شریفوں کی کہانی (ختم)
وہ میرا تیس سالہ پرانا نوکر تھا۔ گھر کے سارے کاموں کی ذمہ داری اس کی تھی۔ کچن کا سامان خریدنا ہو، سودا سلف لانا ہو، کوئی نیا فرنیچر خریدنا ہو، میں سارے کاموں کے لیے اس پر بھروسہ کیا کرتا تھا۔ اس کی تنخواہ کے علاوہ بھی میں اس کی مدد کیا کرتا تھا کہ شاید تنخواہ میں گھر داری چلانا ممکن نہ ہو۔
کچھ دن پہلے اس کا باپ مر گیا تو میں نے سوچا کہ باپ کا جنازہ پڑھنے سے رہ نہ جائے، اس کو ترنت گاؤں بھیج دیا۔
دو دن بعد مجھے خیال آیا کہ اتنا پرانا نوکر ہے، مجھے اس کو گاؤں جا کر تعزیت کرنا چاہیے۔ سو میں نے گاڑی نکالی اور اس کے گاؤں کو چل پڑا۔
گاؤں جاتے ہوئے راستے میں، میں نے دیکھا کہ سڑک کنارے ایک ریڑھی والا شریفے بیچ رہا تھا۔ مجھے تیس سال پرانی یاد آئی جب میرے نوکر کا مرنے والا باپ پہلی بار اپنے بیٹے کو نوکری لگوانے آیا تھا تو ساتھ اپنے گاؤں سے دو کلو شریفے لایا تھا۔ نہ جانے مجھے کیا خیال آیا کہ میں نے گاڑی روک کر اپنے نوکر کے لیے دو کلو شریفے تلوا لیے
گاؤں پہنچ کر میں نے اپنے نوکر کا گھر ڈھونڈنے کی کوشش کی تو مجھے بڑی حیرت ہوئی، جب گاؤں کے لڑکے مجھے ایک عالیشان مکان کے باہر چھوڑ گئے۔ میں نے جب حیرت سے ان سے پوچھا کہ کیا یہ واقعی اس غریب لوہار کا گھر ہے جس کی گاؤں میں ایک معمولی بھٹی تھی اور اس کے دونوں بیٹے شہر میں مزدوری کرتے تھے۔ مجھے یاد آیا، تیس سال پہلے جب میں نے اسے ملازمت دی تھی تو وہ ایک جھونپڑی میں رہا کرتا تھا۔ ان لڑکوں میں سے ایک جو شاید سائیکل پنکچر والی دکان پر کام کرتا تھا، مجھے بتایا کہ نہ صرف یہ عالیشان مکان، بلکہ گاؤں کے اردگرد کئی ایکڑ زمین بھی انہوں نے ان چند سالوں میں خریدی ہے جب سے یہ آپ کے ہاں کام کر رہے ہیں۔
میں حیرانگی کے عالم میں وہیں کھڑا تھا۔ شریفوں کا تھیلا جو میں نے رستے میں خریدا تھا، میرے ہاتھ میں تھا۔ سارے لڑکے جا چکے تھے، سوائے اس پنکچر والے کے۔ میں نے اس سے اس کا نام پوچھا۔ ”پانا ماٹھا، پنچر والا۔“ اس نے فخر سے اپنا پورا نام بمع القاب مجھے بتایا۔ وہ جی اصل نام تو پراؔن کمار ہے، مگر سب مجھے پانا ماٹھا کہہ کر بلاتے ہیں۔ دراصل جی میں بہت سست بھی ہوں نا، اس لیے مجھے ماٹھا کہتے ہیں۔ سامنے میری پنچر کی دکان ہے۔ بڑے دھیان سے پنچر لگاتا ہوں جی، مگر نا جانے کیوں پھر لیک ہو جاتے ہیں۔
پاناماٹھا واپس چلاگیا، اور میں اس عالیشان مکان کے گیٹ کی طرف بڑھ گیا۔ میری آمد کا سن کر وہ بھاگا آیا، اور مجھے اندر آنے کی دعوت دی۔ میں نے شریفوں کا تھیلا ہاتھ میں پکڑا اور اندر کی جانب ہو لیا۔ مکان کیا تھا، ایک عالیشان بنگلہ تھا، وہ مجھے گول کمرے میں لگے انتہائی قیمتی فرنیچر کے بارے میں بتانے لگا۔ اتنےمیں کمرے میں دو چھوٹے بچے داخل ہوئے، جن کی عمر یہی کوئی نو دس برس کی رہی ہوگی۔ یہ میرے دونوں بیٹے ہیں، اس نے تعارف کروایا۔ بڑے ہونہار ہیں، اسکول جانے کے ساتھ ساتھ شام کو گاؤں کی چوپال میں سموسے بیچتے ہیں۔ اس سے اچھی آمدنی ہو جاتی ہے۔
میرے تجسس اور صبر دونوں کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ میں نے رک کر اس سے وہ سوال پوچھ ہی ڈالا، جو میرے دل میں کلبلا رہا تھا، کہ اس نے محض میری نوکری سے اتنا بڑا عالیشان محل نما مکان کیسے کھڑا کر لیا۔ جبکہ اس کے بچے ابھی چھوٹے ہیں اور ایک معمولی سی سموسوں کی ریڑھی لگاتے ہیں
اس نے جواب دینے کے بجائے حیرت سے میری جانب دیکھا، جیسے اس کو میری بات سے بہت دکھ پہنچا ہو۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ پھر اس نے مجھے بتایا کہ اس کو پچھلے سال ٹائیفائڈ ہوگیا تھا۔ اس کی بیوی ڈینگی کا شکار ہو گئی تھی، اور چھوٹے بچے کو ٹانگ پر پھوڑا نکل آیا تھا، جس کو گاؤں کے ڈاکٹر نے ٹیکے لگا لگا کر اور خراب کر دیا تھا۔
