ایک نجومی نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے . …
..فلکیات کو سِتاروں کا قانون بھی کہتے ہیں . شموئل احمد نجومی ہیں ، ماہر فلکیات ہیں یا جو بھی ہیں مگر ان کی شخصیت کے رنگ متاثر کرتے ہیں . ابھی حال میں رضا صدیقی کو دئے گئے ایک انٹرویو میں بھی وہ فکشن نگار اور ناول نگار سے زیادہ ماہر نجوم نظر آئے .مجھے یاد ہے ہندی کے مشہور ادیب راجندر یادو بھی ان سے دل کا حال معلوم کرتے رہتے تھے .علم نجوم قُدرتی علوم کی ایک ایسی مخصُوص شاخ ہےجہاں تجربہ اور مشاہدے کی قوت کا دخل زیادہ ہوتا ہے .کہتے ہیں سلطنتِ بابل کے فلکیات دانوں نے سب سے پہلے چاند گرہن کا پتہ لگایا تھا . سنگھار دان کہانی میں ، شموئل نے بھی سب سے پہلے یہ پتہ لگایا کہ فسادات میں رنڈیاں بھی لوٹی جاتی ہیں . آریستارخس ساموسی وہ پہلا یونانی فلکیات دان تھا جس نے تیسری صدی قبل مسیح میں زمین کے قطر کی پیمائش کی؛ سورج اور چاند کے فاصلوں کو دریافت کیا. شمول ندی میں اترے تو مرد عورت کے رشتوں کو نیے سرے سے دریافت کر گئے . شمس مرکزی نظریہ یوں پیش کیا کہ شمس کی حرکتوں سے بھی انسان لنگی پہنتا اور اتارتا ہے اور یہ فلسفہ اس قدر مقبول ہوا کہ نظام شمسی میں حرکت پیدا ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو مگر افسانوں کی دنیا میں انقلاب ضرور برپا ہوا . گلیلیو نے پہلی دوربین ایجاد کی۔ شمول انسانی رشتوں کو شناخت کرنے والی دوربین کے پیچھے پڑے ہیں . اٹھارویں اور انیسویں صدی کے دوران اویلر، کلیراٹ اور دالمبر جیسے علم نجوم سے واقفیت رکھنے والے یہ بھی غور کر رہے تھے کہ شمسی نظام انسانی جسم میں کس طرح کی تبدیلی پیدا کرتا ہے .. شمول کے نزدیک یہ جسم اس قدر پر اسرار ہے کہ ہر بار دیکھنے پرکھنے کا زاویہ نیا ہوتا ہے اور ہر بار نیی کہانی نکل کر سامنے آتی ہے .شموئل کو علم دست ِشناسی پر کامل دسترس حاصل ہے . اور کہانیوں پر بھی .وہ کہانیوں سے رقص کا کام لیتے ہیں . پہلے جملے سے ہی سماں باندھ دیتے ہیں . مارخیز نے کہا تھا ، ناول یا فکشن میں پہلا جملہ لکھنا سب سے مشکل کام ہے . ایک دفعہ مارخیز اپنی بیوی کے ساتھ لانگ ڈرائیو پر تھا کہ ناول کا پہلا جملہ اسکے ذہن میں آ گیا اور اس نے گاڑی گھر کی طرف موڑ لی .
بگولے، آدمی اور مین سوئچ، آخری سیڑھی کا مسافر، قصبہ کا المیہ، مرگھٹ،عنکبوت،ظہار، القمبوس کی گردن ،مصر کی ڈلی شموئل کی مشہور کہانیوں میں شامل ہیں . شموئل کی کہانیوں کے کچھ اقتباسات دیکھئے
”زندگی میں کبھی نتھ نہیں خریدی تھی……وہ بھی سونے کی ……زوجہ نتھ نہیں پہنتی تھی، وہ بلاق پہنتی تھی ناک کے بیچوں بیچ چاندی کی بلاق…… وہ خانقاہی تھی۔ بستر پر آتی تو دعائے مسنون پڑھتی اور مولانا نے محسوس کیا تھا کہ سکینہ میں جست ہے اور زوجہ ٹھس ہے
…
شوہر کو چاہیے کہ ایک غلام آزاد کرے یا دو ماہ مسلسل روزہ رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو دو وقت کھانا کھلائے
..
