آنس معین کے بارے میں تمام دانشوروں نے اس کی انفرادیت اور عظمت کا برملا اعتراف کیا ہے لیکن آنس معین کے فن کوکسی اورمعروف شاعر کے برابر گرداننا یا اس سے مماثلت دینا میرے نزدیک اس کی عظمتِ فن میں کمی کرنا ہےاور یہ رجحان اس کی انفرادیت کی ایک واضح صورت ہے۔ حیرت کی بات ہےکہ آج تک دانشوروں نے شیکسپیئر کو یا غالب کو کسی ایسے خانے میں نہیں رکھا کہ ان کو کسی ان سے زیادہ معروف شخصیت سے تشبیہ دی جائے۔میں کہتا ہوں شیکسپیئر شیکسپیئر ہے،غالب غالب ہے اور آنس معین آنس معین ہے۔آنس معین نے اگر کم عمری میں ہی اتنی خوبصورت وزنی اور منفرد شاعری کی تو اس کا کریڈٹ براہ راست صرف اسے ہی کیوں نہ دیا جائے۔ اسے دوسروں کے کھاتے میں کیوں ڈالا جائے۔مجھے اس تناظر میں اس عہد کے ایک سر برآوردہ شاعر جناب احمد ندیم قاسمی صاحب کی یہ بات پسند آئی کہ ”میں آنس معین کے اشعار پڑھ کر دم بخود رہ جاتا ہوں اور رشک کرتا ہوں کہ آنس جیسے شعر کہہ سکوں “دراصل یہی دیانتدارانہ اعتراف ہے اور میں اس اعتراف کوان کی وسیع القلبی سمجھتا ہوں ۔
دراصل شاعری ایسا فن اور صنفِ ادب ہے کہ شعرا،ادبا کے اس جمِ غفیر میں ہر دانش ور،ہر لکھاری ساری عمر اسی تگ و دو میں رہتاہے کہ وہ اس تناظر اور حسیات کی روشنی میں اتنا کسبِ فیض کرے کہ اس قبیلے میں اس کا قدو قامت سب سے الگ نظرآئےجواس کی عظمت کی ضمانت دے۔
شاعری کے صدیوں کے سفرمیں جن شعرا نے اس بے حد و بے کنار فضا میں اس مقام کوحاصل کرلیا ان کےنام اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک اس جہانِ فانی ادب کا ایک بھی نام لیواموجو۔ہے۔ میر،غالب، اقبال، داغ، جوش، جگر،کیٹس یہ سب نام اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں اور مزید کڑیاں اسی طرح ملتی جائیں گی ۔جب تک یہ زنجیر ساری دنیا کی ادبی وسعتوں کا احاطہ نہ کرلے اور انہیں اپنےاندر نہ سمیٹ لے۔
آنس معین بھی اسی سلسلے کی ایک علحیدہ کڑی ہے۔ ایسی کڑی جس کو اگر اس زنجیر سے منسلک نہ کیا جائے تو اس کے حصے بخرے ہو جائیں ۔یہ اتنی بڑی اور اہم بات ہے کہ اس کا اعتراف نہ کرنا ادبی منافقت کے زمرے میں آئے گا۔آنس معین نے اپنی کم عمری میں جو شعری ترکہ چھوڑا،جو شعری فضا قائم کی اس کے مقابلے میں لوگوں کو بےشک کیٹس یا شیلے یاد آئیں ، مجھے تو صرف آنس معین ہی یاد آتا ہے۔گو کہ یہ دولت بہت جلد ہم سے اور اردو ادب سے چھن گئی لیکن انسان کا ان معاملات میں دخل دینا کسی صورت مناسب نہیں۔آنس معین نے تو اپنے اس مختصر دورِ حیات میں ہی وہ کچھ کہہ دیا جو اسکی ذات کا مکمل عرفان ثابت ہوا اور میں تو یہ کہتاہوں کہ اس نے جو کچھ کہہ دیا وہ جیسے صدیوں کی ریاضت کا نچوڑ تھا۔ایسا نچوڑکی جس کی خوشبوصدیوں تک پھیلی رہے گی اور دنیا اس چشمہ نور سے روشنیاں کشید کرتی رہے گی۔
