شرمندگی اور ندامت کا احساس
—————————————————————————–
پہلا واقعہ میرے بچپن کا ہے جب میں نویں جماعت کا طالبعلم تھا۔ میں ایک سڑک سے گزر رہاتھا۔ ایک شخص سر پر سفید چادر سے پگڑی بنائے دھوپ سے بچتے ہوئے اپنے چھوٹے سے بچے کو سائیکل پر بٹھائے باتیں کرتے ہوئے جارہاتھا۔ بچہ اپنے باپ کی باتوں سے مسکراتا ہنستا خوش تھا۔ اس کے چہرے پر ایک معصومانہ مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ اتنے میں ایک کار اس چھوٹی سی سڑک پر آئی اور اس نے دور سے ہارن بجایا۔ باپ جو اپنے بیٹے سے گفتگو میں مگن تھا اسے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
وہ کبھی سائیکل کو ایک طرف اور کبھی دوسری طرف موڑنے لگا۔ لیکن اتنے میں کار نزدیک پہنچ چکی تھی۔ کار سوار نوجوان نے بریک لگائی لیکن اب فاصلہ بہت کم رہ چکاتھا۔ کار ہلکے سے سائیکل کو ٹکرا کر رک گئی اور بمپر پر ہلکی سی خراش آگئی۔
کارسوار نوجوان غصے سے باہر اترا۔ اس شخص کو زمین سے اٹھایا۔ گالیاں دیتے ہوئے دو تین گھونسے منہ پر رسید کئے اور سخت سست کہتے ہوئے کار میں سوار ہوکر چلاگیا۔باپ کے منہ سے خون نکل رہاتھا اور ننھا سا بچہ باپ کی چادر سے وہ خون صاف کررہاتھا اور آنسو اسکی میلی گالوں سے بہہ رہے تھے۔
میں وہاں خاموش کھڑا رہا۔ آج بھی اس واقعے کو یاد کرتا ہوں تو ایک ندامت، ایک شرمندگی کا احساس ہوتاہے اپنی خاموشی پر، اپنی بےحسی پر۔ میں چھوٹا تھا لیکن غصے کا اظہار تو کرسکتاتھا۔ میں کم عمر تھا پر اس شخص کے ساتھ دو گھونسے کھاسکتاتھا۔ اور زندگی بھر کی شرمندگی سے بچ تو سکتاتھا۔
دوسرا واقعہ اس وقت کا ہے جب میں کالج کا طالبعلم تھا۔ میں سندھ کے ضلع بدین میں واقع ایک شوگر مل میں اپنے علاقے کے ایک بڑے زمیندار کی حیثیت سے حساب کتاب کی درستگی اور کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کے سلسلے میں گیا۔ اس مل میں ہمارے کھیتوں سے گنا سپلائی ہوتا تھا۔
میں وہاں مینجر کے آفس میں بیٹھا ہواتھا کہ اچانک شور مچ گیا۔ دو تین آدمی بھاگ کر اندر آئے اور منیجر سے کہا کہ ایک مشین میں کچھ لوگ پھنس گئے ہیں۔ منیجر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر عجلت میں باہر نکلا۔ میں بھی آفس سے باہر آیا۔ ایک طرف بہت سارے مزدور جمع تھے۔ چیخ وپکار ہورہی تھی۔ مشینیوں کے بند ہونے کے سائرن بج رہے تھے۔ تھوڑی دیر میں پورے مل کی مشینری رک گئی۔ لیکن کچھ ہی دیر بعد اچانک دوبارہ مشینیں چلنے لگیں۔
منیجر صاحب ایک طرف سے نمودار ہوئے۔ غصے سے پاگل ہورہے تھے۔ آتے ہی کہا کہ " 1 آدمی کیا مشین میں پھنس گیا یہ لوگ ایسے دوڑتے ہوئے آئے جیسے کہ پورا مل ہی تباہ ہونے والا ہو"۔ میں نے کہا " تو کیا ہوا اس ایک آدمی کا، مشینیں تو پھر سے چلنے لگیں ہیں"۔
منیجر نے کہا "ہاں سائیں آپ فکر نہ کریں میں نے کام جاری رکھنے کا حکم دے دیا ہے۔ اس کو بھی نکال لیں گے۔ مرگیا ہو تو معاوضہ دے دیں گے۔ ہمارے پاس ہزاروں ٹن سٹاک کا آرڈر ہے۔ وہ پورا کرنے کےلئے ہمیں ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہئے"۔
سورج ڈھل رہاتھا۔ میرے کامدار نے بار بار مجھے یاد دلایا کہ سائیں دیر ہورہی ہے۔ میں وہاں سے چلا آیا۔ کچھ بھی منہ سے نہ کہا لیکن آج بھی جب میں بدین جاتاہوں۔ اس مل کے نزدیک سے گزرتا ہوں۔ اس مل کے اندر مشینوں کے چلنے کا شور سنتا ہوں، مجھے اپنی بے حسی اور اس وقت کی خاموشی پر شرم آتی ہے۔ ذلت محسوس ہوتی ہے۔ خاموشی کا ایک جرم ہے جو مجھے احساس دلاتاہے کہ تم نے اس وقت خاموش رہ کر اور اختجاج نہ کرکے اپنے انسان نہ ہونے کا ثبوت دیا۔ تم نے ایک بےحس ظالم کو حوصلہ دیا۔