ولوی تاثیر علی نے غلیل سنبھالی۔ جموا کو اشارہ کیا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا مڑئی میں گھسا۔۔
’’ مولوی صاحب سے حلالہ کرا لے ۔۔۔۔وہ اوروں سے بہتر ہیں۔ ‘‘
لگائی کے سینے سے دلخراش چیخ نکلی۔ مڑئی میں اندھیرا چھا گیا۔ چنوا نے چاہا ہاتھ بڑھا کر لگائی کو تھام لے لیکن گدھ اندر گھسنے لگے۔ پروں کی پھڑپھڑاہٹ کے شور میں لگائی کی چیخ دب گئی۔
اندھیراگہرا گیا۔
چنوا کی مڑئی میں پھر روشنی نہیں ہوئی۔ اس کا دم گھٹ گیا۔ مڑئی قبر میں تبدیل ہو گئی۔
کہانیوں میں اس کی ڈگر مختلف ہے .وہ نام نہاد شرافت کا قائل نہیں . وہ معاشرے کی کینچلی اتارنے والا قصاب ہے اور اس نام سے اسے پرہیز بھی نہیں .وہ تحلیلِ نفسی کے نظریات کو سامنے رکھتا ہے اور آسانی سے اپنے کرداروں کا چہرہ پڑھ لیتا ہے .
وہ فرائیڈ کی نفسیات پر نہیں چلتا . جدید و روایت ، قدیم کے چکر میں نہیں الجھتا . اسکی بیشتر کہانیاں اچھے برے انسان کے پوسٹ مارٹم سے برآمد ہوتی ہیں .
شمول کا ایک ناول ہے ندی . عورت اور مرد کے مابین تعلق پر ایک دو نہیں ہزارہا کہانیاں قلمبند کی جاچکی ہیں، ہر دور میں ،ہرزبان میں، جنس کے رشتہ کے وسیع پس منظر میں کچھ نہ کچھ ہمیشہ لکھاجاتا رہا ہے۔ اورہربار جب اس رشتے کی کوئی نئی گرہ سامنے آتی ہے تو عقل حیران رہ جاتی ہے کہ یا خدا اس جسم میں کیسے کیسے راز دفن ہیں— کیسی کیسی ان بجھ پہیلیاں—
کبھی ندی کو غور سے دیکھیے اورمحسوس کیجئے۔ روانی سے بہتی ہوئی ندی کی موسیقی پر کان دھریے— شموئل نے ندی کا سہارا لے کر عورت کی تہہ دار معنویت اور نفسیاتی پیچیدگیوں کو اظہار کی زبان دی ہے— اور محض کامیاب ہی نہیں ہوئے ہیں بلکہ اردو کو ایک نہ بولنے والا شاہکار دے کر حیرت زدہ بھی کر گئے ہیں۔
ایک سو سولہ صفحات پر مشتمل ناول دراصل طویل مختصر کہا نی ہے۔ ندی میں کردار کم سے کم ہیں— ایک عورت ہے۔ ندی کی طرح رعنائیاں، شوخیاں، سرمستی اورفطرت میں بہاﺅ ہے۔ ایک مرد ہے جو اصولوں کا پابند ہے۔ وہ زندگی کو اصولوں کی پابندیوں میںدیکھتا ہے اور بندھے ٹکے فارمولوں پر جینے کا خواہش مند ہے…. اور خاموشی سے گنگناتی ہوئی ندی ہے جسے شموئل نے زندگی کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے۔ کہانی پہلے صفحے سے ہی ایک بے حد حسین غزل یا کسی مغنیہ کے سحر آفریں کلام کی طرح شروع ہوتی ہے— چند مثالیں دیکھیے۔