آنس معین کو انفرادیت کےاس مقام پر ممیز کرنے میں اس کا لہجہ اس کے فکر و شعورکی بالیدگی اور اس کے اندر پکنے والا تخلیقی لاوا تھے ۔ جن کی بدولت اسے اظہارِ ذات کی ساری آسانیاں میسرآگئیں اور وہ اپنے معاصرین سے بالکل الگ راہ متعین کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ انہی سے اس کے زاویہ نگاہ کی شناخت ہوگئی۔یہی صفات اس کی پہچان بن کر اس کے روشن مستقبل کی ضمانت بنیں۔ وہ مستقبل جو اس کی غزل کو تا قیامت جدید شعری امکانات اور توسیع فکرو فن بخشتا رہے گا۔
آنس معین آج ہم میں موجود نہیں لیکن اسکی لطافتِ سخن دنیا میں اس وقت تک پھیلی رہے گی جب تک صبا پھولوں کو مس کرتی رہے گی ،جب تک روشنیاں اندھیروں کو منور کرتی رہیں گی ۔ گو یہ شعلہ جوالہ بھڑک کر جلد خاموش ہو گیا لیکن یہ خاموشی وقتی تھی جسکی حدت کے سوتے تا قیامت خشک نہیں ہوں گے۔
اس بات کا سب اعتراف کرتے ہیں کہ آنس معین جیسا جینئس اور سچا تخلیق کار صدیوں میں پیدا ہوتاہے اور یہ کہ اسکی شاعری کا ناقدانہ تجزیہ کرنے کے لیے جدید اردو تنقید نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی۔آنس معین کی شاعری کی شناخت کے سلسلے میں یہ بات نہایت ذمہ داری ،پورے خلوص اور فن سے دیانتداری کے ناتے ہی کہی جا سکتی ہے اور تجزیہ نگاروں نے آنس معین کی بھرپور اور توانا شاعری کو یہ رتبہ بخشنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا۔
میں یہ بات ہر گز تسلیم نہیں کرتا کہ جب تک اس کے شعر زندہ ہیں آنس معین کا نام بھی زندہ رہے گا۔میں تو یہ کہتا ہوں کہ اسکے شعر زندہ رہیں گے اور تاابد یہ سلسلہ جاری رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ جوں جوں زمانے گزرتے جا رہے ہیں آنس معین اتنی ہی تیزی سے آسمانِ شاعری پر نمودار ہورہا ہے۔مجید امجد بھی اسی طرح زمانوں کی تاریکیوں میں جذب ہو گیا تھا لیکن اب اس کی روشنی کی کرنیں قریہ قریہ بکھر اور چار دانگ عالم میں اجالےکر رہی ہیں ۔ آنس معین بھی اسی روشنی کی وہ مشعل ہے جو حال اور مستقبل کے اجالوں کی تفسیر ہے۔آنس معین کو فراموش کر دینا زمانے کے بس کی بات نہیں۔ اپنے مختصر عرصہ حیات میں اس نے جدید اردو غزل میں وہ منفرد مقام حاصل کر لیا تھا جس نے فن کی ساری وسعتوں کا بھر پور احاطہ کیااور جن میں عصری صداقتوں کا بھرپور شعور جذب ہو گیاتھا۔اس کے انہی جذبوں کی فراوانی ،اظہارِ ذات کا یہی انداز ،اس کا اسلوب سخن ،کشادگی زبان و بیان ، اشعار میں طرز نو کی انفرادیت، جذبوں کی رعنائیاں ،توانائیاں اور سچائیاں اس کو غزل کا توانا اور باشعور شاعر قرار دینےمیں ممدو معاون ثابت ہوئیں اور اس کی شاعری کے زندہ جاوید ہونے کی علامتیں بنیں۔جمالیات زیست کی یہی لطف اندوزی آنس معین کے قاری کو طمانیت اور سرشاری بخشتی ہے اور بخشتی رہے گی ۔
