اور جب میں پا بہ رکاب ہونے لگوں تو جدائی کا کوئی غم نہ ہو !
-الفریڈ لارڈ ٹینی سن
’’یہ میری آخری بیماری ہے‘‘۔ابا نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔وہ شیوالک ،مالویہ نگر(دہلی) کی ہومیو پیتھ ڈاکٹر نندنی شرما سے مخاطب تھے،جو ہم سب سے مانوس ومعتمد تھیں۔اس شام ہم ابا کو ان کی خواہش پر وہاں لے گئے تھے،وہ چاہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحبہ سے ویڈیو کال کی بجاے براہِ راست ملاقات کی جائے اور کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد فورٹس اسکورٹ ہسپتال میں زیرِ علاج رہنے کے دوران ان کی آنکھ کے آس پاس ہونے والے فنگل انفیکشن کے ٹھیک ہونے کے امکانات کے بارے میں دریافت کیا جائے۔ ہم میں سے کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ان کی وفات اور نہایت اطمینان و تیاری کے ساتھ ’’اپنے پائلٹ(خدا) سے بالمشافہہ ملاقات‘‘ سے چند دن پہلے کا واقعہ ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر نندنی نے انھیں یقین دہانی کروائی کہ ابھی تو وہ بہت دن زندہ رہیں گے اور مزید کارنامے انجام دیں گے،انھیں یقین تھا کہ ان کی دوائیں اس انفیکشن کو ٹھیک کر دیں گی۔ یہ بات چیت ان کی راہ داری میں ہوئی تھی؛ کیوں کہ ہسپتال سے واپسی کے بعد ابا چلنے کی پوزیشن میں نہیں تھے،اس وجہ سے یہ طے کیا گیا تھا کہ ان کی کلینک میں جانے کی بجاے کار کے پاس ہی وہیل چیئر پر بیٹھے رہیں گے اور ڈاکٹر صاحبہ ان کا چیک اپ کریں گی۔ ہم لوگ تو ڈاکٹر نندنی کے یہاں سے مطمئن اور خوش ہوکر لوٹے،مگر اس بار ڈاکٹر نندنی سے زیادہ ابا کو اپنے بارے میں معلوم تھا۔انھیں جو بھی کہاجاتا اس کا پوری خوش دلی سے جواب دیتے؛چنانچہ وہ ہمارے لطیفوں پر اپنی کمزور آواز میں ہنستے اور میں یا میری بہن یا میری بیٹی جب بھی ان کے کمرے میں داخل ہوتی تو وہ گلے لگانے کے لیے اپنا ہاتھ یا بانہیں پھیلادیتے۔ اگر وہ برقی بستر پر تکیوں سے ٹیک لگائے بیٹھے ہوتے(ہم نے راحت رسانی کے لیے ان کے آس پاس آدھا درجن تکیے رکھ دیے تھے) تو میرے ہاتھ کو بوسہ دیتے اور نرمی سے میرا سر سہلاتے۔ آخری دنوں میں،خصوصا جب وہ ہسپتال سے بذریعہ موبائل صوتی پیغام بھیجنے لگے تھے،تو اکثر اپنی شفقت و محبت کا اظہار کرتے۔ ویسے ہمیں ان کی شفقت و محبت کے بارے میں کبھی کوئی اندیشہ نہیں رہا ؛کیوں کہ ابا اظہارِ جذبات و احساسات کے معاملے میں بڑے فیاض تھے۔ وہ ایک بے تکلف انسان تھے،انھوں نے مجھے سکھایا کہ اگر کبھی میرے والدین کچھ دیں یا گھر کے خدام یا دوست کوئی کام کردیں یا کسی قسم کی مدد کردیں تو ہمیں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔ آفس سے واپسی پر سلام نہ کرنے یا خوشگوار انداز میں گھر میں استقبال نہ کرنے پرایک بار میں نے انھیں والدہ کی تنبیہ کرتے ہوئے سنا تھا۔ وہ ہمیشہ شگفتہ چہرے کے ساتھ ، ہنستے مسکراتے ہوئے آفس سے گھر لوٹتے اور گھر کے لوگوں سے بھی یہی توقع رکھتے کہ وہ آنے والے کا پرتپاک استقبال کریں۔ ہم میں سے کوئی جب بھی ان کے کمرے میں داخل ہوتا تو وہ حد درجہ مسرت آمیز لہجے میں کہتے’’آئیے آئیے‘‘۔ وہ مجھے کبھی کبھی ’’مزاحیہ چہرے والی ‘‘ کہا کرتے تھے،ان کی یہ بات مجھے بہت اچھی نہیں لگتی تھی ،مگر ایسا ظاہر کرتی تھی کہ میرے اندر حسِ مزاح پائی جاتی ہے اور میں معمولی باتوں پر بددل نہیں ہوتی۔ آخر کار ایک دن میں نے ان سے پوچھ ہی لیا ’’آپ مجھے مزاحیہ چہرے والی کیوں کہتے ہیں؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا کہ مضحکہ خیز یا مزاحیہ چہرے والا ایسے انسان کو بھی کہاجاتا ہے جو خود بھی ہشاش بشاش اور مسرور رہتا ہے اور جس سے مل کر دوسرے لوگ بھی خوش ہوتے ہیں۔ ایک بار تو میں نے انھیں اپنے سوالات کے کالمز بھرنے پر مجبور کردیا تھا،جن میں اس قسم کے سوالات تھے کہ آپ کا بہترین دوست کون ہے؟ آپ کا پسندیدہ رنگ کونسا ہے؟آپ کن چیزوں سے ڈرتے ہیں؟ وغیرہ(ان دنوں میری اسکول کی ہمجولیوں کا پسندیدہ شغل یہی ہوتا تھا کہ اپنے آٹوگراف بک میں بے وجہ لوگوں سے آٹو گراف لو اور ان سے اسی قسم کے سوالیہ کالمز پر کرواؤ ،جو عموماً رجسٹر کے دوصفحات پر مشتمل ہوتے تھے) مجھے اس دن کے ان کے سارے جوابات یاد ہیں،مگر میں صرف چند ایک کے بارے میں بات کروں گی۔ میں نے ایک سوال کیا کہ ’’اگر آپ کے پاس جادو کی چھڑی ہو تو مجھے کیا بنانا چاہیں گے؟‘‘تو انھوں نے جواب دیا’’ملکۂ سبا‘‘۔ میں فوراً سمجھ گئی کہ یہ کوئی عظیم ،منور اُلوہی ہستی وغیرہ ہوگی،اس وقت مجھے فی الحقیقت ملکۂ سبا کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اس سوال کے جواب میں کہ’’آپ کو کس چیز سے ڈر لگتا ہے؟‘‘انھوں نے جواب دیا’’کن کھجورے‘‘۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ بھی دوسرے انسانوں کی طرح ہی ایک انسان ہیں اور ان کے اندر بھی عام انسانی کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔
میری تحریر طویل ہوگئی۔میں ان کی بیماری اور آخری دنوں میں ان کے طرزِ عمل کے بارے میں بات کررہی تھی۔اپنا ہاتھ باہر نکال کر مجھے اپنے پاس بٹھاتے ہوئے ایک دن انھوں نے مجھ سے کہا کہ ان کا آخری وقت قریب آگیا ہے اور اب انھیں رخصت ہونے کی اجازت دی جائے۔ ہم انھیں بچانے کی جو جی توڑ کوشش کررہے تھے، وہ بے فائدہ تھی اور اب وہ اس دنیا سے رختِ سفر باندھنے کو آمادہ تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انھیں ان کے وسیع و عریض مکان میں پہنچا دیا جائے، جہاں ان کا پیارا پالتو کتا ’’بھولی‘‘ اور دوسرے لوگ تھے اور وہ زندگی کی آخری سانس لینے سے پہلے اپنی کھڑکی سے پرندوں کی چہچہاہٹ سننا چاہتے تھے۔ایک رات جبکہ ابھی ان پر کمزوری کی وجہ سے بے ہوشی طاری نہیں ہوئی تھی،میں ان کے پاس بیٹھی انھیں مختلف لوگوں کی طرف سے موصول ہونے والے واٹس ایپ میسجز اور صوتی پیغام سنا رہی تھی۔ وہ روزانہ ایک دو صوتی پیغام یا ای میل کا جواب دیا کرتے۔ صوتی پیغام تو خود بول کر بھجوایا کرتے اور تحریری میسج یا ای میل املا کرواتے۔ ایک دن انھوں نے مجھ سے سی ایم نعیم صاحب(پروفیسر ایمریٹس شکاگو یونیورسٹی) اور فرانسس پریچٹ(پروفیسر ایمریٹس کولمبیا یونیورسٹی) کوای میل لکھوایا، انھیں اپنی صحت سے متعلق خبر دینا چاہتے تھے۔ ایک وائس نوٹ انھوں نے امین اختر(ہمارے ایک رشتے دار جو سالوں سے ان کے لائبریری؍آفس اسسٹنٹ تھے اور مختلف قسم کے خانگی معاملات بھی ان سےمتعلق تھے) کو مقامی قبرستان کے تعلق سے بھجوایا،اس قبرستان کی تعمیرِ نو ریٹائرمنٹ اور الہ آباد واپسی کے بعد ابا کی کوششوں سے ہی ہوئی تھی۔انھوں نے امین اختر سے کہا کہ میری والدہ کی قبر پر جائیں اور انھیں ان کا سلام پیش کریں۔ یہ بھی دیکھ لیں کہ کیا ان کی قبر کے سامنے مجھے جگہ مل سکتی ہے؟ساتھ ہی انھیں یہ بھی یاد دلایا کہ اگر کوئی معترض ہوا، تو اس صورت میں دوسری پسند کے طورپر انھوں نے اپنے لیے قبرستان کے ایک دوسرے گوشے کا انتخاب کر رکھا ہے۔ امین اختر نے اگلے دن غمزدہ لہجے میں جواب دیا کہ انھوں نے ان کے حکم کی تعمیل کردی ہے،ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ ان کی اہلیہ کی قبر کے سامنے ان کی تدفین پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اپنی قبر پر لکھی جانے والی آیت وہ کئی سال قبل ہی امین اختر کو لکھ کر دے چکے تھے۔ اس ساری گفتگو کو سنتے ہوئے میرا دل ڈوب رہا تھا،مگر مجھے معلوم تھا کہ یہ سب ہونا ہے ،اس سے پہلے ہی ہر کام مکمل ہوجانا چاہیے کیوں کہ جب دمِ واپسیں آئے گا،تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ مجھے تو حیرت تھی کہ فاروقی(عام طورپر وہ اپنا نام ایسے ہی لیا کرتے تھے؛بلکہ کبھی کبھی تو خود کو’’سالا فاروقی‘‘ یا ’’فراڈی‘‘بھی کہا کرتے تھے) نے کس صبر و تحمل کے ساتھ اپنی بیماری کو جھیلا۔ اس حالت میں بھی وہ ہم لوگوں کے تئیں نہایت مہربان اور متحمل تھے، ہم جب بھی ان سے کچھ کھانے یا پینے کی گزارش کرتے تو نہ چاہتے ہوئے بھی وہ ہماری بات مان لیتے۔
جب بھی ہم ان کے ساتھ الہ آباد جانے کا منصوبہ بناتے اور سفر کے لیے میں یا میری ہمشیرہ ہفتہ یا دوہفتے بعد کی کوئی تاریخ بتاتی،تو وہ تحمل کے ساتھ اثبات میں اپنا سر ہلاتے اور ہماری رائے سے اتفاق کرتے۔ جب امی کا انتقال ہوا تھا،تو ان کی متروکہ تمام پراپرٹی یا روپیہ بڑی احتیاط کے ساتھ انھوں نے یہ کہتے ہوئے ہمارے مابین تقسیم کردیا کہ یہ ساری چیزیں تم دونوں کی ہیں؛کیوں کہ وہ تمھاری ماں تھی۔ ہمارا خیال رکھنے یا تحائف سے نوازنے یا وسیع و عریض مکان کے تحفظ اور دیکھ بھال کے معاملوں میں ان کا رویہ ایک پرفیکٹ باپ کا ہوتا تھا۔ انھوں نے کبھی بھی ہم لوگوں پر کسی قسم کا مالی بوجھ نہیں ڈالا، چاہے امی کی متروکہ پراپرٹی کے ٹیکس کی ادائیگی ہو یا دوسرے فلاحی کام جو وہ اپنے آبائی وطن میں کیا کرتی تھیں۔ وہ تمام انسانوں کے تئیں فطری طورپر بڑے بے لوث اور فیاض طبیعت واقع ہوئے تھے،انھوں نے ایک بار مجھ سے کہا تھا کہ انھوں نے پوری زندگی(خصوصاً سول سروس کی ملازمت کا دَور) اس مقصد کے ساتھ بسر کی ہے کہ ضرورت مند انسانوں کی مدد کریں۔ میں نے ان کے جیساانسان اپنی زندگی میں اب تک نہ دیکھا اور نہ ایسی امید ہے،جو نیک دل ہونے کے ساتھ قابل ترین اور صدی کے عظیم ترین ادبی اَذہان میں سے ایک تھا۔ ابا کو نئی چیزوں کی دریافت و اکتشاف کا شوق تھا اور بچوں کی خواہش کے احترام میں وہ بھی نئے نئے اسفار اور تجربوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ ہم انھیں ہر نیا لطیفہ سناتے،کوئی نئی مشین یا الیکٹرانک سامان آتا تو وہ اس کے بارے میں جاننے کے مشتاق ہوتے،کسی دلچسپ سفر کا پلان بنتا تو وہ بھی اس کا حصہ بننا چاہتے۔ فی الحقیقت میری اور میری بیٹیوں کی زندگی کے زیادہ تر خوب صورت اسفار کی پلاننگ یا تو خود انھوں نے کی یا انہی کے لیے کی گئی ۔ پچھلے موسمِ سرما میں ہی ہم لوگ ایک ساتھ کوچی گئے تھے کہ کیرالہ کے دوردراز علاقوں کی سیر کریں اور شمالی ہندوستان کی سخت سردی سے بچنے کے لیے کچھ عرصہ وہاں گزاریں۔ عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ سردی سے گھبرانے لگے تھے؛کیوں کہ اس موسم میں انھیں اپنے کمرے میں بند رہنا پڑتا تھا اور ان کے مطالعے کے اوقات بھی کم ہوجاتے تھے۔ موسمِ سرما میں ان کے کمرے،دارالمطالعہ حتی کہ باتھ روم کو بھی گرم رکھنے کا اہتمام کیا جاتا تھا،مگر پھر بھی انھیں سردی لگتی تھی کیوں کہ وہ اِنر یا موٹے،بھاری بھرکم گرم کپڑے نہیں پہنتے تھے۔
نئے مقامات کے سفر اور قدرتی حسن و جمال و تاریخی اہمیت کی حامل جگہوں میں دلچسپی کے ساتھ انھیں اچھے کپڑوں اور کھانوں کا بھی شوق تھا(کھاتے تو کم تھے،البتہ ان کی خواہش ہوتی تھی کہ دسترخوان پر کھانے کی مقدار زیادہ ہو)۔ ویسے عام سماجی تصور کے مطابق ان کے ذہن میں بھی یہ چھوٹی سی چیز گھر کیے ہوئی تھی کہ فلاں فلاں پکوان ’’مردانہ‘‘ ہیں اور فلاں چیزیں صرف خواتین ہی کھاتی ہیں،اس کا نتیجہ تھا کہ میں نے انھیں کبھی تھوڑی سی بھی کھٹی چیز کھاتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ کسی بھی قسم کے اچار،چٹنی یا چاٹ وغیرہ کو سخت ناپسند کرتے تھے۔ حتی کہ قدرے ناپسندیدہ بو والی سبزیوں پر بھی ہمارے گھر میں پابندی تھی، گھر میں بنائے جانے والے سرکے یا بالائی سے نکالے جانے والے گھی کے بارے میں بات تک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔گھر کے صحن میں ایک بار مولی کا اچار نظر آگیا تو انھوں نے والدہ کو ڈانٹ پلادی،ان کے نزدیک یہ اچار مولی کی سبزی سے بھی زیادہ ناپسندیدہ تھا۔ دوسری بیویوں کی طرح میری والدہ بھی اس قسم کی چیزیں گھر میں چھپاکر رکھتی تھیں اور جب وہ آفس میں ہوتے اس دوران کھایا کرتیں۔