”عجیب گاﺅدی شخص ہے…. بار بار گھڑی دیکھتا ہے۔ آنے سے قبل فیصلہ کرلیتا ہے کہ کتنی دیر بیٹھے گا…. بات کرنے کا اس کے پاس کوئی موضوع نہیں ۔موسم کا لطف اٹھانے سے بھی قاصر ہے۔ کتابوں سے دل چسپی نہیں …. جس کو بارش سے دلچسپی نہیں….“
”اصول، ترتیب، عقیدہ…. یہ سب آدمی کو داخلیت میں باندھتے ہیں“۔
”کتنی عجلت میں ہے وہ جیسے وارڈ روب میں کچھ ڈھونڈرہا ہو۔ اس کا عمل میکانکی ہے۔اور وہ کچھ بھی تو محسوس نہیں کررہی ہے۔ نہ رینگتی چونٹیوں کا جال نہ مندمند چنگاریاں سی…. نہ سانس کے زیر وبم میں فرق…. تب اس کو لگا وہ آہستہ آہستہ ندی کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اب اترے گی کہ اترے گی….“
”کتنا کنڈیشنڈ ہے وہ…. پالتوکے کتے کی طرح…. صرف گھنٹی کی آواز پہچانتا ہے…. بھوک کی شدت نہیں….“
اصول، قاعدہ، ضابطگی، بندش…. لڑکی کا اپنا ایک رومانی سنسار ہے، تصور کی حسین وادیاں ہیں، جہاں حسین گل بوٹے کھلے ہیں۔ اورجن پر سررکھ کر وہ کوئی دل کش سا خواب بننا چاہتی ہے۔ شموئل نے بار بار احساس کرایا ہے کہ کوئی ضروری نہیں ہے،رومان کی ان سر پھری وادیوں میں سیر کرتی عورت ذاتی زندگی میں اتنی پریکٹیکل نہ ہو جس قدر اسے ہونا چاہئے— اس لڑکی میں وہ تمام تر خوبیاں ہیں۔ ہزار صفات کے باوجود اسے کبھی کبھی بکھراﺅ بھی پسند ہے۔ بے اصولی بھی۔ کچھ نیا کر گزرنے کی للک بھی۔ اوروہ جب اس کی زندگی میں آتا ہے تووہ اصول ،عقیدے کی چہار دیواری میںقید ہونے لگتی ہے اورمحسوس کرتی ہے…. جتناوہ کھل کر جینا چاہتی تھی، اب اتنی ہی بندھن کی زندگی جی رہی ہے۔ لیکن کیا یہ ایڈجسٹمنٹ ہے؟ نہیں یہ موت کا عمل ہے— وہ آہستہ آہستہ مررہی ہے۔ وہ ا پنی داخلیت میں مررہی ہے۔ اس کے اندر پڑی پڑی کوئی چیز مرجھانے لگی ہے۔ وہ اپنے ہی گھر میں قید ہے اوریہ گھر نہیں ریمانڈ ہوم ہے۔
عورت کی ذہنی جسمانی آزادی کو ایک بڑے وسیع کینوس پر جو کوڈاور استعارہ شموئل نے فراہم کیا ہے۔ اس کی تعریف کرنی ہوگی— کتاب شروع سے آخر تک پیچیدہ ہوتے ہوئے بھی ندی کوتیز تند موجوں کی طرح بہالے جاتی ہے— جو نفسیاتی پیچیدگیاں اورمحض دوکردار کے توسط سے جنم لینے والے Events شموئل نے اس ناولٹ میں جمع کیے ہیں، ان کے انداز شاعرانہ ہوتے ہوئے بھی اپنی جامعیت میں ایک جہانِ کشادگی لیے ہوئے ہیں..