یہ حقیقت ہے کہ ہم کتاب زیست کا آخری ورق پڑھنے سے ڈرتے ہیں لیکن آنس معین نے اس ورق کو بےدھڑک پڑھ لیا تھا۔موت کا ایک دن معین ہے۔ آنس نے زندگی کی ساری وسعتوں اور آنے والی ساعتوں کا جائزہ لےلیا تھا۔ چاند ، سورج، زمین، آسمان اس کو ایک ہی سلسلے کی کڑیاں نظر آتی تھیں اسی جمود نے اس کے باطنی ادراک کو بیدار کیا اور اس نے آخر کہہ دیا؎
نہ تھی زمین میں وسعت مری نظر جیسی
بدن تھکا بھی نہیں اور سفر تمام ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممکن ہے کہ صدیوں بھی نظر آئے نہ سورج
اس بار اندھیرا مرے اندر سے اٹھا ہے
آنس معین کی غزل میں جو آفاق گیری اور اس کی شاعری کے قد و قامت کی جو بلندی ہے اس سے دراصل وہ خود ہی خوفزدہ ہو گیا تھا اور یہی لہر اسے اپنے پرستاروں میں نظرآگئی تھی ۔اسی لیے اسے کہنا پڑا؎
میری قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سورج مجھے دیا لکھنا
ہر بڑے شاعر کی اپنی شریعت ہے اور یہی شریعت شاعری میں جزو پیغمبری بنتی ہے ۔آنس معین ایک ایسے شاعر تھے انہوں نے گھسی پٹٰی شاعری سے مکمل انحراف کیا ۔ جس وقت انہوں نے میدان شاعری میں قدم رکھا اس وقت روایتی شاعری اور جدید شاعری کی راہیں الگ ہو رہی تھیں۔روایتی شاعری کو دراصل اس وقت اتنی پزیرائی میسر نہیں آرہی تھی جتنی جدید شاعری کو مل رہی تھی ۔اگرچہ جدیدیت کے علمبردار شعرا نے جدید شاعری کی عظمت میں روایت سے ہٹ کر کچھ الفاظ جیسے پہاڑ، سانپ ،ہوا، سمندر، سورج، پتھر اور اسی قسم کے دوسرے الفاظ سے شاعری کے مزاح میں خوبصورت تبدیلیاں کیں اور اس نئی روش سے ہمارے شعری اثاثہ میں خاطر خواہ اضا فے ہوئے۔ روایتی شاعری کے علمبردار شعرا نے بھی بدلتی ہوئی قدروں کا حتی الامکان ساتھ دینے کی کوشش کی اور اس طرح شاعری کو نئے لہجے میسر آئے لیکن آنس معین کو ایسی کسی روش کی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہ ہوئی کیونکہ اس نے ابتدا ہی اپنی خوبصورت جدید شاعری سےکی۔ایسی جدید شاعری جو صرف تبدیلی حرف کی ہی منت کش نہ تھی بلکہ جدیدیت کے سانچے میں ڈھلی ڈھلائی آتی تھی۔
اس لیے اس پر کسی تصنع اور تقلید کا گمان عبث تھا۔اس کا اپنا انوکھا لہجہ تھا۔ منفرد انداز،نئے اسلوب اور اسکی بالغ نظری نے اسے روایتی شاعری کا پابند نہیں ہونے دیا۔ابلاغ کا تیکھا پن اور اظہار خیال کی بر جستگی نے آنس معین کو اس عہد کے شعرا میں اتنا سربرآوردہ کردیا کہ اس سفر میں وہ سب سے سربلند نظر آیا۔میں کہتا ہوں جب تک شعری سفر جاری رہے گا آنس معین اپنے ہم سفروں اور ہم عصروں میں ایک الگ روش پر چلنے والا شاعر نظر آتا رہے گا۔ایسا شاعر جس کے جذبوں کی گہرائیاں اور گیرائیاں دوسروں سے بالکل الگ تھلگ ہیں۔