ابا کو جانوروں سے بھی بہت محبت تھی۔ بچپن میں ہمارے آس پاس جانوروں کا وجود سانس لینے جیسا طبعی تھا یہی وجہ ہے کہ ہمارے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آیا کہ دنیا کی نگاہوں میں ہم لوگ ’’حیوان دوستی‘‘ کے مروّجہ معیار پر کھرے اترتے ہیں۔ ہمیشہ ہمارے آس پاس کتے ، بلی ، کچھوے، چڑیا، مور کے بچے یا بڑے مور ، کبوتر ، تیتر ، بٹیر ،گوریا اور دوسرے چہچہانے والے پرندے رہے۔ ابا اکثر اپنے پالتو جانوروں کو کھانے پینے کی چیزیں بھجواتے(میں نے بھجوانے کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ ہمارا گھر واقعی بہت وسیع و عریض تھا اور چیزیں باقاعدہ ایک جگہ سے دوسری جگہ بھجوانی پڑتی تھیں) ساتھ ہی لے جانے والے شخص سے کہتے کہ انھیں میرا سلام کہنا اور کہنا کہ فاروقی صاحب نے بھجوایا ہے۔ ہمیں اچھی طرح معلوم ہوگیا تھا کہ کن پرندوں کو سدھاکر رکھا جاسکتا ہے اور کن کو پنجرے میں بند کرکے رکھنا ہے۔ ان کے پاس جانوروں اور پرندوں کے بارے میں کافی ٹیبل ٹائپ کی کتابوں کا بھی مجموعہ تھا،میرے بچپن کے کچھ دلچسپ اوقات ان کتابوں کو الٹتے پلٹتے بھی گزرے ہیں۔ سمندری مخلوقات مثلاً اسٹار فش،آکٹوپس اور ڈولفن نے مجھے بے حد مسحور کیا اور مجھے بڑے بڑے سمندروں کی تصویریں بہت اچھی لگتی تھیں۔ میری خواہش تھی کہ کسی ساحلی شہر کا سفر کروں مگر اس کی تکمیل میں اس وجہ سے تاخیر ہوتی رہی کہ اس قسم کے شہر مثلاً ممبئی یا کولکاتا میرے والدین پہلے ہی کئی بار جا چکے تھے اور ان کی زیادہ تر توجہ پہاڑی علاقوں یا جانوروں اور پرندوں والے مقامات پر ہوتی تھی۔
ابا کی عادت تھی کہ وہ صبح کے وقت تین چار بیڈ ٹی کے ساتھ میوزیکل ریکارڈز،غزلیں یا کلاسکل راگ سنا کرتے۔ خوب صورت ٹی پاٹ میں بنائی جانے والی چائے قدرے تلخ ہوتی ،ابا اخبار پڑھتے رہتے اور اس دوران چائے دھیرے دھیرے ٹھنڈی ہوجاتی۔ ناشتے کے لیے تیار ہونے تک غزل یا راگ سننے کا سلسلہ جاری رہتا۔ آہستہ آہستہ میرے اندر بھی فریدہ خانم،اقبال بانو،مہدی حسن،کشوری آمونکر اور دیگر فنکار مثلاً ہری پرساد چورسیا،استاد بسم اللہ خان وغیرہ کو سننے کا ذوق نموپذیر ہوگیا۔ میں اور میری بہن بالکل نوعمری سے ہی اپنے والدین کے ساتھ پابندی سے مشاعروں اور سمیناروں میں بھی شریک ہوتی رہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ میں بڑی ہوتی گئی اور بچپن میں مجھے اردو کے کئی بڑے ادیبوں،شاعروں اور تخلیق کاروں کی گود میں بیٹھنے کا موقع ملا۔ خصوصاً نیر چچا(نیر مسعود)،شمیم چچا(شمیم حنفی)،شہریارچچا اور بلراج انکل سے میں بہت مانوس ہوگئی تھی۔ تنقید نگار اور شاعر خلیل الرحمن اعظمی ایک ایسے شخص تھے، جن کے بارے میں مجھے زیادہ یاد نہیں، مگر اتنا یاد ہے کہ ابا کو ان کے انتقال کا بہت رنج ہوا تھا اور وہ بار بار اس کا اظہار کرتے تھے، جس پر انھیں امی کی جھڑکیاں بھی سننی پڑی تھیں۔
