدیقی نے بڑی کامیابی سے " جانگلوس" میں پاکستان کے وسطی پنجاب کے دہقانی لسانی لہجے میں لکھا۔ اس ناول کے ۴۶ ایڈیشن چھپے۔ یہ ناول تین/۳ حصوں میں اور دوہزار صفحات پر مشتمل ھے۔ " جانگلوس" کی ڈرامائی اٹھارہ / ۱۸ اقساط پی ٹی وی پر دکھایا گیا۔ پھر اچانک یہ نشر ھونا بند ھوگیا۔
کئی سال پہلے پی ٹی وی سے شوکت صدیقی کے ناول پر بیس ڈرامہ جانگلوس پیش کیا گیا جس نے مقبولیت کے نۓ ریکارڈ قائم کیے سنسنی خیزی اور ایڈونچر کی وجہ سے اس کا شدت سے انتظار کیا جاتا تھا
لیکن پھر نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر اسے درمیان میں ہی ختم کر دیا گیا بظاھر بیورو کریسی ، جاگیرداروں اور سیاستدانوں کا دباؤ ہو سکتا ہے کیونکہ یہ ڈرامہ انہی کے پردے چاک کر رہا تھا جس کا شوکت صدیقی کو بہت ملال تھا۔" شوکت صدیقی واقعتاً ایک تخلیق کار ہیں کہ کہانی کو اس انداز میں مرتب کیا ہے کہ قاری اس میں کھو جاتا ہے۔ ان کی کہانی میں ہر درجے کے ذہن کے لیے طمانیت کا سامان موجود ہے، ان کے لیے بھی کہ جو کہانی کو ایک کہانی کے طور پڑھتے ہیں اور ان کے لیے بھی جو کہانی کو ایک فلسفہ سمجھ کر پڑھتے ہیں۔ پہلے حصے میں کہانی کا پلاٹ بہت جاندار ہے کہ قاری کا دل کہانی چھوڑنے کو آمادہ نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی لالی کے کردار سے کہانی کا رخ رحیم داد کے کردار کی طرف مڑتا ہے اور ناول کے دوسرے حصے کا آغاز ہوتا ہے تو قاری کو احساس ہوتا ہے کہ اب ناول کی ضخامت بڑھانے کی خواہ مخواہ کی کوشش جاری ہے۔۔۔
جہاں تک ناول کی زبان کا تعلق ہے تو شوکت صدیقی صاحب نے ناول میں دیہاتی لب ولہجے کو اسی زبان میں نقل کیا ہے جیسا کہ "قتل" کو "کتل" اور "موقع" کو "موکع" لکھا ہے۔ یہ ایک طرف کہانی کا حسن بھی ہے اور دوسری طرف خامی بھی ہے۔ حسن اس اعتبار سے کہ ناول نگار نے حقیقت کا اس حد تک بیان کرنے کا اہتمام کیا ہے کہ الفاظ کے حقیقی رسم کو بھی پیچھے چھوڑ دیا اور خامی اس پہلو سے کہ زبانیں اسی طرح بگڑتی ہیں۔ اگر کوئی دو چار الفاظ کا معاملہ ہوتا تو ہم یہ بات بیان نہ کرتے لیکن ناول کے ہر صفحہ پر آپ کو دس بارہ الفاظ ایسے مل جائیں گے کہ جو اپنے اصل رسم میں نہیں لکھے گئے ہیں بلکہ دیہاتی لب ولہجے کے اعتبار سے انہیں نیا رسم دیا گیا ہے۔ اور تنقید کا مطلب بھی یہی ہوتا ہے کہ آپ کسی شاہ پارے کی خوبی اور خامی دونوں نقل کر دیں۔" {'ناول جانگلوس از شوکت صدیقی – ایک تنقیدی مطالعہ' ۔۔۔ ڈاکٹر حافظ محمد زبیر ۔ تعمیر نیوز 16، اکتوبر 2016}۔جانگلوس‘‘ ہمارے پاکستان معاشرتی اور سیاسی تناو اور نا انصافیوں کی کہانی ہے۔ چھوٹے چور اوربڑے چور کی کہانی جو پاکستان بننے سے پہلے کی ہے اور آج تک جاری ہے۔شوکت صدیقی نے اس ناول میں جاگیردارانہ نظام کے نقائص بڑی ہنرمندی سے عیاں کیے ہیں۔ جاگیردار غریب کسانوں ، مزارعوں کا استحصال کرتے ہیں۔ شوکت صدیقی نے اس طبقہ کی ہوس کے اور روپ بھی دکھائے ہیں۔ مثلاً یہ طبقہ جائیداد حاصل کرنے کے لئے اپنے بھائیوں پر ظلم و ستم کی انتہا کر دیتا ہے اور اسمبلیوں میں سیٹ حاصل کرنے کے لیے اپنی غیرت و ناموس بھی دائو پر لگا دیتا ہے۔ محمد حیات وٹو ایک ایسا ہی کردار ہے۔ یہ ایک بڑا زمین دار ہے۔ اپنے بڑے بھائی سے زمینیں حاصل کرنے کے لیے اسے اپنے گھر کے تہہ خانے میں بند کر رکھا تھا۔ وہ اسے زہر پاگل خانے والے ٹیکے لگواتا ہے۔ اسے زنجیروں سے باندھے رکھتا ہے۔ لالی کو پتہ چل جاتا ہے کہ حیات وٹو جائیداد کے کاغذات پر دستخط کروانے کے لیے اپنے بھائی پر ظلم کر رہا ہے۔ وہ اسے قتل کرنے کا کہتا ہے مگر لالی اُسے قتل کرنے کے بجائے بچا لیتا ہے۔ محمد حیات اُسے دھمکی دیتا ہے کہ:
’’اس تہہ خانے میں پچھلے چند مہینوں میں تین لاشیں دبائی جا چکی ہیں۔ یہ بات شاید اس نے بھی تجھے بتائی ہو گی۔ میں چاہتا ہوں چوتھی لاش تیری نہ ہو…… اس نے قریب بیٹھے ہوئے اپنے ایشن کی طرف اشارہ کیا۔ اسے جب دوسرا انجکشن لگایا جاتاہے تو …… یہ تیندوا بن جاتا ہے، خونخوار ہو کر جس پر جھپٹتا ہے، اسے چیر پھاڑ کر ہمیشہ کے لئے ختم کر دیتا ہے
اس میں ایسی ایسی تلخ حقیقتیں پوشیدہ ہیں کہ جنھیں پڑھ کر ایک دردمند انسان بے ساختہ رو پڑتا ہے۔ ذرا سوچیے کہ جنھوں نے اسے تنکا تنکا کرکے اکٹھا کرکے لکھا وہ خود کتنے حساس ہوں گے۔ شوکت صدیقی جانگلوس ناول لکھنے سے متعلق خود کہتے ہیں:
"جانگلوس کے ابتدائی مراحل میں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ اسے لکھنے کیلئے صرف مشاہدہ اور تجربہ کافی نہیں بلکہ مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے پنجابی کے ساتھ ساتھ سرائیکی بھی سیکھنا پڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میرا لکھنے پڑھنے کا کمرہ اسٹڈی سے ورکشاپ بن گیا۔ پنجاب اور پنجابی عوام کے بارے میں مجھے جو کچھ مل سکتا تھا، میں نے حاصل کیا۔ کمرے کے درویوار پر جگہ جگہ پنجاب کے نقشے لگے تھے۔ میری میز پر اور ارد گرد ایسی کتابیں نظر آنے لگیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح پنجاب سے تھا ان میں اردو پنجابی لغت، پنجابی نامہ، پنجاب کی عورت، لغات سرائیکی، پنجاب رنگ، نغمہ صحرا ، کلامِ فرید، گروگرنتھ اور اُردو پنجاب کے دیہہ خدا، تاریخی پنجاب، پاور ان پنجاب ولیج، ڈسٹرکٹ اینڈ اسٹیٹس گزیٹریز، ہسٹری آف دی پنجاب ، اے بک آف ریڈنگز، ان دی ہسٹری آف دی پنجاب کاسٹس اور بے شمار کتابیں اور پمفلٹس شامل ہیں" ۔۔
منیر الدیں احمد کے ساتھ ایک طویل مصاحبے میں شوکت صدیقی نےا پنے اس ناول پر کھل کا اظہار کیا تھا۔ جس سے اس ناول کی تفھیم ، مزاج، پس منظر اور لکھنے کی وجہ واضح ھوجاتی ھے۔ یہاں اس انٹرویو کا ایک اقتباس پیش کیا جارہا ھے۔ یہ مصاحبہ لاہور کے ادبی جریدے " ادب لطیف" { مدیرہ: صدیقہ بیگم} میں مئی جون ۱۹۸۸ میں شامل اشاعت ھے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