وار فکشن
تین خواتین کا مشترکہ طور پر لکھا افسانہ برائے تنقید و تبصرہ ( یہ مئی 2018 ء میں امریکہ کے ایک موقر اخبار میں شائع ہوا تھا ۔ )
<< سوال : یہ افسانہ ہے بھی یا نہیں ؟ >>
(اسماء اجرودی ، لویزا لوولک ، سوزن ہیڈاموس )
بیروت ۔ ۔ ۔ دوپہر بارہ بجے موبائل کی گھنٹی بجی ۔
ماروا جانتی تھی کہ یہ وہی فون تھا جس کی وہ منتظر تھی ؛ وہ اس کا تین سال سے خاموشی سے انتظار کر رہی تھی ، لیکن جیسے ہی ایک مرد کی آواز فون پر ابھری تو اسے یہ یقین نہ رہا کہ وہ کیا سننا چاہتی تھی ۔ اسے اپنی جسم پر موسم بہار کے اولین دنوں والی دھوپ کی حرارت محسوس ہوئی جو جالی کے پردوں سے اندر آ رہی تھی ۔
شام اپنے وطن میں ، پیچھے ، برپا ہوئی شورش نے پہلے دن سے ہی اس کے خاندان کو المیے سے دوچار کر رکھا تھا ۔ ماروا نے اپنے خاوند کی قربانیوں کو نہیں چُنا تھا لیکن وہ اس کی زندگی پر حاوی ہو گئی تھیں ۔ وہ تھک چکی تھی ، تنہا تھی اور بعض اوقات وہ غصہ کی حالت میں بھی رہتی ۔ اسے ایک اشارہ چاہیے تھا کہ اس نے ماروا کو یاد بھی رکھا تھا نہیں اور یہ کہ اسے چھوڑ کر جاتے وقت اسے افسوس تھا کہ نہیں ۔ وہ چاہتی تھی کہ وہ واپس آ جائے ۔
اس نے چنانچہ فون کرنے والے سے کہا کہ وہ اسے سب کچھ بتائے ۔ اس نے آنکھیں بند کیں اور سننے لگی ، لگتا تھا جیسے وقت تھم گیا ہو ۔
یہ ان کی محبت کی داستان تھی ۔ وہ اٹھارہ سال کی ایک دلیراور شوخ لڑکی تھی اور سکول مکمل کرکے خوش تھی ۔ عمر ، عمر میں اس سے بڑا تھا اورایک سنجیدہ آدمی تھا لیکن اس کی مسکراہٹ متعدی تھی ۔ ماروا کو یاد تھا ؛ ” یہ اس کے چہرے سے اس تیزی سے دوسرے بندے تک سفر کرتی تھی کہ دوسرا بھی مسکرائے بغیر رہ نہیں سکتا تھا ۔ "
2006 ء کے موسم بہار کے اس دن ، جب وہ الیکٹرونک اشیاء کے سٹور پر گئی تھی تو اس نے اس کی نظروں کو نظر انداز کرنے کی اداکاری کی تھی اس کا خاندان قسطوں پر ریفریجیٹر خرید رہا تھا اور چونکہ ماروا کے والد ہی سٹور میں رُکے تھے ، لہذٰا عمر بھی ایک نوجوان لڑکی کی توقع نہیں کر رہا تھا جو اس کے کاﺅنٹرمیں لطافت سے مسکراتے ہو ئے نظریں جھکائے چیزیں دیکھ رہی تھی ۔ ” مجھے معلوم تھا کہ وہ مجھے دیکھ رہا تھا “ ، اس نے کہا ، ” وہ بڑی تفصیل سے میرا جائزہ لے رہا تھا ۔
اور جب عمر نے یہ کہنے کی جسارت کی کہ وہ ان سے گھر آ کر پیسے لے لے گا تو خوشی اور بیقراری کی وجہ سے ماروا کے پیٹ میں بل سا اٹھا ۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے والد کو پتہ ہی نہ تھا کہ ان کے بیچ کیا چل رہا تھا اور جب وہ پنجوں کے بل چلتی دبے قدموں’ لیونگ روم ‘ میں مردوں کو قہوہ دینے گئی تو ایک مختصر سے لمحے کے لیے اس کی بھوری آنکھیں عمر کی آنکھوں سے چار ہوئیں ۔