وہ اپنی ذات میں ایک بحر بے کراں تھا اسی لیے اس نے کہا؎
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
آنس کی شاعری کے مطالعہ سے ایک بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس کے اندر اور باہر کے تضادات میں کرب ،مایوسی ،حزن،محرومی اور نجانے کتنے ہی ایسے جذبے تھے وہ جن کی زد میں رہا ۔یہ ساری کشمکش حیات اس کی رگ و پے میں سمائی رہی جس کی وجہ سے اسے کہنا پڑا؎
کبھی میں سورج کو دوں صدا تیرگی کے ڈر سے
کبھی یہ سوچوں کہ برف کا ہے مکان اپنا
یہ انجانا خوف زندگی بھر اس پر مسلط رہا آخر اس خوف سے مفاہمت کرکے اس نے کہا؎
وسعتِ دنیا میں گم ہو جاؤں گا
ایک بچے کی طرح سو جاؤں گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رہتا ہوں جس زمیں پہ وہی اوڑھ لوں گا میں
جائے اماں اک اور بھی ہوتی ہے گھر کے بعد
نجانے اتنا بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے اس نے کیوں نہ سوچا کہ اس کے وسعت دنیا میں گم ہوجانے کے بعد زمانے، صدیاں، دوست، اپنے ، بیگانے اس کی تلاش میں کس طرح سرگرداں رہیں گے لیکن اس کی شاعری ہمیشہ زندہ اور ہم میں موجود رہے گی ۔اگر چہ اس کو تلاش کرنے والے راہوں میں ڈھیر ہو جائیں گے۔ اسے تو وہ جائے اماں مل گئی جس کی اسے تلاش تھی۔مایوسی اور محرومی کے اور بھی بے شمار اشعار آنس معین کی شاعری میں بھرے پڑے ہیں اور یوں اس کی ساری داستانِ حیات ہی ایسے حیرت افزا حالات و واقعات کی آئینہ دار ہے کہ قاری یہ فیصلہ کرنے پر مجبور اور آمادہ ہوجاتا ہے کہ صاحب زادے جوان ہوتے نظر نہیں آتے تھے۔اسی لیے جوانی سے پہلے ہی وہ دنیا کو آگاہ کر گئے ؎
انجام کو پہنچوں گا میں انجام سے پہلے
اب میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
آنس معین کی شاعری میں یہ اضمحلال،یہ حزن و ملال یہ شکستگی کا سفر تا حیات جاری رہا ۔اس پر ایک عدم تحفظ کی کیفیت طاری رہی۔اس ڈر سے وہ اپنی ذات کی گہرائیوں میں اتر گیا۔اس انجانے خوف نے اس کی زندگی کے سارے منظر ویران کر دیے ۔ایک یاسیت نے اس کےرگ و پے میں اتر کر اسے یہ کہنے پر مجبور کردیا؎
گونجتا ہے بدن میں سناٹا
کوئی خالی مکان ہو جیسے
بدن کے اس سناٹے اور زندگی کی اس ویرانی سے خوف زدہ ہو کر آنس نے کہا؎
سچ کہنے کا حوصلہ تم نے چھین لیا ہے ورنہ
شہر میں پھیلی ویرانی کو سب ویرانی کہتے ہیں
آنس میں بلا شبہ ایک شعلہ جوالا تھا جس نے بھڑک کر نہایت مختصر عرصہ میں اپنے فن کی مدت اور روشنی سے دنیا پر یہ واضح کردیا تھا کہ اس کے اندر کے مدوجزر نے اسے شکستگی کے عالم سے دوچار کر دیا ہے اور یہ کہ وہ ایسی قدو قامت کا شاعر ہے جسے شاعر کے باطن کا مکمل ادراک ہے۔ آنس معین کی شاعری اس کے منفردامتیازات ،طرزِ احساس اور دل و دماغ کی غیر معمولی توانائی ،تمکنت اور خود اعتمادی کی حامل ہے۔
