ایک 5 اگست تاریخ کا وہ سیاہ دن ہے جب 2019 کو بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی امتیازی اور انفرادی حیثیت ختم کر کے اس کو اپنی بندوق کے زور پر اپنے ملک کا حصہ بنا دیا دوسری 5 اگست وہ تاریخ ہے جب 2020 میں پاکستان نے " آنکھیں میری باقی ان کا" کے مصداق مقبوضہ کشمیر کا نقشہ اپنے ملک کے قومی نقشے میں شامل کر دیا اب ہمیں یہ نہیں معلوم کہ اس نقشے کی حیثیت کیا ہے اور اس کے کیا اثرات ہوں گے اور دنیا کیا کہہ رہی ہے اور کیا کہتی رہے گی یہ حکومت پاکستان جانے اور دنیا جانے۔ یہاں ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اسی 5 اگست 2020 کو ایک ایسی ادبی اور صحافتی شخصیت کا انتقال ہوا جس کو دنیا شمع دہلوی کے نام سے جانتی ہے ۔
شمع دہلوی نہ صرف بہترین ادیبہ، صحافی اور ٹی وی پروڈیوسر تھیں بلکہ وہ انتہا درجے کی خوب صورت بھی تھیں یعنی اپنے نام کی طرح ایسی شمع کے جس کے پروانے ہزاروں بلکہ لاکھوں افراد تھے ۔ ان کے چاہنے والوں میں مزدور سے لے کر ممتاز ادیب و صحافی اور کالم نگار خشونت سنگھ اور بھارت کے سابق وزیر اعظم راجیوی گاندھی تک شامل تھے ۔ شمع دہلوی صاحبہ دہلی سے شایع ہونے والے اردو دنیا کے مشہور ترین ماہنامہ شمع کے بانی یوسف دہلوی کی پوتی یونس دہلوی کی صاحبزادی تھیں اور اسی شمع گروپ کے خواتین میگزین " بانو " کی ایڈیٹر تھیں ۔ ماہنامہ شمع بہت مقبول جریدہ تھا جس کے نام پر کراچی اور لاہور سے بھی ماہنامے شایع ہونے لگے جن کو لڑکپن میں، میں بھی بڑے شوق سے پڑھا کرتا تھا شمع ایک نامور کالم نگار بھی تھیں جن کے کالم بڑے شوق سے پڑھے جاتے تھے ۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ بھارت کے صف اول کے اخبارات " انڈیا ٹو ڈے" اور " دی ٹائمز آف انڈیا " میں بھی ان کے کالمز چھپتے تھے ۔ وہ ایک عجیب قسم کے مزاج کی مالک تھیں ان کا کوئی ایک شوق اور خواہش نہیں بلکہ ہزاروں خواہشیں اور متعدد شوق تھے ۔ وہ کچھ عرصہ سیاستدان بھی بنیں پھر وہاں سے بوریت محسوس ہونے پر بزنس وومین بننے کا شوق پیدا ہوا ۔ کبھی ریسٹورنٹ کھول لیا تو کبھی قالین کی دکان اور کبھی بوتیک سنبھال لیا اور کبھی خوب صورت کتا پال لیا اور پھر کاروبار سے اکتا کر انگلینڈ چلی گئیں وہاں پیسہ پانی کی طرح بہا کر قلاش ہو گئیں اور پھر شراب کے کاروبار سے وابستہ ہو گئیں اور جب ان کو گناہ کا احساس ہوا تو، توبہ تائب ہو کر سعودی عرب چلی گئیں وہاں گناہوں کی بخشش کی نیت سے عمرہ کی سعادت حاصل کر لی اور پھر بھارت آ کر پھر سے ادیبہ، صحافی اور ٹی وی پروڈیوسر کی حیثیت سے مصروف ہو گئیں ۔
شمع دہلوی بظاہر ایک آزاد خیال عورت تھیں مگر عملی طور پر وہ مذہب اور شریعت کی پابند تھیں یہی وجہ ہے کہ جب انہوں نے اپنے قریبی دوستوں سے اپنی شادی کرنے اور بیٹا پیدا کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو عصمت چغتائی نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ شادی کیئے بغیر اور بغیر باپ کے بیٹا پیدا کرنے کی کوشش کرے جس پر وہ عصمت چغتائی سے ناراض ہو گئیں اور شریعت کے مطابق انہوں نے دہلی سے شایع ہونے والے ایک بڑے اردو اخبار کے مالک سے نکاح کر لیا ۔ وہ عمر میں شمع سے 20 برس بڑا تھا شاید عمر کا فرق درمیان میں حائل ہو گیا یا کچھ اور وجہ تھی کہ ان کے شوہر ان پر ہاتھ اٹھانے اور آئے روز تشدد کرنے پر اتر آیا ۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ شمع نے اپنے شوہر سے خلع لے کر علیحدگی اختیار کر لی ۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے کراچی پاکستان کے ایک شخص محمد رضا سے شادی کر لی اور ہندوستان سے پاکستان منتقل ہو گئیں ۔
پاکستان میں آ کر وہ بہت خوش ہوئیں ان کی ازدواجی زندگی بھی بہت خوش گوار رہی ان کو بیٹے کی بڑی خواہش تھی وہ بھی قدرت نے پوری کی انہوں نے اپنے بیٹے کا نام ارمان علی رکھا ۔ ان کے شوہر محمد رضا شیعہ مسلک کے ہیں جب کہ وہ خود سنی مسلک کی لیکن دونوں نے مسلک اور عقیدے کو درمیان میں حائل ہونے نہیں دیا ۔ کراچی سے وہ اسلام آباد منتقل ہو گئے ۔ یہاں آ کر ان کی ادبی اور صحافتی سرگرمیوں اور میل جول میں اضافہ ہو گیا وہ اسلام آباد سے اکثر لاہور آنے جانے لگیں لیکن کچھ عرصہ بعد حکمرانوں کی نظر میں مشکوک ہو گئیں اور ان پر بھارت کے لئے جاسوسی کرنے کا شک ہوا جس کی وجہ سے ان کے شوہر کو سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا گیا ۔ یہاں سے شمع دہلوی مجبوری کے عالم میں پاکستان چھوڑ کر بھارت واپس چلی گئیں لیکن انہوں نے اپنے شوہر سے علیحدگی اختیار نہیں کی دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے ۔ گزشتہ سال ان کو کینسر کا موذی مرض تشخیص ہوا تب سے وہ زیادہ تر مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج رہیں اور 5 اگست 2020 کو ہندوستان اور پاکستان کی یہ مشترکہ خوب صورت " شمع" 63 برس کی عمر میں ایک ہسپتال میں ہمیشہ کے لئے بجھ گئیں لیکن توقع ہے کہ اپنی ادبی اور صحافتی خدمات کے باعث یہ " شمع " جلتی رہے گی ۔ خشونت سنگھ نے اپنی ایک مشہور تصنیف کو شمع کے نام انتساب کیا جبکہ شمع نے اپنی بھرپور ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کے باعث متعدد ایوارڈز بھی حاصل کیئے ۔