حاجی صاحب کو میں اُس وقت سے جانتا ہوں جب وہ ایک ہندو سے کالا علم سیکھ رہے تھے۔ یہ وہی حاجی صاحب ہیں جو ہر بات میں ’ہاں جی ہاں جی‘ کہا کرتے تھے یوں ان کا نام ’ہاں جی‘ سے حاجی پڑ گیا۔ آج سے پچیس پہلے کی بات ہے‘ حاجی صاحب اور میں لاہور سے 16 کلومیٹر دور شیخوپورہ روڈ پر ایک ادارے میں کام کرتے تھے۔حاجی صاحب عمر میں مجھ سے 10 سال بڑے تھے اور خاندانی روایات کے مطابق جوان ہوتے ہی ان کی شادی ہوگئی ۔حاجی صاحب کو کالا علم سیکھنے کا جنون تھا اور اس مقصد کے لیے وہ ایک نواحی گاؤں میں مقیم ہندوعامل کے مرید تھے جو کالے علم کا ماہر مانا جاتا تھا۔ حاجی صاحب کالا علم اس لیے نہیں سیکھ رہے تھے کہ دنیا پر چھا جائیں بلکہ ان کی چھوٹی سی خواہش تھی کہ ان کے ہاں بیٹا پیدا ہو۔ وہ اس کی ایک وجہ بتایا کرتے تھے کہ ان کے خاندان میں لڑکیاں بہت زیادہ ہیں اورانہیں خطرہ ہے کہ کہیں یہ روایت آگے نہ بڑھتی جائے۔میں کئی دفعہ ان سے پوچھتا تھا کہ اس مقصد کے لیے کالے علم کا سہارا لینے کی کیا ضرورت ہے ؟ وہ بتاتے تھے کہ دیگر تمام طریقے ان کے بزرگ آزما چکے ہیں ‘ کوئی فرق نہیں پڑا۔۔وہ راتوں کو دائرہ لگا کر چلّہ کاٹتے‘ عجیب و غریب منتر پڑھتے اور روز مجھے یہ خوفناک خبر سنا کر سوتے کہ عنقریب وہ ایک بیٹے کے باپ بننے والے ہیں۔حاجی صاحب کی آدھی سے زیادہ تنخواہ انہی چکروں میں خرچ ہوجاتی تھی۔کبھی وہ اُلو کا خون لینے نکل جاتے ‘ کبھی قبرستان میں کسی پرانے مردے کی قبر ڈھونڈتے اور کبھی ایک پاؤں پر کھڑے ہوکر منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑاتے رہتے۔نو ماہ بعدیہ خبر ان پر بجلی بن کر گری کہ وہ ایک بیٹی کے باپ بن گئے ہیں۔ انہوں نے پہلی فرصت میں نوکری اور ہندو عامل کی شاگردی سے استعفیٰ دے دیا اور شورکوٹ ہجرت کرگئے۔
شورکوٹ جانے کے بعد چار سال تک حاجی صاحب کا مجھ سے کوئی رابطہ نہیں ہوا‘ ایک دن اچانک میرے پاس تشریف لائے تو پتا چلا کہ اب وہ دو بیٹیوں کے باپ بن چکے ہیں اوراہلیہ پھر اُمید سے ہیں۔ اُمید سے تو حاجی صاحب بھی تھے کہ اِس بار بیٹا ہی ہوگا۔انہوں نے بتایا کہ آج کل وہ ایک عیسائی عامل کے مرید ہیں جس نے انہیں کچھ ایسا پڑھنے کے لیے دیا ہے جس کے بعد سو فیصد بیٹا ہی پیدا ہوتاہے۔حاجی صاحب کو بیٹے کی بڑی خواہش تھی اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار تھے۔دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد ان کی یہ خواہش مزید زور پکڑ گئی تھی۔اللہ اللہ کرکے وقت قریب آیا اور قسمت نے حاجی صاحب کو ایک اور بیٹی تھما دی۔ہیٹرک مکمل ہوچکی تھی لیکن حاجی صاحب جنونی ہوگئے۔انہوں نے عیسائی عامل کو چھوڑا اور ایک حکیم صاحب کی مریدی اختیار کرلی۔ حکیم صاحب نے انہیں کچھ ایسے کشتے عطا کیے اور اولادِ نرینہ کی خوشخبری سنائی۔ اس دوران ایک دو دفعہ میری حاجی صاحب سے ملاقات ہوئی‘ اس کے بعد وہ نظر نہیں آئے!
