شعور یا consciousness کے بارے میں کہا جاتا ہے کے اس کا موت سے بھی کوئ تعلق نہیں ۔ یہ تو مادہ پرستوں کا فلسفہ ہے کے موت ایک سوئچ کی طرح آن آف کا بٹن ہے ۔ شعور کا روح یا being سے تعلق ہے ، لہٰزا یہ کائنات کا ہی حصہ ہے اور ہمیشہ ہمیشہ کائنات کے سارے اعداد کے ساتھ قائم دائم رہتی ہے ۔ بلکہ اب تحقیق یہ بتا رہی ہے کے دماغ کو کچھ عرصہ shut کر کے یا کم از کم brain clutter کو کو روک کر ہم شعور اور آگہی کی آخری منزلوں تک پہنچ سکتے ہیں ۔ مراقبہ میں بھی ہم اصل میں دماغ کو ہی de clutter کر رہے ہوتے ہیں ۔ میں نے ایک پچھلے بلاگ میں لکھا تھا کے یہاں امریکہ میں ایک UDV چرچ کچھ پتوں کی چائے سے دماغ de activate کر کے روحانیت یا mysticism میں لے کے جاتا ہے ۔ دماغ کو اگر چینی یا شوگر روک دی جائے تب بھی غنودگی trance میں لے جاتی ہے ۔ آج سے کوئ پانچ سال پہلے پاکستان میں میرا ایک دوست مجھے لاہور میں ملنے آیا تو اس نے میرے گھر کے سامنے کوار گندل لگی ہوئ دیکھی ۔ اس نے کہا اس کو دھو کر نوالا میں رکھ کر ناشتہ میں کھایا کرو بہت سکون ملے گا ۔ میں نے اگلے دن ایسا ہی کیا اور سارا دن عجیب قسم کے نشہ میں رہا ۔ ڈر کے مارے چھوڑ دی کے دماغ میں تو خلل پہلے ہی ہے مزید کہیں ستیاناس نہ ہو جائے ۔
یہاں امریکہ کے صحراؤں میں cactus بہت ہوتا ہے ، بلکہ میکسیکو میں تو اس سے کئ دوائیاں بنتی ہیں ۔ اسی Cactus کے پلانٹ سے ایک کیمیکل Mescaline نکلتا ہے جو بنیادی طور پر psychedelic alkaloid ہے اور اس کا نشہ بھی دماغ کی ایکٹیویٹی کو مدھم کرتا ہے ۔ ایک کینیڈین سیائکیٹرسٹ نے Mescaline اور Adrenaline میں بہت گہرا تعلق پایا اور اسی نے مشہور ادیب ، فلاسفر اور ناولسٹ Aldous Huxley کو لیبارٹری میں guinea pig بنا کر کچھ تجربات کیے ۔ اس کی وجہ سے سسکیچون کینیڈا کا مینٹل ہسپتال ان Psychedelic ڈرگ کا بہت بڑا مرکز بن گیا ۔ ہکسلے نے اپنی کتاب Doors of Perception میں یہ سارے واقعات بیان کیے ہیں ۔ ہکسلے کو ایک بہت بڑا mystic بھی سمجھا جاتا ہے ۔ اسی کتاب میں اس نے گوئٹے کے دیوار میں دروازے لگانے کا تزکرہ بھی کیا ہے ۔ مائکل پولن اپنی کتاب میں ہکسلے کے اس تجربہ کو بہت اچھے انداز میں لکھتا ہے ۔
“To Aldous Huxley , LSD drugs gave him access not to the mind of the madman but to a postural realm of ineffable beauty “
رضا ازلان نے اپنی اسی سال شائع ہوئ کتاب God میں بھی اسلامی صوفیا کو drunken sufis کہ کر ریفرینس دیا ۔ ہکسلے نے اپنی اس perception والی کتاب کے شروعات میں ہی ولیم بلیک کو کچھ اس طرح quote کیا ۔
“If the doors of perception were cleansed every thing would appear to man as it is infinite “
اصل میں خیال ، سمجھ یا شعور ہی ہمیں لافانی کرتا ہے اور کائنات کے سمجھنے میں آسانی ۔ کل مجھے کنیرڈ کالج کی ایک پولیٹیکل سائنس کی پروفیسر جو خود بہت نامور سوشل میڈیا بلاگر ہیں فرما رہی تھیں کے نوجوان نسل کے بہت سوال ہیں اور درست perception ہی ان کا جواب دے سکتا ہے ۔ بات ہی ساری چیزوں کو perceive کرنے کی ہے ۔ اور ہکسلے مزید اسی کتاب میں کہتا ہے کے
“Each person at each moment is capable of remembering all that has ever happened to him and of perceiving every thing that is happening every where in the universe “
یہ ہے وہ معاملہ جہاں افلاطون وغیرہ خطا کھا گئے اور انہوں نے being اور becoming کو جدا کیا ۔ اسی میں بدھ ماتا کے لوگ بھی پھنسے ہوئے ہیں کے وہ نروانا میں انسان کو hermit بنا کر لیجاتے ہیں ۔ یہ در حقیقت Oneness کا کھیل ہے ۔ وحدنیت کا معاملہ ہے اور حضرت محمد ص نے بلکل ایسا کر کے دکھایا ۔
ہکسلے مزید گوئٹے کو بہت اچھا quote کرتا
Goethe said that we should talk less and draw more.
اور اسے ہی ہکسلے اپنے لفظوں میں کہتا ہے
I should personally like to renounce speech altogether and, like organic nature , communicate very thing I have to stay in sketches , look at world directly…,
اسی کو مغرب نے ایک نئ فیشن ایبل اصطلاح میں ڈھالا walk your talk ۔ میں اکثر کہتا ہوں کے اگر بول بچن سے معاملات حل ہونے ہوتے تو عامر لیاقت اب تک اسلامی انقلاب لے آتا اور اسد عمر معاشی ۔ معاملہ سارا عمل کا ہے ۔ اور محمد ص نے وہ عمل کر کے دکھایا ۔ پہلے خود کیا اور پھر تبلیغ کی ۔ ہمیں اپنی سمجھ کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ تجربات کی روشنی سے کائنات کے راز جاننے ہوں گے ۔ اللہ تعالی آپ سب کو بہت خوش رکھے ۔ آمین
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...