شموئل کا کردار بیحد دلچسپ ہے .اس لئے لڑایی جھگڑے کے باوجود وہ مجھے پسند ہیں . اس کے اندر ایک بچہ چھپا ہوا ہے . یہ بچہ کبھی کبھی شرارتیں بھی کرتا ہے . یہ بھی حقیقت ہے کہ اچھے ادیب کو پارسا نہیں ہونا چاہیے . اس کے باطن میں ہلچل اور ہنگامہ ہے تو نیی نیی کہانیوں کا نزول ہوگا
از شہانم ہیبت و تر سم بنود
ہیبت ایں مرد ہوشم رار بود
(بادشاہوں سے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا، لیکن اس گدڑی پوش کی ہیبت میرے ہوش اڑا دیتی ہے)
حقیقت یہ کہ بادشاہوں سے کبھی خوف محسوس نہیں ہوا، لیکن محبت مجھے مقروض کرتی ہے۔ الفاظ سات تہہ خانوں کے اندر ہیبت سے چھپ جاتے ہیں- انکار میری طاقت اورجنوں سے الفت کا دم بھرتا رہا۔ زندگی کی ان طویل ساعتوں میں خاموشی اور تنہائی کا دیوانہ رہا۔ اہل دل کی مجلسوں سے دور گوشہ نشینی کی حقیر دنیا میں اگر کتابوں سے دوستی نہ ہوتی تو شاید زندہ بھی نہ ہوتا۔ اور حقیقت یہ بھی کہ مجھے جینا نہیں آیا- میں نے عشق سے زندگی کو جانا اور بندگی کے لیے اندر چھپے آتش کدہ کو آواز دی تو الفاظ کے بکھرے موتیوں کے خزانے سامنے تھے۔۔۔اور ایک آواز۔۔۔ کہ اے صبا اس دور افتادہ عاشق تک یہ پیغام پہنچا دے کہ بھلا عاشقوں تک گیسوؤں کی طرح ان الجھے سلجھے خیالات کی رسائی کیسے ہوگی-؟ یہ سب کیوں لکھ رہا ہوں ؟ شموئل کبھی کبھی مجھے حیران کر جاتا ہے .وہ وباؤں سے قدرتی آفات سے نہیں گھبراتا . وہ جنوں کا ملازم ہے . اس کی جنگ کسی سے نہیں . وہ تنہایی کا درویش نہیں . وہ ہلچل اور ہنگام کی بستی میں رہتا ہے .اور نت نئے تجربے کرتا رہتا ہے .
شموئل احمد کا ناول گرداب پڑھنے سے پہلے پہلا کام کیا کہ ٹیرو کارڈ نکلا ..شمول کا نام لے کر جو پتّہ ہاتھ میں لیا اس پر لکھا تھا ….دی فول –آسمان پر چمکتے سورج کے ساے میں ہوا میں اڑتا ہا ایک نوجوان …مجھے دوستوفسکی کے ایڈیٹ کی یاد تازہ ہو گی .لیکن یہاں بیوقوف کون تھا ؟ ساجی جسنے اپنے لئے ایک تکلیف دہ موت کا انخاب کیا ؟ کہانی کا ہیرو میں ؟ جو بزدل تھا یا بیوقوف ، یا ولین ،کہنا آخر تک مشکل ….انسانی نفسیات کی گتھیاں نہ جیوتش کی کتاب سے سلجھتی ہیں نہ ٹیرو کارڈ سے …عام زندگی میں بھی شمول اپنے لئے چلینج سے زیادہ آسان راستوں کا انتخاب کرتے ہیں …یہی کہانی میں کیا …نصیب کے رہتے ہوئے ساجی کے گرداب میں اترے ..ہممت نہیں تھی .ساجی میں ہممت تھی ..سیندور لگایا ..بیوی بنی تب غیر مرد کا بھوگ لگایا .ساجی کا مرد . نا مرد نہیں تھا …محبّت کا مارا تھا …سب کچھ سمجھتے اور جانتے ہوئے بیوی کی زندگی میں اہے ہوئے غیر مرد کو محبّت سے قبول کرتا رہا …ایک اور کتھا کو شموئل نے چھپا لیا ..پانچ بیٹیوں والی ساجی کی حرکتیں اتنی کھلی کھلی تھیں کہ بیٹیوں کو نہ پتا ہو ،یہ ممکن نہیں —لیکن وہی سہولت سے بھرا آسان راستہ …ڈیرنگ کی کمی …شموئل نے کہیں ناول نگار کے طور پر ڈیرنگ کا راستہ نہیں اپنایا …بیٹیاں اس رشتے کے بارے میں کیا سوچتی ہیں ،یہ آخر تک ظاہر نہیں کیا …ساجی کو اپنی موت کا پتہ تھا ..اسلئے ہاتھ ہلا کر اسنے آسانی سے سب کو خوش کر دیا ..شوہر ، جہاں راز چھپانے سے زیادہ وہ اپنے ضمیر سے پریشان تھی .کہانی کے ہیرو یعنی میں کو ہر لمحہ خوف کے احساس سے آزادی دینا چاہتی تھی .اور یہ بھی کہ نصیب کا گھر نہ اجڑے — آخر میں ایک کنفشن …کہ ساجی کی ہٹیا اس نے کی —- یہاں کہانی ختم ہو جاتی ہے .
