شمس الرحمن فاروقی(1935-2020)‘اپنی قابلیت وصلاحیت‘تحقیقی وتنقیدی بصیرت‘فکری و تخلیقی زرخیزی اور علمی وادبی خدمات کی بدولت اردو زبان وادب کا حوالہ بن چکے ہیں‘جس کا اندازہ ان کی تحقیقی وتنقیدی اور تخلیقی کتب اور مضامین سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔پیش نظر مضمون مخصوص موضوع پر تحریر ہواہے‘ اس لئے نفسِ مضمون تک ہی اپنی بات پیش کرنے کی کوشش کی جائے گا۔شمس الرحمن فاروقی کی تنقیدی فکر استفہامیہ نوعیت کی ہے۔وہ کسی بھی موضوع پر بات کرنے کے دوران استفہامیہ انداز اپناتے ہیں‘پھر اسی استفہام کو موضوع بحث بنا کر اپنا موقف آگے بڑھاتے ہیں اور منطقی انداز سے کسی مسئلہ کا حل تلاشنے کے لئے شرق وغرب کے علمی وادبی اور فلسفیانہ علوم سے متعلقہ موضوع کی مناسب جہات سامنے لاتے ہیں‘جو کہ ان کے وسیع المطالعہ‘علمی و فکری اور ناقدانہ بصیرت کا خاصہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ جیسے مضمون”ادبی تخلیق اور ادبی تنقید“ میں تخلیقی کارگزاری اور تنقیدی سروکار کو موضوع بحث بناتے ہوئے استفہامیہ اسلوب میں کئی عمومی سوالات اٹھاتے ہیں کہ”کیا تنقید کا مرتبہ تخلیق سے بلند تر ہے؟“”اگر ایسا ہے تو کیا یہ برتری (Ontological) اعتبار سے ہے یا علمیاتی (Epistemological) اعتبار ہے؟ یعنی کیا تنقید اس لئے برتر ہے کہ وہ تخلیق سے پہلے وجود میں آتی ہے یا اس لئے برتر ہے کہ ہمیں تنقید سے جو علم حاصل ہوتا ہے وہ اس علم سے برتر ہے جو تخلیق سے حاصل ہوتا ہے؟“”کیا تنقید بھی
تخلیقی کارگزاری ہے؟‘اگر ایسا ہے تو کیا ان دونوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں۔‘”تو کیا کسی تنقیدی تحریر کو تخلیقی تحریرکے معیاروں سے جانچ سکتے ہیں؟“”ادبی معاشرہ میں نقاد کیا کام انجام دیتا ہے؟“”ادبی تخلیق کار کے تعلق سے نقادکے کیا فرائض ہیں“وغیرہ۔(کتاب:تنقیدی افکار:ص‘۹۳۲)
شمس الرحمن فاروقی مذکورہ تنقیدی و تخلیقی مسائل پر معروضی انداز سے بحث چھیڑتے ہوئے بصیرت افروز نظریاتی مطالعہ پیش کرتے ہیں‘جس دوران انگریزی اور اردو ناقدین”بودلئیر‘آلفرید دوینائی‘’ورلن‘ ’ورڈز ورتھ‘’کولرج‘’محمد حسین آزاد‘ ’حالی‘ ’شبلی نعمانی‘احتشام حسین‘’حسن عسکری‘ آل احمد سروروغیرہ کی تخلیق و تنقید سے متعلق خیالات و نظریات بھی پیش ہوئے ہیں۔تنقید نگار کی رائے سے متعلق پروفیسر آلِ احمد سرور کا یہ خیال بھی پیش ہوا ہے جو کہ قابل غورہے:
”بڑا نقاد وہ نہیں ہوتا جس کی رائے ہمیشہ صحیح مانی جائے۔بڑا نقاد وہ ہوتا ہے جس کی رائے سے دوسروں کو کسی موضوع پر بہتر اور جامع رائے قائم کرنے کی توفیق ہو‘(اور)اس جامع رائے کا سراغ اس نقاد کی رائے سے ملا ہو۔“(کتاب: تنقیدی افکار‘ص ۲۶۲)