جلد ہی وہ روز سٹور پر فون کرنے لگی تاکہ اس کی آواز سن سکے ۔ ” جیسے ہی وہ یہ جان کر کہ یہ میرا فون ہو گا ، اسے اٹھاتا ، میں فون بند کر دیتی ۔ لیکن اسے ہمیشہ پتہ ہوتا کہ یہ میں ہی تھی ۔“ ، وہ بولی ، ” ہم پندرہ دنوں میں ہی ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہو گئے تھے ۔ “
جلد ہی ان کی شادی ہو گئی اور جب ماروا اپنے پہلے بیٹے کے حوالے سے حاملہ ہوئی تو عمر کے گھر والوں نے ’ دارایا ‘ کے سرمئی اینٹوں کے گھروں والے مضافات میں رہنے کے لیے جگہ لے دی ۔ گو یہ گھر ایک بیڈ روم سے کچھ زیادہ نہ تھا لیکن وہ دونوں اپنے اس ننھے سے گھر میں خوش تھے جو سڑکوں پر ٹریفک سے کہیں پرے تھا اور ’ چِٹ کپڑے‘ پولیس کیے اہل کاروں کی کھوجی آنکھوں سے بھی دور تھا جو شہر کی سڑکوں پر ہر وقت کسی نہ کسی کی تلاش میں رہتی تھیں ۔
باہر کی دنیا میں سب کچھ بدل رہا تھا ۔ حکومت مخالف مظاہرے تیونس سے لے کر مصر اور لیبیا تک پھیل چکے تھے اور مارچ 2011 ء تک شام بھی ان کی لپیٹ میں آ چکا تھا ۔ رہائشی کہتے کہ انہیں کئی بار تو ایسا لگتا جیسے دارایا کے سارے لوگ پھول ہاتھوں میں لیے متحد ہو کر سڑکوں کے گرد و غبار میں شور مچاتے اورنعرے لگاتے ۔
عمر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور وہ گھنٹوں سوشل میڈیا پر وقت گزارتا اور دن میں بھی بڑے بڑے خواب دیکھتا ، ماروا نے یاد کیا ۔ مظاہرین سارے ملک میں دندنا رہے تھے اور دارایا میں ہونے والے مظاہرے انقلاب کی کوکھ سمجھے جاتے جن میں بجلی کی کوند بھری تھی ۔ وہ ہر رات ہجوم میں شامل ہو جاتا ۔ لوگ پورے قصبے میں پھرتے اور نعرے لگاتے ؛ ” بشر ، حکومت چھوڑو ! “ اور ” یاد رکھو بشر ، شامی تم سے خوفزدہ نہیں! ۔“
ماروا ، عمر کے خوابوں کی حصہ دار نہیں تھی ۔ سب بہت تیزی سے ہو رہا تھا اوراسے یہ خاصا بچگانہ لگ رہا تھا ۔ صدر بشر ال اسد کسی سمجھوتے کے لیے تیار نہیں تھا ۔ عمر جب بھی ہجوم میں شامل ہونے کے لیے تیار ہوتا ماروا اس سے التجا کرتی کہ وہ نہ جائے اور پھر تب تک منتظر رہتی جب تک وہ واپس نہ آ جاتا ۔ وہ رات گئے خوف کے ساتھ عمر اور اس کے والد کی تکرار سنتی جس میں اس کا سسر اپنے بیٹے کو سمجھاتا کہ وہ اور اس کے ساتھی آگ سے کھیل رہے تھے ۔ ماروا کا خوف ہر رات بڑھتا جاتا ۔ مظاہرین کے پاس کوئی واضح منصوبہ بندی نہ تھی ، کوئی سمت بھی نہ تھی ۔ حکومت تین دہائیاں پہلے بغاوت میں حزب اختلاف کے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو قتل کر چکی تھی ۔ ” اور اس بار یہ اس سے بھی بُرا ہو گا ۔“ ، عمر کے والد نے اسے کہا ۔
جب وہ دونوں آپس میں باتیں کر رہے ہوتے تو عمر کے موبائل پرجھنکار ابھرتی جو اس کے دوستوں کی طرف سے آئے پیغامات کی وجہ سے پیدا ہوتی ؛ اس کے دوست منصوبہ بندی اور انقلاب کے بارے میں بات کرنا چاہتے ، اسے یہ سب یاد تھا ۔ وہ تقریباً ہر بار ماروا اوربیٹے کو تنہا چھوڑ کر دوستوں کے پاس چلا جاتا ۔
