ہم ہر وقت ڈرگز پر ہیں۔ یہ دماغ کا اپنا کیمیائی ملغوبہ ہے جو جذبات اور رویوں کا تعین کرتا ہے۔ یہ کیمیکل کئی طرح کے ہارمون ہیں۔ ہارمونز سے موڈ کی ریگولیشن میں کئی بار بڑی آسان اور گمراہ کن باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ مثلا، “آکسی ٹوکسن محبت کا ہارمون ہے”، “ڈوپامین انعامی ہارمون ہے”۔ نیورسائنسٹس پاپولر میڈیا پر چلنے والی اس قسم کی سادہ، مختصر اور غلط ہیڈلائنز کو سخت ناپسند کرتے ہیں کیونکہ نیورو کیمسٹری اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اس کے علاوہ دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہر ایک کا دماغ اتنا ہی مختلف ہے جتنا کہ انگلیوں کے نشان اس لئے یہ کیمسٹری بھی ایک جیسی نہیں۔ لیکن جس طرح انگلیوں کے نشانوں کے پیٹرن ایک قسم کے ہیں، ویسے ہی اس کیمسٹری کے۔ خوف سے لے کر محبت تک، یہی نیوروکیمسٹری ہمارے رویوں کو ریگولیٹ کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر یہ کیمسٹری محض چند کیمیکلز کے نام یاد کرنا ہوتا تو معاملہ آسان تھا ہر ایک کے باریک فرق اور خاصیتیں اس وقت کے حالات پر بھی منحصر ہیں۔ اس کی مثال کیلئے دو الگ منظر
تصور کریں کہ آپ جانتے بوجھتے ایک نشہ آور شے استعمال کر رہے ہیں۔ اگلے ایک گھنٹے میں دماغ ایک کنفیوژن کی حالت میں داخل ہو جائے گا۔ رنگ اور آوازیں گڈمڈ ہونا شروع ہو جائیں گی۔ اچانک کوئی خوف یا اچانک کوئی خیال آ جائے گا۔ منظر رقصاں ہو گا۔ کئی عجیب اشیاء اور عجیب حرکتیں نظر آنا شروع ہو جائیں گی۔
دوسرے منظر میں آپ انجانے میں یہی نشہ آور شے استعال کر رہے ہیں۔ یہی کیفیت طاری ہو رہی ہے لیکن آپ کو وجہ کا نہیں پتا۔
دونوں حالتوں میں دماغ کی کیمسٹری کو بدلنے والی ڈرگ بالکل ایک ہی تھی۔ لیکن ہونے والا تجربہ بالکل مختلف ہو گا۔ پہلا تجربہ وقتی لطف کا ہو گا، جس وجہ سے کئی لوگ اس کو بار بار دہراتے ہیں۔ دوسرا تجربہ تکلیف دہ خوف اور پاگل پن کا۔ دونوں میں فرق کیا ہے؟ ڈرگ تو نہیں بدلی لیکن اس کے بارے میں “شعوری آگاہی” بدل گئی ہے۔ یہ آگاہی دماغ پر گہرا اثر مرتب کرتی ہے۔ پہلے تجربے میں اگر قالین میں بنے سانپ اصل لگنا شروع ہو گئے ہیں تو ان کو دیکھ کر ہنسی آئی گی۔ دوسرے تجربے میں خوف کے مارے شاید “سانپ، سانپ” پکارتے باہر کو بھاگیں۔
باہر کی اور اندر کی کیفیت کو ملا کر شخصی تجربہ وجود میں آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند دہائیاں قبل ماہرِ نفسیات رابرٹ کلوننگر نے ایک تھیوری تجویز کی جس کو “شخصیت کی بائیوسوشل تھیوری” کا نام دیا۔ یہ تین ایکسز کے گرد آرگنائز تھی۔ سیروٹونن، ڈوپامین اور نورپائنفرین۔ سیروٹونین کا تعلق نقصان سے بچنے سے تھا۔ اگر اس کا لیول اونچا ہو تو اعتماد زیادہ ہو گا اور چھوٹی موٹی تکالیف کا خوف نہیں۔ اگر کم ہو تو پھر رِسک سے بچیں گے۔ ڈوپامین کچھ نیا تلاش کرنے کا ایکسز ہے۔ جبکہ نورپائنفرین انعام پر انحصار کرنے کا۔ کلوننگر نے تجویز کیا کہ یہ تینوں ایکسز ایک دوسرے سے آزادانہ ہیں اور ان تینوں کے لیول کے حساب سے آپ جہاں پر ہوں گے، وہ آپکی شخصیت کے بارے میں بتائے گا۔ آپ داد و تحسین کی خواہش رکھنے والے، نئی چیزوں سے خائف اور خطرے سے ڈرنے والے ہو سکتے ہیں یا پھر نڈر شخص جو ہر وقت نت نئے تجربے کرتا ہو اور نقصان سے زیادہ گھبراتا نہ ہو۔ میدانِ جنگ میں اگلے مورچے سے رپورٹ بھیجنے کا شوقین۔
کلوننگر کی تھیوری کو ابھی تک شخصیت میں ضمنی حوالے سے ہی دیکھا جاتا ہے۔ لیکن شخصیت کو بیان کرنے کے لئے یہ ایک بڑا اہم اضافہ اور نئی جہت ہے۔ یہ وہ روشنی ہے جو دماغ کے اندر سے اس پر روشنی ڈالتی ہے۔ لیکن اس ماڈل کے ساتھ مسئلہ ہے کہ بہت سے اور کیمیکل بھی ہیں۔ مثلا، آکسی ٹوکسین اور اینڈورفین کی طرح کے۔ اور یہ ایک دوسرے سے آزاد نہیں۔ کلوننگر کے ماڈل کے ایکسز کافی نہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مستقبل میں شاید وہ وقت زیادہ دور نہیں جب ہمارے پاس وہ ٹُول موجود ہوں جب تشخیص یا دماغی امیج کے سکین سے شخصیت کی ہمہ جہتی نیوروکیمیکل تصویر بنا لی جائے۔ ہم یہ اعتماد سے بتا سکیں کہ کسی کا سیروٹونن کا لیول بہت زیادہ ہے اور ڈوپامین کا سسٹم بہت جلد ریسیٹ ہو جاتا ہے جبکہ ٹیسٹوسٹیرون اوسط سے کم ہے۔ اس طرح کی تصویر شخصیت کی نیوروکیمیکل پروفائل ہو گی۔
اس پر کئی مستقبل سے ڈرانے والی فلمیں بنائی جا سکتی ہیں لیکن یہ اتنا برا یا پاگل پن والا خیال نہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ آپ کی قسمت آپ کے جینز کے ساتھ لکھ نہیں دی گئی۔ زندگی کے تجربات اور شعوری فیصلے نیوروکیمسٹری پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ سیروٹونن کا لیول زیادہ اس وجہ سے بھی ہو سکتا ہے کہ پیدا ہی ایسے ہوئے تھے یا ان کا تعلق پرورش سے تھا۔ ایسی پروفائل شخصیت کے مکمل رنگ نہیں رکھ سکتی لیکن اس کا خاکہ ہو گی۔ ہم ابھی بھی ہر وقت شخصیت کے اس قسم کے خاکے بنا رہے ہوتے ہیں۔ نیوروپروفائل کے اعداد میٹرک کے امتحان میں آنے والے نمبروں والے اعداد کے مقابلے میں کسی کے بارے میں بہترعکاس ہوں گے لیکن کسی کے بارے میں ٹھیک سے جاننے کا واحد طریقہ پھر بھی اس کے ساتھ وقت گزارنے کا ہو گا۔ لیکن جب زیادہ وقت گزارنے کا موقع نہ ہو تو یہ اعداد اچھی معلومات بہم پہنچا سکیں گے۔