گذشتہ دنوں فیس بک پر ایک وڈیو دیکھی جس میں ایک باریش صاحب بتا رہے تھے کہ بیٹی خدا کی رحمت ہوتی ہے اور جس گھر میں بیٹی نہیں وہ گھرایک ویرانے کی طرح ہے‘ بیٹی ہی گھر کو گھر بناتی ہے۔ میں نے بولنے والے صاحب کو دیکھا تو چونک گیا۔ یہ حاجی صاحب تھے، تاہم اب ان کا حلیہ کافی بدل چکا تھا۔ میں نے دو ہفتوں کی جدوجہد کے بعد ان کا اکاؤنٹ ڈھونڈا اور انہیں میسج کیا۔ ان کا فوراً ہی جواب آیا‘ وہ لاہور ہی میں رہائش پذیر تھے۔ ہم دونوں نے موبائل نمبر ایکسچینج کیے اور یوں ایک طویل عرصے بعد پھر اکٹھے ہوگئے۔حاجی صاحب نے بتایا کہ وہ ماشاء اللہ باقاعدہ تین دفعہ حج کرچکے ہیں اورہر قسم کے جادو ٹونے سے توبہ تائب ہوکر ایک پاک صاف زندگی گذار رہے ہیں اور ہر جمعرات کو گھر میں درس کابھی اہتمام کرتے ہیں۔گفتگو کے دوران پتا چلا کہ حاجی صاحب اللہ کے فضل سے سات بیٹیوں کے باپ بن چکے ہیں۔تاہم پہلے کی نسبت آج کے حاجی صاحب بیٹے کی نسبت بیٹی کے زیادہ قائل نظر آئے۔ انہوں نے مختلف واقعات کے ذریعے مجھے ثابت کیا کہ بیٹا انتہائی کمینہ اور بدبخت ہوتاہے جبکہ بیٹی سے اچھا خدا کا انعام کوئی نہیں۔حاجی صاحب کے محلے میں جب کسی کے ہاں بیٹی پیدا ہوتی ہے تو خصوصاً اسے مبارک باد دینے جاتے ہیں‘ مٹھائی پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں۔۔۔تاہم اگر بیٹا پیدا ہونے کی خبر ملے تو ان کے اندر نفرت بھر جاتی ہے اور پھر متعلقہ شخص کو متنبہ کرتے ہیں کہ خبردار بیٹے کی پیدائش پر خوشی مت منانا‘ بیٹے انتہائی منافق ہوتے ہیں‘ بیٹے ماں باپ کو چھوڑ جاتے ہیں‘ بیٹے ذلت و رسوائی کا باعث بنتے ہیں‘ بیٹے عذاب ہوتے ہیں۔۔۔وغیرہ وغیرہ!