موسم خزاں کے آنے تک قصبے کے باہر ٹینک آ چکے تھے جبکہ ہجوم کے پاس بندوقیں ۔ اگلے ستمبر تک اسد کے وفاداروں نے دارایا کی سڑکوں پر کھلے عام لوگوں کو قتل کیا اور فوج نے شہریوں کے گھروں پر مارٹر گولے پھینکے اور ان پر بمباری کی ۔ ماروا کی پریشانیاں اب خوف میں بدل چکی تھیں لیکن عمر شہر چھوڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ اب اس کے دوست بھی حکومت کو مطلوب تھے اور اس کا یہ کہنا تھا کہ اگر اس نے فرار اختیار کیا تو وہ زندہ نہیں رہ پائے گا ۔ اس نے ماروا کو وہاں سے دور بھیجنے کا راستہ نکالا اور فوجیوں کی چیک پوسٹوں اور دستوں سے پرے دمشق بھجوا دیا ۔
کچھ ہی دنوں میں ماروا کو پتہ چلا کہ وہ پھر سے حاملہ ہو گئی تھی ۔
عمر زیر زمین تھا ۔ اس کے دوستوں نے اسے بتایا کہ پولیس اس کے لیے گھر گھر چھاپے مار رہی تھی ۔ اور جب ، بالآخر ان کی بات ہوئی تو اس کی آواز جو عام طور پر پرسکون اور توانائی بھری ہوتی تھی ماروا کو خوف سے بھری لگی ۔
” اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ایسے حالات میں وہ ایک بچہ کیسے پیدا کر سکیں گے “ ، اس نے کہا ۔ ” وہ ڈرا ہوا تھا لیکن اس نے مجھے کہا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے ۔“ لبنان جو ساتھ ہی تھا اب اس کے لیے ایک محفوظ جگہ تھی ، انہوں نے اتفاق کیا تھا ۔ لیکن نومبر کے اوائل میں جب ماروا نے اپنی گاڑی دمشق ۔ بیروت کی بڑی سڑک پرڈالی تو وہ یہ نہ دیکھ پائی کہ عمر کی غیر حاضری اتنی طویل ہو گی ۔
حکومت نے گو بہت بڑے کریک ڈاﺅن کیے لیکن یہ شام کو خانہ جنگی سے نہ بچا سکے ۔ جوں جوں وہ زیادہ سے زیادہ لوگ پکڑتی حکومت مخالف مزاحمتی گروپوں میں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ۔
اگلے ماہ جب ماروا عمر سے ملنے مختصر مدت کے لیے دمشق واپس آئی تو دارلخلافہ کے حالات پہلے ہی بدل چکے تھے ۔ لوگوں کی بات چیت مختصر اور محتاط ہو گئی تھی اور ہر بندہ چوکنا نظر آتا تھا ۔ وہ بازار میں نئے آنے والے بچے کے لیے دکانوں کے شوکیسوں میں کپڑے دیکھ رہی تھی کہ کچھ لوگ عمر کے پاس آئے ۔ وہ عام شہریوں کے لباس میں تھے لیکن ماروا کو یہ بات پسند نہ آئی کہ انہیں دیکھ کر عمر کا جسم اس وقت تناﺅ کا شکار ہو گیا تھا جب ان میں سے سب سے عمر رسیدہ بندہ اس سے مخاطب ہوا تھا ۔ وہ جلدی سے اس کے پاس جا کھڑی ہوئی لیکن اس نے عمر کی آنکھوں میں اس کی خاموش درخواست پڑھ لی تھی۔ ” یہ کچھ ایسا تھا جیسے وہ کہہ رہا ہو کہ وہ انہیں یہ مت کہے کہ وہ اس کی بیوی تھی بہرحال وہ ہم دونوں کو ساتھ لے گئے ۔ “
