شعور سائنس میں متنازعہ موضوع ہے۔ اس لفظ سے بہت سے نیوروسائنٹسٹ، سائیکلولوجسٹ، اے آئی ریسرچر نظریں چراتے رہے ہیں۔ کرسٹوف کوک، جو ایلن انسٹی ٹیوٹ آف برین سائنس کے سربراہ ہیں، نے جب اس کی گتھی سلجھانے کا بیڑا اٹھایا تو کئی لوگوں نے ان کو منع کیا کہ یہ ان کے کیرئیر کا خاتمہ ہو گا۔ ان کو منع کرنے والوں میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان فرانسس کرک بھی تھے۔ اگر میک ملن ڈکشنری آف سائیکولوجی میں اس کی تعریف لکھی دیکھیں (یہ ۱۹۸۹ میں لکھی گئی) تو وہاں پر اس کے آگے یہ لکھا ہے کہ “اس کے بارے میں کچھ ایسے چیز کبھی لکھی ہی نہیں گئی جو پڑھنے کے قابل ہو۔” کرسٹوف کوک اس گتھی کو سلجھانے کے بارے میں اس سے زیادہ پرامید ہیں۔ شروڈنگر اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ اگر کائنات کھیل ہے تو شعور تماشائی۔ اس کے بغیر یہ سب بے معنی ہے، جیسے خالی کرسیوں کے آگے ہوتا ہوا کھیل۔” فری مین ڈائسن کے مطابق کائنات بے معنی ہوتی، اگر شعور اس کو معنی نہ دیتا۔ یووال حراری کے مطابق، “اگر کوئی سائنس دان یہ بحث کرنا چاہے کہ شعور خود بے معنی ہے، تو میرا اس سے سوال یہ ہو گا کہ پھر تشدد یا ریپ کیوں غلط ہیں؟ اس ریفرنس کے بغیر تو سب کچھ بنیادی پارٹیکلز ہیں جو فزکس کے قوانین کے مطابق حرکت کر رہے ہیں۔ پھر اس میں آخر غلط کیا ہے؟” یہ تکلیف، خوشی، حیرت، تفکر، پریشانی، اداسی، فخر، احساس، رنگوں اور خوشبووں کے لطف کا نام ہے۔ شعور سبجکیکٹو ایکسپیرئنس (نفسانی تجربہ) ہے۔
اس کے بارے میں تحقیق میں ہم کہاں پر کھڑے ہیں؟ شعور ہے کیا؟ اس کو سمجھنے میں دشواری کیا ہے؟ اس پر پوسٹس الگ سے لیکن کیا شعور سائنس کا سوال ہے؟ یہ کمرے کا ہاتھی تو ہے لیکن جس طرح گلیلیو کو علم نہیں تھا کہ ہم ایک روز روشنی اور مادے کو جان لیں گے، ویسے ابھی ہمیں علم نہیں کہ ہم اس کے بارے میں کس حد تک جان سکیں گے۔ لیکن یہ ہمیں اپنی ٹیلی سکوپ بند کرنے سے نہیں روکتا۔ ہم بطور ایک جاندار جو انفارمیشن پراسس کر رہے ہیں، اس کا بہت ہی تھوڑا حصہ ہمارے شعور تک پہنچا ہے۔ ابھی بات صرف اس پر یہ کہ ہے کہاں پر۔
دلچسپ طریقے سے کئی جانے والے تجربے بتاتے ہیں کہ شعور نہ صرف کچھ طرح کے رویوں تک محدود ہے بلکہ دماغ کے بھی خاص حصوں تک۔ ابتدائی سراغ ہمیں ان مریضوں سے ملے جن کے کسی حصے کو نقصان پہنچ چکا تھا۔ حادثے سے، سٹروک سے، ٹیومر سے یا انفیکشن سے۔ لیکن یہ معلومات ناکافی تھی۔ مثال کے طور پر اگر کسی کی آنکھ ٹھیک ہو لیکن دماغ کا ویژئیول کورٹیکس ناکارہ ہو جائے تو وہ دیکھ نہیں سکتا۔ اس کا مطلب یہ کہ آنکھ دیکھنے کے لئے کافی نہیں،۔ لیکن کیا دماغ کا یہ حصہ بھی دیکھنے کے لئے کافی ہے؟ یا پھر آنکھ کے ریٹینا کی طرح یہ بھی ایک آلہ ہے جو معلومات کو ٹرانسفورم کرتا ہے؟
ابھی تک ہمیں اس سب کی ٹھیک جگہ کا علم نہیں ہوا لیکن آپشنز کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ مثال کے طور پر میرے بازو میں تکلیف ہے۔ لیکن اگر سرجن اس سوئچ کو بند کر دے تو پھر یہ تکلیف نہیں رہتی۔ اس نے صرف میرے کندھے پر اعصاب کو سُن کیا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگ جن کا بازو کٹ گیا ہو، وہ بھی کئی بار اس بازو میں تکلیف محسوس کرتے ہیں جو موجود ہی نہیں ہوتا۔ تکلیف کا ادراک میرے بازو کا نہیں۔
