پاک ٹی ہاؤس لاہور میں جدید ترین شاعری کے امام ۔اقبال ساجد۔1939-1988 سے میں 1972 میں اُن کے ایک ایسے شعر کے توسط سے متعارف ہوا۔۔جو اُن کے مجموعہ ء کلام ،،اثاثہ،،میں کہیں درج نہیں ۔شعر تھا ۔۔۔
کیا حال سنائیں زندگی کا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ فلم فلاپ ہو گئی ہے ۔۔۔
اس شعر نے مجھے اس طرح اپنی گرفت میں جکڑا کہ اسی کو بنیاد بنا کربعد ازاں میں نے لاہور کے ایک اخبار کے لیے اپنی زندگی کا پہلا ادبی کالم لکھا ۔ بہت جلد ہم دونوں دوست بن گئےاورہمارا گہرا تعلق میرے پاکستان چھوڑنے تک برقرار رہا۔ ۔
۔خیر یہ تو ایک جملہ ء معترضہ تھا ۔
کہنے کی بات یہ ہے کہ اقبال ساجد اور شکیب جلالی کو ایک ساتھ پڑھتے ہوئے(کہ دونوں کی عمروں میں سات برس سے زیادہ کا تفاوت بھی نہیں تھا) کچھ ایسے عمومی نکات جو کسی کتاب ،مضمون یا نصاب میں اب تک میری نظر سے نہیں گزرے۔۔۔اگر قاری کے ذہن میں موجود رہیں ۔تو ان دونوں شاعروں کے مزاج اوراسلوب میں تمیز کر کے اُن کے کلام سے حتی الامکان حظ اٹھایا جا سکتا ہے۔
شکیب جلالی اور اقبال ساجد کا تقابلی مطالعہ کرتے ہوئے جن نکات نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کی ۔وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔
1۔اگرچہ دونوں کا شمار جدید شاعری کے اماموں میں ہوتا ہے ۔لیکن دونوں کا تخلیقی عمل اور اس کا تفاعل مختلف ہے۔
2۔اقبال ساجد کی نسبت شکیب جلالی کا ذہن زیادہ پیچیدہ ہے ۔جس کے باعث اُس کے تخلیقی عمل میں لاشعور کا عنصر شعور سے زیادہ سرگرم کار رہتا ہے۔
3۔۔شکیب بنیادی طور پر اپنی تنہائی اور اپنے لاشعورکے حوالے سے اپنے تخیل کو مہمیز لگاتا ہے ۔۔اسی لیے وہ اپنے قاری کو بھی یہ موقع فراہم کرتا ہے کہ وہ شعر کے بارے میں خود بھی اپنے تخیل کو روبہ کار لا کرخالی جگہیں پر کرنے کا فریضہ سر انجام دے۔
4۔۔شکیب کے برعکس اقبال ساجد کا ذہن تخلیقی عمل کی فراوانی کے باوجود سادہ ہے اور وہ اپنے قاری کو شعر کی ہیئت وبنت سے زیادہ اس کے نفس مضمون پر سوچنے کی دعوت دیتا ہے۔
5۔اقبال ساجد شعوری سطح پر اپنی شاعری کا مواد جدید شہر کے مسائل اور اپنے ارد گرد کے ماحول کی ہمہ ہمی سے حاصل کرتا ہے ۔اس کی نظراظہار کے لیے براہ راست اور بلاتکلف سامنے کی اشیا پر پڑتی ہے جبکہ اس کے برعکس شکیب کے یہاں۔۔گاؤں کی مٹی سے جڑے اسرار کی رمزیت ، انسانی زندگی کی بے معنویت اور کائنات میں انسان کی حیثیت بعض اوقات اپنے اظہار میں استعارہ در استعارہ کی صورت اختیار کرتی دکھائی دیتی ہے۔بہ الفاظ دیگر شکیب اپنے تخلیقی عمل میں ذات کی خلوت اور اقبال ساجد جلوت کا شاعر ہے
6۔۔شکیب کے یہاں کلاسک کا رچاؤ موجود ہے ۔ اس کی مصرع سازی کا عمل اقبال ساجد کی مصرع سازی سے یکسر مختلف ہے ۔زانوئے شب پہ رکھ کے سر سارے چراغ سوگئے ۔جیسا مصرع آپ کو اقبال ساجد کے کھردرے لہجے میں تلاش کرنے کے باوجود نہیں ملے گا ۔جس کی ایک وجہ اقبال ساجد کا کم مطالعہ ہونا اور دانستہ کلاسیکی لہجے سے اغماض برتنا ہے ۔۔لیکن شکیب کو پڑھتے ہوئے یہ احساس قطعی نہیں ہوتا کہ ہمارے زیر مطالعہ کوئی ایسا شاعر ہے۔جس نے کلاسیک سے اکتساب نہ کیا ہو۔
7-شکیب اور اقبال ساجد ۔۔دونوں کو اپنی عظمت کا احساس ہے ۔لیکن شکیب کا لہجہ باوقار اورایک ایسی زیریں اداسی میں گھلا ہے جولفظ کو ایک سے زیادہ معنی عطا کرنے پر قادر ہے۔وہ پیکر بناتے ہوئے لفظ کو جدلیاتی سطح پر استعمال کرتا ہے۔جبکہ اقبال ساجد کا لہجہ لفظ کی جدلیاتی حیثیت برقرار نہ رکھ سکنے کی وجہ سے انا پرست اور دبنگ ہونے کے باوجوداحساس بے بسی کی شدت کے باعث کہیں کہیں کھوکھلا ہو جاتاہے۔جس کے سبب شعر یک پرتی سطح سے اوپر نہیں اٹھتا۔ پیکروں اور تشبیہات کی دونوں کے یہاں فراوانی ہے ۔جو دونوں کے کلام کو پرانا نہیں ہونے دیتی۔
ظاہر ہے کہ اس مختصر نوٹ میں دونوں کے کلام کے تقابل کا اجمالی خاکہ ہی پیش جا سکتا ہے ۔۔لیکن ان دونوں کے مطالعہ کے تناظر میں جتنے نکات ذہن میں رکھنے ضروری ہیں ۔مندرجہ بالا سطور اُن کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کافی ہیں۔
چلیے ۔اب اقبال ساجد سے ملتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
https://www.facebook.com/groups/nairawayat/permalink/1815826751981640/
“