ریاستی سکیورٹی کی شاخ نمبر 40 لال چھت والے اطالوی ہسپتال کے پاس ایک بے رنگی عمارت میں واقع تھی ۔ ماروا نے دیکھا کہ انہوں نے اس کے خاوند کے کپڑے اتار دئیے تھے اور اب وہ صرف جانگیے میں تھا ۔ انہوں نے دھکا دے کر اسے ایک ٹوٹی پھوٹی کرسی میں گرایا اور اس پر موٹے سوالوں کی بوچھاڑ شروع کر دی ۔ وہ کہہ رہے تھے کہ مظاہرین دہشت گرد تھے اور یہ کہ عمر ان کے ساتھ کیا کر رہا تھا ؟ اور جب سوال کرنے والے نے تشدد کرنے والے اوزار نکالے تو ماروا نے منہ پھیر لیا ۔ ایک گارڈ نے ماروا کے گال پکڑے اور زور سے اس کے سر کو گھمایا تاکہ اس کا چہرہ دوبارہ اس کے خاوند کی طرف مڑ جائے اور وہ اپنے خاوند پر ہوتا تشدد دیکھ سکے ۔
اسے اب کچھ جھلکیاں ہی یاد تھیں ؛ جب وہ آہنی سلاخ سے عمر کے پیٹ اور سر پر ضربیں لگا رہے تھے تو وہ درد سے چِلا رہا تھا ۔ ہر طرف خون ہی خون تھا ۔ عمر درد سے چیخ تو رہا تھا لیکن انہیں کچھ بھی نہیں بتا رہا تھا ۔ ماروا کا منہ اتنا خشک ہو گیا تھا کہ اس سے تھوک بھی نہیں نگلی جا رہی تھی ۔ تب ایک سکیورٹی اہلکار آگے بڑھا اور اس نے ایک چھوٹا سرد چاقو اس کے حاملہ پیٹ پر رکھ دیا ۔ عمر کا سوجا ہوا چہرہ یہ دیکھ کر سکتے میں آ گیا جیسے ہر شے جم گئی ہو ۔
” اس نے انہیں سب کچھ بتا دیا ۔ اس نے انہیں اپنے دوستوں کے نام بھی بتا دئیے ۔ “ ، ماروا بولی ، ’' پھر انہوں نے مجھے کمرے سے باہر نکالا اور وہاں سے جانے کو بولا ۔“ تفتیش ختم ہو چکی تھی ۔
وہ سر جھکائے لمبی راہدری میں چلتی گئی ؛ وہ ایسا ظاہر کر رہی تھی جیسے وہ راہداری کے دونوں اطراف قطار میں دیوار کی طرف چہرے کیے قیدیوں کو نہیں دیکھ رہی ۔ دروازے کے پاس ایک کے بارے میں اسے لگا جیسے وہ عمر ہو ، اس کی کھال لال اور مار کی وجہ سے ادھڑی ہوئی تھی لیکن جو اہلکار اس کے ہمراہ تھا ، نے اسے کہا ؛ ” اپنی نظریں سامنے کی طرف رکھو اور یہ بھول جاﺅ کہ تم کہاں ہو اور تم نے کیا دیکھا “ ، وہ بولا ، ” اور چلتی رہو ۔“
ماروا جوں جوں چلتی گئی آسمان بھی برسنے لگا اور وہ بھاری قدموں کے ساتھ آہستہ آہستہ لڑکھڑاتی برفیلی بارش میں چلتی رہی ۔ رات پڑی تو اسے وقت کا حساب ہی بھول گیا ۔ اس کی پتلون کی جیب میں عمر کے بٹوے کا وزن اس کے جسم سے لگا ، اسے اپنا احساس دلا رہا تھا ؛ عمر کے بٹوے سے اس کا شناختی کارڈ نکال لیا گیا تھا ۔ ایک سپاہی نے بُری نگاہوں کے ساتھ اس کا اس وقت تک پیچھا کیا جب تک وہ اُکتا نہ گیا ؛ اس نے بد نگاہوں کے ساتھ اسے گھر چھوڑنے کی دعوت بھی دی تھی ۔
اپنی خالہ کے گھر پہنچ کر اس میں بولنے کی بھی ہمت نہ تھی ۔ ایک بار پھر اسے کچھ باتیں ہی یاد آئیں ۔ گھر والے جھگڑ رہے تھے ، اس کا جسم برف کی مانند سرد تھا اور وہ کمزوری محسوس کر رہی تھی ۔ اس کا بیٹا سمیر چِلا رہا تھا ۔ ” آپ اور بابا مجھے کیوں چھوڑ کر چلے گئے تھے ؟ میں آپ کا انتظار کرتا رہا ہوں ۔ ۔ ۔ آپ نے مجھے کیوں چھوڑا ؟ “
