باورچیوں کی فوج ظفر موج‘ ماش کی دال کیلئے الگ باورچی اور باقر خانیاں بنانے والا باورچی الگ‘ یہ زوال کی نشانیاں ہیں۔ یہ بھی غلط ہے کہ زوال اورنگزیب کی وفات یعنی 1707ءکے بعد شروع ہوا۔ زوال کی سب سے بڑی علامت یہ تھی کہ اورنگزیب عالم گیر پورے پچیس سال دکن میں رہا‘ مرہٹے اسکے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے رہے اور وہ مسلمان ریاستوں کے ساتھ۔ کابل سے لے کر بنگال تک پورا شمال پچیس سال بغیر بادشاہ رہا اور شیرازہ بکھر گیا۔
یہ بھی نہیں کہ عروج کے زمانے میں حکمران فاقے کرتے تھے‘ نہیں‘ بالکل نہیں۔ کھاتے تھے اور شوق اور ذوق سے کھاتے تھے اور خوب کھاتے تھے لیکن فرق یہ تھا کہ خوردن برائے زیستین تھا۔ نہ کہ زیستن برائے خوردن۔ زوال کے زمانے میں یہ ہوا کہ زندہ رہنے کا مقصد ہی پیٹ پوجا ٹھہرا۔ اور آج بھی یہی حال ہے۔
دس سال کابل میں رہنے کے بعد بابر نے ہندوستان فتح کیا تو آگرہ کے مضافات میں اپنے اور اپنے ساتھیوں کیلئے جو بستی بسائی اس کا نام کابل رکھا۔ مدت بعد افغانستان سے خربوزہ آیا تو کاٹتے ہوئے روپڑا۔ اس لئے نہیں کہ خربوزے کےلئے مرا جا رہا تھا‘ اس لئے کہ کابل یاد آرہا تھا۔ بابر کی بہن گلبدن بیگم لکھتی ہے کہ ہمایوں نے پھوپھیوں کےلئے دعوت کی تو پچپن بھیڑیں ذبح کیں۔ جہانگیر کا شوق بس اتنا تھا کہ بقول خود اسکے‘ اسے صرف شراب اور دن میں آدھ سیر گوشت درکار تھا۔ رہے امور مملکت تو وہ نورجہاں کے ذمے تھے۔ ہیرلڈ لیم کی ادق انگریزی میں لکھی ہوئی امیر تیمور کی سوانحِ حیات کا ترجمہ بریگیڈیئر گلزار احمد نے کیا اور اس طرح کیا کہ حق ادا کر دیا۔ جب رہنماءباورچیوں اور مالشیوں کے رحم و کرم پر ہونگے تو بریگیڈیئر گلزار احمد جیسے نابغہ کو کون جانے گا اور کسے ان کا پتہ ہو گا۔ یہ کالم نگار پہلی بار وسط ایشیا گیا تو یہ کتاب سفری گائیڈ کے طور پر استعمال کی۔ اس میں لکھا ہے کہ تیمور کی شادی پر گندم کی موٹی روٹیاں گوسفند کے شوربے میں ڈبو ڈبو کر کھائی گئیں‘ بس یہاں تک تھی ان حملہ آوروں اور فاتحین کی خوش خوراکی۔
پھر زوال کا زمانہ آیا‘ نظام حیدرآباد میں اور نواب اودھ میں خودمختار ہو گئے لیکن کیا خود مختاری تھی! بقول فر اق….
دلِ آزاد کا خیال آیا
اپنے ہر ”اختیار“ کو دیکھا
امورِ سلطنت تو وہ انگریز نمٹاتے تھے جو درباروں میں ریذیڈنٹ بن کر براجمان تھے۔ نواب صاحبان صرف باورچیوں اور بیگمات میں دلچسپی لیتے تھے‘ اودھ کے نواب نے ٹھان لی کہ ماش کی دال پکانے کے ماہر باورچی کو جو نظام حیدرآباد کے محل میں ہے‘ اپنے پاس لا کر رہے گا چنانچہ طویل کشمکش کے بعد کامیابی ہوئی۔ باورچی نے آکر شرط عاید کی کہ جب میں آکر بتاﺅں کہ دال تیار ہو گئی ہے تو فوراً کھانا ہو گی۔ عرصہ بعد ماش کی دال پکانے کا حکم ملا‘ باورچی نے پکائی اور آکر اطلاع دی۔ نواب صاحب نے سنی ان سنی کر دی۔
