خدا کو جب کسی انسان سے کچھ خاص کام لینے ہوتے ہیں تو اس کی زندگی میں شروع سے ایسے اسباب بنتے جاتے ہیں جو آخرکار اُسے اس منزل پر پہنچا دیتے ہیں جس مقام پر خدا اپنے اس خاص بندے کو دیکھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے خدا کو مسبّب الاسباب بھی کہا جاتا ہے۔ کچھ ایسا ہی ہوا ہندوستانی سنیما کے مقبول، کامیاب اور مشہور نغمہ نگار شکیل بدایونی صاحب کی زندگی کے ساتھ… اُس زمانے میں جب فلموں سے وابستہ ہونا معیوب سمجھا جاتا تھا، ایک مذہبی قسم کے خاندان میں اور ایک مولوی و مسجد میں پیش امام رہے شخص کے یہاں شکیل بدایونی کی پیدائش ہوئی۔
بدایوں (اُتر پردیش) میں سوختہ خاندان کے ایک بزرگ تھے، جن کا نام تھا منشی ہدایت اللہ… ان کے دو صاحبزادے تھے، ایک کا نام منشی حضور احمد تھا اور دوسرے مولوی جمیل احمد قادری سوختہؔ۔ جمیل احمد قادری کے یہاں ۳؍اگست ۱۹۱۶ء کو ایک لڑکے کا جنم ہوا تو اس کا نام شکیل احمد رکھا گیا۔ اسی بچے کا تاریخی نام غفار احمد بھی نکالا گیا۔ یہی شکیل احمد بڑے ہوکر فلمی اور ادبی دنیا میں شکیل بدایونی کے نام سے مشہور ہوئے۔
شکیل بدایونی کے والد ممبئی میں خوجہ سنی مسجد کے پیش امام اور مستند و مشہور عالم و واعظ تھے۔ شکیل بدایونی کی ابتدائی تعلیم خاندانی روایات کے مطابق اردو اور فارسی کے ساتھ عربی میں بھی شروع ہوئی۔ انہوںنے ایک دو سال باپ کے پاس رہ کر ممبئی کے مختلف اسکولوں میں بھی پڑھائی جاری رکھی، مگر بعد میں ۱۹۳۶ء میں ہائی اسکول کا امتحان اسلامیہ ہائی اسکول بدایوں کے طالب علم کی حیثیت سے الٰہ آباد بورڈ سے پاس کیا۔
شکیل بدایونی کی شادی یکم اکتوبر ۱۹۳۶ء کو جناب قیصر حسین قادری صاحب کی بڑی صاحبزادی سلمیٰ سے ہوئی۔ ابھی شکیل کی عمر صرف بیس برس کی تھی اور وہ مزید تعلیم حاصل کرکے آگے بڑھنا چاہتے تھے، مگر اُن کے والد جناب جمیل احمد قادری کیونکہ ذیابیطس (شگر) کے مریض تھے اور جلد سے جلد بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنا چاہتے تھے، لہٰذا شکیل اس بندھن میں بندھ گئے۔ شکیل بدایونی کا ذوق شاعرانہ، اور مزاج عاشقانہ تھا۔ لہٰذا یہ لگام بھی اسفند تخئیل کی دوڑ کو نہ روک سکی، اور حضرت مولانا ضیا القادری کی زیر تربیت شاعری کا جنون سر چڑھتا رہا۔ شکیل بدایونی کے پانچ اولادیں ہوئیں۔ دو لڑکے اور تین لڑکیاں۔ ان کی سب سے بڑی لڑکی رضیہ شکیل کراچی میں ہیں اور صفیہ شکیل ممبئی میں ہیں۔ سب سے چھوٹی بیٹی نجمہ شکیل خود شکیل بدایونی کے انتقال کے کچھ ہی عرصہ بعد خدا کو پیاری ہو گئی تھیں۔ اُن کے دو لڑکے جاوید شکیل اور طارق شکیل ممبئی میں ہی اپنا اپنا کاروبار سنبھالتے ہیں۔