ماروا نے اپنے دوسرے بیٹے یوسف کو لبنان میں جنم دیا ۔ جب اسے پہلی درد زہ شروع ہوئی تو اس نے مکان سے نکلنے سے انکار کر دیا ۔ وہ اس بات سے غمگین تھی کہ وہ عمر کے بغیر بچے کو جنم دے رہی تھی ۔ لیکن وقت نے اس کے خوف کو ختم کر دیا اور جوں جوں گھنگھریالے بالوں والا ننھا بچہ بڑا ہوا تو ہر گزرتے دن کے ساتھ اس نے سیکھ لیا کہ خاوند کے بغیر اور مہاجریت میں کیسے رہا جاتا ہے ؛ وہ جو ان لاکھوں میں سے ایک تھی جو اس ٹکراﺅ کے باعث اِدھراُدھر بکھر گئے تھے اور جنہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان کے پیارے جو قید میں تھے وہ بچ پائے بھی تھے یا نہیں ۔
اس کا چھوٹا سا گھر بل کھاتی وادی ِ’ بیکا ‘ کے ایک قصبے کی نکڑ پر تھا جو لوگوں سے بھرا رہتا ۔ اس کے رشتہ دار آتے جاتے رہتے تاکہ بچوں کی دیکھ بھال کر سکیں ۔ دیکھتے دیکھتے یوسف کے دودھ کے دانت نکل آئے اور سمیر سکول جانے لگا ۔ ایک اجنبی ملک میں ماروا کی زندگی نئی طرح سے ترتیب پا گئی تھی لیکن کوئی شے بھی اس خلاء کو پُر نہ کر سکی جو عمر کے نہ ہونے سے پیدا ہو گیا تھا ۔
سمیر اب چھ سال کا تھا ۔ جب بھی کوئی اس سے کہتا کہ اس کا باپ واپس آنے والا نہیں تو وہ اس بات کو نہ مانتا گو وہ اس سے اپنی محبت کو یاد نہیں کر سکتا تھا سوائے اس کے کہ ماروا اسے اپنے موبائل میں محفوظ عمر کی تصویریں اسے دکھاتی رہتی ۔ کچھ وقت بعد یوسف سے بھی یہی کچھ ہونے والا تھا ۔
ماروا کو البتہ سب یاد تھا ۔2011 ء کا وہ دن بھی جب اس نے مزاحمت کرنے والوں کا سبز ، سفید اور کالا جھنڈا سر سے اوپر اٹھا رکھا تھا ۔ اور وہ جب کام سے طویل دن گزار کر واپس آتا تو گھر میں اس کا جسم کیسے شانت ہو جاتا تھا ۔ لمبی راتیں ان کی باتوں میں گزر جاتیں جن میں عمر کے قہقہے اتنے گہرے ہوتے جیسے سیدھے اس کے پیٹ سے ابھر رہے ہوں ۔
حکومت کے خلاف عوامی ابھار ایک برے خواب کی مانند تھا ۔ ” ان کی آزادی میرے لیے کیا لائی تھی ؟ “، وہ خود سے پوچھتی ۔ مظاہروں اور ہنگاموں نے اسے خوفزدہ کر دیا تھا لیکن وہ ان کے اس مقصد سے متفق تھی جس کے تحت وہ ایک ایسا مستقبل چاہتے تھے جس پر خوف کے سائے نہ منڈلا رہے ہوں ۔ اب وہ چاہتی تھی کہ وہ اس سب کا سودا کر لے اوربدلے میں اسے ایک اور دن عمر کے ساتھ گزارنے کا موقع مل جائے ۔
وہ سوچتی کہ اگر واقعی ایسا ہو جائے تو وہ اسے کس نظر سے دیکھے گا ۔ وقت نے اسے بہت بدل دیا تھا ۔ ” میں اب وہ نہیں رہی جو پہلے تھی ۔ میں اب وہ لڑکی بھی نہیں رہی تھی ۔“ ، اس نے خود سے کہا ۔ لیکن اسے یہ بھی خوف تھا کہ وہ اتنی بھی زیادہ تبدیل نہ ہو پائی تھی کہ اپنے بیٹوں کو وہ کچھ دے سکے جو انہیں چاہیے تھا ۔ سمیر کو پہلی بارسکول میں پیٹا گیا تھا کہ وہ مقامی نہیں تھا ، اس نے اسے سمجھایا تھا کہ وہ خود کو ایسے جھگڑوں سے الگ رکھے ۔ وہ لبنان میں مہاجر تھے اور انہیں محتاط رہنے کی ضرورت تھی ۔