پروفسیر آلِ احمد سرور کی محولہ بالا رائے نظریاتی طور پر صحیح ہے کیونکہ کسی بھی معیاری فن پارے خصوصاََ علامتی نوعیت کے فن پارے سے متعلق ایک نقاد کی ایک رائے سامنے آسکتی ہے اور کسی اور کی کچھ اور یا متنی و معنی توضیحات بھی الگ الگ سامنے آسکتی ہیں۔ سب سے اہم مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب کوئی تخلیق کسی خاص خطے یا سماج کی سیاسی یا سماجی وتہذیبی عکاسی کرتی ہو تو اس متن کے تخلیقی و معنوی سیاق وسباق(Reference and Context)کے ادراک کے بغیر اس کا مناسب تجزیہ یا توضیح نہیں ہوسکتی ہے۔اس لئے اس سے متعلق کئی لوگوں کے خیالات مختلف ہوسکتے ہیں اور جب مختلف ہونگے تو کسی ایک کا فیصلہ حتمی کیسے ہوسکتا ہے‘ تاہم اسے اس معیاری متن کی متنوع جہات کی علمی وادبی مباحث کے در وا ہوجاتے ہیں جو کہ نقاد کی اہمیت اجاگر کرنے کے لئے کافی ہے۔اب نظریاتی تنقید اور عملی تنقید کی بات کریں تو مختصر اََ نظریاتی تنقید میں کسی بھی تنقیدی نظریہ ”متنی‘ تنقیدی‘سماجی‘ تنقید‘نفسیاتی تنقید‘مارکسی تنقید وغیرہ جیسے نظریات کے اصولوں سے بحث ہوتی ہے اور پھر اس نظریہ یا نظریات کا کسی فن پارے پر عملی اطلاق عملی تنقید کے زمرے میں آتا ہے۔لیکن اس سے پہلے تنقید ہے کیا….؟کا سوال کھڑا ہوتا ہے تو شمس الرحمن فاروقی ”تنقید“ یا ”نقاد“ سے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
”تنقید کیا ہے؟ اس کا جواب شاید بہت تشفی بخش نہ ہو‘لیکن تنقید کیا نہیں ہے؟ کا جواب یقیناََ تشفی بخش اور بڑی حد تک قطعی ہوسکتا ہے۔ تنقید عمومی اور سرسری اظہار رائے نہیں ہے۔غیر قطعی اور گول مول بات کہنا نقاد کے منصب کے منافی ہے۔ تنقید کا مقصد معلومات میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے۔“ (تنقیدی افکار:ص ۱“)
تنقید نگاری سے متعلق اس اقتباس میں ایک دو باتیں بڑی اہمیت رکھتی ہیں‘ایک”سرسری اظہار رائے نہیں“اور دوسری”معلومات میں اضافہ کرنا نہیں بلکہ علم میں اضافہ کرنا ہے۔“ آج کل بیشتر لوگ کسی بھی تحریر/تخلیق پر تبصراتی نوعیت کے چند جملوں یا مضامین کو بھی تنقید کے زمرے میں ڈالتے ہیں‘یہ ایک طرح سے اس تحریر/تخلیق کا متنی یا موضوعی تعارف ہوتا ہے۔ ادبی تنقید کا مقصد کسی تحریر/تخلیق کو علمی اور تنقیدی سطح پر مکالمہ بنانا ہے۔ اگر اس کے برعکس اس تحریر/تخلیق کے متن کو صرف دہرایا جائے تو یہ معلومات کے زمرے میں آتا ہے‘اس لئے اس متن کو تجزیاتی عوامل سے گزار کر اپنے خیالات بھی شامل کرنا علم کا اضافہ کہلائے گا جو کہ قاری کی بصیرت میں اضافہ کرے گا‘ نہیں تو کسی شعریا افسانے کی قرات کے بعد عام طور پراس کا معنی یا مفہوم یا کہانی تو عام قاری کی سمجھ میں بھی آتی ہے توپھر اس کو اپنے مضمون میں دہرانے سے علم میں کس قسم کا اضافہ ہوگا۔ شمس الرحمن فاروقی اسی قسم کے مسائل پر ایک اور جگہ گفتگو کرتے ہوئے شرح‘ تفہیم‘تشریح‘اظہار خیال اور متن کی تعبیر کو موضوع بحث بناتے ہوئے’تعبیر‘ کی اصطلاح پر زور دیتے ہیں‘جس کا مقصد کسی متن کے لفظی مفہوم یا ترجمہ کی بجائے پورے متن کو موضوع بحث میں لانا ہے اور متن کی توضیح کے تعلق سے فرماتے ہیں کہ:
”متن اپنی فطرت کے اعتبار سے ترجمے/تعبیر کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ بات زبانی متن سے بھی زیادہ تحریری متن پر صادق آتی ہے۔ تحریری متن جب ہمارے سامنے آتا ہے تووہ بالکل عاری اور غیر جانب دار ہوتا ہے۔متن کو برتنے کی حیثیت سے ہماری کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہم اس پر زیادہ سے زیادہ جبر کریں اور اس سے اپنے مفید مطلب و معنی نکالیں۔“
(تنقیدی افکار:ص ۶۷۲)
اس اقتباس میں ایک بات تو اہم ہے کہ ”متن اپنی فطرت کے اعتبار سے ترجمے/تعبیر کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ ہر معیاری متن تفہیم و توضیح کا مطالبہ ضرور کرتا ہے تاہم یہاں پر جو دوسری بات بتائی گئی ہے کہ”تحریری متن جب ہمارے سامنے آتا ہے تو وہ بالکل عاری اور غیر جانب دار ہوتا ہے۔“علمی اور فکری طور پر ایک رائے ہی کہی جاسکتی ہے‘جس سے اتفاق اور اختلاف کی گنجائش ہے۔کیونکہ سبھی متون عاری اور غیر جانب دار نہیں ہوتے ہیں‘ چندشعری اور فکشن متون پر یہ بات تو صادق آسکتی ہے لیکن کلی طور پر سبھی متون اس زمرے میں نہیں آسکتے‘ جیسے کہ انہیں کا ایک اہم ناول”کئی چاند تھے سرے آسمان“ ایک تاریخی نوعیت کا ناول ہے۔جو تاریخی ناول اسی لئے کہلاتا ہے کیونکہ اس میں زیادہ تر انیسویں صدی کی دہلی یا چند جگہ دوسری جگہوں کی سیاسی و سماجی اور تہذیبی زندگی کا تخلیقی وفنی منظر نامہ سامنے آتا ہے تو یہ کہاں پر عاری یا غیر جانب دار متن بن جاتا ہے بلکہ یہ جانب دار بن کر ایک تہذیب ایک تمدن کی تخلیقی وفنی ترجمانی کرتا ہے۔ناول کے فنی و ثقافتی اور تخلیقی و تنقیدی امتزاج کا احاطہ کرتے ہوئے فرخ ندیم (پاکستان) اپنی تنقیدی کتاب” فکشن‘کلامیہ اور ثقافتی مکانیت“میں لکھتے ہیں:
”فاروقی کا تنقیدی‘ تخلیقی شعور اور تصور ناول پوسٹ ماڈرن یا پوسٹ کولونیل فارملے سے مشروط نہیں لیکن تاریخ اور فکشن کو ایک تھرڈ سپیس میں متن کرنا‘ انیسویں صدی کے نسائی کردار کو پوری چمک دھمک‘آب وتاب کے ساتھ پورے کینوس پرپھیلا دینا‘کہیں وجودی اور کہیں غیر وجودی آوازسے ہم کنار کرنا‘ بین المتونیت‘ دو تہذیبوں کے سنجوگ(مابعد نو آبادیاتی تنقید کی رو سے تیسرے مکان) سے ہائبر ڈائزیشن اور دوگونیت کی ابتدائی صورتیں اور خدوخال وضح کرنا‘ بدلتے ہوئے تناظر میں شناختوں کے مکانات سے بیانیہ کوآراستہ کرنا اور ثنویت‘ تسلط اور مذاحمت‘ میٹا فکشن اور ہائپر ٹیکسٹ وغیرہ کو اسلوب کا حصہبناتے ہوئے کہانی کو ایسے ارتقاء پزیر رکھنا کہ اجزائے ترکیبی بقول مشہور رومانوی شاعرکولرج ’میکانکی مرکب کی بجائے کیمیائی محلول‘ نظر آئیں‘یہ خاصا مشکل کام تھا جو ناول نگار نے اپنے تاریخی‘ تخلیقی‘ جمالیاتی اور تنقیدی شعور سے نہ صر ف ممکن بنایا بلکہ فکشن نگاری میں جنسی
تشکیلات اور جنس کی طرف نوآبادیاتی پدرسری اور صارفی نظریات کو موضوع بحث بنایا۔“
(کتاب:فکشن کلامیہ اور ثقافتی مکانیت: ص ۲۹۱)
ناول کی تخلیقی اور موضوعاتی کینوس پر اس قسم کی تجزیاتی رائے کہاں سے ٹھوس بنیاد پر لکھی جاسکتی تھی اگر اس کا متن عاری یا غیر جانبدار ہوتا۔دراصل بیشتر متون انسان کی سوچ یا سماج کا زائدہ ہوتے ہیں اس لئے وہ عاری ہوکر قاری کے سامنے نہیں آتے البتہ ان کا تجزیہ غیرجانبدار انداز سے ہونا چاہئے یعنی متن جو کہتا ہے اسی پر ارتکاز کرنا چاہئے نہ کہ بنیادی متن کو حاشیہ پر چھوڑ کر کر اپنے ہی غیر متعلق خیالات پیش کرنے چاہئے۔
ادب اور زندگی کا تعلق ہمیشہ سے موضوع بحث ہوتا آیا ہے۔کچھ لوگ ادب اور زندگی کو ایک سکے کے دورخ قرار دیتے ہیں اور کئی لوگ ادب کو ادیب کی ذہنی اختراع تک ہی محدود رکھتے ہیں۔متوازن فکر کے ساتھ سوچیں تو ادب زندگی کی عکاسی بھی کرتا ہے اور کبھی کبھی یہ صرف فن کاری تک ہی محدود رہتا ہے۔ جیسے غالب ؔ کے دو شعر لیجئے‘ ایک میں صرف فن کاری نظر آئے گی اور دوسرے میں زندگی کا تجربہ:
موجِ سراب دشت ِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ مثلِ جوہر ِ تیغ آب دار تھا
کیا کہوں تاریکی زندانِ غم‘ اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم‘جس کے روزن میں نہیں
دونوں اشعار اگرچہ فنی طور پر معنویت کے حامل ہیں تاہم پہلا شعر فنی تجربہ کی عمدہ مثال پیش کرتا ہے یعنی وجودی کرب کی فنکارانہ عکاسی‘ جس میں ذاتی تجربہ بصورت دشتِ وفا میں صرف ناکامی کی فن کارانہ عکاسی کرتا ہے جبکہ دوسرا شعر فنی اور موضوعاتی سطح پر زندگی کے آلام سے پیدا شدہ مایوسی کی غمازی کرتا ہے۔