ہو سکتا ہے کہ ہم اس مقام تک پہنچ جائیں جب ہم پروفائل سے ہی کچھ نتیجہ اخذ کر لیں (حد سے بڑھی سیروٹونن، ڈوپامین کی کمی، اوسط درجے کی ٹیسٹو سٹیرون۔ ارے، یہ تو طیفے جیسا ہے)۔ کیا یہ کسی کی شخصیت کا مکمل عکاس ہو سکے گا؟ ظاہر ہے کہ نہیں۔ جس طرح “پچیس سالہ مرد، چھ فٹ قد، ستر کلوگرام وزن، دو بہنوں کا بڑا بھائی” کی پروفائل سے کسی کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ویسے ہی، بس اس سے بہتر۔ یعنی یہ مکمل کہانی نہیں ہو گی لیکن سمجھنے والے کیلئے کسی کی شخصیت کو جاننے کیلئے متعلقہ ڈیٹا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جینیاتی پروفائل کے مقابلے میں اس کا اضافی فائدہ یہ ہے کہ نیوروٹرانسمٹر پروفائل زندگی کے تجربات اور کلچر کے اثرات کو بھی اپنے اندر سموئے ہوتی ہیں۔ دماغ کی کیمسٹری کا کچھ حصہ ڈی این اے کی وجہ سے ہے اور کچھ ماحول اور تربیت کی وجہ سے۔ اس پر ایک مشہور سٹڈی برطانیہ کی سول سروس میں کی گئی جہاں پر سٹریس کے لیول کی پیمائش کی گئی، جو کہ دل کی بیماروں کا سب سے واضح انڈیکیٹر ہے اور کورٹیزول کی زیادتی کا۔ جو عہدے میں جتنا اوپر تھے، ان کا کورٹیزول کا لیول اتنا کم تھا۔ وہ لوگ جو بائیولوجی میں ڈیٹرمینزم پر پکا یقین رکھتے ہیں، وہ بھی اس پر بحث نہیں کریں گے کہ کورٹیزول کا لیول کم ہونا ترقی کی وجہ نہیں۔ یہ بالکل واضح تھا کہ سول سروس میں کلچرل ماحول ان کے ممبران کے سٹریس کے لیول پر اثرانداز ہو رہا تھا اور ان کے دماغ کی کیمسٹری بدل رہا تھا۔ اونچا سٹیٹس، کم کورٹویزول۔ کم سٹیٹس، زیادہ کورٹیزول۔ اسی طرح کے لیول ہمارے نیوروٹرانسمٹر پروفائل میں نظر آئیں گے لیکن یہ ہماری قسمت متعین نہیں کرتے۔ ویسے ہی جیسے پیدائش کے وقت ہمارا ڈی این اے ہماری زندگی اور شخصیت کا تعین کرتا ہے لیکن قسمت طے نہیں کر دیتا۔
جسم اور دماغ میں گھومتی پھرتی یہ ڈرگز ہمارے بارے میں بہت کچھ بتا دیتی ہیں۔ صرف ہماری پیدائش کی بائیولوجی کے بارے میں ہی نہیں، بلکہ باہر کی وسیع دنیا کی بھی علامت ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو سکتا ہے کہ ہم مسستقبل میں آبادی کے اوسط لیول دیکھا کریں گے۔ کیمسٹری کے اس ملغوبے میں شامل ہر طرح کے اجزاء کے۔ اور پھر واقعات کے ساتھ ساتھ ان میں ہوتی تبدیلیاں۔ جس طرح ایک مذاق پر ہنسی ایک شخص میں ایڈرنالین کی سطح کو سپائک دیتی ہے، ویسے دہشت گردی کا واقعہ قومی سطح پر کورٹزول میں سپائک نمایاں کرے گا۔ معیشت میں ہونے والی یکایک تیزی سیروٹونن کے لیول کو۔ عالمی واقعات ڈی این اے کو نہیں بدلتے۔ جینیاتی تبدیلیاں دس یا بیس برس میں نہیں ہو سکتیں لیکن دماغ کی کیمسٹری ان واقعات سے بہت جلد اثر لیتی ہے۔ سیکنڈوں سے لے کر دہائیوں کے سکیل پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ قسم قسم کے کیمیکلز ہمیشہ سے اپنا کردار خاموشی سے ادا کرتے آئے ہیں۔ انہوں نے افراد، شخصیات اور معاشرے بنائے ہیں اور بگاڑے ہیں۔ انسانی تاریخ کے اس لمبے ڈرامے کی کہانی لکھی ہے۔ اب وہ وقت آن پہنچا ہے جب ہم ان کی آواز سن سکتے ہیں۔ اگر اس کو سننا کچھ مشکل ہے تو کیا ہوا۔ ہم کیا پہلے کبھی مشکل کاموں سے گھبرا کر بھاگے ہیں؟