مولانا ضیا القادری شکیل بدایونی کے والد کے بے حد عزیز اور قریبی دوست تھے اور ان ہی کے پڑوس میں رہتے تھے۔ بہت سے لوگ ان کو شکیل کے والد کا سگا بھائی ہی تصور کرتے تھے۔ شکیل ابتدائی تعلیم کے زمانہ سے ہی غزلیں کہتے تھے اور مولانا ضیاالقادری سے مشورۂ سخن کرتے تھے۔ ابتدائی غزلوں پر مولانا کی اصلاحیں بہت کام آئیں اور شکیل کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ مولانا خود بھی پائے کے شاعر تھے اور ان کے پاس شعرا، ادباء اور علماء کا مجمع لگا رہتا تھا۔ اس لئے شکیل کی شاعری پر کبھی صوفیت کے دورے پڑتے اور کبھی ادبیت کے۔
۱۹۳۹ء میں شکیل بدایونی کے والد حضرت مولانا جمیل احمد قادری صاحب کا انتقال ہو گیا۔ مگر شکیل نے مولانا ضیاالقادری کے تعاون سے تعلیم جاری رکھی۔ اس کے علاوہ ممبئی سے ’’دائود بھائی فضل بھائی ٹرسٹ‘‘ کے وظیفے نے بھی شکیل بدایونی اور ان کے خاندان کو کافی سہارا دیا۔
شکیل بدایونی کی ادبی شاعری میں انقلاب اس وقت آیا جب وہ علم و فن کے مرکز، بدایوں کو چھوڑکر علی گڑھ پہنچے۔ یہ ۱۹۳۶ء کا زمانہ تھا اور شکیل بدایونی ڈے اسکالر کی حیثیت سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں مقیم تھے۔ یہاں انہیں ہر مکتبۂ خیال کے ادباء، شعراء اور علماء سے فیض حاصل کرنے کا موقع ملا۔ حضرت جگرؔ مرادآبادی سے ملنے اور اُن کی فکر و نظر سے فیض یاب ہونے کا موقع بھی یہیں شکیل بدایونی کو حاصل ہوا۔ حضرت جگرؔ مرادآبادی سے ان کی قربت بڑھتی گئی، جس سے ان کا ذوق تغزل اور نکھر گیا اور وہ اسی میدان کے مرد بن گئے، شکیل کے ذوق شاعری میں یہیں سے ایک انقلاب پیدا ہوا۔
شکیل بدایونی کی شاعری میں زندگی اور محبت کا تصور بہت سادہ، پاکیزہ اور خوبصورت ہے۔ اس تصور میں ان کی رومانیت جلوہ گر ہے۔ شکیلؔ کی رومانیت جگرؔ سے بہت متاثر ہوئی ہے۔ ان کے تغزل کا رشتہ ماضی سے گہرا ہے۔
۱۹۴۲ء میں علی گڑھ سے بی۔اے کرکے شکیلؔ بدایونی دہلی آگئے اور حکومت ہند کے محکمۂ سپلائی میں ملازمت اختیار کر لی۔ یہاں آکر شکیلؔ بدایونی کو ادبی مشاغل کا اور وسیع میدان ملا۔ دہلی میں ان دنوں امرناتھ ساحرؔ، بے خودؔ، سائلؔ، زارؔ،امنؔ جیسے بزرگ شعراء تھے تو دوسری طرف جوشؔ، مجازؔ، تاثیرؔ، فیضؔ اور جعفریؔ جیسے جدید شاعری کے علمبرداروں کی نبرد آزمائی کا میدان بھی تھا۔
شکیلؔ بدایونی نے اپنے لئے قدیم اور جدید شاعری کے درمیان ایک نئی راہ نکالی، جس میں بیک وقت پراناپن بھی تھا اور نیاپن بھی… قدیم اور جدید شاعری کے امتزاج نے شکیلؔ کو انفرادیت بخشی اور وہ بہت جلد مقبول ہو گئے۔
دہلی میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام ’’راعنائیاں‘‘ کے نام سے شائع ہوا اور ۱۹۴۶ء تک شکیل بدایونی کا شمار ہندوستان کے مشہور شعرا میں ہونے لگا اور شکیل متواتر دہلی اور لاہور کی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے۔