شعور اعصابی نظام کے باہر نہیں۔ یہ تو ہمیں معلوم تھا لیکن یہ دماغ میں کہاں پر ہے؟ اب جدید ٹیکنالوجی ہمیں ان ابتدائی سراغوں سے بہت زیادہ بتا رہی ہے۔ ہم ابھی اپنے کھربوں نیورون میں ہوتی پراسسنگ کو جاننے کے قریب قریب بھی نہیں لیکن دماغ کو پڑھنے کی ٹیکنالوجی تیزی سے بہتر ہو رہی ہے۔ فنکشنل ایم آر آئی سے ہائیڈروجن کے نیوکلئیس کے مدد سے دماغ کا ہر ایک سیکنڈ کے بعد ایک ملی میٹر کی ریزولیوشن سے نقشہ بن جاتا ہے۔ ای ای جی اور ایم ای جی کی مدد سے برقی اور مقانطیسی فیلڈ کا نقشہ بن جاتا ہے جو سر کے باہر سے ڈیٹیکٹ ہو جاتا ہے۔ یہ ایک سیکنڈ میں ہزاروں بار لیا جا سکتا ہے لیکن اس کے خفیف ہونے کی وجہ سے اس کی ریزولیوشن چند سینٹی میٹر تک ہے۔ ان کی علاوہ تین اور طریقے ہیں جو دماغ کو ٹچ کرتے ہیں۔ الیکٹروکورٹیکوگرافی جس میں سو تاریں دماغ کی سطح تک پہنچائی جاتی ہیں۔ الیکٹروفزیوگرافی جس میں مائیکرووائرز کا استعمال ہوتا ہے جو انسانی بال سے باریک ہیں اور یہ دماغ کے اندر تک پہنچ جاتی ہیں اور ہزاروں جگہ سے وولٹیج کی پیمائش کرتی ہیں اور فلورسنٹ وولٹیج سنسنگ۔ اس سے نیورون کی ایکٹیویٹی کو روشنی کے فلیش کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اس آخری تکنیک کے مدد سے کیچوے کے ۳۰۲ اور لارول زیبرافش کے ایک لاکھ نیورون کو پڑھا جا چکا ہے۔
فرانسس کرک نے کرسٹوف کوک کو شعور پر کام کرنے سے منع کیا تھا لیکن کوک اب کرک کو قائل کر چکے ہیں کہ ان کا فیصلہ درست تھا۔ بصارت کے جواب فلیش سپریشن کے ذریعے مل چکے ہیں جس کے مطابق بصارت کے شعوری ادراک میں آنکھ کے ریٹینا کا حصہ صفر ہے۔ اس کو این سی سی رسرچ کہا جاتا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ شعور کا کوئی بھی حصہ معدے میں نہیں رہتا۔ یہاں پر پچاس کروڑ نیورون تو موجود ہیں جو یہ کیلکولیٹ کرتے ہیں کہ خوراک ہضم کرنے کا بہترین طریقہ اس وقت کے حالات کے مطابق کیا ہے۔ لیکن بھوک یا متلی جیسی کیفیات دماغ میں ہی پیدا ہوتی ہیں۔ شعور کا کوئی حصہ برین سٹیم میں نہیں۔ یہ دماغ کا نچلا حصہ ہے جو ریڑھ کی ہڈی سے دماغ کو ملاتا ہے۔ یہ ہمارا سانس کنٹرول کرتا ہے۔ دل کی دھڑکن اور بلڈ پریشر۔ سب سے حیرت انگیز نتیجہ یہ نکلا کہ شعور کا تعلق ہمارے سیریبلم سے نہیں۔ یہاں پر ہمارے دماغ کے دو تہائی نیورون ہیں اور اگر یہاں پر نقصان ہو تو ہمارا بولنا متاثر ہوتا ہے اور حرکت میں تال میل نہیں رہتا لیکن ہمارے شعور کو کوئی گزند نہیں پہنچتی۔
باقی کے دماغ کے کونسے حصے شعور کے ذمہ دار ہیں؟ ابھی یہ کھلا سوال ہے۔ این سی سی کی اب تک کی تحقیق یہ ہے کہ اس کا تعلق “ہاٹ زون” سے ہے، جس میں تھیلیمس (دماغ کے وسط کے قریب) اور کارٹیکس کے پچھلے حصے (دماغ کے باہری لئیر جو چھ تہوں میں فولڈ ہوئی ہے اور اگر اسے کھولا جائے تو ایک میزپوش جتنے جگہ گھیرے گی)۔ اسی تحقیق سے یہ بھی پتہ لگا ہے کہ دماغ کا ویژئیول کارٹیکس جو دماغ کے بالکل پیچھے ہے۔ وہ بھی شعور سے اسی طرح خالی ہے جیسے آنکھ یا ریٹینا۔
شعور ایک امرجنٹ فینامونا ہے۔ ویسا ہی جیسے پانی کا گیلا ہونا۔ لیکن جس طرح ہم پانی کے گیلا ہونے کی وجہ جانتے ہیں، اس طرح کیا ہم شعور کی گتھی مکمل طور پر سلجھا سکیں گے؟ کرسٹوف کوک پرامید نظر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمام سوالوں کے جواب نہ بھی جان سکے تو بھی آج کے مقابلے میں بہت زیادہ آگے بڑھنے کی امید ہے۔ آندرے کنڈ کے مطابق ستاروں کے گزرگاہوں کو ڈھونڈنے کے لئے افکار کی دنیا میں سفر کرنا ضروری ہے۔ (ان کے الفاظ یہ تھے، “کوئی بھی ایسی تھیوری آف ایوری تھنگ بے معنی ہے، جو شعور کو نظر انداز کرے)۔ یہ مشکل سفر ہم کر رہے ہیں۔
شعور کی تھیوری آئی آئی ٹی پر پہلے کی گئی ایک پوسٹ
https://waharaposts.blogspot.com/2018/09/blog-post_564.html