پہلا شعر شاعر کی ذہنی اختراع تک مقید ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ہوبھی سکتا ہے اور نہیں بھی‘ تاہم دوسرا شعرسماجی تجربے کی بنیاد پر کئی لوگوں کی زندگی کا ترجمان بن جاتا ہے۔کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں‘لیکن یہاں پر ادب اور زندگی کے تعلق سے شمس الرحمن فاروقی صاحب کے نظریہ تک ہی بات رکھنامطلوب ہے تو انہوں نے اس موضوع پر کھل کر بات کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
”جس لمحہ ہم ادب کے شارحین کی نگاہ بچا کر ادب کی تخلیق کرنے والوں اور ان کے ادب کو دیکھتے ہیں تو ایک بہت بڑی بنیادی حقیقت سے روشناس ہوتے ہیں کہ ادب کا موضوع کل زندگی نہیں ہے بلکہ زندگی کا ایک ننھا سا ٹکڑا ہے جس کو ادیب اپنی شخصیت کی رنگا رنگی‘مزاج کی بلندی اور تخیل کی تیزی سے ایک نئی زندگی اور ایک نیا حسن بخش دیتا ہے۔ضروری نہیں یہ زندگی انفرادی ہو یا اجتماعی‘خیالی ہو یا واقعی‘بس اسے زندہ اور متحرک ہوناچاہئے۔نہ زندگی کا ہر پہلو ادب ہوتا ہے اور نہ ادب کا ہر پہلو زندگی۔“
(کتاب:لفظ ومعنی‘ص ۱۱)
تنقید میں تجزیاتی طریقہ کار بڑا کارآمد ہوتاہے اور اس کے توسطہ سے کسی بھی فن پارے کا متنی‘بین المتنی‘ فکری وفنی اور تقابلی مطالعہ پیش کرنا موثر رہتا ہے۔متن کی خارجی ہیئت یعنی الفاظ اور فارم اور داخلی ہیئت یعنی ظاہر ی اور داخلی معنی کے مابین امتیاز کرنا اور غور وفکر کے بعد اس کی توضیح کرنا کوئی آسان کام نہیں ہوتاہے۔ اس کام میں شمس ارحمن فاروقی کی تنقیدی بصیرت اتنی محظوظ کرتی ہے کہ متن پڑھنے کے بعد اس کا تجزیہ متن کے دوبارہ پڑھنے کا لطف دوبالا کرتا ہے۔اس کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں تاہم مضمون کی طوالت کے پیش نظر صرف شہر یار کی نظم”ایک منظر“ کے تجزیاتی مطالعہ پر اکتفا کریں گے۔ یہ کتاب”لفظ ومعنی“ کے صفحہ ۸۱۱۔۷۷۱ میں موجود ہے:
نیند کی سوئی ہوئی خاموش گلیوں کو جگاتے
گنگناتے
مشعلیں پلکوں پہ اشکوں کی سجائے
چند سائے
پھر رہے تھے
رات جب ہم خواب کی دنیا سے واپس آرہے تھے
نظم کا عنوان ہمیں بنیادی ہیئت کو سمجھنے میں بظاہرکوئی مددنہیں دیتایا صرف اس حد تک ہماری مدد کرتا ہےکہ شاعر اپنے تجربہ کی توضیح یا تسمیہ نہیں کرسکتا۔لیکن منظر قابل غور ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ شاعر نظم میں کسی لمحاتی واقعہ یا جامد صورت حال کو بیان کرنا چاہتا ہے۔اور وہ اس کے لئے اس قدر حقیقی ہے کہ وہ اسے ’منظر‘ یعنی دیکھی ہوئی چیز سمجھتا ہے۔