حاجی صاحب نے سات بیٹیاں‘ ایک بیٹے کی خواہش میں پیدا کی ہیں تاہم اب انہیں بیٹے اچھے نہیں لگتے۔وہ رحمت کو تسلیم کرتے ہیں لیکن نعمت کااعتراف کرنے کی ہمت نہیں رکھتے۔ایسے لوگ آپ نے بھی دیکھے ہوں گے جنہوں نے یہ وتیرہ بنا لیا ہے کہ لڑکے کو گالی سے تعبیر کرنے لگے ہیں۔بیٹیاں واقعی خدا کی رحمت ہوتی ہیں‘ محبت کی پریاں ہوتی ہیں‘ باپ کا مان ہوتی ہیں لیکن کیا بیٹے کچھ نہیں ہوتے؟ کیا یہ ضروری ہے کہ جس کی صرف بیٹیاں ہوں وہ بیٹوں والے کے سامنے خوفناک مستقبل کا نقشہ کھینچتا پھرے۔آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا کہ کسی بیٹے والے نے بیٹیوں والے کا تذکرہ تحقیر آمیز انداز میں کیا ہو، لیکن پتا نہیں کیوں بیٹی والے اسے کیوں اپنا حق سمجھتے ہیں؟یہی وجہ ہے کہ کسی کی بیٹی کی برائی کرنا معیوب اور بیٹے کی برائی کرنا معمول سمجھا جاتاہے۔ کبھی کبھی تو یوں لگتاہے ایسے لوگ اپنا غصہ اتارتے ہیں۔بیٹی کی پیدائش پر جتنے مبارک کے کلمات کہے جاتے ہیں انہیں سن کر پتا نہیں کیوں لگتاہے کہ مبارکباد دینے والے اصل میں باپ کو حوصلہ دے رہے ہیں۔
آپ نے اکثر بیٹی والوں کا یہ جملہ سنا ہوگاکہ ’اِس کی اگر کوئی بیٹی ہوتی تو اِسے احساس ہوتا‘۔کیا یہ جملہ بیٹے والے بھی کہہ سکتے ہیں؟ اور اگر کہہ دیں تو کوئی ہے جو اُن کی حمایت میں بھی کھڑا ہوجائے؟نہیں، ہرگز نہیں۔۔۔معاشرے نے خود سے ہی طے کرلیا ہے کہ بیٹی ہمیشہ اچھی اور بیٹا برا ہوتاہے۔یہ درست نہیں۔اخبار اٹھا کر پڑھ لیجئے‘ کہیں بیٹی بُری نکلتی ہے کہیں بیٹا‘ کہیں بیٹی بہت اچھی ثابت ہوتی ہے اور کہیں بیٹا۔بیٹے اگر نعمت ہیں تو کوئی کون ہوتاہے اس نعمت کی بدتعریفی کرنے والا؟ بیٹے باپ کے بازو ہوتے ہیں‘ گھر کی شان ہوتے ہیں‘ یہ بیٹے ہی ہیں جو معذور ماں کو اپنے مضبوط بازؤوں میں اُٹھالیتے ہیں۔۔۔ یہ بیٹے ہی ہیں جو ساتھ چل رہے ہوں تو بہنوں کو تحفظ کا احساس رہتاہے۔۔۔یہ بیٹے ہی ہیں جو طوفانی رات میں بھی ماں کی دوائی لے آتے ہیں۔۔۔یہ بیٹے ہی ہیں جو پیری کا سہارا بنتے ہیں۔۔۔ یہ بیٹے ہی ہیں جن کی موجودگی میں چور ڈاکو بھی کسی گھر میں داخل ہونے سے پہلے سو دفعہ سوچتے ہیں۔۔۔یہ بیٹے ہی ہیں جو اپنے آنسو ضبط کرکے باپ کے جنازے کو کندھا دیتے ہیں۔۔۔قبر میں اتارتے ہیں۔۔۔یہ بیٹے ہی ہیں دوسرا باپ ہوتے ہیں۔۔۔یہ بیٹے ہی ہیں جو آنکھوں کے سامنے ہوں تو اپنا آپ بلاوجہ طاقتور لگنے لگتاہے۔۔۔بالکل صحیح کہا تھا۔۔۔بیٹے چاہے اندھے ہوں‘ لنگڑے ہوں‘ گونگے ہوں‘ کالے ہوں یا گورے۔۔۔ہوتے مٹھے ہیں۔۔۔شرطیہ مٹھے۔۔۔!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“