لیکن آج تیسرے واقعے کی ذلت اور کرب میں اپنے ساتھ نہیں لےجانا چاہتا۔ مجھے وہ فقرے یاد آرہے ہیں جب ہمارے ایک گذشتہ چیف_جاسوس صاحب ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ دعوی کررہے تھے کہ ہم نے خیبرپختونخوا، فاٹا اور بلوچستان میں حکومت کی رٹ قائم کرنے کےلئے عام آدمی کے جان کا، اس کے املاک کا کم سے کم نقصان ہونے دیا۔ اگر کوئی متاثر ہوا بھی ہے تو ہم نے اس کا پورا پورا معاوضہ دیا ہے۔ امن قائم کرکے ہم نے زندگی کی ہر کروٹ بحال کردی ۔ تھوڑا سا مسکراتے ہوئے آخر میں کہا کہ کچھ پانے کےلئے کچھ تھوڑا سا کھونا پڑے تو اسے نقصان نہیں کہنا چاہئے۔ اسے کولیٹرل_ڈمیج(اجتماعی نقصان) کہا جاتا ہے۔ اس اجتماعی نقصان میں APS واقعے کے شھید بچے بھی شامل ہیں اور ڈمہ_ڈولہ مدرسے کے بچے بھی۔ باچاخان_یونیورسٹی کے اساتذہ و طلبا کا شمار بھی اسی نقصان کا حصہ ہیں اور زرعی_مرکز_پشاور کے طلباء بھی۔ کہ یہی تو کامیابی ہے۔
ایک صحافی کے سوال کے جواب میں فرمایا۔ "دیکھیں کراچی ہو یا وزیرستان۔ سوات ہو یا بلوچستان ہم نے سرکاری عمارات، تنصیبات، بینکوں، شاہراہوں، پلوں کارخانوں کو کہیں بھی نقصان نہ پہنچنے دیا۔ ہم جان پر کھیل گئے لیکن سرکار کی رٹ بحال کردی۔ کوئی اکا دکا اموات اگر ہوئیں بھی تو یہ اتنی بڑی بات نہیں۔ ایسا تو ہوتا رہتا ہے اس کو قومی مفاد کے تناظر میں سہنا پڑتاہے"۔
لیکن مجھے تو رہ رہ کے یہ خیال آتا ہے کہ محترم جاسوس صاحب، ہوسکتا ہے کبھی آپ پر ایسا وقت نہ آیا ہو کہ آپ کی اولاد کسی حادثے کا شکار ہوئی ہو، نئی قیمتی گاڑی تباہ ہوگئی ہو اور اولاد بچ گئی ہو، تو آپ صرف ایک ہی فقرہ بولتے"( گاڑی کا کیا ہے۔ وہ تو پھر آجائے گی۔ چلو جان بچگئی" )
شاید آپ اپنی اولاد کے زخم دیکھنے کی بجائے گاڑی کے ڈینٹ گننے لگتے۔ لیکن ایسا آپ نہیں کرسکتےتھے۔ ایسا تو صرف دوسروں کی اولادوں کے لاشوں کے سرہانے کھڑا ہوکرکیا جاسکتاہے۔ ایسے فقرے تو اسی وقت بولے جاتے ہیں جب جنازے دوسروں کے گھروں سے اٹھتے ہیں۔
میں تو ایسے ایک انسان کا تصور بھی نہیں کرسکتا جس کی گاڑی سے کسی انسان کی ٹکر ہوجائے وہ زخمی ہوجائے اور وہ اپنی گاڑی کے سلامت رہ جانے پر خوش ہو۔ شکر ادا کررہا ہو۔
پتہ نہیں اس ملک کے عمارتوں، بینکوں، پٹرول پمپوں، تنصیبات کو بچانے اور اس ملک کے باسیوں کو لاشوں اور زندہ لاپتہ افراد کے تخفے دینے پر آپ کے سینے پر کونسا تمغہ سجتا ہے۔ بسالت کا، شجاعت کا یا پھر آپ کی کامیابی پر کوئی نیا تمغہ ایجاد ہوتاہے۔
میں سوچ رہاہوں آپ انٹرویو میں ایسے فقرے بول کر کیسے چین سے اپنے گھر چلے گئے۔ میں تو آج بھی کہیں کسی محفل میں بیٹھے ہوئے، کلاس میں لیکچر دیتے ہوئے، نماز پڑھتے ہوئے، کہیں آفیشل میٹنگ اٹینڈ کرتے ہوئے، کہیں خوشی کے موقعے پر ہنستے ہوئی اپنے ساتھ پیش آنے والے مندرجہ بالا دو واقعات یاد آجاتی ہیں، وہ مناظر میری ذہن کے پردے پر فلم کی ٹیپ کی طرح چلنے لگتی ہیں، وہ آوازیں میری کانوں میں گونجتی ہیں، تو میں بےچین ہوجاتاہوں۔ مضطرب ہوکر ٹہلنے لگتا ہوں۔مجھے تو نیند ہی نہیں آتی۔
شاید میری بات آپ تک کوئی پہنچا دے کہ میرا دکھ کم ہوجائے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