ڈئیرمارتھا ۔۔۔
مجھے امید ہے کہ میرے خطوط تم تک پہنچ رہے ہونگے۔ دراصل جس شخص کو میں یہ خطوط پوسٹ کرنے کو دیتا ہوں وہ ایک نادار بنسری نواز پٹھان لڑکا ہے۔ اس کی ٹانگ دو برس پہلے بم شیل لگنے سے کٹ گئی تھیں۔ اب یہاں چھوٹے موٹے کام کر کے گزارہ کرتا ہے۔ بنسری بجانا اسکا شوق ہے اور تمہیں یاد ہوگا جب میں یہاں آنے کا قصد کر رہا تھا تو مجھے ایک بنسری چاہیے تھی۔ وہ بنسری میں نے اسی لڑکے کو دینی تھی۔ تم سوچ بھی نہیں سکتی کہ وہ اس دن کتنا خوش تھا جب میں نے اسے سنہرے تانبے کی بنسری دی تھی تو کتنی دیر تک اس بنسری کو دیکھتا رہا۔ جب میں نے اسے بجانے کو کہا تو اس نے اپنی پرنم پلکیں اوپر اٹھائیں اور کہا ، ابھی نہیں۔۔۔ میں اسکی بات سن کر خاموش ہو گیا تھا لیکن جب اگلے دن شام کو وہ ایک دھن تیار کر کے مجھے سنانے آیا تو یقین کرو میں حیرت زدہ رہ گیا ۔ وہ محبت کی وہی اداس دھن تھی۔۔۔ جس کے سُر دل کے تاروں کو چھیڑتے ہوئے پہلے ہی میری روح میں اتر چکے تھے۔
جانتی ہو وہ دھُن کونسی تھی؟ تم نے بھی یہ دھن سن رکھی ہے
، وہی سیمفونی والی۔۔ ۔’ وہن آئی ایم لیڈ اِن ارتھ‘‘ ۔۔۔۔’جب مجھے زمین کے اندر لِٹا دیا گیا‘ ۔۔۔
یاد آیا تمیں ،ہم نے یہ دھُن براڈوے میں ایک ساتھ سنی تھی اور تم رو پڑی تھی اور کئی دنوں تک روتی رہی تھی ۔ مجھے تمہیں چپ کرانے کے لئے ایک بار پھر براڈوے لیجانا پڑا اس بارگی ہم نے کامیڈی شو دیکھا تھا۔
یہ اداس دھن سن کر میں نے اسے پوچھا۔ یہ دھن تم نے کہاں سے سیکھی تو اس نے بتایا’’ ایک مغربی عورت کو یہاں قید کر لیا گیا تھا جو دو سال یہاں رہی تھی اور میری خدمات اسکے سپرد تھیں ۔ میں اسکے متفرق کام کرتا تھا اُسی نے مجھے یہ دھن سیکھائی تھی میں نے سنا تھا کہ وہ بعد میں مسلمان ہو گئی تھی۔‘‘
میں سمجھ گیا تھا وہ وَان ریڈلِی کی بات کر رہا ہے۔
۔۔۔۔ اوہ میں خط بند کرتا ہوں ۔۔۔ کوئی آ رہا ہے!
تمہار ا اپنا ٹِم
مقام نامعلوم مورخہ ستمبر ۲۰۱۵
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈیئر مارتھا۔۔۔
صبح بخیر۔۔۔ کیا تمیں کل رات نیند آئی تھی؟
میں تو رات بھر جاگتا رہا ہوں۔ اب یہ نہ پوچھنا ،کیوں؟
ہاں،میں تم سے پوچھنا بھول جاتا ہوں کہ جو آرپائن کے پرپل ایمپرر پودے میں نے گزشتہ سال گھر کے پچھلے صحن میں لگائے تھے کیا انہوں نے اس موسم خزاں میں پھول دئیے تھے کہ نہیں۔ بس تم وہیں سے اونچی آواز میں بتا دینا تماری آواز مجھ تک پہنچ جائے گی۔
آجکل یہاں کچھ عجیب سی صورتِ حال ہے ۔ کئی ایک دنوں سے یہاں بم باری رکی ہوئی تھی لیکن کل رات سے پھر شروع ہو گئی ہے۔ کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہاں مقامی باغیوں کو مزید کمک اور نفری مل گئی ہے اس بار وہ یہاں فوج کو سخت جواب دیں گے۔ لیکن میرے لئے عجیب بات تو یہ ہے کہ یہاں باغیوں میں ہر نسل اور ہر ملک کا آدمی ہے۔ تم تو جانتی ہی ہو ۔ انکا ایک ہی مطالبہ ہے کہ مغرب یہاں سے نکل جائے کیونکہ انہیں اپنے مذہب کے پرچار کے لئے زمین اور آزادی چاہیے تاکہ یہ پوری دنیا کی نسل انسانی کو سدھار سکیں۔ ۔۔۔ کتنی بودی وجہ ہے نا! خیر یہ سب سیاسی باتیں ہیں وہ تو سب کچھ میں ’ آج کی ڈائری‘ میں اخبار کو بھیج چکا ہوں ۔
مجھے کبھی کبھار یہاں بالکل ایسے لگتا ہے جیسے دنیا بھر کے لوگ اس علاقے میں کچھ اور کرنا چاہتے ہیں اور وہ کیا ہے مجھے معلوم نہیں ہو سکا؟
تم صحیح کہتی تھی میں غبی اور کند ذہن صحافی ہوں۔۔۔ مجھے پھول بیچنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔
یہی دیکھ لو ایک سال کی مدت میں میر ا یہاں صرف ایک ہی دوست بناہے وہی بنسری نواز لڑکا ۔ ہاں مجھے یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ وہ لڑکا کل آیا تھا کہہ رہا تھا، راستے بند ہوتے جارہے ہیں، جنوب سے کوئی نیا گروہ بھی یہاں اسلامی مملکت کی داغ بیل ڈالنے کے لئے آچکا ہے۔ اگر تمہیں نکلنا ہے تو ابھی نکل لو ورنہ چند روز تک یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ہولناکی چاروں طرف پھیل چکی ہے۔ بھلا کوئی اس سے پوچھے جنگ سے زیادہ ہولناکی اور کیا ہوگی، کئی ایک دھائیوں سے یہاں پوری ایک نسل لڑ کر مر چکی ہے۔ اور پھر اس کے بعد اگلی نسل لڑتی رہی ہے ۔ اب تیسری نسل یہ جنگ لڑ رہی ہے۔ پچھلی نسل نے یہی جنگ پہلے اسی فوج کے ساتھ مل کر لڑ ی تھی اب ان کے خلاف لڑ رہی ہے۔ ایسا تو نہیں کہ اگلی بار یہ دونوں مل کر کسی اور کے خلاف لڑ پڑیں۔
ویسے مجھے ہمسایہ ملکوں کے بڑے شہروں سے بھی کچھ خبریں پہنچتی ہیں ، چونکہ وہ میرا علاقہ نہیں لہذا ان خبروں کو میں رپورٹ نہیں کرتا۔ اپنے دوسرے ساتھیوں کو کام کرنے دیتا ہوں، وہ کہتے ہیں سب مذاہب ناکام ہو چکے ہیں، اسی لئے یہ لوگ مذاہب کو زندہ رکھنے کے واسطے اس میں شدت لارہے ہیں، ان انتہا پسندوں نے اس خطےکو اس قدر کمزور کر دیا ہے کہ اب آخری جنگ شاید گھر گھر ہو ۔ بلکہ تقریباً ہو ہی رہی ہے۔ یہ سب لوگ آخر کیا چاہتے ہیں؟ ناکامی انکا مقدر کیوں بن رہی ہے؟
اچھا خط بند کرتا ہوں ۔۔۔ بنسری نواز آنے والا ہے ہم نے کہیں جانا تھا۔
خدا حافظ تمارا ٹم۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری جان مارتھا۔۔۔
کل رات میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ، کہ میں کسی بڑے تاریک غار کے اندر ہوں اور چاروں طرف اژدھے اپنے سر اٹھا کر مجھے دیکھ رہے ہیں، اسکا بھلا کیا مطلب ہوا؟ میں تو یہاں بالکل ٹھیک ہوں بس اب باہر نکلنا کم ہو گیا ہے علاقہ میں جنگ کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئی ہیں، مقامی لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے بڑے شہروں میں تباہی مچا رکھی ہے بچوں ، بڑوں عورتوں کو بلاتمیز و تفریق قتل کر رہے ہیں ، لیکن پھر بھی انکے ساتھ لوگوں کی ہمدردیاں بڑھ رہی ہیں ۔ مجھے تو یہی نظر آتا ہے صرف مذہب کی بنیاد پر یہاں زندگی گزارنے کی ایک سعی لا حاصل ہے۔ کیا یہ لوگ اپنے معاشی مسائل
کو یوں حل ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ چند صدیاں پیچھے جاکر ان کے لوگ آج کی زندگی گزار سکیں گے۔ وقت کا پہیہ الٹا کیسے چل سکتا ہے۔۔ فطرت کا اصول تو یہ نہیں ۔
مارتھا تم بھی کہو گی کہ میں کیا اول فول بک رہا ہوں ۔ اچھا تم ایک کام کرنا ، چرچ جا کر میرے لئے خداوند سے دعا کرنا۔ مجھے ان انسانوں سے محبت ہوتی جا رہی ہے جو خود زندگی سے نفرت کر رہے ہیں ، کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ایک ساتھ مکمل خاتمے کی طرف بڑھ رہے ہیں مختلف سمتوں سے ؟
مارتھا مجھے تم بہت یاد آ رہی ہو میں کئی ایک دنوں سے بنسری نواز سے بنسری بجانا سیکھ رہا ہوں ۔ کل میں نے وہی دُھن بجائی تھی۔۔۔۔
’’ وہن آئی ایم لیڈاِن ارتھ ۔۔۔۔ ‘‘
یقین کرو مجھے ایسے لگا کہ میں واقعی دفن ہو رہا ہوں ۔۔۔ کیا تمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم دونوں اب نہیں مل سکیں گے۔
’ جب میں زمین کے اندر لٹا دیا گیا۔۔۔
کیا میرے سب اعمال دھُل جائیں گے ۔۔۔
اچھا اب خط لکھنا بند کرتا ہوں، اس وقت بم باری ہمارے گھروں پر ہی ہو رہی ہے ۔ گھڑی بھر کی بات ہے۔۔۔اب میں اپنے آپ کو کائنات کی آزاد فضا کے حوالے کرتا ہوں ، بس تم تیار رہو ، ہم ایک ساتھ پھر براڈوے ضرور جائیں گے۔
تمارا اپنا اور صرف اپنا ٹم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عالمی صفحہ’’ اخبار دارالحکومت ‘‘ مورخہ ۵ اپریل ۲۰۳۲ ء
مختصر خبر( نامہ نگار )یہ خطوط شمالی علاقوں میں پہاڑوں کے دامن میں بسے ایک گاؤں کے پرانے تباہ شدہ ڈھیر سے برآمد ہوئے ہیں جو مکتوب الیہ تک نہ پہنچ سکے تھے ۔ ان خطوط کی صحافیانہ تحقیقات جاری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نعیم بیگ
لاہور پاکستان
جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1717120381887995/
“