شیکسپیر اور پاکستان میں دہشت گردی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رسم و رواج، ادارے، محاورے اور اقوال زریں سدا ایک شکل اور ایک معنی میں نہیں رہتے، وقت کے ساتھ ساتھ رسم و رواج ، ادارے ، محاورے اور اقوال زریں اپنی شکلیں اور معنی تبدیل کرتے رہتے ہیں، مگر یہ سب کام اپنے وقت کے مطابق ہوتا ہے نہ وقت سے پہلے نہ وقت کے بعد ۔۔
آلات پیداوار تبدیل ہوتے ہیں تو رشتے بھی تبدیل ہو جاتے ہیں ، رسم و رواج بھی تبدیل ہو جاتے ہیں، ادارے بھی اپنی شکل و صورت تبدیل کر لیتے ہیں اور ان میں کام کرنے والے کرداروں کا کردار بھی تبدیل ہو جاتا ہے ۔
ڈاکیہ کا کردار پوری دنیا میں کتنا بڑا اور افسانوی کردار تھا، دنیا کے ادب میں کیا کیا ناول افسانے اورشاعری اس کردار پہ تحلیق نہیں ہوئی ، مگر انٹر نیٹ نے پوسٹ خانے کی شکل بدل دی ہے ، پوسٹ خانے کی شکل بدلی تو ڈاکیہ کا کردار بھی بدل گیا،،،،
ایک زمانہ تھا ہمارا ٹولہ دسمبر میں بنیان پہن کر شہر کے قہوہ خانوں میں بیٹھتا اور گلیوں میں گھومتا رہتا تھا کہ آگ کا دریا،، کی مصنفہ نے لکھ دیا تھا کہ ،، موسم انسان کے اندر ہوتا ہے،، آج یہ جملہ اپنے معنی کے ساتھ ہے مگر ہم اب وہ نہیں رہے ۔۔۔
پھر ہم نے کسی سے شیکسپیر کا یہ قول سن لیا کہ ،، نام میں کیا رکھا ہے،، بس پھر ہمارا ٹولہ کہیں بیٹھا ہوتا اور اگر کوئی نیا آنے والا بد قسمتی سے ہم میں سے کسی کا نام پوچھ لیتا تو وہ سگریٹ کے دھویں کے مرغولے بناتا شان۔ بے نیازی سے کہتا ،، نام میں کیا رکھا ہے ، اور نئے آنے والے پہ خاصے دن ہماری دھاک جمی رہتی۔۔
مگر ،،، مگر
آج لوگ بس میں سوار ہیں،،
اور پھر کچھ نورانی چہرے بس میں سوار ہوتے ہیں ، مسافروں سے نام پوچھتے ہیں اور شناختی کارڈ طلب کیے جاتے ہیں
اور،،،، اور پھر مخصوص ناموں کو بس سے اتار لیا جاتا ہے
اور ،،،،،،، اور
مذہبی تعصب کا کھردرا خنجر ان کے گلوں پہ چلا کر ان کا گلا ان کے تن سے جدا کر کے ان کے ناموں کے ساتھ ا الگ کر کے رکھ دیا جاتا ہے
اور یہ مذہبی تعصب کا خنجر اتنی مہلت بھی نہیں دیتا کہ کوئی سیگرٹ کے دھویں کے مرغولے بناتا شان۔ بے نیازی سے کہہ سکے
،، نام میں کیا رکھا ہے ،،
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“