جب وہ خود سے باتیں کرتی اور حالات کا جائزہ لیتی تو ایسے لمحوں میں اسے کبھی یقین نہ ہوتا کہ عمر بچ گیا ہو گا ۔ اس نے جس ظلم و تشدد کو دیکھا تھا اس میں سے زندہ بچ نکلنا ایک معجزہ ہی ہو سکتا تھا ۔
جب شامی فوج کو چھوڑ دینے والے فوجیوں نے ایک نزدیکی جیل کے قیدیوں کی لاشوں کی تصاویر شام سے باہر سمگل کیں تو اس نے یہ غور سے دیکھیں ۔ ان میں سے ایک عمر سے مشاہبہ تھی اور اس نے سوچا تھا کہ وہ یقیناً مر چکا تھا ۔
وہ اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہ جان پائی ۔
ریاستی سکیورٹی کی ’ ال خطیب ‘ شاخ جو دمشق کے قدیمی شہر میں سب سے زیادہ بدنام تھی ، میں عمر ایک 4 5x گز کی کوٹھری میں درجن بھر دوسرے قیدیوں کے ساتھ بند تھا ۔ پورے ملک میں ہزاروں لاکھوں لوگ لاپتہ تھے اور انہیں تشدد گھروں میں رکھا گیا تھا جو سارے ملک میں ایسے پھیلے تھے جیسے سمندر میں جزیرے ہوتے ہیں ۔ عمر کے گرفتار کیے جانے کے کئی مہینوں بعد اس کی کوٹھری میں ماروا کا ایک ہم عمر ، محمد بھی لایا گیا ۔ محمد کو بھی مظاہروں میں امید کی ایک نئی صبح نظر آئی تھی ۔
محمد نے جب عمر کو دیکھا تو وہ حیران رہ گیا ۔ اسے بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ، محمد کو بعد میں یاد آیا ۔ تصویریں ، جو اس کی کے خاندان نے بعد میں دکھائیں ، ان میں عمر ایک چوڑی چھاتی والا مرد تھا جس کے بازو اتنے لمبے تھے کہ وہ ماروا اور سمیر کو بیک وقت اپنے گھیرے میں لے سکتے تھے ۔ البتہ جب محمد اسے ملا تو اس کے کندھوں کی ہڈیاں جلد سے باہر ابھری ہوئی تھیں ۔
وہ دونوں ہر رات آپس میں باتیں کرتے رہتے تاکہ ان پر بوریت اور نا امیدی حاوی نہ ہو ۔ انہیں یہ بات شرمندہ کرتی کہ انہوں نے تشدد کے دوران کئی جھوٹے اقرار بھی کیے تھے ۔ اور جب گارڈ ہفتے کے ہفتے آ کر کوٹھری میں سے کسی کو لے جانے کے لیے پکارتے تو وہ پھر نہ لوٹتا ؛ تب وہ ان افواہوں پر یقین کرنے لگتے کہ لوگوں کو پھانسی لگانے کا عمل تیز ہو گیا تھا ۔
کوٹھری میں رہنے والے وہ ، جنہوں نے جیل سے باہر کی دنیا کو بھلایا نہیں تھا اور نہ ہی وہ ان کو بھول پائے تھے جو انہیں پیارے تھے ،ان میں سے کئی پاگل ہو گئے تھے ۔ محمد نے کہا ، ” میں نے بھی خود کو مجبور کیا کہ میں ہر اس بندے کو بھلا دوں جسے میں بھلا سکتا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن عمر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ “
کچھ راتیں ایسی ہوتیں جب عمر صرف وہ باتیں کرتا جن کا تعلق ' دارایا ' میں گزارے اچھے وقت سے ہوتا یا پھر شادی کے بعد اولین دنوں کی باتیں ہوتیں ۔ باقی راتوں میں اس پر احساس جرم طاری رہتا ؛ ماروا کو بچوں کے ساتھ اکیلے چھوڑ آنا جن میں سے ایک کو تو اس نے دیکھا تک نہ تھا ۔ تب اسے ان وقتوں کا بھی خیال آتا جب وہ اپنی بیوی پر غصہ کھاتا تھا جو اس سے غیر مشروط محبت کرتی تھی ۔