پہلے مصرعے میں ’نیند‘ کے ساتھ’سوئی ہوئی‘اور پھر ’خاموش‘کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔اس طرح نظم کا ماحول فوراََ متعین ہوجاتا ہے‘جو سکوت اور خواب کا ہے۔ اس ماحول کو’گلیوں‘ کے لفظ سے تقویت ملتی ہے۔کیونکہ گلیاں خوابوں کی طرح نیم روشن‘ نیم تاریک الجھانے والی یا الجھی ہوئی ہوتی ہیں۔گلیوں کا لفظ ’کوچوں‘کا ہم معنی اور ہم وزن ہے۔لیکن ’کوچوں‘کے ساتھ حرکت ہماہمی اور کوچہئ یار کا جو تصور ہے وہ ’گلیوں‘ میں نہیں ملتا۔گلی کے سکوت‘کم آبادی اورنیم روشنی کا تصور بندھا ہوا ہے۔’گنگناتے‘کا لفظ اپنی اہمیت فوراََ واضح نہیں کرتا۔شاید اس کا فاعل’ہم‘ہے جو آخری مصرعے میں آتا ہے۔یا اس کا فاعل ’چند سائے‘ہے جو پلکوں پر اشکوں کی مشعلیں جگائے ہوئے پھر رہے تھے۔مشعلیں گلی کی تاریکی کو مستحکم کرتی ہیں اور تیسرے مصرعے کا’سجائے‘ پہلے مصرعے کے’جگائے‘کو متوازن کررہا ہے۔’سائے‘کالفظ’مشعلوں‘اور تاریک گلیوں اور خاموشی کی فضا کو مستحکم کرتاہے۔ممکن ہے کہ سائے جو پلکوں پر آنسو روشن کئے ہوئے پھر رہے تھے وہ گنگنا بھی رہے ہوں اور اس طرح بہ یک وقت اپنی عالی ظرفی اور دردمندی کا ثبوت دے رہے ہوں لیکن ”پھر رہے تھے“ کا مصرع ”سایوں“ کو دو طرح سے واضح کرتا ہے۔ایک تو یہ کہ”پھررہے تھے“ ایک بے مقصد اور بے معنی عمل ہے جو سایوں مصرع ’سایوں‘ کی شکستہ دلی اور بے چارگی کا اظہار کرتاہے۔‘اور دوسرے یہ کہ جو سائے محض پھررہے ہوں یعنی کوئی باقاعدہ بامقصد عمل نہ کررہے ہوں‘ان کا گنگنانا قرین قیاس نہیں۔ لہذا”گنگنانے“ کا فاعل”ہم“ ہے۔جواچانک نیند سے بیدار ہوا ہے‘گنگنانے کا عمل خاموش ہے کیوں کہ ”’نیند کی خاموش گلیوں“ کو جگاتے وقت انسان ایک No man's landمیں ہوتا ہے جس کی تشریح خود ”سایوں“نے کردی ہے۔نظم کا متکلم اپنے ذہن یاروح میں کوئی پرحسرت نغمہ لے کر بیدار ہوا۔(پرمسرت اس لئے کہ وہ”خواب کی دنیا“ سے بیدار ہورہا تھا۔خواب کی دنیا وہ تنگ نیم روشن گلیاں نہیں ہیں‘جہاں سایوں کاراج ہو‘لفظ دنیا خوابوں کی رنگانگی”اور واپس آرہے تھے“ایک ارادی عمل کو ظاہر کرتا ہے‘اور ارادی عمل تکلیف دہ نہیں ہوسکتا۔)لیکن جب وہ بیدار ہوا تو اسے چند سائے پھرتے ہوئے نظر آئے جن کی آنکھیں آنسوؤں سے ترتھیں۔نظم کی ہیئت خواب سے حقیقت کی طرف تلخ سفر اور حقیقت کی دنیا میں متکلم (یا انسان)کی بے چارگی اور دردمندی پر مبنی ہے۔ اور اس ہیئت کا حل خواب کی دنیا سے واپسی ہے‘کیونکہ خواب سے حقیقت کی طرف گذران ناگزیر ہے۔ حقیقت کی تلخی اور کرب انگیزی شاعر کے لئے ایک سچا اور دائمی تجربہ ہے کیونکہ اس نے اسے ”ایک منظر“ کا نام دیا ہے۔ نظم کے اصلی معنی خوابوں کی شکست اور ان کی بے چارگی ہے۔۔۔“