آج – 12/نومبر 1966
معروف پاکستانی شاعر، کم عمری میں خود کشی کی” شکیبؔ جلالی صاحب “ کا یومِ وفات…
نام سیّد حسن رضوی اور شکیبؔ تخلص تھا۔ یکم اکتوبر ۱۹۳۴ء کو علی گڑھ کے قصبہ جلالی میں پیدا ہوئے۔ دس سا ل کی عمر میں والدہ کا انتقال ایک حادثے میں ہوا۔ شکیب کے والد یہ صدمہ برداشت نہ کرسکے اور اپنا ذہنی توازن کھوبیٹھے۔ شکیب کے کاندھوں پر چھوٹی سی عمر میں خاندان کی کفالت کا بوجھ سرپر آن پڑا۔ بدایوں سے میٹرک کیا اور بہنوں کے ہم راہ راولپنڈی آگئے۔ لاہو ر سے بی اے کیا اور تھل ڈولپمنٹ اتھارٹی میں نوکر ہوگئے۔غالباً ناموافق حالات کی بنا پر شکیب جلالی ایک دماغی مرض میں مبتلا ہوگئے اور ۳۲ سال کی عمر میں ۱۲؍ نومبر۱۹۶۶ء کو ریل گاڑی کے سامنے آکر خود کشی کرلی۔ ا ن کے انتقال کے بعد احمدندیم قاسمی نے ان کا شعری مجموعہ ’’روشنی اے روشنی‘‘ کے نام سے ۱۹۷۲ء میں شائع کیا۔ ’’ کلیاتِ شکیبؔ جلالی‘‘ ان کے صاحب زادے اقدس جلالی نے شائع کردی ہے۔ وہ ایک نہایت ہونہار غزل گو شاعر تھے۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:291
پیشکش : اعجاز زیڈ ایچ
✦•───┈┈┈┄┄╌╌╌┄┄┈┈┈───•✦
معروف شاعر شکیبؔ جلالی کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت…
بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہو سکا
ہم جس پہ مر مٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
—
آخر شکیبؔ خوئے ستم اس نے چھوڑ دی
ذوقِ سفر کو دیکھ کے صحرا سمٹ گیا
—
ستارے سسکیاں بھرتے تھے اوس روتی تھی
فسانۂ جگر لخت لخت ایسا تھا
—
مجھ سے ملنے شبِ غم اور تو کون آئے گا
میرا سایہ ہے جو دیوار پہ جم جائے گا
—
وہ سامنے تھا پھر بھی کہاں سامنا ہوا
رہتا ہے اپنے نور میں سورج چھپا ہوا
—
میں خاکداں سے نکل کر بھی کیا ہوا آزاد
ہر اک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا تھا
—
یہ جلوہ گاہ ناز تماشائیوں سے ہے
رونق جہاں کی انجمن آرائیوں سے ہے
—
میں جو پربت پر چڑھا وہ اور اونچا ہو گیا
آسماں جھکتا نظر آیا مجھے میدان پر
—
وہاں کی روشنیوں نے بھی ظلم ڈھائے بہت
میں اس گلی میں اکیلا تھا اور سائے بہت
—
آغوشِ حادثات میں پائی ہے پرورش
جو برق پھونک دے وہ مرا آشیاں نہیں
—
خواب گلُ رنگ کے انجام پہ رونا آیا
آمدِ صبح شبِ اندام پہ رونا آیا
—
تیرہ ہے خاکداں تو فلک بے نجوم ہے
لائے کہاں سے مانگ کے دستِ طلب چراغ
—
سمجھ سکو تو یہ تشنہ لبی سمندر ہے
بقدر ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے
—
تپتے صحرا تو مری منزلِ مقصود نہ تھے
میں کہیں ہمسفر ابرِ رواں کیوں نہ ہوا
—
تسکین سی کیوں مل جاتی ہے مضراب دستِ شوق مجھے
ہر تار گریباں کیا وحشت کے ساز کا حامل ہوتا ہے
—
سنگِ منزل نے لہو اگلا ہے
دور ہم بادیہ پیماؤں سے دور
—
خود اپنی آگ سے شاید گداز ہو جائیں
پرائی آگ سے کب سنگِ دل پگھلتے ہیں
—
مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں
جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے
—
اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے
اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے
—
مری نگاہ سے چھپ کر کہاں رہے گا کوئی
کہ اب تو سنگ بھی شیشہ دکھائی دیتا ہے
—
کبھی ہمارے نقوش قدم کو ترسیں گے
وہی جو آج ستارے ہیں آسمانوں کے
—
موجِ صبا رواں ہوئی رقصِ جنوں بھی چاہئے
خیمۂ گل کے پاس ہی دجلۂ خوں بھی چاہئے
—
شکیبؔ اب وہ تصور میں نہ آئیں
کلیجہ منہ کو آیا جا رہا ہے
●•●┄─┅━━━★✰★━━━┅─●•●
شکیبؔ جلالی
انتخاب : اعجاز زیڈ ایچ