آنس نے باطن میں بہت کچھ پوشیدہ رکھا اور اس مکمل ادراک کو مکمل طور پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔اپنے اندر کی دنیا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؎
ہے میرے اندر بسی ہوئی ایک اور دنیا
مگر کبھی تم نے اتنا لمبا سفر کیا ہے
ایسے تاابد زندہ رہنے والے اشعار کہنا آنس کا ہی کام ہے۔اس نے اپنی شاعری کے انداز پر ایک ایسی گہرائی ثبت کردی ہے کہ اس کے نقوش کبھی مدہم نہیں پڑ سکتے ۔آنس معین ایسے بے پناہ جذبوں کا شاعر تھا کہ اس کی شاعری کے بے شمار گوشے ابھی تک بے نقاب نہیں ہو سکے۔اس کی شخصیت اور فن کے بہت سے پہلو ابھی تک مخفی ہیں جو آہستہ آہستہ منظرعام پر آئیں گےاور وہ بلند سے بلند تر ہوتا جائے گا ۔اس کی شاعری کے اسرار اتنے پیچیدہ ہیں کہ ان کے کھلنے میں برسوں لگیں گے۔آنس معین کے لا تعداد خوبصورت اشعار زبان زد عام ہیں۔ان اشعار کی بے ساختگی اور غیر معمولی توانائی نے آنس معین کو امر کر دیا ہے۔کچھ اشعار دیکھیے؎
کیا عدالت کو یہ باور میں کرا پاؤں گا
ہاتھ تھا اور کسی کا مرے دستانے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ سے پوچھو پیڑ سے پتے کس نے چھینے
میں نے ہوا کے قدموں کی آواز سنی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جسم برہنہ
اور پاس ہے بس ایک ردا دیں تو کسے دیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بارش کی دعائیں کیسے مانگوں
مری بستی میں کچے گھر بہت ہیں
یہ اور اس طرح کے بے شمار اور اشعار اسی خوف کے تانے بانے ہیں جن کا اشارہ میں نے پہلے دیاہے۔یہ صرف انس معین کا ہی خوف نہیں بلکہ انسان اس روح مضطرب کا بوجھ صدیوں اٹھائے رکھے گااور یہ کسی میں حوصلہ نہ ہوگا کہ کہہ سکے ؎
اب میری کہانی بھی سنائے گا کوئی اور
ہاں یہ بات صرف آنس معین ہی کہہ سکتا تھااور یہی ہوا اب اس کی کہانیاں سب سناتے پھرتے ہیں۔اس کی یہ کہانی اَن مٹ ہے جس کے نقوش ہمیشہ اجاگر رہیں گے اور اسکی شاعری کے خوبصورت حوالے شاعری کو دوام بخشتے رہیں گے ۔اس کا تغزل رہتی دنیا تک زندہ اور پورے کمال پر رہے گااور وہ ہمیشہ غزل کا سر بر آوردہ شاعر شمار ہوگا۔انصاف اور دیانتداری کا تقاضہ یہی ہے کہ آنس معین جیسے خوب صورت لہجے کے شاعر کو اسکی الگ روش پر قائم ہونے کا اعزاز ضرور دیا جائے کیونکہ ایسے دیدہ ور چمن میں ہمیشہ پیدا نہیں ہوتے۔ آنس معین نے اپنی موت کی پیش گوئی یوں بھی کردی تھی؎
وہ جو پیاسا تھا سیلاب زدہ تھا
پانی پانی کہتے کہتے ڈوب گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عجب انداز سے یہ گھر گرا ہے
مرا ملبہ مرے اوپر گرا ہے