شاعری اور نوکری دو متضاد چیزیں ہیں، مگر ان دونوں تضادوں کو ایک ساتھ لے کر ۱۹۴۲ء سے ۱۹۴۶ء تک شکیل بدایونی حکومت ہند کے محکمہ سپلائی میں کام کرتے رہے۔ وہاں وقت کی پابندی تھی اور شکیل کے مزاج میں آزادی کا رنگ تھا… وہاں افسروں کی سختیاں اور شکیل کی فطرت میں خودداری کا عنصر، وہاں میز اور فائلوں کا انبار اور شکیل کی طبیعت تخلیقِ فن کی طرف مائل… غرض شکیل کی روح کو ایسے ماحول کی تلاش تھی جہاں پابندی بھی نہ ہو، عزت بھی ملے اور دولت بھی۔
۱۹۴۶ء میں پہلی بار شکیل بدایونی ممبئی کے بائکلہ میں صدیق انسٹی ٹیوٹ کی دعوت پر مشاعرہ پڑھنے گئے تھے۔ اسی مشاعرہ میں جگر مرادآبادی، ماہرالقادری اور نوح ناروی جیسے شاعر بھی موجود تھے اور مجروحؔ سلطانپوری اور خمار بارہ بنکوی بھی تھے۔
اسی مشاعرے میں حسنِ اتفاق سے مشہور فلمساز وہدایتکار اے۔ آر۔ کاردار صاحب بھی موجود تھے۔ کاردار صاحب شاعری سننے کے بڑے شوقین تھے۔ وہیں انہوںنے شکیل کو کلام پڑھتے ہوئے سنا۔ شکیل بدایونی کی شہرت اس وقت تک دہلی اور لاہور کے علاوہ ممبئی کے ادبی حلقوں تک بھی پہنچ چکی تھی۔ کاردار صاحب اس مشاعرے میں شکیل بدایونی کے کلام سے بہت متاثر ہوئے۔ مشاعرے کے بعد کاردار صاحب نے شکیل سے ملاقات کی اور فلمی نغمہ نگاری کی پیشکش کی جو شکیل بدایونی نے منظور کر لی۔ اگلے ہی دن سارے معاملات طے ہو گئے اور شکیل نے دہلی آکر سرکاری ملازمت کو خیرباد کہہ دیا۔
اس طرح شکیل بدایونی اگست ۱۹۴۶ء میں دہلی سے مستقل طور پر ممبئی آگئے اور اسی ممبئی میں، جہاں اُن کے بزرگ باپ، واعظ اور پیش امام رہ چکے تھے، ایک سعادتمند بیٹے نے فلمی نغمہ نگاری کے میدان میں پیر پھیلانے شروع کر دئے۔
ممبئی میں رہ کر شکیل بدایونی نے کافی جدوجہد کی، مگر خوش قسمتی سے جلد ہی کاردار اسٹوڈیو میں ہی ان کی دوستی ہندوستان کے مشہور موسیقار نوشاد علی سے ہو گئی، اور پھر دھیرے دھیرے یہ دوستی ہمیشہ کا ساتھ بن گئی۔ شکیل بدایونی نے سب سے پہلے کاردار صاحب کی فلم ’’درد‘‘ کے نغمے لکھے۔ ان کا پہلا فلمی نغمہ تھا…
ہم درد کا افسانہ دنیا کو سنا دیں گے
ہر دل میں محبت کی اک آگ لگا دیں گے
پہلی فلم ’’درد‘‘ کے گانوں نے ہی شکیل بدایونی کو فلمی دنیا میں بام شہرت تک پہنچا دیا… اور اس کے بعد تو جس طرح نوشاد صاحب موسیقار اعظم بن گئے، اسی طرح شکیل نے بھی اتنی ہی اونچی شہرت حاصل کی۔
فلموں میں حضرت آرزوؔ لکھنوی نے معیاری اور ادبی گیتوں کے لکھنے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اُن کے بعد جن شعراء نے اس معیار کو فروغ دیا، ان میں شکیل بدایونی کا نام سرفہرست ہے اور اسی بات نے شکیل کو ہماری فلمی دنیا کا ممتاز اور عظیم نغمہ نگار بنا دیا۔
