اردو زبان میں حمدیہ اظہار کے وسیع منظر نامے میں چند حمدگو شعرا کی حمدیہ شاعری اتنی گہرائی اور توجہ سے لکھی گئی ہیں کہ بے اختیار شاعر کو داد دینے کو جی کرتا ہے۔ جن میں سے ایک شارق رشید کی “حمد” بھی ہے۔ یہ شاعرانہ شاہکار توحید کے موضوع پر اردو ادب میں موجود شاعری میں سے ایک ہے، یہ حمد الہٰی قدرت اور الله کے ‘کن فیکون’ پر غور و فکر کرنے کی ایک جھلک پیش کرتا ہے۔
اس شاعرانہ اظہار میں شارق رشید کی “حمد” قارئین کو کائنات کی وسعت سے لے کر وجود کے لمحے تک خالق کائنات کی عظمت کو دیکھنے کی دعوت دیتی ہے۔ فکر انگیز منظر کشی اور حمد کے بہترین اشعار کے ذریعے شارق رشید نے خدا کی ہمہ گیریت کی تصویر کشی کی ہے، جس کا جوہر کائنات کے ہر کونے تک پھیلا ہوا ہے۔
کفر اور ایمان کے درمیان فرق کو فصاحت کے ساتھ حمد میں جابجا بیان کیا گیا ہے، جو مومن کے نقطہ نظر میں پائے جانے والے اندرونی ایمانی حسن کو اجاگر کرتا ہے۔ شارق رشید فصاحت کے ساتھ بیان کرتا ہے کہ کس طرح خدا کے نام کا محض ذکر گمنامی کو شہرت میں اور بے وقعتی کو اہمیت میں بدل سکتا ہے۔
مزید برآں “حمد” مصیبت کے وقت استقامت کا ثبوت دیتی ہے۔ شارق رشید کی خدا کی بے پناہ رحمت اور احسان کی تصویر کشی ہنگامہ خیزی کے وقت تسکین فراہم کرتی ہے، ویرانی کو مواقع میں اور قلت کو فراوانی میں بدل دیتی ہے۔
شارق رشید کی حمدیہ شاعری کی تال میل زندگی کے چیلنجوں کے بہاؤ اور اتار چڑھاؤ کی آئینہ دار ہے، جو بالآخر خدائی فضل اور شکر خداوندی کے جشن پر منتج ہوتی ہے۔ بہترین استعاروں اور تشبیہاتی شکلوں کے ذریعے شارق رشید نے وجود کی چکراتی نوعیت پر زور دیتے ہوئے تمام تخلیقات کے باہمی ربط کو واضح کیا ہے۔
’’حمد‘‘ محض ایک ادبی ترکیب نہیں ہے۔ یہ ایک روحانی شاعری بھی ہے جو قارئین کو خود کی دریافت اور روشن خیالی کے سفر پر جانے کی دعوت دیتی ہے۔ شارق رشید کی گہری بصیرت اور فلسفیانہ افکار و خیالات، زبان اور ثقافت کی سرحدوں کو عبور کر کے پوری دنیا میں سچائی کے متلاشیوں کے دلوں میں گونجتی رہتی ہیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شارق رشید کی “حمد” ایمان اور عقیدت کی بے مثال طاقت کے لازوال ثبوت کے طور پر ہمارے سامنے ہے۔ اپنی شاندار اشعار اور گہرے موضوعات کے ذریعے یہ شاعری روحوں کی حوصلہ افزائی اور رہنمائی کرتی ہے، جو بدلتی ہوئی دنیا میں سکون اور رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ اہل ذوق قارئین کے مطالعے کے لیے شارق رشید کی حمد شریف پیش خدمت ہے۔
*
حمد
*
جلوے خدا کے دیکھو مکاں تا بہ لامکاں
ہوکر نہاں وہ ذات عیاں ہے کہاں کہاں
منکر کے واسطے تو نہیں ہے کہیں بھی وہ
مومن کے واسطے ہے ہر اِک شے میں ضوفشاں
بے نام ہوں جو اُن کا زمانے میں کردے نام
وہ نام ور کو کردے زمانے میں بے نشاں
وہ زلزلوں سے چاہے تو برباد شہر ہوں
چاہے تو وہ بسادے نئی تازہ بستیاں
چاہے جہاں وہ قحط وہاں آب روک لے
جب چاہے وہ بہا دے کوئی بحرِ بے کراں
توفیق کے بنا کوئی سجدہ محال ہے
توفیق دے تو سجدے کریں ہم کشاں کشاں
اُس کے کرم سے تتلیاں پھولوں پہ مست ہیں
اُس کے کرم سے بلبلیں گلشن میں نغمہ خواں
اُس کی عطا سے شاخِ شجر پر ثمر ہزار
اُس کی عطا سے پھوٹیں اناجوں کی بالیاں
پانی سے بھاپ بھاپ سے بادل بنادے وہ
بنجر زمیں میں ابرِ کرم سے وہ ڈالے جاں
پھیلادے وہ پہاڑوں پہ اِک شال برف کی
چمکا دے شمس آب کرے برف سے رواں
انڈے سے بچّہ بیج سے کونپل نکال دے
اُس کے سوا ہے کون بھلا ایسا مہرباں
شارق ہو جس طرف بھی نظر شاہکار ہیں
ترتیب جن کی شانِ مصوّر کی ترجماں