مجھے اس کے خاندان کی بیماری کا سن کر بڑا افسوس ہوا، مگر میرا تجسس نہ مٹ سکا۔ میں نے پھر اپنا سوال دہرایا تو اس نے اپنے آنسو پونچھ کر مجھے بتایا کہ بہشتی ابا جی نے اپنے اچھے وقتوں میں اپنی بھٹی بیچ کر زمین خرید لی تھی گاؤ ں کے نمبر دار سے، دو روپے فی ایکڑ کے حساب سے۔ اس پر مکان میرے بچوں نے سموسے بیچ کر بنایا ہے۔
مجھے لگا کہ میرے نوکر کا دماغ باپ کی موت کے صدمے نڈھال ہے۔ اس لیے اس سے ڈھنگ کی کوئی بات نہیں ہو رہی۔ بھلا دو روپے ایکڑ زمین پچھلی صدی میں بھی دستیاب نہیں تھی، جو اس کے باپ نے کچھ سال پہلے خرید لی۔ اور سموسوں کی ریڑھی سے عالیشان مکان، میرا اپنا دماغ گھوم رہا تھا۔
اب میں نے ذرا ڈانٹ کر اس کو کہا کہ مذاق کے بجائے مجھے اصل بات بتائے کہ مجھے شک ہونے لگا تھا کہ وہ ضرور کوئی دو نمبر دھندا کرتا ہے۔ مگر وہ تھا کہ اصل بات بتا کے نہیں دے رہا تھا۔ جب میرا اصرار بڑھا تو اس نےمجھے بتایا کہ اس گاؤں میں جتنے لوگ شہر جا کر امیروں کے گھروں میں کام کرتے ہیں، ان کے ایسے ہی عالیشان مکان کھڑے ہیں۔ میں نے بنا لیا تو کیا ہو گیا، میرے بچوں نے محنت کی ہے۔ اگر آپ نے یہ سوال پوچھنا ہے تو سب گاؤں والوں سے کیوں نہیں پوچھتے؟
میں نے حیرانی سے اس کو دیکھا اور یاد دلایا کہ پچھلے تیس سال سے میرے گھر و کاروبار کی رکھوالی اس کے سپرد تھی۔ میرے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کا کردار کیسا ہے، مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ باقی گاؤں کے لوگ چور ہیں یا ڈاکو۔ مجھے اس سے سروکار ہے کہ میرے مال کی تین دہائیوں تک رکھوالی کرنے والا ایماندار ہے کہ نہیں۔
میرے باربار استفسار پر بھی مجھے کوئی تشفی آمیز جواب نہ مل سکا۔ کبھی وہ کہتا کہ میرے باپ دادا کی جائیداد تھی، کبھی کہتا کہ اس کے نو دس سالہ بچوں نے سموسے بیچ کر یہ جائیداد بنا لی، کبھی میرے پاؤں پڑ کر مجھے اپنی تیس سالہ خدمات گنوانے لگتا، جو اب میری نظر میں مشکوک ہو چکی تھیں۔
آخر تنگ آکر میں نے اس سے کہا کہ یا تو مجھے اپنی اس جائیداد کے لیے حاصل کیے گئے پیسے کے بارے میں بتائے، یا گاؤں میں کسی معزز بندے سے گواہی دلوا دے کہ اس نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی ہے؟ اس نے ایک بدلے ہوئے انسان کی طرح مجھے دیکھا، اور دفعتاً سیدھا تن کر میرے سامنے کھڑا ہو گیا۔ کہنے لگا، صاحب، آپ چاہے مجھ پر مقدمہ کر دو، چاہے گاؤں کے سارے لوگ میرے گھر کے باہر کھڑے کر دو، چاہے مجھے نوکری سے نکال دو، میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ یہ جائیداد میں نے کیسے بنائی ہے۔
میرے موبائل کی گھنٹی بجی، اور میں اس کو بولتا چھوڑ کر ایک طرف ہو کر فون سننے لگا، میری بیوی بتا رہی تھی کہ ہماری خاندانی تجوری سےکروڑوں کے زیورات اور بہی کھاتے غائب ہیں۔ میں نے فون رکھ دیا۔ مجھے اس کی طرف دیکھتےگھن آ رہی تھی۔ میں اٹھ کھڑا ہوا، اور واپس گیٹ کی طرف چل دیا۔ گیٹ سے نکلتے ہی جیسے میں گاڑی میں بیٹھنے لگا، مجھے احساس ہوا کہ شریفے تو ابھی میرے ہاتھ ہی میں ہیں۔
میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی، سامنے ہی ایک کوڑے دان نظر آیا۔ میں نے کچھ سوچے بغیر شریفوں کو کوڑے دان میں ڈال دیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
نوٹ: کہانی میں کسی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی، البتہ کوڈے دان تاریخ کا کوڑے دان تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“