شکیل نے کلاسیکی شعراء کے مطالعہ سے بہت کچھ حاصل کیا ہے اور ساتھ ہی جگرؔ کے ہمعصر شعراء کے اثرات بھی قبول کئے ہیں۔ جگرؔ کی شاعری نے اردو غزل کی اعلیٰ اور عمدہ روائتوں کو جذب کیا تھا اس لئے شکیلؔ اس صنم کدہ میں ایک ساتھ بہت کچھ دیکھنے اور محسوس کرنے لگے۔ انہیں جنون، سرمستی، والہانہ پن، سپردگی کا احساس، حسن پسندی اور حسن کاری، گہری رومانیت، رنگینی اور عشق و محبت کا ستھرا تصور، کیا نہیں ملا…؟
بنیادی طور پر شکیلؔ بدایونی غزل گو شاعر ہیں۔ اردو اور فارسی کی کلاسیکی شاعری سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ وہ روایت پرست نہیں بلکہ روایت پسند تھے۔ اسی روایت پسندی سے ان کے فلمی نغموں میں ماضی کا صحیح احساس پیدا ہوا ہے۔ ظاہر ہے جب تک یہ احساس پیدا نہ ہو، زندگی کی قدروں اور جذبہ و احساس کے ارتقاء اور تسلسل کو سمجھنا ممکن نہیں ہے۔ ان کا کلاسیکی رجحان، جمالیاتی اور رومانی مزاج کو سہارا دیتا ہے، احتیاط کا شعور پیدا کرتا ہے۔ ان کے فلمی نغموں کا ایک رومانی کردار ہے جو روایات کے پس منظر میں ابھرکر کلاسیکی رجحان اور جدید نغمہ سرائی کے فن کو سمجھتا ہے… شکیل حسن وعشق کے نغمے رسمی طور پر نہیں سناتے، تخئیل اور جذبے کی ہم آہنگی سے حسن وعشق کے تجربوں میں نئی وسعتیں پیدا کرتے ہیں۔
شکیل بدایونی نہایت سادہ سی طبیعت کے مالک تھے۔ وہ فلمی دنیا کی چمک دمک سے بھی زیادہ متاثر نہ ہوئے تھے۔ ایک نہایت شریف قسم کی شخصیت کے طور پر انہوں نے ممبئی کی فلمی دنیا میں بڑی عزت اور احترام سے بھرپور زندگی گزاری۔ شکیل بدایونی کی شرافت اور سادگی کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے، جو یہاں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
ایک بار کا ذکر ہے کہ بیگم اختر بمبئی سے لکھنؤ کے لیے ٹرین سے روانہ ہونے والی تھیں، اچانک وی۔ٹی۔ اسٹیشن پر نغمہ نگار شکیل بدایونی اُن سے ملنے آگئے اور چلتے وقت انہوںنے ایک پرچے پر اپنی غزل لکھ کر بیگم اختر کو دے دی۔ سرسری طور پر دیکھ کر اور بعد میں پڑھنے کے خیال سے انہوں نے پرچہ اپنے بٹوے میں رکھ لیا۔ اُسی ٹرین کے ڈبہ میں بیگم اختر نے شکیل بدایونی کی غزل کی دھن بنائی اور گنگنائی، جو آگے چل کر دونوں کی پہچان بن گئی۔ لکھنو پہنچ کر جب بیگم اختر نے پہلی بار یہ غزل آل انڈیا ریڈیو سے پڑھی تو پورے برصغیر میں سریلی غزل گائیکی کا ایک طوفان برپا ہو گیا۔ غزل تھی…
اے محبت تیرے انجام پہ رونا آیا…
بیگم اختر کی آواز میں گائی ہوئی شکیل بدایونی کی یہ غزل نہ صرف برصغیر ہند و پاک میں بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہوئی۔
فلمی دُنیا میں ایک شاندار مقام حاصل کرنے کے ساتھ ہی شکیل بدایونی نے دنیائے ادب میں بھی اپنا وہی مقام بنائے رکھا اور وہ ادبی حلقوں میں بھی اتنے ہی مقبول رہے، جتنے فلمی حلقوں میں۔ ان کی بعض غزلیں جو ادبی حیثیت رکھتی ہیں، ان کے فلمی گیتوں سے بھی زیادہ ملک بھر میں مقبول ہو چکی ہیں۔ ممبئی کے مشاعرے شکیل کے بغیر سُونے معلوم ہوتے تھے اور شکیل کو بھی مشاعروں کے بغیر چین نہیں آتا تھا۔
