شوکت حیات یکم دسمبر 1950 کوپٹنہ بہار ، بھارت میں پیدا ہوئے ۔ ان کا انتقال 21 اپریل 2021 بروز بدھ ہوا۔ انہوں نے 1970 میں پٹنہ یونیورسٹی سائنس کالج سے سائنس میں گریجویشن کی اور بعدازاں مگد یونیورسٹی سے اردو میں طلائی تمغے کے ساتھ ایم اے کی سند حاصل کی۔ وہ یو جی سی (نیٹ کوالیفائیڈ) تھے ۔ ایک جدید اور مابعد جدید ہندوستانی مصنف ہیں وہ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی لکھتےتھے۔ ان کی پہلی کہانی " بکسوں سے دبا آدمی" ماہنامہ " کتاب لکھنو میں شائع ہوئی تھی۔ ۔ان کی کہانیوں میں اکثر قیاس آرائی ، سپاٹ بیانیہ اور کبھی کبھی ترقی پسند تحریک کی بنیادی اقدار شامل ہوتی ہیں اور بعض اوقات کہانی سنانے سے انحراف ہوتا ہے۔ وہ اپنی کہانی "گمبد کےکبوتر" کے لئے مشہور ہیں۔
حیات کی "گمبد کے کبوتر" کو اردو کے تجربہ کار نقادوں نے سراہا ، جن میں مہدی جعفر اور وارث علوی بھی شامل ہیں ، جنھوں نے ادب اور زبان سے متعلق ان کی مہارت کی تعریف کی۔ حیات کی کہانیاں سماجی ، سیاسی اور معاشی حقائق سے متعلق ہیں۔ اس کی کچھ کہانیوں میں جو تکلیف ، تنہائی اور مایوسی پائی جاتی ہے وہ زندگی میں ان کے تجربات کی عکاسی ہے۔ جوگندر پال نے اپنی کتاب نیو اردو افسانے میں حیات کا نام "اردو افسانے کے نئے رجحان کے جدت پسند کو انعم کہانی کے نام سے موسوم کیا ہے ، یعنی 'دی نیم لیس اسٹوری' کے نام سے منسوب کیا ہے۔ 2008 میں جودھری چرن سنگھ یونورسٹی کی جانب سے شیلڈ آف آنر سے نوازہ گیا۔ 2014 تک حیات "پرگامیٹک رائٹرز گلڈ ، پٹنہ" کی صدر ہیں اور ان کی کہانیاں ہندوستان اور بیرون ملک مختلف یونیورسٹیوں میں پوسٹ گریجویٹ کورسز میں پڑھائی جاتی ہیں۔
ستّر کی دہائی میں جن افسانہ نگاروں نے اپنی شناخت قائم کی اور افسانے میں بیش بہا اضافے کیے اُن میں شوکت حیات کا نام نمایاں ہے۔ستر کی دہائی میں ابھرنے والے ممتاز افسانہ نگاروں میں شامل ہیں ۔ تلخ معاشرتی حقیقتوں کی کہانیاں لکھنے کے لیے مشہورتھے ۔آپ نے کئی لا زوال افسانے تخلیق کیے جن میں بکسوں سے دبا آدمی،گھونسلا،گنبد کے کبوتر،سرخ اپارٹمنٹ،رانی باغ،پاؤں،ڈھلان پر رُکے ہوے قدم،چیخیں وغیرہ کے نام خصوصی طور پر لیے جا سکتے ہیں۔افسانوں کے علاوہ آپ نے ہم عصر افسانہ نگاروں کے حوالے سے کئی اچھے مضامین بھی تحریر کیے۔مثلاً سَن ستری اور نامیاتی افسانے:انحراف و تسلسل ، نامیاتیت اور نامیاتی افسانے ، امکانیت پسندی وغیرہ اسی ضمن کے مضامین ہیں۔ان مضامین میں انہوں نے ہم عصر افسانہ نگاروں کے حوالے سے اس بات پر اصرار کیا کہ ’’میں اور میرے ہم عصر افسانہ نگار انا میت پسند ہیں اور وہی افسانہ عصری و آفاقی ہے جو عصریت و آفاقیت کے امتزاج ،انجذاب اور وفاق سے سرشار ہو کر افسانے کی توانائی میں افسانے کا سبب بنتے ہیں‘‘۔ شوکت حیات اردو افسانے اور اس کے متعلقہ رجحانات اور نظریاتی فریم ورک سے آگاہ ہی نہیں تھے بلکہ وہ بڑی دیانت اور دلیری کے ساتھ اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا " ترقی پسند افسانہ اپنی شدتوں میں سماجی بھلائی اور انقلاب کے نام پر اس قدر انتہا پسندی کا شکار ہوا کہ اس نے فرد، اس کی انفرادیت، داخلیت، درون بینی، ذات کے مسائل کو افسانے کے دائرہ عمل سے خارج کردیا اور نام نہاد سماجی اصلاح اور انقلاب پر اس قدر زور دیا کہ افسانہ خطابت، پروپیگنڈہ اور اشتہارات کا ملغوبہ ہوکر رہ گیا۔"{ مابعد جدید افسانہ ، بشمول " اردو مابعد جدیدت پر مکالمہ صفحہ۔ 313}،
شوکت حیات کی پیر موہانی قبرستان میں پیوند زمین ہوئے۔
* شوکت حیات کی تصانیف*
اپنا گوشت – شوکت حیات
بلی کا بچہ – شوکت حیات
بھائی – شوکت حیات
چیخیں – شوکت حیات
سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ – شوکت حیات
سرخ اپارٹمنٹ – شوکت حیات
شکنجہ – شوکت حیات
کوبڑ – شوکت حیات
گنبد کے کبوتر – شوکت حیات
گھونسلا – شوکت حیات
مسٹر گلیڈ – شوکت حیات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
:: پس نوشت:: ::: 29، 30 ، مارچ 2003کو دو روزہ سمینار۔۔۔ " فکشن، زندگی اور جمالیات" ۔۔۔ ممبئی میں منعقد ھوا تھا۔ اس یادگار سیمنار کے پہلے دن دوستوں کے ساتھ ایک یادگار تصویر۔۔۔۔۔ تصویر میں موجود چند دوست اب دینا میں نہیں رھے۔
دائین جانب سے، کرسیوں پر ۔۔۔ شوکت حیات مرحوم ، سلام بن رزاق، حفیظ آتش مرحوم،مشرف عالم ذوقی مرحوم ، ساجد رشید مرحوم، فرہاد خورشید اکرم ۔۔۔
پیچھے دائیں جانب سے کھڑے ھوئے ۔۔ اشتیاق سعید، الیاس شوقی، علی امام نقوی مرحوم،احمد سھیل اور ارتضی کریم ۔۔۔۔۔