عمومی طور پر شعور کا تعین حالات کرتے ہیں اور حالات کا تعین معاشرہ میں موجود ذرائع ابلاغ مثلا ٹیلی وژن، اخبارات، جرائد، تعلیمی ادارے، گھریلو تربیت اور یار دوست وغیرہ کرتے ہیں۔
چونکہ حکمران طبقات ان میں سے زیادہ تر کو کنٹرول کرتے ہیں اور اس وجہ سے وہ اپنے نظریات کو ھی پھیلاتےرھتے ہیں، ساری خبریں چونکہ نواز شریف، عمران خان، آصف زرداری اور ان طرح کے دووسرے سیاست دانوں کی ہوتی ہیں اس لئے ہم انکے حوالے سے ہی باتیں کرتے اور اندازے لگاتے رھتے ہیں۔ اور یوں ھمارا شعور ان کے طابع ہو جاتا ہے۔
یہ خبر نہیں ھوتی کہ ایک فیکٹری میں مزدوروں کو پوری تنخواہ نہیں دی جاتی، یا وھاں پر تنخواہ کئی کئی ماہ لیٹ دی جاتی ہے۔ یہ ھمارے لئے کوئ خبر ہی نہیں ہوتی کیونکہ
اسے کسی ٹی وی نے نشر یااخبار نے شائع نہیں کیا۔ یہ ایک طبقاتی خبر ہے۔یہ سرمایہ داروں کے معاشی استحصال کے خلاف خبر ہے۔ اور وہ کیوں اپنے اخبار یا ٹی وی کے ذریعے اپنے خلاف خبر لگائیں گے۔
اخبارات یا ٹی وی سماجی ایشوز کو سکینڈل بنا کر خوب خبریں لگاتے ہیں۔ مثلا کسی جگہ کوئی ریپ ہو جائے تو بڑھ چڑھ کر خبریں لگائیں گے۔ قندیل بلوچ قتل ہو جائے، یا کسی سرمایہ دار یا ایکٹرکی طلاق یا خفیہ نکاح کی خبر ہو، تو خوب جم کر خبریں دیں گے۔ یہ کیونکہ سماجی ایشوز ہیں ان خبروں کو اچھالنے میں ان کا کوئی معاشی نقصان نہیں ھوتا۔ لہزا انُکو پرنٹ یا نشر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ابھی ٹرین ڈرائوروں کی ہڑتال ہوئی۔ میڈیا نے اس بارے میں ڈرائیوروں کے خلاف پراپیگنڈا کرنے والی خبروں کو خوب اچھالا، تاثر یہ دیا کہ یہ ان ٹرین ڈرائیوروں کی بحالی کےلئے ہے جو عوام کے قاتل ہیں اور ریلوے حادثوں کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن ان کے اصل مطالبہ تنخواھوں میں اضافہ کو خبر کا حصہ ہی نہیں بنایا گیا۔ یہ عوام کا ہڑتال بارے منفی رویہ بنانے کے لئے کیا گیا۔ ھڑتالی ریلوے ڈرائیوروں کے خلاف دھشت گردی کے مقدمات قائم کئے گئے۔ ہڑتال دھشت گردی نہیں یہ اپنے مطالبات منوانے کاایک زوردار اور مواثر ذریعہ ہے۔ مگر مزدور گرفتار کر لئے گئے۔ میڈیا کا یہ محنت کش مخالف رویہ ایک عمدہ مثال ہے کہ کس طرح ذرائع ابلاغ سے طبقاتی کام لیا جاتا ہے۔
ہمارے پاس ذرائع ابلاغ نہیں ہیں مگر ابھی سوشل میڈیا کے ذریعے کسی حد تک ہم محنت کش طبقات سرمایہ داروں، جاگیرداروں، مزھبی جنونیوں اور مزدور مخالف افراد کے نظریات کو بے نقاب کر سکتے ہیں۔ جو ھم کر سکتے ہیں وہ تو کریں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