ابا ایک جادوگر تھے، جنھوں نے ہمیں دنیا کے بہت سے عجائب سے متعارف کروایا،زندگی اور معاملاتِ زندگی کے بارے میں ہر بات سکھائی اور مجھے اپنی غیر معمولی شخصیت کی اسیر بنالیا۔ میں ان کے علم،ان کی سنجیدگی ووقار،خود اعتمادی اور جس طرح کندھوں کے بل اطمینان سے بیٹھ کر پیارے انداز میں وہ باتیں کرتے تھے اس سے متحیر رہتی تھی۔ان کی زندگی نرمی و گرمی کا نمونہ تھی۔ایک بار ہم اپنے معمول کے مطابق موسم گرما کی چھٹیاں گزارنے یوپی و ہماچل پردیش کی سیاحت کے لیے نکلے،اس دوران ایک ایسا حادثہ ہوا کہ باقی کی پوری زندگی ایسے حادثے سے سابقہ نہیں پڑا ۔ سڑک جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی اور بند تھی تو ابا نے فیصلہ کیا کہ دوسرے راستے سے چلنا چاہیے جو مین روڈ کی نچلی طرف، کھیت کے کنارے سے نکلتا تھا ۔ اس راستے میں پانی بھرا ہوا تھا، مگر انھیں اندازہ تھا کہ ہماری ایمبیسڈر کار آسانی سے اسے عبور کرلے گی؛لیکن بدقسمتی سے ہماری گاڑی کیچڑ میں پھنس گئی اور اس میں تیزی سے پانی گھسنے لگا،ایسا لگ رہا تھا کہ کار پانی میں تیر رہی ہے،میں مارے گھبراہٹ کے چلانے لگی’’ہم ڈوب جائیں گے،ہم ڈوب جائیں گے‘‘۔ اس کے جواب میں مجھے ابا سے نہایت سخت اور غیر متوقع ڈانٹ سننی پڑی،انھوں نے کہا’’ابے تو اپنے لیے رو رہی ہے صرف!اور باقی تیرے ماں باپ اور بہن؟‘‘۔ ان کی ڈانٹ سن کر میں باقاعدہ رونے لگی اور حیرت سے انھیں دیکھے جارہی تھی۔ اس دن مجھے انھوں نے ایک سبق دیا جو مجھے آج تک یاد ہے، بے لوثی اور صبر و تحمل۔ان کی شخصیت ہم سب لوگوں سے نہایت قریب،ہم سب کی رفیق،ہم سب میں گھلی ملی،نہایت ہی منفرد اور بے حد متاثر کن تھی۔ ابا! آپ جیسے لوگ روز روز نہیں پیدا ہوتے۔
میں اپنا مضمون شروع میں محولہ انگریزی نظم سے ہی ختم کرتی ہوں۔ ابا ہمیں کبھی کبھی اردو اور فارسی کے ساتھ انگریزی شاعری بھی پڑھایا کرتے تھے۔ ابا نے یہ نظم بہت سال پہلے مجھے سنائی تھی اور اس کی تشریح بھی کی تھی۔الفریڈ ٹینی سن کی نظم Crossing the Bar ان کی پسندیدہ ترین انگریزی نظموں میں سے ایک تھی۔ مجھے یاد ہے کہ اس نظم کو پڑھتے ہوئے ابا کی آواز اس کی تخلیقی عظمت اور فنی جمال میں کھوجاتی تھی:
For though’ from out our bourne of Time and Place
The flood may bear me far,
I hope to see my Pilot face to face
When I have crossed the bar.
موت مجھے زمان و مکان کی حدوں سے
دور لے جائے گی
جب میں تمام رکاوٹیں عبور کرلوں گا
تو مجھے امید ہے کہ اپنے پائلٹ(خدا) سے بالمشافہہ میری ملاقات ہوگی!
جب ابا آخری سانس لے رہے تھے تو شاید ان کے ذہن میں بھی یہی اشعار گونج رہے تھے۔ وہ اپنے تمام تر ہوش و حواس، ذہنی بیداری اور صبر و تحمل کے ساتھ اپنے آخری سفر کے لیے تیار تھے۔
(بشکریہ ’’ایوانِ اردو‘‘دہلی،مارچ ۲۰۲۱)
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...