شکیل نے ہر زمین اور ہر بحر میں، اور ہر نقطۂ خیال پر سخن آرائی کی ہے۔ وہ جس قدر رومانی فلمی نغمہ نگار ہیں، اتنے ہی انقلابی اور سیاسی بھی، لیکن وہ انقلاب اور سیاست کی بات بھی ساغر ومینا اور گل و بلبل کی معرفت کرتے ہیں۔ انسانیت اور وطن پرستی کا دَرد اُن کے سینے میں ہر وقت ایک ہوک سی پیدا کئے رہتا ہے۔ یاد کیجئے فلم ’’لیڈر‘‘ میں شکیل کا وہ نغمہ…
اپنی آزادی کو ہم ہرگز مٹا سکتے نہیں
شکیل بدایونی ہر قسم کی سچویشن پر گیت لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ یاد کیجیے فلم ’’گنگا جمنا‘‘ کے تمام نغمے انہوں نے بھوجپوری زبان کی چاشنی میں لپیٹ کر نہایت عمدہ طریقے سے پیش کیے ہیں۔ فلم ’’مغل اعظم‘‘ کے نغمے شکیل بدایونی نے ہی لکھے تھے اور اس فلم کا تقریباً ہر گانا مقبول ہوا تھا۔ انٹرنیٹ کی ایک حالیہ ریسرچ کے مطابق فلم ’’مغل اعظم‘‘ کا نغمہ… ’’جب پیار کیا تو ڈرنا کیا…‘‘ اب تک کے سب سے زیادہ بار سنے گئے نغموں میں سرفہرست ہے۔ اس نغمے کا پس منظر بڑا دلچسپ اور پُراسرار بھی ہے۔ شیش محل میں ایک طرف خود اکبراعظم موجود ہیں، دوسری طرف مایوس شہزادہ سلیم ہے اور تیسری طرف خوفزدہ جودھا بائی بھی موجود ہیں۔ انارکلی کی سب سے بڑی رقیب اور تیز طرّار شاہی رقاصہ بہار بھی شہزادے کے کاندھے سے لگی کھڑی ہے۔ ایسے میں سب اپنی اپنی جگہ سوچ رہے ہیں کہ اب کیا ہوگا۔ انارکلی کو شیش محل میں گانا گانے کے بعد محل چھوڑکر چلے جانے کا شاہی حکم بھی ہو چکا ہے۔ تب تیز موسیقی کی گونجتی آوازوں کے درمیان سے انارکلی اکبراعظم کے سامنے حاضر ہوتی ہے اور بڑی بے باکی سے ایک انتہائی جوشیلا نغمہ سناتی ہے جس میںنہ صرف اپنی محبت کا برملا اظہار کرتی ہے بلکہ اکبراعظم کو بھرے دربار میں ذلیل بھی کرتی ہے اور اپنی بے خوفی کا اعلان بھی کرتی ہے۔ غصے کے انتہائی عالم میں اکبراعظم کی گردن اور چہرے کی رگیں پھول جاتی ہیں۔ شکیل بدایونی کے لیے یہ بڑی مشکل سچویشن تھی۔ لہٰذا موسیقار نوشاد علی بار بار شکیل بدایونی سے گانا لکھواتے رہے اور ناپسند کرتے رہے۔ آخرکار ایک سو پانچ بار شکیل بدایونی نے الگ الگ طرح سے اس نغمے کو لکھا اور تب جاکر ایک سو پانچویں بار کے لکھے گانے سے نوشاد صاحب مطمئن ہوئے اور گانا ریکارڈ ہوا۔ یہی وہ نغمہ ہے جو دُنیا بھر میں سب سے زیادہ مقبول ہوا۔