اسے یہ تو معلوم نہ تھا کہ وہ کہاں تھی لیکن اسے یہ ضرور احساس تھا کہ خود ، اس نے اسے تنہا چھوڑ دیا تھا ۔ ” وہ اس کے پاس واپس جانا چاہتا تھا تاکہ ہر بگڑی شے کو درست کر سکے ۔ “، محمد نے بتایا ۔
وہ دونوں بھی بالآخر الگ کر دئیے گئے ۔ وہ بس ایک بار اور ہی مل پائے، وہ بھی رات کے پچھلے پہر جیل کی راہداری میں ، تھوڑی دیر کے لیے ۔ جب انہوں نے ایک دوسرے کو گلے لگایا تو محمد کو لگا کہ عمر مزید دبلا اور کمزور ہو گیا تھا ۔ محمد کو یہ یاد تھا ۔ محمد کا خیال تھا کہ حالات میں ناامیدی اور مایوسی کے سوا کچھ نہ تھا لیکن عمر کا یقین پکا تھا کہ وہ ایک دن ضرور کامیاب ہوں گے اور وہ آزاد ہو جائیں گے ۔
جب دسمبر 2013 ء میں محمد کو اچانک رہا کر دیا گیا اور اس کی وجہ بھی نہ سامنے آئی توعمر کو تشویش ہوئی ۔ محمد کے لیے اس کی آزادی کے پہلے کچھ مہینوں کی یاد دھندلی تھی ۔ ۔ ۔ دس دن دمشق میں ، پھر لبنان ، ترکی اور پھر بحیرہ روم میں سمگلروں کی کشتی میں کیا سفر ۔ ۔ ۔ لیکن وہ اپنے دوست عمر کو نہ بھول پایا ۔
محمد نے بتایا کہ وہ ، جب ہالینڈ پہنچ گیا تو اس نے فیس بُک پر اپنے جیل کے ساتھی عمر کا نام تلاش کرنے کی کوشش کی ۔ وہاں اسے ایک عورت کا پروفائل ملا جو عمر کی ماں لگتی تھی ۔ اس نے اسے ایک پیغام بھیجا ۔ عمر کی ماں نے فوری جواب دیا ۔
ہفتہ بھر میں اسے عمر کی بیوی کا نمبر بھی مل گیا اور پھر ایک دن دوپہر کو اس نے فون پکڑا اور نمبر ملایا اور انتظار کرنے لگا ۔ جب دوسری طرف سے فون اٹھایا گیا تو اس نے محتاط انداز میں اپنا تعارف کروایا اور بساط بھر انداز میں اچھے طریقے سے بات شروع کی ۔
دو ہزار میل پرے لبنان میں فون کے دوسرے سرے پر خاموشی تھی ۔ ماروا کا دماغ گھوم رہا تھا ۔ اسے یہ معلوم تھا کہ وہ اپنے ہی گھر میں تھی لیکن اچانک اس کا جسم کہیں دور ، بہت دور جا چکا تھا ۔
”میں اب تک زمین و آسماں کے درمیان معلق رہی ہوں “ ، اس نے کہا تھا ۔
محمد اسے عمر کے بارے میں بتا رہا تھا کہ گارڈ کیسے اسے اس کے ’ قیدی نمبر ‘ سے پکارتے تھے اور یہ کہ وہ راتوں کو یہ سوچتا رہتا تھا کہ کیسے ماروا کے پاس واپس پہنچ سکے ۔
جب محمد کو یہ یقین ہو گیا کہ ماروا اس کی باتوں کو اعتبار کے ساتھ سن رہی تھی تو اس نے ماروا کو ایک اور پیغام دیا ” وہ بس اتنا چاہتا ہے کہ آپ اسے معاف کر دو ۔ “ ماروا خاموش رہی ، وہ بولتا رہا ؛ ” اگر خدا نے اسے طاقت دی اور کوئی سبب بنا کہ وہ جیل سے نکل سکے ، تو اس کا کہنا تھا کہ وہ آپ کے پاس پہنچنے کی بھرپور کوشش کرے گا ۔“
ماروا نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا ۔ اس بار اس کی خاموشی لمبی تھی اور محمد کو احساس ہوا کہ وہ رو رہی تھی ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...