شمس الرحمان فاروقی اور گوپی چند نارنگ؛ ایک زمانے سے ان دونوں شخصیات کے درمیان موازنہ ہوتا رہا ہے اور میں حیران ہوتا رہا ہوں کہ ان دونوں قابل احترام ہستیوں میں قدر مشترک کیا ہے؟
شمس الرحمان فاروقی کے علمی وادبی کارنامے تو اظہر من الشمس ہیں ـ انہوں نے مختلف اصناف اور میدان میں قابل قدر اثاثے چھوڑے ہیں ـ تنقید، تحقیق، تخلیق اور لسانیات وغیرہ میں انہوں نے اپنی منفرد اور ناقابل تقلید شناخت قائم کی ہے ـ وہ ایک ادبی تحریک کے بانی اور مبلغ رہے اور اپنے رسالے “شب خون ” کے ذریعے نئی نسل کے قلم کاروں کی آبیاری کی ـ ان سے اپنے نظریات کے مطابق لکھوایا اور اکثر اوقات ان کی تخلیقات میں ترمیم و تحریف کرکے اپنے رسالے میں شائع کیا بلکہ کبھی کبھی تو پوری تخلیق ہی بدل ڈالی ـ کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اردو افسانے کو سخت نقصان پہنچایا، ممکن ہے ـ لیکن ان کی علامت و استعارے کی تھیوری سے شاعری بےحد مستفیض ہوئی ـ انہوں نے خود بری شاعری کی لیکن ان کی شعری پرکھ اور تنقیدی بصیرت کو کوئی چیلنج نہیں کرسکتا ـ شاعری پر تحقیقی و تنقیدی لحاظ سے ان پر کسی کو برتری تو دور ہم سری بھی حاصل نہیں ـ تخلیق میں ان کے ناول “کئی چاند تھے سر آسماں ” کو جو مقام و مرتبہ حاصل ہے وہ کوئی خواب میں بھی نہیں سوچ سکتا ـ ان کی ہمہ جہت علمی و ادبی شخصیت کا بہ نظرغائر مطالعہ و مشاہدہ کرنے کے بعد آشکار ہوتا ہے کہ ان کے بغل میں تو کیا ان کے قریب بھی کوئی دوسرا موجود نہیں ـ ایسی حالت میں جب بیشتر لوگ ان کے ساتھ ایک ہی صف میں گوپی چند نارنگ کو کھڑا کر دیتے ہیں تو سخت حیرانی ہوتی ہے ـ اس میں کوئی شک نہیں کہ گوپی چند نارنگ اعلیٰ عہدوں پر فائز ایک بےحد شہرت یافتہ اور فعال شخصیت رہے ہیں جن کی ذات سے بہت سارے ادباء و شعراء کو فیض پہنچا ـ ان کی انگلی پکڑکے اور ان کی مدح سرائی کرکے کتنے ہی لوگ سرکاری انعامات لے اڑے تو کتنے ہی لوگوں نے سرکاری ملازمت حاصل کرلی اور علم و ادب کے نام پر خوشگوار زندگی گزارنے لگے ـ تلاش بسیار کے باوجود مجھے تو گوپی چند نارنگ کا کوئی ایسا علمی و ادبی کارنامہ نظر نہیں آتا جس کے دم پر انہیں شمس الرحمان فاروقی کا ہمسر قرار دیا جا سکے-
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...