دو عورت اور ایک مرد کی کہانی کویی نیی کہانی نہیں ہے .پھر بھی شموئل احمد کا اسلوب اور روانی اور بے ساختہ مکالمے ناول کی جان ہیں …ہندی میں راجندر یادو واحد ادیب تھے جو خود کو ایک نایک یعنی ہیرو سے زیادہ ایک کھلنایک یعنی ولین کے طور پر دیکھتے تھے …عام زندگی میں ،یا کہانی کے کردار میں خود کو ولین جیسا کردار دینا آسان نہیں …شموئل کے لئے یہ کام آسان تھا .انسانی نفسیات کا یکطرفہ بیان اسلئے کہ شموئل بہت کچھ چھپا لے گئے ..اگے عورت مرد کی نفسیات کو ناول نگار ساجی کی آنکھوں سے دیکھتا تو ممکن تھا کچھ نیے نکات سامنے آتے ….
وہ فکشن کی دنیا کا شہسوار ہے . کہانیاں لکھتے ہوئے وہ دوسروں کو بھی زخمی کرتا ہے اور خود کو بھی .جیسا کہ اس طاﺅس کے ساتھ ہوا، جو اپنے پروں کو نوچ نوچ کر الگ کررہا تھا۔ جب وجہ پوچھی گئی تو طاﺅس نے بتایا۔ آں نمی بینی کہ ہر سو صد بلا: سوئے من آید پئے ایں بالہا— ہر طرف سے سینکڑوں بلائیں انہیں پروں کے لیے آتی ہیں۔ شکاری بھی انہیں پروں کے لیے جان بچھاتا ہے—وہ ادب تحریر کرتا ہے تو یہ بلائیں بھی اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔ حملہ کرنے والے شکاری بھی ہوتے ہیں اور کبھی کبھی عیار، مکار اور بے ثبات دنیا سے اعتبار اٹھتا ہے تو ایک آواز اس کا راستہ روک لیتی ہے— محبت فاتح عالم کا ورد کرتا ہے تو عشق کی لا متناہی کائنات نگاہوں میں بسیرا کیے ہوتی ہے۔ یہ عشق ہی ہے کہ سب اپنے۔ کوئی غیر، کوئی پرایا نہیں۔ برے لفظ بھی اپنے۔ اچھے لفظ بھی اپنے۔ جس نے جو تیور اپنائے یہ اسی کی مرضی۔ اوراس کا یہ حال کہ، ترس وعشق تو کمند لطف ماست، تیرا خوف اور تیرا عشق میری ذات سے میرا انعام ہے۔ یہ جذبہ اسکی متعدد کہانیوں میں نظر آتا ہے . شعور، لاشعور اور تحت الشعور سے کھیلنے والے سگمنڈ فرائیڈ کو کینسر ہو گیا اور اس نے ڈاکٹر سے درخوست کی ، کہ اس کی موت کو آسان بنا دیا جائے . یہ بھی نفسیات کا ایک پوشیدہ پہلو ہے کہ فرائیڈ بھی زندگی کی گتھیوں کو سلجھاتے ہوئے خوف زدہ ہو گیا تھا . کہانیوں میں انسانی پرتوں کو ابھارتے ہوئے شمول کا رویہ کسی اذیت پسند کا رویہ ہوتا ہے . اور اس وقت تک کہانی سے کھیلتا ہے ، جب تک روحانی تسکین محسوس نہیں کرتا .
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...