ایک طویل عرصہ تک شکیل بدایونی نے ہماری فلموں کو اچھے، صاف ستھرے اور صحت مند نغمے فراہم کئے ہیں۔ فلم ’’دلاری، میلہ، بابل، دیدار، اڑن کھٹولہ، آن، امر، آدمی، کوہ نور، گنگا جمنا، چودھویں کا چاند، مدر انڈیا، بیجو باورا، پالکی، دو بدن، سوہنی مہیوال، شباب، دل ناداں، دل لگی اور مغل اعظم جیسی بہترین فلموں میں لکھے ہوئے ان کے نغمے آج بھی کانوں کو سہانے لگتے ہیں۔ شکیل بدایونی کو یہ فخر بھی حاصل ہے کہ ملک کی سب سے بڑی فلموں میں ان کے لکھے نغمے رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مدراس کی کئی فلم کمپنیوں نے بھی ان سے گیت لکھوائے، خاص طور پر جیمنی اسٹوڈیو کی کئی فلموں کے لئے شکیل نے نغمہ نگاری کی ہے۔
شکیل بدایونی کی فلمی نغمہ نگاری کی چند اہم خصوصیات میں سے زیادہ اہم بات یہ رہی کہ ان کے تقریباً سبھی نغمے کلاسیکل موسیقی کے زیر اثر رہے۔ جس کی وجہ سے ان میں نغمگی کے ساتھ ساتھ تغزل کی رنگینی، سلاست و روانی، سوز و گداز، درد و کرب، ہجر و وصال اور پروازِ تخئیل جیسے محاسن بخوبی شامل ہو گئے ہیں ۔ شکیل کے نغمے فلم کی کہانی کے منظر اورپس منظر دونوں کے عین مطابق ہوتے ہیں اور فلم کی کہانی کو آگے بڑھانے میں بڑی مدد کرتے ہیں۔ ان کے نغموں کی زبان خالص ہندوستانی ہے جو عوام و خواص دونوں پر یکساں طور سے اثر کرتی ہے۔ اُن کے نغموںمیں سطحی شاعری کا فقدان ہے اور انہوں نے فلمی نغموں میں بھی شاعری کے معیار کو قائم رکھا ہے۔ وہ تخئیل اور تصورات کے حسین امتزاج سے فلمی نغموں کی تشکیل کرتے ہیں اور اُن کے نغموں کی مقبولیت سے فلم کی کامیابی پر بہتر اور مثبت اثر پڑتا ہے۔
فلم کی کہانی کے مطابق سچویشن پر گیت لکھنا اور بنی بنائی دُھن پر الفاظ کا جال بچھانا اپنے آپ میں ایک مشکل فن ہے۔ ان تمام مشکلات کے ساتھ شکیل بدایونی نے فلمی نغموں میں بھی ادبی معیار کو برقرار رکھا ہے اور یہ بات کیفیؔ اعظمی، ساحرؔ لدھیانوی، مجروحؔ سلطانپوری اور شکیلؔ بدایونی جیسے صرف چند ہی فلمی نغمہ نگار کر پائے ہیں۔ ۱۹۶۱ء میں فلم ’’چودھویں کا چاند‘‘ کے نغمے پر پہلی بار شکیل کو فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔ مشہور ریڈیو پروگرام ’’بناکا گیت مالا‘‘ میں شکیل کے گیت ہمیشہ سرفہرست رہے ہیں۔ شکیل بدایونی کے چار شعری مجموعے منظرعام پر آئے ہیں۔ جن کے عنوانات، ’’رعنائیاں، صنم و حرم، شبستان‘‘ اور ’’رنگینیاں‘‘ ہیں۔ انہوں نے کل ملاکر ۸۹؍فلموں کے نغمے قلمبند کیے۔
شکیل کا فلموں میں کامیاب ہونا اور ان کے گیتوں کی عوام میں بے پناہ مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ یہ رہی کہ انہوںنے فلمی نغمہ نگاری میں بھی شاعری کے معیار کو برقرار رکھا اور فلموں میں اپنی ایک حد تک قابل رشک کامیابی کے ساتھ بھی وہ شاعری اور غزل کے میدان سے روپوش ہونے پر آمادہ نہیں ہوئے۔
شکیل بدایونی ۲۰؍اپریل ۱۹۷۰ء کو شام کے چار بجے حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اس جہان فانی سے رُخصت ہوئے اور اُسی رات باندرہ ممبئی قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔
“