کچھ دیر کے بعد اس نے دوبارہ عرض گزاری۔ جب بہت دیر ہو گئی تو باورچی نے اعلان کیا کہ میں یہاں نہیں رہ سکتا۔ جاتے جاتے پکی ہوئی دال ایک درخت کے تنے کے اس حصے پر انڈیل گیا جو زمین سے ملا ہوا تھا۔ روایت ہے کہ وہ پیڑ ہمیشہ سرسبز رہا۔ واجد علی شاہ کا پلاﺅ چونتیس سیر گوشت کی یخنی میں پکتا تھا اور صبح کے پراٹھوں کےلئے ہر روز دوسیر گھی آتا تھا۔ شامی کباب ایجاد ہی اس لئے ہوئے کہ نواب صاحب کے دانت نہیں رہے تھے اور گوشت کھانے کو دل بھی کرتا تھا۔ ایک نواب صاحب نے حریف کو چت کرنے کیلئے دعوت کی تو دسترخوان پر کوفتے بھی تھے‘ پلاﺅ بھی اور قورمہ بھی‘ لیکن دراصل یہ ساری مٹھائیاں تھیں‘ جن کی شکلیں پلاﺅ اور قورمے جیسی تھیں۔ مہمان جو لقمہ میں میں ڈالتا‘ مٹھائی ہوتی۔ ”فتح“ کی کیا مسرت تھی جو میزبان نے محسوس کی! اندلس میں زوال کا زمانہ آیا تو مسلمان بادشاہ نے حملہ آور عیسائی بادشاہ سے کہا کہ فوجوں کی لڑائی بھی کوئی لڑائی ہے‘ آﺅ شطرنج میں مجھے ہراﺅ اور تاریخ نے دیکھا کہ میدان جنگ میں شطرنج کھیلی گئی۔ برصغیر کے مسلمانوں پر زوال آیا تو نوابوں نے حریفوں کو دسترخوان پر شکستیں دیں! کلائیو اٹھارہ گھنٹے گھوڑے کی پشت پر رہتا تھا اور سراج الدولہ پالکی میں میدانِ جنگ میں آتا تھا اور وہ بھی مع بیگمات! ولیم ڈال رمپل ”لاسٹ مغل“ میں لکھتا ہے کہ دہلی میں تعینات انگریز ریذیڈنٹ سرتھامس مٹکاف جس کی ذاتی لائبریری میں بیس ہزار کتابیں تھیں‘ صبح سات بجے اپنے دفتر پہنچتا تھا اور گیارہ بجے تک کام کے بیشتر حصے سے فارغ ہو چکا ہوتا تھا۔ شدید گرمی میں جب انگریز دوپہر کے قیلولے اور آرام کیلئے گھروں کو واپس جا رہے ہوتے تو بہادر شاہ ظفر کے لال قلعہ کے مکین نیند سے اٹھ رہے ہوتے!
آج اگر لاہور سے تعلق رکھنے والا سیاست دان نام نہاد جلاوطنی گزارنے کیلئے جدہ جاتا ہے اور باورچیوں کی فوج ظفر موج ساتھ لے کر جاتا ہے تو تعجب کیسا! واجد علی شاہ نے بھی تو یہی کچھ کیا تھا لیکن اسکے باوجود واجد علی شاہ کا پلہ بھاری ہے‘ اس نے ڈرامے‘ لباس سازی اور موسیقی میں تو کچھ تخلیقی جوہر دکھائے تھے‘ اسکی بنائی ہوئی ٹھمری ”بابل مورا“ آج بھی موسیقی کے فن کا حصہ ہے۔ مالشیوں کو مصاحب بنا کر رکھنا بھی مسلمان حکمرانوں کا پرانا شیوہ ہے۔ مصر کا صدر انور السادات سرکاری دورے پر فرانس گیا تو میزبان حیران ہو کر ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ اسکے ساتھ یہ اتنا قریب ترین شخص کون ہے‘ معلوم ہوا کہ وہ صدر صاحب کی مالش کیا کرتا ہے۔
زوال کا ثبوت دیکھیے کہ پاکستان کا اُس وقت کا وزیر اعظم جب کوالالمپور جاتا ہے تو جہاز سے اتر کر کسی یونیورسٹی یا کسی انڈسٹریل سنٹر کا رخ نہیں کرتا‘ سیدھا فاسٹ فوڈ کی دکان پر جاتا ہے اور برگر سے شوق فرماتا ہے۔ کراچی جاتا ہے تو بنس روڈ پر دکاندار سے بحث کرتا ہے کہ نان پر تل کم کیوں لگائے ہیں۔ الناسُ علیٰ دینِ ملوکہم‘ جیسے حکمران ویسے لوگ۔ آج قدم قدم پر فاسٹ فوڈ کے مراکز ہیں‘ بحثوں کا موضوع پزا‘ برگر‘ چرغے‘ تکے اور نہاری ہے‘ پورے ملک میں نصف درجن عوامی لائبریریاں بھی نہیں! آبادی بیس کروڑ سے اوپر ہو چکی ہے اور خواندگی کی شرح بیس فیصد سے کم ہے۔ ایوان وزیراعظم اور ایوان صدر میں ہر روز کچن کا خرچ لاکھوں کا ہے۔ فرانس برطانیہ اور سنگاپور کے حکمران دوپہر کو کافی کے ساتھ سینڈوچ کھاتے ہیں‘ مارگریٹ تھیچر اپنا کھانا خود بناتی تھی۔
زوال کے زمانے پر سینگ نہیں لگے ہوتے‘ بس ایسا ہی ہوتا ہے جیسے ہمارا زمانہ ہے‘ عروج کے زمانے میں حکمران سیاست نامہ طوسی۔ تزک تیموری‘ تزکِ بابری اور تزکِ جہانگیری جیسی کتابیں لکھتے ہیں۔ زوال کے زمانے میں ایوب خان کی فرینڈز ناٹ ماسٹر‘ مشرف کی ان دی لائن آف فائر اور یوسف رضا گیلانی کی چاہِ یوسف سے صدا جیسی کتابیں ”تصنیف“ ہوتی ہیں!!