پچھلے ہفتے ایک دفتری کام کے سلسلے میں میرا لاہور جانا ہوا۔ وہاں پر اپنی بے پناہ کاروباری مصروفیات کے باوجود میں نے پُهجے کے پائے اور مزنگ کی مچھلی سے لطف اندوز ہونے کا وقت بھی نکال لیا، بقول شخصے سب کچھ اس پاپی پیٹ کی خاطر ہی تو کیا جاتا ہے۔ ميانی صاحب کے شہرِ خموشاں میں بھی حاضری دی۔ اسی دوران وہاں پر علامہ تاجور نجیب آبادی اور ان کے جواں سال بیٹے کی قبر پر ہماری نظر پڑی تو دل مغموم سا ہو گیا۔ نئی نسل "علامہ صاحب" کے نام اور کام سے آشنا نہیں ہے۔ بلکہ اب تو یہ روایت چل پڑی ہے کہ ہم آہستہ آہستہ اپنے محسنوں کو فراموش کرتے جا رہے ہیں۔ اس لیے آج ہم اپنے پڑھنے والوں کو ان کے بارے میں بتائیں گے۔
نجیب آباد کے مولوی احسان اللہ خاں تاجور ماہرِ تعلیم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے اہم ادیب بھی تھے۔ "تاجور" آپ کا تخلص تھا۔
آپ دو مئی 1894 کو نینی تال میں پیدا ہوئے۔ آپ کا آبائی وطن نجیب آباد (یوپی) تھا۔ فارسی و عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ نے تقریباً نو سال دیو بند کے دارالعلوم میں بسر کیے اور وہاں سے علوم دینی میں فراغت تحصیل کی سند حاصل کی۔ یہ سند حاصل کر لینے کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ ان کا علم و فضل حصول معاش میں معاون ثابت نہ ہو گا۔ کسی مسجد میں پیش امام بننا، ختم درود پڑھنا اور جنازے کی نماز پڑھانا "مولوی تاجور" کے ذوق کو گوارا نہ تھا۔ سخت دینی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود آپ کے مزاج میں شاعرانہ پن کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور اکثر وبیشتر آپ اشعار بھی کہتے تھے۔ عام طور پر ہمارے یہاں یہ رجحان عام ہے کہ جس شخص کے ذہن میں شاعری کے جراثیم پرورش پا رہے ہوں تو اس کا علمائے دین کی صف میں کھڑے ہونا اور اپنی زندگی میں زہد و تقویٰ کا اہتمام کرنا بے حد دشوار ہو جاتا ہے۔ اس احساس کے تحت انہوں نے اصولی طور پر یہ فیصلہ کیا کہ پنجاب جا کر مشرقی امتحانات پاس کئے جائیں اور مدرسی کا پیشہ اختیار کیا جائے۔ چنانچہ سن 1915ء میں آپ لاہور پہنچ کر اورینٹیل کالج میں داخل ہو گئے اور پھر اپنی بقیہ پوری زندگی لاہور شہر میں ہی علم و ادب کی خدمت کرتے ہوئے گزار دی۔ ایک آزاد ذہن ہونے کی وجہ سے مولانا تاجور نے اپنی ابتدائی دیوبند کی دینی تعلیم سے نہ خود کوئی فائدہ اٹھایا اور نہ دوسروں کو پہنچایا۔ دراصل مذہبی معاملات کو انہوں نے اپنی ذات تک ہی محدود رکھا۔
لاہور میں رہ کر "منشی فاضل" کا امتحان پاس کر کے تاجور صاحب دیال سنگھ ہائی اسکول میں اورینٹیل ٹیچر بھرتی ہو گئے۔ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر لالا رگھوناتھ سہائے نہایت باوضع، غیر متعصب اور بلند اخلاق کے آدمی تھے۔ مولانا تاجور ان کی خوبیوں کے اس قدر معترف ہوئے کہ انہیں "فرشتہ" کہہ کر مخاطب کرتے تھے. یہ رگھوناتھ سہائے جیسے ہندوؤں کے حُسنِ سلوک کا نتیجہ تھا کہ مولانا تاجور کے مخلصانہ روابط زندگی بھر ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ وابستہ رہے۔ مسلمان اکابرین میں سے صرف دو، تین ہی سے مولانا کی رسم و راہ رہی۔ اسکول کی نوکری کے دوران ہی آپ نے رساله "مخزن" کی ایڈیٹری قبول کر لی تھی۔ اردو زبان میں خاصی دسترس ہونے کی وجہ سے آپ غزل بہت اچھی کہتے تھے۔ "مخزن" میں ایڈیٹری کے دنوں میں ہی جسٹس شاہ دین مرحوم نے انہیں یاد فرمایا۔ کیونکہ میاں بشیر احمد نے "ہمایوں" جاری کردیا تھا اور انہیں صرف ایک عام سے مدیر معاون ہی کی ضرورت نہ تھی بلکہ وہ ابتدائی عربی کی کتابیں بھی پڑھنا چاہتے تھے۔ یوں مولانا تاجور، میاں بشیر احمد صاحب کے رفیق کار بن گئے اور "ہمایوں" کو حُسنِ ترتیب کے ساتھ بلند معیار پر مرتب کرنا شروع کر دیا۔ سن 1925ء میں اردو مرکز کے نام سے تصنیف و تالیف کا ایک ادارہ بھی قائم کیا۔ پھر ’’ادبی دنیا‘‘ اور ’’شاہکار‘‘ جیسے اہم ادبی رسالے جاری کرنے کے علاوہ بچوں کا رسالہ "پریم" بھی جاری کیا۔
انہوں نے خضر وزارت کے زمانے میں حکومت پنجاب کے ہفت روزہ اخبار ’’ہمارا پنجاب‘‘ کی ادارت بھی کی تھی۔
تاجور صاحب کی یہ تمام علمی و ادبی مصروفیتیں اپنی مستقل ملازمت کے علاوہ تھیں۔ کچھ ہی عرصے میں دیال سنگھ ہائی اسکول میں بحیثیت استاد سے ترقی کر کے آپ دیال سنگھ کالج میں فارسی کے لکچرر مقرر ہو گئے تھے لیکن اس اہم عہدے پر فائز ہونے کے باوجود مختلف علمی و ادبی رسالوں کو مرتب کرنا اور پھر نوجوانوں کو نثر ونظم میں اصلاح دینا آپ کا دائمی مشغلہ رہا۔ آپ نے عمر بھر "فارسی" پڑھا کر معاشی طور پر خود کو مستحکم کیا اور ساتھ ساتھ اردو ادب و شعر کی خدمت میں بھی مصروف رہے۔
مولانا کی تصانیف صرف چند غزلوں، نظموں اور رسالوں تک محدود ہیں۔ اپنے شاگردوں کے علاوہ زبان و فن میں بھی ان کے تلامذہ کی تعداد کافی ہے۔ جن کی اکثریت ہندوؤں اور سکھوں پر مشتمل تھی۔ غرض آپ نے اپنی پوری زندگی شعر و ادب اور صحافت میں صرف کی۔ آپ کی ان ہی بےلوث علمی، ادبی و صحافتی خدمات کے عوض برطانوی ہند میں حکومتِ پنجاب نے انہیں "شمس العلماء" کا خطاب دیا تھا۔
عین بڑھاپے میں آپ کو اپنے دو جوان فرزندوں کے اچانک انتقال کا صدمہ برداشت کرنا پڑا، جس کا آپ کو بیحد رنج ہوا۔ اسی لیے آپ مستقل بیمار رہنے لگے تھے۔ جسم تو پہلے ہی ناتواں تھا اور پھر مختلف بیماریوں کے حملوں نے آپ کو بہت کمزور کر دیا تھا۔ آخرکار 29 جنوری سن 1951کو آپ اس جہانِ فانی سے ہمیشہ کے لیے کُوچ کر گئے۔ یہاں پر میں اس بات کی بھی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ ریختہ اور دوسری معتبر ویب سائٹس پر تاجوری صاحب کی وفات کا دن تیس جنوری لکھا ہوا ہے، تاریخی لحاظ سے ان کی وفات کا دن تیس جنوری نہیں ہے۔ میں خود ان کی مرقد پر حاضر ہوا ہوں اور وہاں کتبے پر 29 جنوری لکھا ہوا ہے۔
حشر میں پھر وہی نقشہ نظر آتا ہے مجھے
آج بھی وعدۂ فردا نظر آتا ہے مجھے
خلش عشق مٹے گی مرے دل سے جب تک
دل ہی مٹ جائے گا ایسا نظر آتا ہے مجھے
رونق چشم تماشا ہے مری بزم خیال
اس میں وہ انجمن آرا نظر آتا ہے مجھے
ان کا ملنا ہے نظر بندیٔ تدبیر اے دل
صاف تقدیر کا دھوکا نظر آتا ہے مجھے
تجھ سے میں کیا کہوں اے سوختۂ جلوۂ طُور
دل کے آئینے میں کیا کیا نظر آتا ہے مجھے
دل کے پردوں میں چھپایا ہے ترے عشق کا راز
خلوت دل میں بھی پردا نظر آتا ہے مجھے
عبرت آموز ہے بربادئ دل کا نقشہ
رنگ نیرگئ دنیا نظر آتا ہے مجھے!
“