انسان اپنے وجود کو امر کرنے کے لیے مختلف مراحل سے گزرتا رہا اور بنت کے ان مراحل کو کبھی پتوں پر کبھی درختوں کی چھال پر اور کبھی جانوروں کی کھال پر تحریر کرتا رہا۔ معلوم تاریخ کا آغاز کبھی ہبوط علیہ السلام سے ہوا اور کبھی طوفان نوح سے۔نار خلیل اور یوسف علیہ السلام کا وزیربننا بھی شمارِ تاریخ کا سبب بنا۔ موسیٰ علیہ السلام کا خروجِ مصر سے عیسٰی علیہ السلام کی صلیب تک کے واقعات کو مخلتف اقوام نے زندگی کے شب وروز کی گنتی کے لیے استعمال کیااہلِ عرب نے ”حربِ بسوس“سے تاریخ کی ابتدا کی اور علاقائی جنگوں سے واقعات کی ترتیب شمار کرتے رہے۔ عام الفیل کی اصطلاح بھی عام ہوئی یونانیوں اور رومیوں نے سکندر اعظم کی فتوحات سے تاریخ کی ابتدا۶ کاباضابطہ آغاز کیا جو آج تک تاریخ کی ابتدا تصور ہوتی ہے
عموماً تاریخ کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے
قرونِ اولٰی
جو ابتداۓ عالم سے سلطنت روما تک ہے
قرونِ وسطیٰ
جو سلطنت روما کے آخر زمانہ سے قسطنطنیہ کی فتح تک ہے
قرونِ آخر
قسطنطنیہ کی فتح سے تا حال
تاریخ کی چار اقسام بیان کی جاتی ہیں
تاریخ عام
جس میں ساری دنیا کا حال بیان کیا جائے
تاریخ خاص
جس میں خاص قوم،خاندان،علاقے کا بیان ہو
تاریخ روایتی
جس میں راوی کا بیان اس کے مشاہدے کی بنا پر درج ہو
تاریخ روایت
جس میں آثار قدیمہ و منقولہ اور عقلی تخمینوں کے ذریعہ ترتیب پائے
دنیا میں مختلف قسم کی تقاریم چلتی آرہی ہیں جو سورج ،چاند،ستاروں کے مطابق وجود پاتی ہیں۔ تین تقاریم بنیادی ہیں شمسی ،قمری،نجومی ان تقاریم کی بھی مزید اقسام ہیں
شمسی کیلنڈر
شمسی کیلنڈر کی تین اقسام ہیں
عیسوی
جسے انگریزی اور میلادی کہتے ہیں۔
بکرمی
جسے ہندی بھی کہا جاتا ہے
تاریخ فصل
ان کے علاوہ تاریخ رومی، تاریخ الہٰی
تاریخ عیسوی
حضرت عیسی ٰعلیہ السلام کی ولادت سے راٸج ہے ابتدا۶ جنوری اور انتہا دسمبر ہے
تاریخ ہندی
ہندی سال کو بسنت بھی کہتے ہیں دوسرا نام بکرمی ہے۔ چیت، بیسکھ، جیٹھ، اساڑھ، ساون، بھادوں، کنوار، کاتک، اگن، پوس، ماگھ، پھاگن
یہ سن ہجری سے تقربیاً637 سال پہلے اور سن عیسوی سے 57 سال پہلے سے گجرات کاٹھیاوار میں راٸج تھی۔
تاریخ فصلی
شمسی سال ہے جو اکبر بادشاہ کے زمانے میں مال گزاری اور دفتری انتظامات کے لیے وجود میں آئی
نجومی تقویم
نجومی تقویم جنری شاکھا کے نام سے مشہور ہیں۔ حمل،ثور، جوزا، سرطان، اسد، سنبلہ، میزان، عقرب، قوس، جدی، دلو، حوت
تاریخ قمری
تاریخ قمری کی ابتدا محرمالحرام سے ہوتی ہے۔سن شمسی تین سو پینسٹھ دن او ذبع یوم کا ہںتا ہے چار سال میں ایک دن کا اضافہ ہوکر چوتھے سال تین سو چھیاسٹھ دن کا سال ہو جاتا ہے قمری سن سے شمس سن میں دس دن اکیس گھنٹے زیادہ ہوتے ہیں
شمسی اور قمری کیلنڈر میں فرق
چاند کی شکل میں تبدیلی سے مہینہ کی تاریخ کا اندازہ ہو جاتا ہے چاند مکمل ہو تو چودھویں تاریخ کا تعین ہو جاتا ہے اور معمولی تدبر سے وقت کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ جبکہ سورج کو دیکھ کر اوقات کا تعیں مشکل ہے بغیرکس ساٸنسی آلے کے
۔قمری مہینوں کا کا ذکر قرآن پاک میں موجود ہے
اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے کیوں ہوا
ہجرت کے بعد مدینہ میں حضرت محمد ﷺ کی سر براہی میں مسلم ریاست کی بنیاد رکھی گئی اور اسلامی تقویم کا آغاز ہجرت کی تاریخ سے کیا۔ اس کے بعد مہینے کے بارے میں مشہور ہوا حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے رجب المرجب کی رائے دی کیونکہ یہ اول شہر الحرام ہے۔حضرت طلحہ نے رمضان المبارک جبکہ حضرت عثمان اور حضرت علی نے محرم الحرام کی رائے دی جسے حضرت عمر فاروقؓ نے پسند فرمایا۔
شمسی کیلنڈر اور قمری کیلنڈر دن اور رات کا حساب رکھنے کے لیے بنے اور دنیا اپنی سہولت کے مطابق انھیں استعمال کرتی ہے مگر ان کیلینڈروں کی تاریخ میں سودوزیاں کے جو قصے درج ہیں ان سے کھبی سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ تاریخ پڑھنے والے بتاتے ہیں کہ ارتقا۶ کاسفر انسان کو آگے لے کر جاتا ہے مگر کیا انسان میں بھی کچھ تبدیل ہوا یا سب کچھ ویساہی ہے جو پہلے انسان میں تھا کیا جدای، محبت، ھوک پیاس، گرمی، سردی میں انسان کے جزبات اپنے آباؤ اجداد سے مختلف ہیں سفاکی میں کم ہوا یا زیادہ، شکار کرنا ختم کر دیا یا نت نئے طریقے اختیار کر کے وسعت عطاکی۔
ماخذات
مولانا محمد صدیق ارکانی
اسلامی تقویم کا تقیقی جاٸزہ
جاموعہ فاروقیہ کراچی